الأحد، 22 محرّم 1446| 2024/07/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

غدار حکمران امریکی راج کو بچانے کے لئے فوج سے مخلص افسروں کی چھانٹی کر رہے ہیں


11فروری کو متعدد پاکستانی اخبارات اور ٹی وی چینلزپر بریگیڈئیر علی خان اورچار دیگر فوجی افسروں کے کورٹ مارشل کی خبر یں نشر کی گئیں ۔ خبروں میں بیان کیا گیا کہ پاکستانی فوج کے اس بریگیڈئیر کو محض اس جرم کی پاداش میں گرفتار کیا گیا کہ انہوں نے پاکستان پر جاری امریکی حملے خصوصاً مئی2011ء میں ہونے والے ایبٹ آباد واقعہ پر سوال اٹھاتے ہوئے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اس واقعہ پر فوجی قیادت میں سے کسی کا محاسبہ کیا جانا چاہیے۔


اخباری رپورٹوں کے مطابق پنجاب کے ایک سادہ گھرانے سے تعلق رکھنے والے یہ جرنیل پاکستان کے قابل ترین فوجی افسران میں سے ایک ہیں جوکہ نہ صرف بتیس سالہ شاندار ملٹری کیرئر رکھتے ہیں بلکہ گولڈمیڈلسٹ بھی ہیں ۔ بریگیڈئیر علی خان کے ساتھی افسروں نے یہ بھی بتایا کہ علی خان گزشتہ کئی برسوں سے فوجی قیادت پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ افغانستان اور قبائلی علاقوں کے مسلمانوں کے خلاف امریکہ کی اس صلیبی جنگ سے کنارہ کشی اختیار کر لیں۔ یہ معاملہ اُس وقت اپنی انتہاء کو پہنچ گیا جب علی خان نے سٹاف کالج کوئٹہ کی ایک تقریب میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف، کوکھلم کھلا چیلنج کرتے ہوئے اس بات کا مطالبہ کیا کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنے خفیہ معاہدوں کی تفصیلات کو منظر عام پر لائیں۔ انہوں نے مزید یہ بھی مطالبہ کیا کہ امریکہ کے ساتھ اتحاد کی واضح ''حدود‘‘ متعین کی جائیں۔ جنرل پرویز مشرف کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کے لیے سچائی پر مبنی کوئی لفظ نہ تھا ،لہٰذا اس واقعہ کے چند ہی ہفتوں بعدمشرف نے ذاتی طور پر پروموشن بورڈ کی صدارت کر کے بریگیڈئیر علی خان کو میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دینے سے روک دیا ،اگرچہ یہ ترقی متوقع تھی۔ چنانچہ اب جب کہ علی خان کی کورٹ مارشل کی کاروائی شروع کی جا رہی ہے، بریگیڈئیر علی خان پاکستان آرمی کے سینئر ترین بریگیڈئیر ہیں۔


حزب التحریرولایہ پاکستان بریگیڈئیر علی خان کے کورٹ مارشل سے متعلق مندرجہ ذیل اہم نکات پیش کرنا چاہتی ہے:


اول: مئی 2011 میں امریکہ کے ایبٹ آباد پرحملے کے بعد 5مئی کی کور کمانڈر میٹنگ کے موقع پر آئی ایس پی آر نے اپنی پریس ریلیز (PR108/2011-ISPR) میں کہاتھا: '' چیف آف آرمی سٹاف نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کی سلامتی کے خلاف اس قسم کے کسی بھی ممکنہ واقعہ کی صورت میں امریکہ کے ساتھ ملٹری اور انٹیلی جنس کے شعبوں میں تعاون پر نظر ثانی کی جائیگی‘‘۔ لیکن اس کے باوجود 26 نومبر 2011 کو نیٹو اور امریکی فوج نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دو درجن سے زائد مسلمان فوجیوں کو شہید کر دیا۔ جہاں تک نظر ثانی کے وعدے کا تعلق ہے، تو 7فروری 2012 کی اخباری رپورٹوں کے مطابق، جنرل کیانی نے اس معاملے کو صرف نیٹوسپلائی لائن کی معطلی تک ہی محدود رکھا ۔ اور پھر 9 فروری کو پاکستان میں امریکہ کے سفیر کیمرون منٹر نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ مغربی صلیبی فوجیوں کو رسد فراہم کرنے کے لئے ابھی تک پاکستانی فضائی حدود استعمال کی جارہی ہیں۔ کیا یہی ہے امریکہ کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کی حقیقت؟ تو ہم پوچھتے ہیں کہ آخر کورٹ مارشل کس کا کیا جانا چاہئے، بریگیڈئیر علی جیسے لوگوں کا یا جنرل کیانی جیسے لوگوں کا؟


دوم: نومبر میں ہونے والے نیٹو حملوں کے بعد جنرل کیانی نے غم و غصہ سے بھری ہوئی پاکستانی فوج کو یہ یقین دھانی کرائی تھی کہ ڈرون حملے بند اور نیٹو سپلائی لائن کاٹ دی جائیگی۔ ہم پوچھتے ہیں کہ اگر کیانی واقعی امریکہ کے خلاف ہے تو اس نے ایبٹ آباد حملے کے فوراً بعد اس قسم کا'' جرأت مندانہ ‘‘قدم کیوں نہیں اٹھایا۔ یا پھر حقیقت یہ ہے کہ کیانی ہمیشہ سے ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا لیکن ماضی میں اس نے جان بوجھ کر ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا؛ حالانکہ وہ یہ جانتا تھا کہ ایسا نہ کرنے کے صورت میں ڈرون حملوں میں ہزاروں جانوں کا ضیاع ہو گااور بارڈر پر نیٹو حملوں کے نتیجے میں درجنوں فوجی مارے جائیں گے ۔ یا پھر سپلائی لائن کی یہ معطلی محض فوج میں موجود مخلص افسران کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے کی گئی تاکہ ان کے غصے کو ٹھنڈا کیا جاسکے اور امریکہ پاکستان کی ملٹری اور انٹیلی جنس کی صلاحیتوں کو بغیر کسی تعطل اور رکاوٹ کے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتا رہے۔ تو ہم ایک بار پھر پوچھتے ہیں کہ کورٹ مارشل درحقیقت کس کا کیا جانا چاہئے؟ بریگیڈئیر علی جیسے لوگوں کا یا جنرل کیانی جیسے لوگوں کا؟


سوم: 27 جنوری 2011 کو امریکی انٹیلی جنس اہلکارریمنڈ ڈیوس نے پاکستان میں ڈرون حملوں کے لئے معلومات اکھٹا کرتے ہوئے دو پاکستانیوں کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا، اور ریمنڈ ڈیوس کے قبضے سے لانگ رینج ریڈیو، جی پی ایس آلات اور حساس مقامات کی تصاویر بھی برآمد ہوئیں تھیں۔ پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کے خلاف ان واضح شواہد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا نے حسین حقانی کو یہ اجازت دے دی کہ وہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لئے امریکہ سے ڈیل کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرے۔ آج بھی ریمنڈ ڈیوس جیسے خفیہ امریکی اہلکار پاکستان کے طول و عرض میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ ہم پوچھتے ہیں کہ بریگیڈئیر علی کتنے مسلمانوں کے قتل میں ملوث ہے؟ ! ہم یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا بریگیڈئیر علی نے بھی کسی ڈرون حملے کے لئے امریکہ کو انٹیلی جنس فراہم کی ہے؟ تو پھر کورٹ مارشل حقیقت میں کس کا کیا جانا چاہئے؟ بریگیڈئیر علی جیسے لوگوں کا یا جنرل پاشا جیسے لوگوں کا؟


چہارم: بریگیڈئیر علی خان کے خلاف کورٹ مارشل کی کاروائی درحقیقت مسلم ممالک میں جاری امریکی پالیسی کا حصہ ہے کہ مسلم افواج سے تمام ایسے مخلص اور قابل افسر وں کو چھانٹ کرنکال باہر کیا جائے جو امریکی تسلط سے پاک خودمختار اور مضبوط امت کی خواہش رکھتے ہوں۔ پاکستان کی فوجی قیادت میں موجود غدار اس امریکی پالیسی پرپوری طرح عمل پیرا ہیں ۔ اس پالیسی کو اپنانے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اس بات سے خائف ہے کہ کہیں معاملات اس کے ہاتھ سے نکل نہ جائیں۔ وہ جانتا ہے کہ مسلمانوں پر کنٹرول ان کی افواج پر کنٹرول حاصل کر کے ہی ممکن ہے۔ 24 نومبر 2008 کو میجر جنرل جان ایم کسٹر (جو کہ ایری زونا کے ایک انٹیلی جنس سنٹر کا کمانڈر تھا)نے واشنگٹن ٹائمز کوانٹرویو کے دوران اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہا تھا کہ:''پرانے (پاکستانی) فوجی لیڈر ہمیں بے حد پسند کیا کرتے تھے۔ وہ امریکی کلچر کو سمجھتے تھے اور وہ جانتے تھے کہ ہم ان کے دشمن نہیں ہیں۔ لیکن اب وہ آہستہ آہستہ ریٹائر ہوتے جارہے ہیں‘‘۔ مارچ 2009 میں واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے ڈیوڈ کلکلنDavid Kilcullen نے (جو امریکی سینٹ کام کے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پٹریاس کا مشیر تھا) یہ کہا: ''پاکستان کی آبادی 173 ملین ہے، اس کی فوج امریکی فوج سے بڑی ہے اور اس کے پاس سو سے زائد ایٹمی ہتھیار ہیں... اب ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں آنے والے ایک سے چھ ماہ کے دوران پاکستانی ریاست ناکامی سے دوچار ہو سکتی ہے... انتہا پسندوں کے قبضے کا خطرہ لاحق ہے جس کے سامنے موجودہ دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی ہیچ نظر آئے گی۔‘‘ چنانچہ یہ ہے اسلام پسند افسران کی چھانٹی کی پالیسی جس پر بنگلہ دیش میں امریکی ایجنٹ حکمران ، شیخ حسینہ واجد، بھی بخوبی عمل پیرا ہے اور درجنوں ایسے مخلص افسران کو گرفتار کر چکی ہے جو اسلام کی حمایت میں اور امریکہ کا ساتھ دینے والے غدار حکمرانوں کے خلاف کھڑے ہو رہے تھے۔ چھانٹی کی یہی پالیسی کئی دہائیوں سے شام میں جاری تھی جس کے نتیجے میں اب بشار الاسد کئی مہینوں سے بھاری اسلحے ،ٹینکوں اور ہوائی جہازوں کا بے دریغ استعمال کر کے اپنے ہی عوام کا قتلِ عام کر رہا ہے جبکہ امریکہ اطمینان کے ساتھ تماشا دیکھ رہا ہے۔ ہم یہ پوچھتے ہیں کہ کیا کیانی اور پاشا بھی اسی پالیسی پر کاربند نہیں ؟ اور کیا امریکہ نے ان کی مدت ملازمت میں بار بار توسیع ان کی وفاداریوں کے عوض نہیں کی؟ کیا یہ وہی پالیسی نہیں کہ جس کے تحت کیانی اور شجاع پاشا پاکستان کے فوجی افسروں کو اپنے ہی عوام کے خلاف امریکی مفادات کا محافظ بنا رہے ہیں؟ جبکہ ان پاکستانی افسروں نے توبیرونی حملہ آوروں سے مسلمانوں کی حفاظت کا حلف اٹھایا تھا! کیا قبائلی علاقوں میں بھی یہی پالیسی نہیں اپنائی گئی اور کیا کیانی اور پاشا نے اس فتنے کی جنگ کو پاکستان کے بڑے شہروں، بشمول کراچی ،تک پھیلانے میں اپنی رضامندی کا اظہار نہیں کیا؟ کیا وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کورٹ مارشلوں کے ذریعے کسی بھی مخلص افسر کوشکار کر کے فوج سے نکال باہر کرنے اور اسے دوسروں کے لئے ایک مثال بنانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ آئندہ کوئی اس قسم کا سٹینڈ لینے کی جرأت نہ کر سکے۔ پس ہم سوال کرتے ہیں کہ آخر کورٹ مارشل کس کا کیا جانا چاہئے؟ بریگیڈئیر علی جیسے مخلص فوجی افسروں کا یا کیانی اور پاشا جیسے غداروں کا؟


اے افواجِ پاکستان کے افسران !

آگاہ رہو کہ ایک طرف تو امریکہ اس وسیع و عریض امت کو اس کے طاقتور ترین حصے یعنی افواج کے ذریعے کنٹرول کرتا ہے تو دوسری طرف وہ امت کی مخلص عالمی قیادت ، حزب التحریر، پر بھی پابندیاں لگاتا ہے تاکہ وہ پاکستان کے عوام پر اپنے کنٹرول کوبرقرار رکھ سکے۔ تمام استعماری طاقتوں نے، جو امت کے خلاف عزائم رکھتی ہیں، مختلف مسلم ممالک میں اپنے ایجنٹ حکمرانوں کے ذریعے حزب التحریرپر پابندی لگارکھی ہے۔ روس نے وسطی ایشیائی ریاستوں میں اپنے ایجنٹ حکمرانوں کے ذریعے حزب پر پابندی لگوائی جبکہ امریکہ نے پاکستان، بنگلہ دیش اور متعدد عرب ممالک مثلاً شام اور مصر میں حزب پر پابندی لگوائی۔ دوسری طرف برطانیہ نے بھی اردن، لیبیا ، تیونس اور دیگر ممالک میں حزب پر پابندیاں عائد کروائیں۔ اس کے باوجود حزب التحریرعالمی سطح پر سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے جو چالیس سے زائد ممالک میں ایک امیر اور مجتہد عطابن خلیل ابو رَشتہ کی لیڈرِشپ تلے کام کر رہی ہے۔ حزب التحریرہی اہلِ طاقت میں موجود مخلص لوگوں کو ساتھ ملا کر امت کو موجود ہ نو آبادیاتی غلامی سے نجات دلانے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔


اے افواج پاکستان کے افسران !

کیا تمہیں اپنی طاقت کا اندازہ نہیں کہ کس طرح امریکہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے تمہی پر انحصار کرتا ہے۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ امریکہ کس طرح اپنی انتقامی چھانٹی کی پالیسی پر کاربند ہے کیونکہ وہ تمہاری طاقت سے خوفزدہ ہے۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ کیانی اور پاشا کے لئے بریگیڈئیر علی جیسے بے شمار افسروں کو خاموش کرنا نہایت ضروری ہے کیونکہ وہ ان خیالات کا اظہار کررہے ہیں جو آپ کے دل و دماغ میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ فوج کے ادارے سے خوفزدہ ہے اور اسے ایک کمزور ذہنیت کی حامل کرائے کی فوج میں بدلنا چاہتا ہے تاکہ وہ اپنے مفادات کا تحفظ کر سکے۔ بریگیڈئیر علی وہ پہلا شخص نہیں جسے انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے اور جب تک کہ امریکہ اور اس کے ایجنٹ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کوشاں رہیں گے کہ فوج کا پورے کا پورا ادارہ پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کی پرواہ کئے بغیرمحض امریکہ کے تمام احکامات کواندھادھند پورا کرے، ایسے افسران کو انتقام کا نشانہ بنایا جاتا رہے گا۔


چنانچہ آج تمہاری پوزیشن کیا ہے کہ جب امریکہ تمہیں اپنے چوکیدار کے طور پر تمہارے اپنے ہی بہن بھائیوں کے خلاف ہانک رہا ہے؟ تم کہاں کھڑے ہو جب مخلص افسروں کا کورٹ مارشل کیا جا رہا ہے اور غداروں کی ملازمتوں میں توسیع کی جا رہی ہے؟


تم میں سے بعض ان غدار حکمرانوں اورکافر امریکیوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کی شر انگیز حرکتوں سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود ان کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں۔ جان رکھو کہ خلافت کے قیام کے بعد ایسے تمام لوگوں کو غدار حکمرانوں سمیت امت کے ہاتھوں سخت سزا کا سامنا کرنا پڑیگااور انشاء اللہ وہ دن بہت قریب ہے۔ یہ بھی جان رکھو کہ آخرت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا عذاب دنیاکی کسی بھی سزاسے کہیں شدید ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:

 

فَأَذَاقَهُمْ اللَّهُ الْخِزْيَ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلَعَذَابُ الآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ

''پھر اللہ نے انہیں دنیا کی زندگی میں بھی رسوائی کا مزہ چکھایا اور آخرت کا عذاب تو اور بھی بڑا ہے ،کاش وہ جانتے ہوتے‘‘ (الزمر:26)


تم میں سے بعض خاموش تماشائی بنے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عطا کردہ طاقت کو ضائع کر رہے ہیں جس کے بارے میں انہیں حشرکے روز جواب دینا ہوگا۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ فرعون کی فوج کو بھی ظالم فرعون سمیت عذاب دیا گیا تھا جس کی وہ اطاعت کر رہے تھے؟ کیا یہ دنیا اور اس کی عارضی لذتیں تمہیں جنت کی ہمیشہ رہنے والی خوشیوں سے دور کر رہی ہیں؟ اللہ جل شانہ فرماتا ہے:

 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمْ انفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الأَرْضِ أَرَضِيتُمْ بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنْ الآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الآخِرَةِ إِلاَّ قَلِيلٌ

''مومنو! تمہیں کیا ہوا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں (جہاد کے لئے) نکلو تو تم زمین پر گرے جاتے ہو (یعنی گھروں سے نکلنا نہیں چاہتے) کیا تم آخرت (کی نعمتوں) کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو؟ دنیا کی زندگی کے فائدے تو آخرت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہیں ‘‘۔ ( التوبہ: 38)


جبکہ تم میں سے بعض وہ بھی ہیں جو دشمن کی شکست اور مسلمانوں کی فتح کی آرزو رکھتے ہیں۔ تو اے عزیز بھائیو! وہ وقت آن پہنچا ہے کہ تم حزب التحریرکو خلافت کے قیام کے لئے نصرت دینے میں جلدی کرو۔ اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ تمہارے ذریعے وہ وقت جلد لائے جب اسلام کی سچائی کے ذریعے مجرموں اور غداروں کے شر و باطل کا خاتمہ ہو جائیگا

 

لِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ

''تاکہ اللہ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا دکھادے گو مجرموں کو یہ ناگوار ہی ہو ‘‘ ( الانفال: 8)۔

ہجری تاریخ :
عیسوی تاریخ : جمعہ, 17 فروری 2012م

حزب التحرير

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک