بسم الله الرحمن الرحيم
خلافت کا قیام افواج میں موجود مخلص افسران کی جانب سے نُصرَۃ(مادّی مدد)فراہم کرنے سےہی ہوگا
اے پاکستان کے مسلمانو! ہم میں سے ہر شخص اس بات سے آگاہ ہے کہ کیانی و شریف حکومت ہویا ماضی کی حکومتیں،پاکستان مسلسل معاشی بدحالی اورخارجی معاملات میں ذلت و رسوائی کے راستے پر گامزن ہے۔ نہ صرف یہ کہ ہم لوگ اس صورتِ حال سےباخبر ہیں بلکہ ایک طویل عرصے سےہم اس کا مزہ بھی چکھ رہے ہیں۔ اورہم یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ پچھلے تین انتخابات کے نتیجے میں آنے والی حکومتیں اتنی ہی کرپٹ اورنااہل تھیں جتنا کہ فوجی بغاوت کے ذریعے قائم ہونے والی آمرانہ حکومتیں۔ لہٰذا اب پاکستان میں اس بحث کوبہت اہمیت حاصل ہو گئی ہے کہ حقیقی تبدیلی کیسے لائی جائے؟ کس طرح ہم اس چیز کو ممکن بنائیں کہ ہمارے اوپر مخلص حکمرانوں کا سایہ ہو جواسلام کی بنیاد پر حکمرانی کریں ؟ کس طرح سے ہم وہ حقوق حاصل کرسکیں جو اللہ سبحانہ و تعالی اور اس کے رسول صلى الله عليه و سلم نے ہمارے لیےطے کیے ہیں؟ اور اس حقیقی تبدیلی کو لانے میں ہماراکردار کیا ہو تا کہ اس خوشحالی اور سکون و اطمینان کی زندگی میں مزید تاخیر نہ ہو جس میں پہلے ہی بہت تاخیر ہوچکی ہے؟
بھائیو اور بہنو! جمہوریت کے تحت ہونے والے انتخابات کبھی بھی اِس نظام کا خاتمہ نہیں کریں گے، جو کہ مسلسل بدعنوان اور کرپٹ حکمران پیدا کررہا ہے، چاہے پاکستان کی زندگی کے اگلے ستر سالوں کے دوران بھی الیکشن در الیکشن کا سلسلہ جاری رہے۔ پاکساین کی ہر حکومت اور واشنگٹن میں بیٹھے ان حکومتوں کے آقا یہ کہہ کر پاکستان کے لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں کہ تبدیلی لانے کا واحد ذریعہ صرف جمہوریت کے تحت انتخابات ہی ہیں۔ مغرب اور ان کے ایجنٹ حکمران ،عوام اور افواجِ پاکستان سے اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جمہوریت کے تسلسل کی یقین دہانی کرائیں اگرچہ جمہوریت پاکستان کی سالمیت اور خوشحالی کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔ لہٰذا مغرب کی حمایت سے قائم کردہ آمرانہ حکومتوں سے جان چھڑانے کے لیے ،مغرب اور ان کے ایجنٹ پاکستان کے مسلمانوں کواپنے دوسرے جال یعنی جمہوریت کی دعوت میں پھنسا دیتے ہیں جیسا کہ انھوں نے مصر ،ترکی اور دوسرے مسلم ممالک میں کیا۔
اے پاکستان کے مسلمانو! ہم پر لازم ہےکہ ہم اپنے دشمنوں کے جھوٹ کو مسترد کردیں اور اپنے دین کی طرف رجوع کریں تا کہ اس بدحالی اور مایوسی کی صورتحال سے نکل سکیں۔ جی ہاں، اسلام نے اس بات کو فرض قرار دیا ہے کہ امت کا حکمران امت کی مرضی اور اس کے انتخاب کے ذریعے بنایا جائے۔ جی ہاں ، ایک بار جب رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے مدینہ میں اسلامی ریاست قائم کردی تو انتخاب ہی وہ طریقہ تھا جس کے ذریعے رسول اللہ صلى الله عليه و سلم کے بعد خلفاء راشدین کو حکمرانی کے لیے چُنا گیا تھا۔ لیکن اسلام میں وہی شخص حکمران بن سکتا ہے اور حکمران رہ سکتا ہےجو اسلام اور اس کی شریعت کی بنیاد پر حکمرانی کرے نہ کہ جمہوریت اور اس کے کفر کی بنیاد پر۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کفار نے آپ صلى الله عليه و سلم کو اپنی پارلیمنٹ، دارالندوہ، میں شمولیت اور اس کا سربراہ تک بننے کی پیشکش کی لیکن رسول اللہﷺنے مضبوطی سے اس پیشکش کو رد کر دیا۔ اللہ کے نازل کردہ نظام کے سوا کسی بھی دوسرے نظام کو اللہ سبحانہ و تعالی نے "طاغوت " قرار دیا ہے اورموجودہ جمہوریت اسی کی ایک شکل ہےکہ جس میں قانون وفیصلے کا اختیار شریعت کی بجائے پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے عوامی نمائندوں کے پاس ہوتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آَمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ﴾"کیا آپ صلى الله عليه و سلم نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جو دعوی کرتے ہیں کہ وہ ایمان لائے ہیں ، اس پر جو آپ صلى الله عليه و سلم پراور آپ صلى الله عليه و سلم سے پہلے نازل ہوا، یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اپنے فیصلے طاغوت(غیر اللہ) کے پاس لے جائیں حالانکہ ان کو حکم ہوچکا ہے کہ طاغوت کا انکار کردیں"(النساء:60)۔
اور رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے ایسا اقتدار لینے سے انکار کردیا جس میں اقتدار کے بدلے اسلام کے کسی بھی معاملےپر سمجھوتےکی شرط عائد کی گئی ہوجیسا کہ یہ شرط کہ آپ صلى الله عليه و سلم کے بعد اقتدارکسی ایک مخصوص گروہ کو منتقل کیا جائے گا۔ پس رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے بَنُو عامر بن صَعْصَعَةکے وفد کی اس پیش کش کو مسترد کردیا جب انھوں نے آپ صلى الله عليه و سلم کو اقتدار دینے کے بدلے یہ شرط عائد کی کہ آپ صلى الله عليه و سلم کے بعد یہ اقتدار انھیں منتقل ہوجائے گا۔ رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے فرمایا کہ((الأمر لله يضعه حيث يشاء)) "حکمرانی اللہ کی ہے اور وہ جسے چاہے گااسے دے گا"۔ تو پھر ان لوگوں کے متعلق کیا خیال ہے جو جمہوری نظام ، اس کی پارلیمنٹ اور وزارتوں میں شرکت کرکے اگر پورےاسلام سے نہیں تو اس کے بیشتر حصے سے دستبردار ہوجاتے ہیں؟ یقیناً رسول اللہ صلى الله عليه و سلم کا طریقہ ان تمام مسلمانوں کے لیے ایک واضح سبق ہے، جو اَب بھی جمہوری نظام کے مغربی جال کی طرف اندھا دھندبھاگے چلے جارہے ہیں اور لوگوں کے سامنے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اسلام، اس کی شریعت اور اس کی خلافت کے قیام کے لیے کوشش کررہے ہیں، چاہے ان لوگوں کا تعلق پاکستان سے ہو یا مصرسے، ترکی سے ہویا کسی اور مسلم ملک سے ۔ توکیا یہ لوگ سبق حاصل کریں گے!
پس رسول اللہﷺکفریہ نظام کو تبدیل کرنے کے لیے اسی کفریہ نظام کا حصہ نہیں بنے،اگرچہ انھیں اس نظام کا سربراہ بننے کی دعوت دی گئی تھی۔ اور رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے ایسےاقتدار کو بھی قبول نہیں کیا جس کے بدلے میں آپ صلى الله عليه و سلم سےاسلام کے کسی ایک معاملے پر بھی سمجھوتے کا مطالبہ کیا گیاتھا۔ اس کی جگہ رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے کفر کی حکومت کے خاتمے کے لیے پورےمعاشرے سے اس کفریہ حکومت کی حمایت اور قوت کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نےلوگوں کی طرف سے کفرکی حمایت کو ختم کیا اور اس کے لیے آپﷺنے کفر کے نظام کو کھلم کھلاچیلنج کیا ،اس کی حقیقت کو بے نقاب کیااور لوگوں کو اسلام کی طرف بلایا۔ اس کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے کفر کی حکمرانی کو اس مادّی سہارے سے محروم کیاجواسے تحفظ فراہم کیے ہوئے تھا۔ رسول اللہﷺ نے ذاتی طور پر ان لوگوں سے ملاقاتیں کیں جو جنگی طاقت رکھتے تھے اور ان سے مطالبہ کیاکہ وہ ایمان قبول کرنے کے ساتھ ساتھ دینِ اسلام کو نُصرَۃ(مادّی مدد)فراہم کریں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے طویل سفر کیے، مشکلات اٹھائیں تا کہ اسلام کو ایک ریاست کی شکل میں قائم کرنے کے لیے نُصرۃ کے حصول کو یقینی بنایا جائے۔ رسول اللہ ﷺجن لوگوں سے نصرۃ کا مطالبہ کرتے تھے، ان کی مادّی قوت کو بھی معلوم کرتے تھے۔آپ صلى الله عليه و سلم ان سے سوال کرتے تھے:((و هل عند قومك منعة؟))"کیا تمھارے لوگ طاقت و اسلحہ رکھتے ہیں؟" اور آپﷺنےان لوگوں کی پیش کش کو قبول نہ کیاجن میں اسلام کے دشمنوں سے اسلام کا دفاع کرنے کی طاقت موجود نہیں تھی۔ رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے کئی قبائل سے ملاقاتیں کیں جن میں بَنُو كلب،بوکحَنِيفَةُ، بنو عامر بن صَعْصَعَة، بنو كدْعةُ اور بنوشيبان شامل تھے۔ اوررسول اللہ ﷺاسی طریقہ کار پر صبر و استقامت کے ساتھ کاربند رہے یہاں تک کے اللہ تعالی نے نصرۃ کے حصول میں کامیابی عطا فرمادی جب انصار کے ایک چھوٹے مگر مخلص اور اہلِ قوت گروہ نے اسلامی ریاست کے قیام کے لیے نبی کریم صلى الله عليه و سلم کو نُصرۃ فراہم کر دی۔ لہٰذا اسلام کی حکمرانی کے لیے نصرۃ کا حصول رسول اللہ صلى الله عليه و سلم کی سنت اور طریقہ ہے، اس طریقے پر چل کر نبی صلى الله عليه و سلم نے یثرب کے تقسیم شدہ معاشرے کو اسلام کے قلعے،مدینۃالمنورہ میں تبدیل کردیا۔
اے پاکستان کے مسلمانو! حزب التحریر ہمارے درمیان رسول اللہ صلى الله عليه و سلم کے طریقے پر چلتے ہوئے ہی خلافت کے قیام کی جدوجہد کررہی ہے۔ اس کے شباب ہمیں کفر سے خبردار کرتے ہیں اورہم سے اسلام اور اس کی خلافت کی مددوحمایت کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اور حزب التحریر کے امیر، اعلیٰ پائے کے فقیہ اور رہنما، شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ ، اپنی جان خطرے میں ڈال کراس دین کے لیےمسلم افواج سے نصرۃ حاصل کرنےکی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں۔ اب یہ ہم میں سے ہر ایک پر لازم ہے کہ ہم حزب التحریر میں شامل ہوجائیں اوررسول اللہ صلى الله عليه و سلم کے طریقے پر چلتے ہوئے خلافت کو قائم کردیں اور ظلم کی حکمرانی کے خاتمے میں اپنا حصہ ڈالیں۔ امام احمدبن حنبل نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلى الله عليه و سلم نے فرمایا کہ:((ثُمَّ تَکُونُ مُلْکاً جَبْرِیَّةً، فَتَکُونُ مَا شَائَ اللّٰہُ اَنْ تَکُونَ ، ثُمَّ یَرْفَعُھَا ِذَا شَائَ اَنْ یَرْفَعَھَا۔ ثُمَّ تَکُونُ خِلَافَةً عَلَی مِنْھَاجِ النُّبُوَّة ثُمَّ سَکَتَ)) "پھر ظالمانہ حکومت کا دَور ہو گا جو اُس وقت تک رہے گا جب تک اللہ چاہے گا، پھر جب اللہ اسے ختم کرنا چاہے گا تو اسے ختم کر دے گا۔ پھرنبوت کے نقشِ قدم پر خلافت قائم ہو گی۔ یہ کہہ کر آپ صلى الله عليه و سلم خاموش ہوگئے"۔
اےافواج میں موجود مسلمانو! اے اہلِ نُصرۃ! اے موجودہ دور کے انصارو! رسول اللہ صلى الله عليه و سلم کا طریقہ کار اسلام کے قیام کے لیے اہلِ قوت سے نُصرۃ(مادّی مدد)حاصل کرنے کا تقاضا کرتا ہے اور تم میں سےہر ایک یہ نُصرۃ دینے کی قابلیت رکھتا ہے۔ تمھارے بیٹے، ییٹیاں، بھائی،بہنیں اور مائیں تمیںے پکارتی ہیں کہ تم اپنی ذمہ داری کو پورا کرو۔ نصرۃ کا معاملہ تماررا ہے اور یہ وقت بھی تماہرا ہے ، لہذا اگر تم اللہ تعالی کی خوشنودی کے لیے اپنی ذمہ داری کو پورا کرو گے تو تم یقیناً کامیاب رہو گے۔ کفریہ جمہوریت کی حمایت کر کے، جسے لوگوں کی حمایت بھی حاصل نہیں ہے، اپنی امت اور اپنے حلف سے غداری مت کرو۔ کیانی و شریف اوران کا ٹولہ کہ جس نے اپنے حلف سے غداری کی ہے ،اور جنہوں نے ہماری قیادت کی صفوں کو داغدار کر دیا ہے ؛ ایسے لوگوں کی زندگی کی خاطر اپنی آخرت کوبرباد مت کرو! حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کرکےرسول اللہ صلى الله عليه و سلم کے طریقے پر خلافت کوقائم کردو ۔ اگر تم ایسا کرنے میں کامیاب رہے اور کفر اور ان کے لوگوں پر غالب آ گئے تو تمہارا یہ عمل تمہاری اور امتِ مسلمہ کی زندگی کو خوشیوں سے بھر دے گا۔
﴿إِنْ يَنْصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ وَإِنْ يَخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِهِ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ﴾
" اگر اللہ تعالی تمھاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور اگر وہ تمھیں چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمھاری مدد کرے؟ ایمان والوں کو اللہ تعالی ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے"(آل عمران:160)
www.hizb-pakistan.com
ہجری تاریخ :
عیسوی تاریخ : بدھ, 07 اگست 2013م
حزب التحرير