بسم الله الرحمن الرحيم
اگر اب بھی یہ وقت خلافت کے قیام کا نہیں ، تو پھر کب ہو گا؟!
بم دھماکوں، ٹارگٹ کِلنگ اور عدم تحفظ کی بد ترین لہر جس کاپاکستان کے مسلمان سامنا کر رہے ہیں ، صوبہ سرحد سے پنجاب اور پنجاب سے ہوتی ہوئی اب سندھ پہنچ گئی ہے۔ 28دسمبر 2009کو سندھ کے دارلحکومت اور پاکستان کی معیشت کے مرکزکراچی میں محرم کے جلوس کودھماکے کا نشانہ بنایا گیا ،جس کے نتیجے میں 40سے زائد مسلمان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور درجنوں زخمی ہو گئے ۔ پھر ایک منظم ، نہایت تربیت یافتہ گینگ نے حکومتی سیکیورٹی فورسز کی طرف سے کسی روک ٹوک کے بغیر حملے شروع کر دیے ، انہوں نے بند دکانوں کے مضبوط اورتہہ در تہہ تالوں کو باآسانی توڑ ڈالا اور فاسفورس پر مبنی خاص ایندھن کے ذریعے دکانوں کو آگ لگا دی۔ اس آتشگیر مادے کا استعمال ،جس کی تیاری میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے ،تبہی ممکن ہے اگر اسے پہلے سے ہی اس مقصد کے لیے تیار کر کے رکھا گیا ہو۔ نتیجتاً آگ تیزی سے پھیلی اور دو دن تک بھڑکتی رہی۔ اس کے نتیجے میں 40ارب سے زیادہ کا نقصان ہوا اوردوکروڑ لوگوں کے شہرکراچی میں زندگی کا پہیہ جام ہوکر رہ گیا۔ یہ کاروائی بھرپور منصوبہ بندی پر مبنی اُن کاروائیوں میں سے ایک ہے جنہوں نے پچھلے کئی ماہ سے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے ، اور جن کے نتیجے میں خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے اور املاک کاغذ کے پرزوں کی طرح اُڑرہی ہیں۔
اس انتہائی منظم، سوچی سمجھی اورسفاک مہم کا تانا باناامریکہ نے تیار کیا ہے ، جس میں اُسے زرداری حکومت کا مکمل تعاون حاصل ہے۔ یہ زرداری حکومت ہی ہے جس نے امریکہ کی پرائیویٹ فوجی تنظیم Xe Services LLCکو پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دی، جس کا پرانا نام بلیک واٹر تھا۔ یہ تنظیم اس سے قبل عراق میں بھی حملوںاور دھماکوںکی مہم چلا چکی ہے۔ اور یہ زرداری حکومت ہی ہے جس نے امریکی ایجنسیوں او ر پرائیویٹ فوجی تنظیموں کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ بلا روک ٹوک پاکستان میں جدھر چاہیں جا ئیں، حسبِ ضرورت طالبان کی صفوں میں داخل ہوں اور اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنائیں۔ پنجاب میں جگہ جگہ ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں، جہاں بھاری اسلحے سے لیس امریکیوں کو پاکستان کے سیکیورٹی اہلکاروں نے روکا او ر امریکی سفارت خانے کی مداخلت پرزرداری حکومت نے انہیں رہا کر وادیا۔ پاکستانی حکومت کی اعلیٰ ترین سطح سے مدد وحمایت کی فراہمی نے اِن امریکیوں کے تکبر میں اِس قدر اضافہ کر دیا ہے کہ اب یہ امریکی پاکستان ہی کے سیکیورٹی اہلکاروں کودھمکیاں دے رہے ہیںکہ اگر ان کی تلاشی لی گئی تو وہ انہیں گولی مار دیں گے۔ جہاں تک حملوں اوردھماکوں کے لیے کروڑوں کی مالیت کے مواد کی فراہمی کا تعلق ہے ، تو زردار ی حکومت ایسے مواد کے پاکستان میںبلاروک ٹوک داخلے کو ممکن بنا رہی ہے۔ اس کی حالیہ مثال 20دسمبر کا واقعہ ہے جب دس عددسِیل بند کنٹینر کسی سیکیورٹی کلئیرنس اور کسٹم چیکنگ کے بغیر لاہور ائر پورٹ پر امریکی قونصل خانے کے عملے کے حوالے کر دیے گئے ۔
امریکہ پاکستان میں ابتر صورتِ حال اس لیے پیدا کر رہا ہے تاکہ پاکستان کے مسلمان ملکِ پاکستان میں امریکہ کی موجودگی اور مسلمانوں کے خلاف امریکہ کی جنگ کے سامنے سرنگوں ہو جائیں۔ جیسا کہ یکم دسمبر 2009کو امریکی صدر بارک اوباما نے اپنی تقریر میںکہا: ''ماضی میں پاکستان میں لوگ ا س بات پر بضد تھے کہ انتہائ پسندی کے خلاف جنگ ہماری جنگ نہیں ہے ...لیکن گذشتہ سالوں میں کراچی سے اسلام آباد تک معصوم لوگوں کا قتل ہوا...تو رائے عامہ تبدیل ہو گئی‘‘۔ اور امریکی سیکرٹری دفاع رابرٹ گیٹس نے کہا:''جتنا ان ﴿پاکستان کے لوگوں﴾پر اندرونی حملوں میں اضافہ ہوگا ، جیسا کہ راولپنڈی کی مسجد پر خوف ناک حملہ ہوا ، اتنا ہی وہ ہم سے مزید مدد حاصل کرنے پر آمادہ ہوں گے‘‘ (وائس آف امريکہ ،8 دسمبر 2009)
امریکی آقائوں کی مزید خدمت گزاری کے لیے زرداری حکومت اس بات کو بھی ممکن بنا رہی ہے کہ پاکستان کے عوام امریکہ کے اِن منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں، پس زرداری حکومت نے پاکستان کے مسلمانوں کو عذاب میں مبتلا رکھنے کے لیے کئی حربے اپنا رکھے ہیں: مثلاًدنیا میںزراعت کے معاملے میں سرفہرست ممالک میں شامل ہونے کے باوجود چینی کا بحران، ایک ایسے ملک میں گیس کا بحران جس میں گیس کے وسیع ذخائر سر بمہر پڑے ہیں،ایک ایسے ملک میں بجلی کا بحران ، جس میں بجلی پیدا کرنے کے کثیر اور مختلف الانواع ذرائع موجود ہیں، اور سردیوں کے موسم میں بجلی کی کمی جب بجلی کا استعمال اپنی کم ترین حدوں کو چھو رہا ہوتا ہے، این آر اوکا کالعدم قرار دیا جانا جس کے نتیجے میں حکومت اور اپوزیشن میں موجود امریکی ایجنٹ سیاسی ڈرامہ کھیل رہے ہیں۔ اور یہ سب حربے امریکہ کے شر سے عوام کی توجہ کو پھیر رہے ہیں۔
اِس وقت جب زرداری حکومت امریکہ کی پردہ داری کے لیے اپنے ہی لوگوں کے خلاف دشمنانہ مہم چلا رہی ہے ، امریکہ پاکستان میں اپنے قدموں کو مزید مضبوط کر رہا ہے اور اپنی جنگ کو مزید پھیلا رہا ہے، تاکہ پاکستان کے مسلمانوں کے لیے مزید مصائب اور خطرات کی راہ ہموار کی جائے۔ امریکی افواج تربیلا اور سہالہ میں موجود ہیں ،اور کہوٹہ میں موجود پاکستان کی ایٹمی تنصیبات ان کے حملے کی پہنچ میں ہیں۔ امریکہ سفارت خانے کی توسیع کی آڑ میں اسلام آباد میں 56ایکڑ پر محیط فوجی اڈا قائم کر رہا ہے۔ دوسری طرف جیکب آباد میں تیس ارب کی لاگت سے ائر بیس فیسلٹیز (Air Base Facilities)تعمیر کی جا رہی ہیں جو امریکی ائر فورس کی ضروریات کے مطابق ہیں ، جس میں میزائل ذخیرہ کرنے کے لیے تہہ خانہ موجود ہوگا ، یہ منصوبہ جون 2010ئتک پایۂ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ امریکہ پاکستان کی سرزمین پر70سے زائد ڈرون حملوں میں 660مسلمانوں کی جانیں لے چکا ہے ،جس میں مرد، عورتیں ، بچے ،بوڑھے سبھی شامل ہیں۔ جبکہ امریکہ کے وہ بزدلانہ چھاپے اس کے علاوہ ہیں جن میں ہیلی کاپڑوں پر سوار امریکی فوجی افغانستان سے پاکستان کی سرزمین میں داخل ہوتے ہیں، ان کاروائیوں کا آغاز 2003میں مشرف کے دور میں ہوا اور زرداری حکومت کے ''جمہوری دور‘‘کے دوران بھی یہ کاروائیاں جاری ہیں۔ اور اگرچہ فوجی آپریشن کے نتیجے میںجنوبی وزیرستان کے لاکھوں مسلمان باشندے دربدر ہو چکے ہیں اور کھلے آسمان تلے منجمد کر دینے والی سردی کا سامنا کر رہے ہیں، امریکی فوجی اور حکومتی عہدیدار دن رات پاکستانی افواج سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اس امریکی جنگ کو اورکزئی ایجنسی ، شمالی وزیرستان اور اس سے آگے تک پھیلا دیں۔
امریکہ پاکستان میں اپنے قدموں کومزید مضبوط کرنے پر اس لیے مجبور ہوا کہ وہ اس بات سے خطرہ محسوس کرتا ہے کہ پاکستان کے مسلمان امریکہ کے ہاتھ کو جھٹک کر، موجودہ نظام کو اکھاڑ کر حقیقی تبدیلی برپا کر دیں گے اور اسلام کو نافذ کر دیں گے۔ 24نومبر2008کوامریکی فوج کے میجرجنرل جان ایم کسٹر John M Custer،جو امریکی ریاست ایری زونا میں امریکی انٹیلی جنس سینٹر کا کمانڈر ہے، نے افسوس کے ساتھ بیان کیا:''(پاکستان کے) سابقہ فوجی لیڈر ہم سے محبت کرتے تھے ، وہ امریکی کلچر سے آگاہ تھے اور جانتے تھے کہ ہم دشمن نہیں ہیں، لیکن وہ فوج سے رخصت ہو رہے ہیں ‘‘۔ مارچ 2009میں واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے ڈیوڈ کل کلن David Kilcullen، جو امریکی جنگ کے متعلق امریکی سینٹ کامCENTCOM کے کمانڈر جنرل ڈیوڈ ایچ پیٹریس کو مشاورت دیتا ہے، نے کہا:''پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کی آبادی 173ملین ہے، اس کے پاس 100نیوکلیئر ہتھیار ہیں، اوراس کی فوج امریکہ کی فوج سے بڑی ہے...ہم ایسے نقطے پر پہنچ گئے ہیںکہ ہم ایک سے چھ ماہ میں دیکھ رہے ہیں کہ پاکستانی ریاست ناکام ہو جائے گی...انتہائ پسند اقتدار میں آجائیں گے...اور یہ ایسی صورتِ حال ہے کہ آج کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اس خطرے کے سامنے کچھ بھی نہیں‘‘۔ اور2دسمبر2009کو جیو ٹی وی پر امریکی سیکرٹری خارجہ ہلری کلنٹن نے پاکستان میں خلافت کے قیام کی جدوجہد پرتشویش کا اظہارکیا۔
اے مسلمانانِ پاکستان!
دس سال قبل جب ڈکٹیٹر مشرف نے نواز شریف حکومت کا خاتمہ کیا ، توآپ نے خوشیاں منائیں اور مشرف کو موقع دیا ۔ حزب التحریرنے اسی وقت آپ کو خبردار کیا تھا کہ مشرف آپ کی صورتِ حال کو مزید ابتر بنادے گا کیونکہ وہ اسلام کو نافذ نہیں کر رہا اور آپ کے خلاف استعماری طاقتوں کا ساتھ دے رہا ہے۔ پھرمشرف نے استعفیٰ دے دیا اور زرداری کی ''جمہوری‘‘حکومت اقتدار میں آ گئی ، تب بھی حزب التحریرنے آپ کو خبردار کیا تھا کہ اس کے نتیجے میں آپ کی ابتر صورتِ حال کا خاتمہ نہیں ہو گا بلکہ یہ اور سنگین ہو جائے گی کیونکہ استعماری نظام چہرے کی تبدیلی کے ساتھ بدستور موجود ہے۔ اور اب جبکہ آپ بحرانوں اور مصیبتوں کی دلدل میں ڈوبے ہوئے ہیں اور زرداری سے اتنی ہی نفرت کرتے ہیں ،جتنی اس سے قبل آپ مشرف سے کرتے تھے اور اُس سے قبل نواز شریف سے کرتے تھے، توہم آپ سے سوال کرتے ہیں کہ کیا آپ اسی سوراخ سے ایک بار پھر ڈَسے جانے کے لیے تیار ہیں؟
آپ جان لیجئے کہ امریکہ وقتاً فوقتاً پاکستان میں چہروں کی تبدیلی واقع ہونے دے گا ،بشرطیکہ موجودہ کفریہ استعماری نظام اس کے مفادات کے تحفظ کے لیے موجود رہے۔ چنانچہ ایک کے بعد دوسرے بحران سر اٹھاتے رہیں گے اور عوام کی بے چینی اور غم و غصے کو عارضی طو رپر مدھم کرنے کے لیے ایک کے بعد دوسرے چہرے کو لایا جائے گا ۔ بے شک جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ مشرف کو کئی سالوں تک آپ کی گردنوں پر مسلط رکھا گیا یہاں تک کہ امریکہ چہرے کو تبدیل کرنے پر مجبور ہو گیا اور اس نے مشرف کو اپنے نئے ایجنٹوں-زرداری اور گیلانی سے بدل دیا۔ این آر او کی برقراری یا اس کا خاتمہ، سترہویں ترمیم کی برقراری یا اس کا خاتمہ، مائنس ون،مائنس ٹو،1973کا آئین یا ایمرجنسی راج، جمہوریت یا آمریت، چیف جسٹس کی معزولی یا بحالی ، یہ سب ڈرامے محض پاکستان کے کرپٹ نظام کو برقرار رکھنے کے لیے ہیں، جو اس بات کا مستحق ہے کہ اسے فی الفور اُکھاڑا جائے اور اِس کی بجائے اسلام کے نظامِ خلافت کو نافذ کیا جائے۔
اے مسلمانانِ پاکستان!
کوئی یہ پوچھ سکتا ہے کہ حزب التحریر واقعات کے رونما ہونے سے سالوں پہلے ان کا دعویٰ کس طرح کر سکتی ہے۔ اس کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ ایک مسلمان کے پاس مستقبل کا علم نہیں ہوتا مگر وہ اللہ العلیم الخبیر اور ظاہر اور غائب کے جاننے والے کی تنبیہات اور نصیحتوںکو ہمیشہ ذہن میں رکھتا ہے۔ پس ایک مسلمان ایک ایسے نظام سے جو اسلام پر مبنی نہ ہو مصائب اور تکلیفوں کے علاوہ کسی اور چیز کی توقع نہیں کر سکتا،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
( وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا )
'' جن میرے ذکر سے منہ موڑا،اس کی زندگی تنگ ہو جائے گی‘‘ (طہٰ: 124)
اور ایک مسلمان یہ جانتا ہے کہ اگر مسلمان اللہ کے نازل کردہ احکامات کے ذریعے حکمرانی کو یقینی نہ بنائیں تو مسندِ اقتدار ظلم کا مرکز بن جاتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
( وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ )
''اورجو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات کے ذریعے حکمرانی نہ کرے تو ایسے لوگ ہی ظالم ہیں‘‘ (المائدہ: 45)
اے مسلمانانِ پاکستان!
کیا اتنا کافی نہیں کہ آپ طویل عرصے سے اسلام کی حکمرانی کے بغیر زندگی بسر کر رہے ہیں؟ یا آپ اب بھی خاموش رہیں گے جبکہ استعماری طاقتیں اور انکے ایجنٹ آپ کے بچوں اور ان کی آنے والی نسلوں کے لیے مزید مصائب و آلام کا بندوبست کر رہے ہیں؟ کیا اب وقت نہیں آ چکا کہ آپ اِن حکمرانوں کو اکھاڑ کر موجودہ نظام کی بجائے اسلام کی حکمرانی یعنی خلافت کے قیام کے ذریعے اپنی صورتِ حال کو بدل ڈالنے کے لیے متحرک ہوں؟ بے شک پاکستان میں خلافت کے قیام کے اگلے چندگھنٹوں میں مسلمانوں کاخلیفہ ،بے پناہ وسائل اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل بہادر باشندوں پر مشتمل ملکِ پاکستان کو دنیا کی صفِ اول کی ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے قدم اٹھانا شروع کر دے گا۔ یہ محض اس کی ذاتی قابلیت کی بنا ئ پر نہیں بلکہ اس کی بنیادی وجہ یہ حقیقت ہے کہ خلیفہ اللہ خالقِ کائنات کے نازل کردہ بابرکت احکامات کو نافذ کرے گا، یہ احکامات انسانی عقل کے بنائے ہوئے قوانین کی خامیوں سے پاک ہیں۔ خلیفہ اسلامی سرزمین پر مسلمانوں کے دشمنوں کی ہر طرح کی موجودگی کا خاتمہ کرے گا، وہ رنگ، نسل، مذہب ،مکتبۂ فکر اور زبان سے قطع نظرریاست کے تمام باشندوں کے لیے بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنائے گا اور پوری امت کے وسائل کو بروئے کار لائے گا تاکہ یہ امت انسانیت کی رہبر و رہنما بن جائے جو کہ اس کا اصل مقام ہے اور جس مقام پر وہ کامل اور برحق دینِ اسلام کے سائے تلے کئی صدیوں تک تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
( أَلاَ يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ )
''کیا وہ اللہ ہی نہ جانے جس نے پیدا کیا،اور وہ باریک بین اور باخبر بھی ہو‘‘۔ (ملک: 14)
ہجری تاریخ :
عیسوی تاریخ : پیر, 04 جنوری 2010م
حزب التحرير