بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان کی افواج کے ساتھ جنرل کیانی کی غداری
شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن پر افواجِ پاکستان کو آمادہ کرنے کے لیے جنرل کیانی نے جو تقریر کی ،اس سے امریکہ کو اس قدر خوشی ہوئی کہ وہ اسے چھپا بھی نہ سکا۔ یہ آپریشن اس علاقے میں ہونے جارہا ہے جس کا افغانستان پر امریکی قبضے کے خلاف جاری شدید حملوں میں ایک بڑا کردار ہے۔ 14اگست2012ء کو پینٹاگون میں ہونے والے اجلاس کے دوران امریکہ کے چےئرمین آف جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی نے صلیبی افواج کے سربراہوں کے سامنے پُرجوش اعلان کیا کہ ''میں چاہوں گا کہ آپ (کیانی کی)اس تقریرکو پڑھیں ...کیونکہ یہ تقریر اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ اس چیلنج کے بارے میں درست فہم رکھتاہے‘‘۔
یقیناًکیانی اپنے آقاامریکہ کو درپیش چیلنج کا صحیح ادراک رکھتا ہے اور وہ چیلنج یہ ہے کہ پاکستان کی افواج اِس امریکی جنگ کے شدید خلاف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کیانی نے اپنی تقریر میں محتاط لفظوں میں گفتگو کی اور افواجِ پاکستان کو دعوت دی کہ وہ اس حقیقت کو بھول جائیں کہ پاکستان میں جاری اس امریکی جنگ، جو خطے میں امریکہ کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی،میں مسلمان اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا خون بہارہے ہیں ۔ جنرل کیانی نے کہا ''ہم اس بات کو سمجھتے ہیں کہ کسی بھی فوج کے لیے سب سے مشکل کام اپنے ہی لوگوں کے خلاف لڑنا ہے... انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف لڑائی ہماری جنگ ہے اورہم اسے لڑنے میں حق بجانب ہیں‘‘۔
افواج پاکستان کی جانب سے اس امریکی جنگ کی مخالفت ایک لازمی امر تھا اور اس کی وجہ وہ گہرے اسلامی جذبات ہیں جوپاکستانی افواج میں پائے جاتے ہیں۔ یہ جذبات ہندوستان کے بٹوارے پراس ادارے کے قیام کے وقت ہی ظاہر ہو گئے تھے،پھرجب یہ ننھا پودا ایک تن آور درخت بن گیا اوراس نے دنیا میں اپنا لوہا منوایا اور اس کا شمار ان افواج میں ہونے لگا جن سے دشمن خوف کھاتے ہیں تواس تمام عرصے کے دوران یہی اسلامی جذبات اس کی پہچان بنے رہے۔ اس فوج کے افسران وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ کے حضوراس اسلامی سرزمین کی حفاظت کی قسم کھائی ہے۔ اور یہ ان لوگوں کی اولاد ہیں جنھوں نے بیش بہا قربانیوں کے بعداس ریاست کو اسلام کے نام پر قائم کیا تھا ۔ اس فوج کے افسران خالد بن ولیدؓ،صلاح الدین ایوبی،سیف الدین قطز اور محمد بن قاسم کو اپنے لیے مثال بناتے ہیں اور اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ وہ اس امت کے دشمنوں پر فتح یاب ہوں ،خواہ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ اللہ کی راہ میں شہید ہو جائیں۔ پس ایسی فوج توہمیشہ اس امریکی جنگ میں کامیابی کی راہ میں ایک چیلنج رہے گی ، جس کا آغاز اس وقت ہوا جب امریکہ نے اس خطے میں اپنا قدم رکھا اور جس جنگ کو جاری رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ امریکہ اس امت کی سب سے بڑی فوج کی گردن پر سوار رہے ،ایک ایسی جنگ کہ جس میں مسلمان ہی مسلمان کا گلا کاٹ رہے ہیں اور ڈرون حملوں کے ذریعے مسلمانوں کے سروں پر ان کے گھروں کی چھتیں گرائی جا رہی ہیں۔
افواجِ پاکستان کی طرف سے امریکہ کو درپیش یہ چیلنج ہی ہے کہ جس کی وجہ سے امریکہ نے پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت میں موجود اپنے ایجنٹوں کو استعمال کیا کہ وہ اس جنگ کے دوران افواج پاکستان میں اسلامی جذبات و خیالات کو کچلیں۔ جبکہ دوسری طرف خود امریکی صدر بش نے اس جنگ کو شروع کرتے وقت اپنی فوج کے مذہبی جذبات کو ابھارا تھااور ' اسکے لیے صلیبی جنگ ‘کے الفاظ استعمال کیے تھے۔ پس امریکہ نے مشرف اور اس کے قریبی ساتھیوں، جن میں کیانی بھی شامل تھا، کواستعمال کیا کہ وہ ان افسران کا پیچھا کریں جو کسی قیمت پر اپنے اسلامی تشخص سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھے۔ یوں امریکی خواہش پر کچھ افسران کو فوج سے جلدریٹائر کر کے فارغ کردیا گیا،جبکہ کچھ کو دور دراز علاقوں میں بھیج دیا گیا اور کچھ کو برائے نام اعزازی منصب دے کر غیر موئثر کردیا گیا۔ جبکہ وہ مٹھی بھرلوگ جو اپنے ہی لوگوں کے خلاف امریکی کیمپ میں شامل ہونے پر تیار تھے جیسا کہ جنرل کیانی ،تو امریکہ نے انھیں آگے لانے کے لیے ترقیاں دلوائیں اور اور کچھ کو تو ان کے عہدے کی مدت پوری ہوجانے کے باوجود بھی مدتِ ملازمت میں توسیع کے نام پر باقی رکھا۔ امریکہ صرف انہی اقدامات سے مطمئن نہیں ہوا بلکہ اس نے اُن افسران کو فوج سے نکلوانا شروع کردیا جو اس بات کی قابلیت اور مرتبہ رکھتے تھے کہ وہ افواج پاکستان کو اسلام کی بنیاد پر اپنے گرد اکٹھا کرسکتے تھے۔ امریکہ نے ایسے افسران کا مہینوں مشاہدہ کیا ،اور پھرانھیں گھروں میں نظربند کروایا گیا ، ان کی زبردست نگرانی کی گئی یا ان کا کورٹ مارشل کردیا گیا جیسا کہ فوج میں وسیع شہرت و عزت رکھنے والے بریگیڈئر علی خان کے ساتھ ہوا، جنہیں 3اگست2012کو قید کی سزا سنائی گئی۔
افواجِ پاکستان کی طرف سے امریکہ کو درپیش یہ چیلنج ہی ہے کہ جس کی وجہ سے امریکہ نے مشرف کو سبکدوش کروا کر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا کیونکہ وہ افواجِ پاکستان کو قابو میں رکھنے میں ناکام ہو گیا تھا۔ پھر اس کے بعد امریکہ نے کیانی اور اس کے غدارٹولے کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ خود کو اس انداز سے پیش کرے کہ گویا وہ امریکہ مخالف ہے تا کہ وہ چپکے سے امریکی مفادات کو پورا کرتا رہے اور ان کے خلاف کوئی ردِ عمل پیدا نہ ہو۔ یہ ہے اس نام نہاد'' ڈبل گیم ‘‘کی حقیقت۔ دھوکہ دہی پر مبنی ایک ایسا کھیل کہ جو افواجِ پاکستان کے خلاف کھیلا گیا تا کہ خطے میں امریکی بالادستی کے منصوبے میں افواجِ پاکستان کوپھانسا جائے۔ اسی منصوبے کے تحت پہلے کیانی اور اس کے ساتھیوں نے نیٹو سپلائی لائن کی بندش کا ڈرامہ کیا اور اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا لیکن پھر انتہائی مکاری سے سیاسی قیادت پر ملبہ ڈالتے ہوئے نیٹو سپلائی لائن کھول دی ،حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ اس تما م عرصے کے دوران فضائی راستے کے ذریعے امریکی افواج کو مسلسل سپلائی مہیا کی جاتی رہی۔ کیانی اور اس کے حواریوں نے شمالی وزیرستان میں آپریشن کے متعلق خاموشی اختیار کیے رکھی لیکن اندرونِ خانہ امریکہ سے مزید ڈرون حملوں اور نیٹو آپریشنز کا مطالبہ کرتے رہے ،درحقیقت یہ سب اس لیے کیا گیا تا کہ شمالی وزیرستان پر حملے کے لیے صورتِ حال کو سازگار بنایا جائے۔ اور پھر جب کیانی کے آقا امریکہ نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ شمالی وزیرستان کے مسئلے پر خاموشی توڑی جائے تو کیانی نے ایک طوطے کی مانند اپنے آقا کے رٹائے ہوئے الفاظ دوہرانا شروع کردیے کہ ''یہ جنگ تو ہماری جنگ ہے‘‘۔ اور پھر کیانی نے شیطانی اعمال کے ذریعے اپنے پُرفریب الفاظ میں وزن پیداکرنے کی کوشش کی ،پس کچھ ہی عرصے بعد امریکی ''ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک‘‘ کی نگرانی میں کامرہ ائربیس پر حملہ کرایا گیا تا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لیے جواز مہیا کیا جا سکے ،بالکل اسی طرح جیسا کہ دیگر علاقوں میں فوجی آپریشنز کا جواز پیدا کرنے کے لیے جی.ایچ.کیو راولپنڈی اور مہران نیول بیس کراچی پر حملے کیے گئے تھے۔
یہ ہے افواج پاکستان کی جانب سے امریکی جنگ کودرپیش چیلنج کی حقیقت ۔ اوریہ ہے افواجِ پاکستان کے خلاف کیانی کی ننگی غداری کہ جس پر امریکہ نے کھل کرتعریفوں کے پھول برسائے۔ جو چیزکیانی کی اس غداری کو سنگین تر بناتی ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ کو مدد فراہم کر نے کی غداری ایک ایسے وقت میں کی جارہی ہے جب امریکہ اپنے کمزورترین دور سے گزر رہا ہے۔ امریکہ ایک انتہائی مہنگی فوجی مہم میں پھنسا ہوا ہے جبکہ اس دوران اس کی معیشت مسلسل تباہی کا شکار ہے اور اس میں بہتری کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ جہاں تک اس کے مغربی اتحادیوں کا تعلق ہے تووہ اس امریکی جنگ پر اٹھنے والے 4.1ارب ڈالر سالانہ کے اخراجات کو پورا کرنے میں امریکہ کا مکمل ساتھ دینے سے انکار کررہے ہیں اور افغانستان سے اپنی افواج کے انخلاء کی تاریخوں کا اعلان کررہے ہیں ،جبکہ کچھ ممالک توپہلے ہی اپنی فوجیں نکال چکے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف امریکہ کی اپنی افواج کا یہ حال ہے کہ اس سال معمولی اسلحہ رکھنے والے بہادرمسلمان مجاہدین کے ہاتھوں اتنے امریکی فوجی نہیں مرے جتنے اس جنگ کے خوف کی وجہ سے خودکشیاں کرچکے ہیں۔ اور ان تمام مسائل میں ایک اور اضافہ یہ ہے کہ امریکی صدر اوباماکو اس سال ایک ایسے وقت پرصدارتی انتخابات کا سامنا ہے جب ایک ناکام امریکی جنگ کی تلوار اس کے سر پر لٹک رہی ہے۔ لہٰذا ایسے وقت پر کہ جب کیانی طوطے کی طرح رٹا رٹایا جملہ کہہ رہا ہے کہ ''یہ ہماری جنگ ہے‘‘تو دوسری طرف امریکی صدر اوبامہ واضح طور پر اس بات کا اعتراف کررہا ہے کہ امریکہ اپنی اس جنگ میں تھک چکا ہے ، اوباما نے کہا ''طالبان اب بھی ایک طاقتور دشمن ہیں اور ہماری کامیابیاں ابھی بھی کمزور اور محدود ہیں...ہمیں وہاں پر آئے دس سال ہوچکے ہیں ۔ دس سال ایک ایسے ملک میں جو کہ بہت مختلف ہے ۔ اور یہ ایک بوجھ ہے نہ صرف ہمارے لوگوں پر بلکہ اس ملک(افغانستان ) پر بھی‘‘(21مئی2012،نیویارک ٹائمز آن لائن) ۔ یقیناًاوبامہ اس وقت ایسی مشکل صورتحال میں پھنس چکا ہے کہ شمالی وزیرستان میں ایک محدود فوجی آپریشن بھی اس کے لیے حوصلہ افزا ہو گا۔ کیونکہ ایک محدود آپریشن کے نتیجے میں اوباما اس قابل ہوسکے گا کہ وہ پاکستانی افواج کو ایندھن کے طور پر استعمال کر کے امریکی افواج کو افغانستان کے جہنم سے نکال لے تا کہ وہ الیکشن کے دوران افغانستان کی جنگ میں اپنی کامیابی کا جھوٹا ڈھنڈورا پیٹ سکے ۔
اے افواج پاکستان کے مسلم افسران!
اب بہت ہو چکا! یہ بات نا قابل برداشت ہے کہ غداروں کے ایک مختصر ٹولے نے ایک طویل عرصے سے دنیا میں مسلمانوں کی سب سے بڑی فوج کو یرغمال بنا رکھا ہے اور وہ پاکستان کو اپنی نگرانی میں آہستہ آہستہ تباہ کررہے ہیں۔ امریکی جنگ کا ساتھ دیتے وقت مشرف نے آپ سے کہا تھا کہ آپ امریکی اتحادی بننے میں اس کی حمایت کریں تا کہ پاکستان کی معیشت،کشمیری مسلمان بھائیوں کی مدد،عالمی برادری میں پاکستان کے وقار اور پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو بچایا جاسکے۔ لیکن آج صورتِ حال یہ ہے کہ آپ کی معیشت کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے،مسئلہ کشمیر کو دفن کردیا گیا ہے اور ہمارا بین الاقوامی وقار مٹی میں مل چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج کیانی آپ کی حمایت حاصل کرنے کے لیے صرف ایٹمی اثاثوں کو بچانے کا ذکرکر رہا ہے ۔ کیا اتنا کچھ کھو دینا ہی کافی نہیں بجائے یہ کہ ہم امریکہ کی غلامی کے نتیجے میں اور معاملات سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں۔
اس بات کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ غدار ہم پر جنگ مسلط کریں،خود کو ہم سب سے اورہمارے دین سے جدا کرلیں اور پھر بھی آپ سے وفاداری کا تقاضا کریں۔ یہ غدار ہر اُس سنجیدہ کوشش کو بیرونی سازش قرار دیتے ہیں جو انہیں آپکی صفوں سے نکالنے کے لیے کی جائے ،جبکہ خود وہ امت اور اسلام کے خلاف کفار کا ساتھ دے رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کو ہٹانے کی کسی بھی کوشش کے نتیجے میں پاکستان کی فوج انتشار کا شکار ہو جائے گی اور خانہ جنگی شروع ہوجائے گی جبکہ ان کی حقیقت شہد کے پیالے میں موجود چند چونٹیوں کی سی ہے کہ جن کو نکال دینے سے شہد کا پیالہ پاک و صاف ہوجائے گا۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے آپ کی صفوں میں روگ زدہ لوگوں کی موجودگی سے آپ کو خبردار کیا ہے، ارشاد فرمایا:
(اِذْ یَقُوْلُ الْمُنَافِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِم مَّرَضٌ غَرَّ ہٰٓؤُلَآءِ دِیْنُہُمْ )
''اس وقت منافق اور وہ لوگ کہ جن کے دلوں میں بیماری تھی ،کہہ رہے تھے کہ ان (مسلمانوں کو)تو ان کے دین نے مغرور کر رکھا ہے‘‘(الانفال۔49)۔
اس امر کے باوجود کہ جو کچھ جرائم،گناہ اور تباہیاں آپ نے ہونے دیں ،معاملات اب بھی آپ کے اختیار میں ہیں۔ ابھی بھی آپ کے درمیان کئی ایسے لوگ ہیں جو کہ اس فوج کی قیادت ایک اسلامی فوج کے طور پر کرسکتے ہیں ،جوکہ اس فوج کا حق ہے۔ اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ ابھی اور فوری طور پر حزب التحریرکو خلافت کے قیام کے لیے نصرۃ فراہم کریں۔ یہ خلافت پوری دنیا کی مسلم افواج کو کہ جن کی تعداد ساٹھ لاکھ ہے ،دعوت دے گی کہ وہ امت کے دشمن کے خلاف ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں اور مسلم سرزمین سے استعماری طاقتوں کے تمام تر اثر و رسوخ کو اکھاڑ پھینکیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
( لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکَافِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْْءٍ)
''مومنوں کو چاہیے کہ ایمان والوں کے سوا کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں ،تو جو ایسا کرے گا اس سے اللہ کا کوئی عہد نہیں‘‘(اٰل عمران:28)۔
ہجری تاریخ :
عیسوی تاریخ : ہفتہ, 01 ستمبر 2012م
حزب التحرير