بسم الله الرحمن الرحيم
حقیقی تبدیلی صرف نبوت کے طریقے پر خلافت کے دوبارہ قیام سے ہی آئے گی
اے پاکستان کے مسلمانو!
رمضان وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم سے لیلۃالقدر میں قرآنِ مجیدنازل ہوا۔ قرآن محض ہماری انفرادی زندگی کے لیے رہنمائی فراہم نہیں کرتا بلکہ یہ وہ کتاب ہے جو امت کی اجتماعی زندگی کے لیے بھی سرچشمہ ٔہدایت ہے؛ حکمرانی ہو یا عدلیہ، تعلیم ہو یامرد و عورت کے تعلقات،میڈیا ہو یا خارجہ پالیسی ،قرآن تمام معاملات پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات سے آگاہ کرتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نےارشاد فرمایا،
إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ الله
“(اے پیغمبر) ہم نے آپ پر سچی کتاب نازل کی ہے تاکہ آپ اللہ کی ہدایت کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں “(النساء:105)۔
یہ ہمارے تمام معاملات میں اِس عظیم دین کی حکمرانی ہی تھی کہ خلافت کے 1300 سال کے دوران مسلمانوں نے عظیم دنیاوی کامیابیاں حاصل کیں۔ یہ اسلام کی حکمرانی کا ہی نتیجہ تھا کہ دولت چند امیروں کے ہاتھوں میں محدود ہونے کی بجائے معاشرے میں گردش کرتی رہی جس کے نتیجے میں غریبوں کو غربت کے بوجھ سے نجات حاصل ہوئی،مظلوم مسلمانوں کی فریاد کا جواب دیا گیا ، مسلمانوں کی ہیبت کا یہ عالم تھا کہ میدان جنگ میں دشمن افواج خلافت کی افواج کا سامنا کرنے سے گھبراتی تھیں ۔ یقینا ً یہ ہمارے عظیم دینِ اسلام کی بنیاد پر حکمرانی ہی تھی کہ جس کی وجہ سے رمضان کامہینہ مسلمانو ں کے لیے پے درپے فتوحات کا مہینہ ہوا کرتا تھا۔
لیکن 1342 ہجری بمطابق 1924 عیسوی میں خلافت کے خاتمے کے بعد آج ہر آنے والے رمضان میں ہماری کیا صورتحال ہے؟ آج جب ہم پر ایسے حکمران مسلط ہیں جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نازل کردہ وحی کے مطابق حکمرانی نہیں کرتے تو ہم کن حالات کا سامنا کر رہے ہیں؟ ذرا سوچو اے مسلمانو! ایسا کیوں ہے کہ انتہائی قابل ، جذبۂ شہادت سےسرشار اور عظیم افواج ہونے کے باوجود کامیابیاں صرف ہمارے دشمنوں کا مقدر ہیں جو ہمارے بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کی لاشوں پر اپنے کفر کے جھنڈے گاڑے چلے جا رہے ہیں۔آخر کیوں وسیع و عریض زمینوں ، عظیم معدنی وسائل اور نوجوانوں کی ایک بڑی آبادی سے مالا مال ہونے کے باوجود ہم غربت کی دلدل اور کمر توڑ مصائب میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ یقیناً اسلام کی ریاست اور حکمرانی کے نہ ہونے کی وجہ سے ہماری صورتحال وہی ہے ، جو اللہ نے قرآن میں ان الفاظ میں بیان کی ہے،
وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا
” اور جو میری نصیحت (قرآن)سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی “(طہ:124)۔
اے پاکستان کے مسلمانو!
جان رکھو، اگر ہم پر یہی لوگ حاکم رہے جو قرآن وسنت کے مطابق حکمرانی نہیں کرتے تو اس رمضان بھی ہماری مصیبتوں میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔حقیقی تبدیلی لانے میں پی ٹی آئی پراجیکٹ کی ناکامی کی وجہ بھی قرآن و سنت کے مطابق حکمرانی نہ کرنا ہی ہے جیسا کہ اس سے پہلے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون ناکام ہوئی تھیں۔ اور اسی وجہ سے کابینہ میں ردوبدل اور صدارتی نظام کی جانب پیش قدمی بھی حقیقی تبدیلی لانے میں ناکام ثابت ہوگی چاہے اس کو دو سال، پانچ سال یا دس سال بھی دے دیے جائیں ۔
یقیناً ہماری بدترین صورتحال میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوسکتی جب تک ہم پر ایسے حکمران مسلط ہیں جو اللہ تعالیٰ کے اِس واضح حکم کو پسِ پشت ڈالتے ہیں کہ،
قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا
” وہ کہتے ہیں کہ تجارت بھی تو (نفع کے لحاظ سے) ویسی ہی ہے جیسے سود (لینا) حالانکہ تجارت کو اللہ نے حلال اور سود کو حرام کیا ہے “(البقرۃ:275)۔
یہ حکمران ایک مصیبت ہیں جو مسلسل اندرونی سطح پر اور بیرونی طور پرمشرق و مغرب سے حرام سودی قرض لیتے جا رہے ہیں اور ان قرضوں کے حصول کو ایسے پیش کرتے ہیں جیسے کوئی بہت بڑی کامیابی حاصل کر لی ہو۔ ان حکمرانوں نے ہمیں قرض کی گہری دلدل میں ڈبودیا ہے اور صورتحال یہ ہے کہ ہمارے بجٹ کا ایک تہائی حصہ سودی قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوجاتا ہے جس کی مالیت کھربوں روپے ہے!!
یقیناً ہم تنگی کی صورتِ حال سے نہیں نکل سکتے جب تک کہ ایسے لوگ ہم پر حکمرانی کررہے ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کو نظر انداز کرتے ہیں ،
الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ الْمَاءِ وَالْكَلَإِ وَالنَّارِ
“مسلمان تین چیزوں میں شراکت دار ہیں: پانی، چراگاہیں اور آگ(توانائی) “(احمد)۔
ہمارے عظیم دین میں توانائی عوامی ملکیت ہوتی ہے ، چاہے وہ بجلی ہو یا گیس اور پیٹرول ، ریاست ان کی نگرانی کرتی ہے اور اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ان سے حاصل ہونے والا نفع تمام لوگوں تک پہنچے۔ لیکن موجودہ گناہ گار حکمرانوں نے ہمارے توانائی کے وسائل کو نجکاری کے ذریعے چند لوگوں کی ملکیت میں دے دیا ہے اور پھر ان چند لوگوں کے نفع کو یقینی بنانے کے لیے ہماری جیبوں پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے۔ا ِن وسائل پرقابض نجی مالکان کے منافع کو یقینی بنانے کے لیے جہاں توانائی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیا جاتا ہے وہاں بجلی کے کارخانوں کے مالکان کو مزید فائدہ پہنچانے کے لیے “پیداواری گنجائش فراہم کرنے کے معاوضے”(Capacity Payments) کے نام پر ہر سال سینکڑوں ارب روپے ادا کیے جاتے ہیں چاہے ان کارخانوں نے ایک میگاواٹ بجلی بھی پیدا نہ کی ہو!!
یقیناً ہم حقیقی تبدیلی نہیں دیکھ سکتے جب تک ہم پر ایسے لوگ حکمران ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کی خلاف ورزی کرتے ہیں،
مَنِ اسْتَعْمَلْنَاهُ عَلَى عَمَلٍ فَرَزَقْنَاهُ رِزْقًا فَمَا أَخَذَ بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ غُلُولٌ
” ہم جس کو کسی کام کا عامل بنائیں اور ہم اس کی کچھ تنخواہ مقرر کر دیں پھر وہ اپنے مقررہ حصے سے جو کچھ بھی زیادہ لے گا تو وہ خیانت ہے “(ابو داؤد)۔
اس دینِ حق کے مطابق اگر کسی حکمران کے دورِحکومت میں اس کی ذاتی دولت میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے تو خلافت کی عدالت وہ دولت اس سے فوری طور پراور بآسانی وصول کر کے ریاست کے بیت المال میں جمع کرادے گی۔ لیکن موجودہ حکمرانوں کی حکمرانی میں عدلیہ اس قسم کے مقدمات میں کئی کئی سال ضائع کردیتی ہے اور کرپٹ حکمران انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین میں موجود چور دروازوں کا فائدہ اٹھا کر بچ نکلتے ہیں اورلوٹی ہوئی اربوں ڈالر کی دولت بدستور انہی کے قبضے میں رہتی ہے۔
اور یقیناً ہم اپنے مقبوضہ علاقوں کو کفار کے قبضے سے آزاد ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکیں گے جب تک ہم پر ایسے لوگ حکمران ہیں جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس ارشاد سے روگردانی کرتے ہیں کہ،
الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا
” جو مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں۔ کیا یہ ان کے ہاں عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو عزت تو سب خدا ہی کی ہے “(النساء:139)۔
ایسے نافرمان حکمران اُن کافر ریاستوں کے ساتھ اتحاد اور معاہدے کرنے کے لیے دوڑے چلے جاتے ہیں جو ہم سے حالتِ جنگ میں ہیں،ہمیں قتل کررہی ہیں اور ہمارے علاقوں پر قابض ہیں۔ اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ دشمنوں کے مقابلے کے لیےہمارے علاقوں کو ایک ریاست کی صورت میں یکجا کیاجائے جس کا ایک ہی خزانہ اور ایک مضبوط مسلح فوج ہو، تو ان گناہ گار حکمرانوں کے ذہنوں میں اس کے متعلق سرے سے کوئی سوچ ہی موجود نہیں ہے چہ جائیکہ وہ اس مقصد کے لیے کوئی مخلصانہ کوشش کریں۔
اے پاکستان کے مسلمانو اورخصوصاً اس کی افواج میں موجود مسلمانو!
رمضان کے مہینے میں، جو کہ قرآن کے نزول کا مہینہ ہے، آئیں ہم سب اس بات کا مضبوط عہد کریں کہ ہمیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر حکمرانی کو بحال کرنا ہے۔ آئیں ہم سب حقیقی تبدیلی کے لیے جدوجہد کریں جو کہ صرف اور صرف نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام سے ہی ممکن ہے۔ حزب التحریر نے ریاستِ خلافت کے لیے 191 دفعات پر مشتمل آئین تیار کر رکھا ہے جس کی ہر ایک دفعہ کے ساتھ قرآن و سنت سے اس کے دلائل بھی درج کیے گئے ہیں۔ حزب التحریر نے امت کے مسائل کے حل پر کئی کتابیں مرتب کی ہیں جن میں ان کے نفاذ کی تفصیلات بھی درج ہیں۔ اور حزب التحریر نے پوری مسلم دنیا میں باخبر،باصلاحیت ، مخلص اور پُرعزم مرد وخواتین کی صفوں کی صفیں تیار کی ہیں جو آنے والی ریاست خلافت کے حکمرانوں کو اسلام کی بنیاد پر مشورہ دینے اور ان کا احتساب کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔
لہٰذا آئیں اور اس رمضان خلافت کی دعوت کے علمبرداروں کی بھر پور حمایت کریں، ان سے نظامِ خلافت کی تفصیلات کو حاصل کریں، اُن سے سیکھیں اور ان کی قیادت میں خلافت کے قیام کی تحریک میں اپنا پورا حصہ ڈالیں۔ آئیں افواج میں موجوداپنے والدین، بھائیوں ، اور بیٹوں کو حقیقی تبدیلی کےقیام کے لیے حزب التحریر کو نُصرۃ فراہم کرنے کی دعوت دیں تاکہ حزب عملاً اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر حکمرانی کے نئے دور کاآغاز کرے۔ امام احمد نے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ
”پھر جبر کی حکمرانی ہو گی، اور اُس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا، پھر جب اللہ چاہےگا اسے ختم کردے گا۔ پھر نبوت کے طریقے پر خلافت قائم ہو گی ۔ اس کے بعد آپؐ خاموش ہوگئے۔ “
ہجری تاریخ :20 من شـعبان 1360هـ
عیسوی تاریخ : جمعہ, 26 اپریل 2019م
حزب التحرير
ولایہ پاکستان