بسم الله الرحمن الرحيم
مجرم حکمران ایک طرف تو بجلی پر ہمارے حق سے ہمیں محروم کررہے ہیں اور دوسری طرف ہمیں قرضوں اور ناامیدی کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں
2 مئی 2014 کو ہمارے وزیر خزانہ نے فخر سے یہ اعلان کیا کہ عالمی بینک نےپاکستان کے لیے 12 ارب ڈالر کا سودی قرضہ منظور کرلیا ہے جس میں وہ ایک ارب ڈالر بھی شامل ہے جو مئی کے دوسرے ہفتے میں دیا جائے گا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک، آئی۔ایم۔ایف اور جاپان انٹرنیشنل کریڈٹ ایجنسی کی جانب سے فراہم کیے گئے قرضوں کی طرح اس قرضے میں بھی یہ شرط شامل ہے کہ پاکستان توانائی کے شعبے میں جاری اہم اصلاحات کو جاری رکھے گا۔ جمعہ 2 مئی کو پاکستان میں عالمی بینک کے ڈائریکٹر رِچرڈ بین میسوئڈ نے صحافیوں سے بذریعہ وڈیو کانفرنس خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان توانائی کے شعبے میں "قیمتوں کو بہتر بنانے کی پالیسی" اختیار کرے اور "(توانائی کی) مارکیٹ کو نجی شعبے کے لیے کھولا" جائے۔ جبکہ اس سے قبل7 اپریل 2014 کو آئی.ایم.ایف نے "پاکستان کے لیے اپنے پروگرام نوٹ" میں توانائی کی پالیسی کے متعلق "نجی و حکومتی شعبے کی شراکت داری " اور "کاروبار ی فضا کو بہتر کرنے کے لیے درکار اقدامات" کی اہمیت کو اجاگر کیا ۔
لیکن توانائی کے شعبے میں"نجی و حکومتی شعبے کی شراکت داری" اور "نجی شعبے کے لیے (توانائی کی)مارکیٹ کو کھولنے" کامطلب یہ ہے کہ توانائی کے شعبے کو نجی ملکیت میں دے دیا جائے،جو درحقیقت ایک جرم ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں عوام محاصل (revenue)کے بہت بڑےذریعے سے محروم ہوجاتے ہیں کہ جس سے وہ اپنے امور کی دیکھ بھال کر سکتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ توانائی کے نجی مالکان اسی وقت بجلی فراہم کریں گے جب ایسا کرنا ان کے لیے منافع بخش ہوگا۔ محدود وسائل کا حامل ہونے کی وجہ سے نجی مالکان ریاست کے تمام شہریوں کو بجلی اس طور پر مہیا نہیں کر سکتے کہ یہ ایک ایسی سہولت ہے جو کہ ہر شہری کا حق ہے،کیونکہ یہ کام دراصل ایک ذمہ دار اور خیال رکھنے والی ریاست ہی کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نج کاری (privatization) بجلی کی قلت اور لوڈ شیڈنگ کی براہِ راست وجہ بنتی ہے،کیونکہ نجی مالکان بجلی کی پیداوار میں کمی کردیتے ہیں تاکہ حکومت کی طرف سے پیسے نہ دینے کی صورت میں وہ خسارے سے دوچار نہ ہوں، یا وہ صرف ان کارخانوں کو چالو رکھتے ہیں جن کی پیداواری صلاحیت زیادہ بہتر ہے جبکہ اُن بجلی کے کارخانوں کو بند کردیتے ہیں جن کی پیداواری صلاحیت اچھی نہیں ہے، کیونکہ ایسا کرنا ان کے لیے زیادہ منافع بخش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ پاکستان کے پاس 20 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے جبکہ ہماری زیادہ سے زیادہ ضرورت صرف 17500 میگاواٹ ہے، لیکن اس ضرورت کے نصف سے بھی کم بجلی پیدا کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں بجلی کی شدید کمی واقع ہو جاتی ہے، ہر روزدس سے بارہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اور لوگ شدید گرمی کے مہینوں میں پنکھے کی ہواکی نعمت سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔ جبکہ بجلی کی قلت کے نتیجے میں مقامی صنعت کی تباہی اس کے علاوہ ہے۔
جہاں تک توانائی کی"قیمتوں کو بہتر بنانے کی پالیسی" اور" کاروباری فضاکو بہتر کرنے کے لیے درکار اقدامات" کا تعلق ہے تو اس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے تا کہ اس کے نتیجے میں توانائی کے شعبے سے منسلک نجی کمپنیوں کے مالکان کے منافع میں اضافہ ہو۔ بجلی کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کر کے حکومت پہلے ہی نجی شعبے کے لیے اس کی سرمایہ کاری پر یقینی منافع کا بندوبست کر چکی ہے۔ حکومت نے بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں کے منافع کو اس حد تک یقینی بنایا ہے کہ ان کمپنیوں کو اس صورت میں بھی حکومت کی طرف سے پیسے کی ادائیگی کی جاتی ہے جب وہ تیل کی کمی کی بنا پر بجلی پیدا نہیں کررہے ہوتے۔ یوں بجلی اس قدر مہنگی ہوچکی ہے کہ ایک بہت بڑا "گردشی قرضہ" وجود میں آچکا ہے جو حکومت نے بجلی کے کارخانوں کے مالکان کو ادا کرنا ہے۔ پچھلی گرمیوں یعنی جولائی 2013 میں حکومت نے 270 ارب روپے بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں(IPPs) کو ادا کیےتھے۔ اتنی بڑی رقم کا سُن کر لوگ بھی چونک اٹھے کہ توانائی کے شعبے میں کس قدر دولت ہے، لیکن اس عوامی اثاثے سے حاصل ہونے والی دولت کے ایک روپے پربھی عوام کو کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ اور اس سال یہ "گردشی قرضہ" ایک بار پھر جمع ہو چکا ہے ، حکومت اتنی مہنگی بجلی کی ادائیگیاں نہیں کر پارہی ،پس29 اپریل 2014 کو کئی حکومتی محکموں کی بجلی کاٹ دی گئی جس میں پانی و بجلی کی وزارت بھی شامل تھی!!!
حکمران امت کے توانائی کے وسائل کو پرائیویٹ ہاتھوں میں دے رہے ہیں جبکہ اسلام نے توانائی کو عوامی ملکیت قرار دیا ہے جس کے مالک تمام مسلمان ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : المسلمون شرکاء فی ثلاث الماء والکلاء والنار "مسلمان تین چیزوں میں شراکت دار ہیں: پانی، چراگاہیں اور آگ(توانائی)" (مسنداحمد)۔ لہٰذا خلافت میں اسلامی آئین کے زیرِ سایہ بجلی کا فائدہ تمام لوگوں کے لیے ہوگا جبکہ ریاست اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اس شعبے کی سرپرستی و نگرانی کرے گی۔
اس کے علاوہ ،حکومت کی طرف سے حاصل کیے جانے والے یہ تمام قرضےسود پر مبنی ہیں جس کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے واضح اور قطعی طور پر حرام قرار دیا ہے۔ انہی سودی قرضوں نے پاکستان کو اس کے قیام کے بعد سے ہی قرضوں کی دلدل میں دھکیل رکھا ہے ،حالانکہ پاکستان ان قرضوں کی اصل رقم سے کئی گنا زیادہ رقم سودی قسطوں کی شکل میں ادا کر چکا ہے۔
اے پاکستان کے مسلمانو! کیا آپ کےلیے کافی نہیں کہ آپ ایسی کئی حکومتوں کا مشاہدہ کر چکے ہیں جوکھلم کھلااستعماری ممالک کے ساتھ گٹھ جوڑ بناتی ہیں، ان کے اہلکاروں سے دنیا کے ہر کونے میں دن رات ملاقاتیں کرتی ہیں تا کہ آپ کو آپ ہی کی دولت سے محروم کرنےاور آپ کی بدحالی میں مزید اضافہ کرنے کی منصوبہ بندی کی جائے؟ یہی وقت ہے کہ آپ اس حکومت کے خاتمے اور اس عمدہ سرزمین پر خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کے شباب کے ساتھ کھڑے ہو جائیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے دن رات ایک کردیں۔ صرف ہماری اپنی ریاستِ خلافت ہی عوامی اثاثوں سے بہت بڑی مقدار میں محاصل (revenue) پیدا کرے گی جس میں پاکستان کے توانائی اور معدنیات کے وسیع وسائل شامل ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ان شعبوں سے بھی بھاری محاصل حاصل کرے گی جو بنیادی طور پر ریاست ہی کے پاس ہوتے ہیں اگرچہ نجی شعبہ بھی اس میں کام کرسکتا ہے جیسا کہ بھاری مشینری، ہتھیاروں کی تیاری، ٹیلی مواصلات، تعمیرات اور ٹرانسپورٹ کے ادارے ۔ اس کے علاوہ زراعت کے شعبے سے خراج کی صورت میں محاصل اکٹھے کئے جائیں گے۔ یہ سب غیر ملکی سودی قرضوں پر انحصار کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دے گا ، وہ قرضے کہ جو کفر اور گمراہی پر مبنی شرائط کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں۔
یہ جان لیں کہ پاکستان اور مسلم دنیا میں بدترین معاشی بدحالی کا اصل اور بنیادی سبب یہ ہے کہ28رجب 1342ہجری بمطابق 23مارچ 1924ءکو خلافت کے خاتمے کے بعد سے اسلام،ریاستی دستور اورآئین کی صورت میں نافذ نہیں ہے۔ اسلام ہمیں یہ حکم دیتا ہے اور ہم اس امر میں اللہ کے سامنے جوابدہ ہیں کہ ہم ایک خلیفہ کی بیعت کریں جو تمام مسلمانوں کا خلیفہ ہوگا اور صرف اور صرف اسلام کو ہی مکمل طور پر نافذ کرے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو ایک وقت میں ایک ہی خلیفہ کو بیعت دینے کا حکم دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ قَالُوا فَمَا تَأْمُرُنَا قَالَ فُوا بِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ أَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ "میرے بعد کوئی نبی نہیں لیکن کثرت سے خلفاء ہوں گے۔ صحابہ نے پوچھا کہ آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ رسول اللہﷺ نے جواب دیا :ایک کے بعد دوسرے کو بیعت دو کہ اللہ اُن سے اُس کے متعلق پوچھے گا جس پر انہیں ذمہ دار بنایا گیا" (بخاری)۔ حزب التحریر اسلام کی بنیاد پر حکمرانی کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس کے پاس پوری مسلم دنیا میں پھیلے ہوئے قابل سیاست دانوں کی ایک پوری فوج موجود ہے اور 191 دفعات پر مشتمل آئین نفاذ کے لیےتیارموجود ہے جس کی تمام دفعات صرف اور صرف قرآن و سنت سے اخذ کی گئی ہیں۔ تو اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم حزب التحریر کے ساتھ مل کر کام کریں اور خلافت کی واپسی کو یقینی بنائیں۔
اے افواج پاکستان کے افسران! کفر کے زیرِ سایہ تمھاری قوم کی کوئی زندگی نہیں ہے۔ ان کی حالت کو دیکھوکہ وہ کس قدر مصائب اور مشکلات کا شکار ہیں۔ جبکہ تم وہ ہو کہ جنہوں نے اپنے لوگوں کی خاطر اپنی جانیں دینے کی قسم کھائی ہے۔ یہی وقت ہے کہ تم اپنے عہد ،اپنی قسم کو پورا کرو۔ اس کفر کی حکمرانی اور جمہوریت کے آئین کی مددو نصرت سے ہاتھ کھینچ لو اور اسے تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہوجانے دو۔ راحیل-نواز حکومت کا خاتمہ کردواورحزب التحریرکو نُصرۃ فراہم کر وجوقابل فقیہ اور مدبر سیاست دان شیخ عطا بن خلیل ابو الرَشتہ کی قیادت میں سرگرمِ عمل ہے، تاکہ اس مسلم سرزمین پر، جس کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بیش بہا وسائل اور قابل بیٹوں اور بیٹیوں سے نوازا ہے،خلافت کا قیام عمل میں آ جائے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ
" اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور اس کے رسولﷺکی پکار پر لبیک کہو ، وہ تمہیں اس چیز کی جانب بلاتے ہیں جس میں تمھارے لیے زندگی ہے" (الانفال: 24)
ہجری تاریخ :
عیسوی تاریخ : پیر, 05 مئی 2014م
حزب التحرير