الم . غُلِبَتِ الرُّومُ . فِي أَدْنَى الأَرْضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ . فِي أَدْنَى الأَرْضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ . فِي بِضْعِ سِنِينَ لِلَّهِ الأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ } [الروم:1 ـ4].
حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یہ آیتیں اس وقت نازل ہوئیں جبکہ نیشاپور کا شاہ فارس بلاد شام اور جزیرہ کے آس پاس کے شہروں پر غالب آگیا اور روم کا بادشاہ ہرقل تنگ آکر قسطنطیہ میں محصور ہوگیا۔ مدتوں محاصرہ رہا آخر پانسہ پلٹا اور ہرقل کی فتح ہوگی۔ مفصل بیان آگے آرہا ہے۔ مسند احمد حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اس آیت کے بارے میں مروی ہے کہ رومیوں کو شکست پر شکست ہوئی اور مشرکین نے اس پر بہت خوشیاں منائیں۔ اس لئے کہ جیسے یہ بت پرست تھے ایسے ہی فارس بھی ان سے ملتے جلتے تھے اور مسلمانوں کی چاہت تھی کہ رومی غالب آئیں اس لئے کم از کم وہ اہل کتاب تو تھے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب یہ ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا رومی عنقریب پھر غالب آجائیں گے۔ صدیق اکبر نے مشرکین کو جب یہ خبر پہنچائی تو انہوں نے کہا آؤ کچھ شرط بدلو اور مدت مقرر کرلو اگر رومی اس مدت میں غالب نہ آئیں تو تم ہمیں اتنا اتنا دینار دینا اور اگر تم سچے نکلے تو ہم تمہیں اتنا اتنا دیں گے۔ پانچ سال کی مدت مقرر ہوئی وہ مدت پوری ہوگئی اور رومی غالب نہ آئیں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خدمت نبوی میں یہ خبر پہنچائی آپ نے فرمایا تم نے دس سال کی مدت مقرر کیوں نہ کی۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں قرآن میں مدت کے لئے لفظ بضع استعمال ہوا ہے اور یہ دس سے کم پر اطلاق کیا جاتا ہے چنانچہ یہی ہوا بھی کہ دس سال کے اندراندر رومی پھر غالب آگئے ۔
ان قرآنی آیات میں اللہ سبحان و تعالیٰ عالمی سیاست کو موضوع بنارہے ہیں اور یہ بحث بھی ایسے موقع پر کی جارہی ہے جب کفر کاغلبہ ہے۔ پھر بھی صحابہ عالمی سیاست پر کفار سے بحش و مباحثے میں مصروف ہیں اور آپ ﷺ اس معاملے میں بھی اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ کی اسلام سے رہنمائی کر رہے ہیں جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ مسلمانوں کا نقطہ نظر ابتدا ہی سے ایک علاقے تک محدود نہیں بلکہ عالمی رہا ہے۔ جس کے بعد یہ سوال اٹھایا ہی نہیں جاسکتا کہ سیاست یا عالمی سیاسی صورت حال وغیرہ جیسے موضوع تو محض دنیاوی معاملات ہیں وغیرہ وغیرہ۔
یہاں یہ بات سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ مسلمان کفار کی سازشوں کو صرف اسی صورت میں ناکام اور امت کو اس سے محفوظ رکھ سکتے ہیں ،جب وہ اس کا صحیح ادراک کرسکتے ہوں۔ حزب اپنی کتاب "سیاسی مفاہیم" میں لکھتی ہے کہ، " دنیا میں ہر ریاست کی پالیسی سے باخبر رہنا انتہائی ضروری ہے اور ایک مسلم سیاست دان اس کے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ یہ بات ہر مسلمان کے لیے نہایت اہم ہے کہ عمومی انداز میں عالمی طاقتوں کی نوعیت (nature)، رازوں (secret)، منصوبوں (plan) اور طرز عمل (style)، سے باخبر رہنا اور ان امور کا تفصیلی اور حقیقت پر مبنی فہم، روزانہ کی بنیاد پر بدلتے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی طاقتوں کی بنیادوں اور ستونوں کا مکمل ادراک ہر مسلمان مفکر کے لیے ضروری ہے۔ یوں امت کو ان سے محفوظ رکھنے کا مقصد واضح ہوتا ہے جس کے ذریعے ریاست اور امت مسلمہ کی حفاظت اور اسلامی دعوت کو دنیا میں پھیلانے کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔"
اس ضمن میں اہم ترین بات یہ ہے کہ عالمی سیاست اوراس کی بنیادوں کو کچھ بنیادی اصولوں کے ذریعے سمجھا جائے۔ اول تو یہ کہ عالمی منظر نامے پر موجود ممالک کی موجودہ حیثیت ، ان کے سیاسی منصوبوں اور سیاسی طرز عمل کاگہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے۔
عالمی دنیا کا فہم اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم یہ جان سکیں کہ آیا وہ کون سے ممالک ہیں جن کے ہاتھ میں دنیا کی باگ ڈور ہے اور وہ دنیا کی سیاست پر متاثر ہوتے ہیں اور وہ کن ممالک کو براہ راست کنٹرول کرتے ہیں یا ان پر اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔
بنیادی طور پر آج دنیا میں چار اقسام کی ریاستیں پائی جاتی ہیں ۔ پہلی تو وہ جسے سپر پاور ریاست کہا جاتا ہے جو دنیا میں طاقتور ترین ریاست کا کردار ادا کرتی ہے اور دوسری ریاستوں کی حیثیت کو متاثر کرنے کی اہلیت رکھتی ہے جیسا کہ امریکا ۔ دوسری وہ ماتحت (sub-ordinate) ریاستیں ہیں جن کی داخلی اور خارجی پالیسیوں کا انحصار دوسری طاقتور ریاستوں پر ہوتا ہے۔ پاکستان، سعودی عرب، قطر اور مالی وغیرہ جیسے ملکوں کا شمار ان ہی ریاستوں میں ہوتا ہے۔ تیسری وہ سیٹلائٹ ریاستیں ہیں جن کی داخلہ پالیسیاں تو خود مختار ہوتی ہیں تاہم بیشتر خارجی پالیسیاں دوسرے ممالک کے مرہون منت ہوتی ہیں۔ جیسا کہ آسٹریلیا ، کینیڈا وغیرہ۔ اور چوتھی قسم کی ریاستیں وہ ہیں جو اپنی داخلی اور خارجہ پالیسی کے اعتبار سے خودمختار ہوتی ہیں جیسا کہ برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور اسرائیل وغیرہ۔
ہمارے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ طاقتور ممالک کی اپنے مقاصد کی حفاظت کیلیے مرتب کی گئی سیاسی حکمت عملی (politcial plan)اور ان سیاسی حکمت عملیوں کو عملی جامع پہنانے کیلیے سیاسی طور طریقوں(political style) کو سمجھا جائے ۔ جیسا کہ عراق پر قبضہ اور اس قبضے کو مقامی اور عالمی دونوں سطح پر قانونی جواز فراہم کرنا امریکا کی حکمت عملی میں شامل تھا۔ جسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے امریکا نے مختلف سیاسی طور طریقوں کا سہارا لیا ۔ جن میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی عراق میں موجودگی کا بہانہ، جھوٹ پر مبنی سی آئی اے رپورٹس کی تشہیر، اقوام متحدہ کے ذریعے جارحیت کو قانونی جواز فراہم کرنا ، شیعہ سنی اختلاف کو ہوا دینا، اہل تشیعوں کو حکومت کا حصہ بنانے اور ایرانی و شامی اثرو رسوخ کا استعمال شامل ہے۔
تاہم یہ بات سمجھنا بھی لازم ہے کہ سیاسی طور طریقے سیاسی حکمت عملی کے مطابق مسلسل تبدیل ہوتے رہتے ہیں جب کہ سیاسی حکمت عملی صرف اسی صورت تبدیل کی جاتی ہے جب تمام اختیار کردہ سیاسی طریقے ناکام ہوجائیں اور سیاسی اہداف حاصل نہ ہوسکیں یا یہ کہ سیاسی حکمت عملی کسی خاص صورت حال کی وجہ سے سیاسی مقاصد کے ہی مخالف ہوجائے مثال کے طور پر پہلے چین کی امداد کرکے اسے روس کے خلاف کھڑا کیا گیا اور پھر چین ہی کا گھیرا تنگ کرکے اس کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کیلیے سیاسی طور طریقوں کا سہارا لیا گیا ۔
کچھ یہی حال امریکا کا مسلم دنیا پر اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کیلیے ہے جس کے لیے وہ اپنے سیاسی طور طریقوں میں ضرورت کے مطابق تبدیلی لاتا رہتا ہے جیسا کہ پہلے عسکری بغاوتوں اور دیگر سیاسی اقدامات کے ذریعے مسلم ممالک کو کنٹرول کیا گیا اور اب مسلم زمینوں پر عسکری حملوں کے ذریعے اس کنٹرول کو مستحکم کیا جارہا ہے ۔لہٰذا ہماری سیاسی جدوجہد کا ہدف استعمار کی سیاسی فکر ، سیاسی حکمت عملیوں اور اس کے طور طریقوں کو بے نقاب کرنا ہونا چاہیے۔
آج انبیاء کی سرزمین شام کی صورت حال کچھ ایسی ہے کہ اقوام عالم اس پر بھوکے بھیڑیے کی طرح ٹوٹ پڑے ہیں۔ امریکا ہو ، سعودی عرب ہو، روس ہو یا ایران ۔۔ سب کے سب یک زبان ہو کر شام کے بابرکت انقلاب اور اس کے مخلص انقلابیوں کے خلاف کمربستہ ہیں۔ یہی وہ سرزمین ہے جہاں استعما ر نے اپنی سیاسی فکر کے مطابق ہر سیاسی حکمت عملی کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مختلف طور طریقوں کو آزمایا تاہم شام کے عوام نے بیدار امت کا ثبوت دیتے ہوئے استعمار کی ہر حکمت عملی اور اس کے طور طریقوں کو خاک میں ملادیا ۔ جب کہ مصر ، تیونس ، لیبیا اور یمن وغیرہ سیاسی بصیرت اور پختگی نہ ہونے کے باعث استعمار کی سازشوں کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے ۔ شام میں لگ بھگ چار سال سے جاری سیاسی بغاوت اس بات کا ثبوت ہے کہ امت کو سیاسی پختگی اور سیاسی شعور اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب اسے اسلام کی جانب مسلسل دعوت دی جاتی رہے۔
شام کی موجودہ صورت حال کو سمجھنے کے لیے شام کی عالمی حیثیت اور پس منظر کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ شام گزشتہ چالیس برسوں سے حافظ الاسد اور پھر اس کی اولاد بشار الاسد کی زیرسربراہی امریکا کے ماتحت رہا ہے۔ جب کہ کچھ لوگ سیاسی قائدین کی زبانی جمع خرچ اور کچھ سیاسی بیانات اور اقدامات سے مرعوب ہو کر شام اور اس کے حکمرانوں کو امریکا مخالف سمجھ بیٹھتے ہیں جیسا کہ مئی دو ہزار چار میں امریکا نے اس الزام پر شام پر معاشی پابندیاں عائد کردیں کہ وہ عراق میں عسکریت پسندوں کے داخلے کو روکنے میں ناکام رہا۔ جب کہ حقیقت کا مفصل اورصحیح جائزہ لینےسے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شام الاسد خاندان کی کمان میں ہمیشہ امریکی ایجنٹ ہی رہا ہے۔ شام کا خلیجی جنگ میں صدام حسین کے خلاف امریکا کا ساتھ دینا اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے۔ شام وہ واحد جمہوری عرب ریاست تھی جس نے پہلی خلیجی جنگ میں عراق کے خلاف امریکا کا ساتھ دیا اورOperation Desert Storm میں مدد کیلیے اپنے دستے روانہ کیے۔
شام نے اسلام پسندوں کے خلاف بھی امریکا کی بھرپور مدد کی۔ اور اس بات کا اعتراف خود امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے کیا کہ شام کی مدد سے امریکا کو وہ معلومات حاصل ہوسکیں جس کا اس نے کبھی گمان بھی نہیں کیا تھا۔ شام ہی نے اسرائیل کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا ۔ شامی صدر بشار الاسد کی دوستی و امن کی آشا کی انتہا کا اندازہ اس بات سے لگایا جائے کہ اسرائیل نے 2007 میں شام میں جوہری ری ایکٹر کو فضائی حملے میں تباہ کردیا اور صدر بشار الاسد نے خاطر خواہ جواب تک دینے کی زحمت نہ کی ۔ امریکا اور شام کے درمیان اتحاد کی اس سے بہتر اور کیا مثال ہوگی کہ بشارالاسد ساڑھے تین برس تک شام کے معصوم شہریوں پر مسلسل بم برساتا رہا اور امریکا کے ماتھے پر بل تک نہ آیا مگر جیسے ہی باغی بشار الاسد کو اکھاڑ پھینکنے کے اہل ہوئے امریکا نے ان پر ہی چڑھائی کردی۔ مگر آفرین ہو شام کے عوام پر جنہوں نے ہر موڑ پر باخبر ہونے کا ثبوت دیا اور امریکا کے سیاسی عزائم کو مسلسل ناکام بناتے ہوئے اسے اپنےسیاسی منصوبے فوری تبدیل کرنے پر مجبور کردیا۔
غور طلب بات یہ ہے کہ یہ ثمر کوئی ایک ماہ یا ایک سال کی جدوجہد کا نہیں بلکہ برسوں کی محنت کا تھا۔ مارچ 2011میں ملک گیر احتجاج کے آغاز کے بعد جب بات بشار کے دھڑن تختے تک جاپہنچی تو شامی عوام میں موجود سیاسی قائدین نے اس بات کو جانچ لیا کہ مصر، تیونس اور لیبیا کی طرح شام میں بھی عوام کو بشار کی حکومت کے متبادل کی صورت میں دھوکہ دیا جائے گا۔ اور اسی منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے امریکا نے بشار کے مخالفین کو صفوں میں کھڑا کرنا شروع کیا۔ اکتوبر 2011 میں Syrian National Council قائم کی گئی۔ نومبر میں عرب لیگ نے شام کی رکنیت معطل کرکے اس پر پابندیاں عائد کیں تاکہ بشار پر دباؤ ڈال کر اور اسے پس پشت ڈال کر اس کا متبادل تیار کیا جاسکے۔
حزب التحریر شامی انقلاب کے آغاز سے عوام میں مضبوط جڑیں بناکر انقلابیوں کی رہنمائی میں پیش پیش رہی ۔ حزب نے کفار کی اس سازش کو دو نومبر 2011 کو اپنے پمفلٹ کے ذریعے بے نقاب کیا ، " امریکا اپنے آلہ کار عرب لیگ کے ذریعے شامی حکومت کو مزید وقت فراہم کر رہا ہے تاکہ وہ مزید معصوم شہریوں کا خون بہا سکے اور اس دوران بشار کا متبادل تیار کیا جاسکے۔"
مخلص قائدین انقلابیوں کو اللہ سبحان و تعالیٰ کے اس فرمان کو بار بار یاد دلا رہے تھے کہ ،
"ان لوگوں کی جانب ہرگز راغب نہ ہونا جو ظلم کرتے ہیں، ایسا نہ ہو کہ تمہیں آگ پکڑ لے اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی مددگار نہیں ہوگا اور تمہاری مدد نہیں کی جائے گی۔" {سورۃ ہود 11:113}
ادھر مارچ 2012 میں اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے کوفی عنان کے غیرمشروط امن معاہدے کی توثیق کردی جس کی حمایت کا اعلان روس اور چین نے بھی کردیا تاہم پھر بھی خون کی ہولی جاری رہی۔ کوفی عنان کے مستعفی ہونے پر اقوام متحدہ نے الجزائر کے سفارتکار لخدار براہمی کو اقوام متحدہ اور عرب لیگ کا شام کیلیے ایلچی مقرر کردیا۔
جون 2012 میں پہلی جنیوا کنونشن کے انعقاد تک پچاس ہزار شہری لقمہ اجل بن چکے تھے۔ 30جون 2012 کو حزب التحریر نے امت سے خطاب میں جنیوا معاہدے کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے یہ واضح کیا کہ جنیوا معاہدے کی منظوری ایسا داغ ہوگی جس کو کبھی مٹایا نہ جاسکے گا ، یہ امت سے بغاوت ہوگی۔۔۔ روس اپنے مالک کے لیے تنخواہ دار ملازم سے زیادہ کچھ نہیں۔ ۔۔۔"
امریکا شام کی چاروں سرحدوں یعنی لبنان، اسرائیل، ترکی اور عراق پر بیٹھا تھا جب کہ روس کی موجودگی تو نہ ہونے کے برابر تھی۔ مگر وہ صرف مادی فوائد ، مسلمان ملکوں میں بڑھتی تبدیلی کی لہر اور وسطی ایشیا کے ممالک تک ان کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطرامریکا کی ہر چال میں اس کا اتحادی بنا رہا۔ جب کہ امریکا کا مقصد واضح تھا کہ جب تک متبادل تیار نہیں ہوجاتا شامی عوام کو خون میں نہاتے رہنے دیا جائے۔ یہاں تک کہ امریکا نے لیبیا کی طرح شام میں نو فلائی زون کا قیام بھی درست نہ سمجھا کہ کسی طرح فضائی بمباری سے ہونے والے جانی نقصانات کو ہی روکا جاسکے۔
نومبر 2012 میں قطر میں منعقدہ اجلاس میں نام نہاد اپوزیشن جماعتیں National Coalition for Syrian Revolutionary & Opposition Forces کی چھتری تلے یکجا ہوگئیں جن کا نعرہ جمہوریت کا قیام تھا۔ دسمبر 2012 میں امریکا، برطانیہ، فرانس، ترکی اور خلیجی ریاستوں نے معاذ الخطیب کی زیرسربراہی Syrian National Coalition کو شامی عوام کا نمائندہ قرار دینے کی کوشش کی تو اس موقع پر حزب التحریر نے امت پر یہ بات واضح کی کہ ،
" یہ ایک شرانگیز منصوبہ ہے، جسے امریکا اور اس کے حواریوں نے تشکیل دیا ہے۔ شام میں بے پناہ قتل و غارت گری کرکے دشمن ہمیں مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ ہم اس کٹھ پتلی اتحاد کو تسلیم کرلیں ۔۔۔ ۔"
اور الحمداللہ شام کے غیور عوام نے حزب التحریر کی مخلص پکار کا مثبت جواب دیتے ہوئے شامی اپوزیشن اتحاد کو مکمل طور پر مسترد کردیا۔ میدان عمل میں بشار الاسد سے برسرپیکار اہم ترین گروہ جبہۃ النصرہ اور التوحید نے اتحاد کو رد کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہ جمہوری نہیں بلکہ اسلامی ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔ انہوں نے شام کے قوم پرست جھنڈوں کو پس پشت ڈالا اور رایہ اور لواء کو ہاتھوں میں تھامنا شروع کردیا۔ منصوبوں کی مسلسل ناکامی کو دیکھتے ہوئے اپوزیشن اتحاد کے سربراہ معاذ الخطیب نے استعفیٰ دیا اور خود یہ انکشاف کیا کہ کچھ بیرونی عناصر اپوزیشن اتحاد سے اپنے کام نکلوانا چاہتے ہیں۔
جس کے بعد 13مارچ 2013 کو حزب التحریر نے امت کو اللہ کے اس قول سے خبردار کیا،
"اس عورت کی طرح نہ ہو جس نے اپنا سُوت مضبوطی کے بعد ریزہ ریزہ کرکے توڑ ڈالا۔۔"{ سورۃ النحل:92}
شامی قومی اتحاد کی ناکامی کے بعد امریکا نے شامی سیکولر بریگیڈز پر پیسہ لگانا شروع کیا ۔ واشنگٹن پوسٹ نے مئی 2013 کو خبر شائع کی کہ "امریکی حکومت اب سلیم ادریس پر جوا لگا رہی ہے ۔" اخبار نے مزید لکھا کہ ،"سلیم ادریس کے اعتدال پسند اور ذمہ دارانہ رویے پر بھروسہ کرتے ہوئے امریکی حکومت اس پر پیشہ لگانا چاہتی ہے۔" جس کے بدلے میں سلیم ادریس نے براک اوباما کو خط لکھ کر اس بات کا اظہار کیا کہ "اسے شام میں مداخلت کے حوالے سے امریکی پوزیشن کا اندازہ ہے ۔ سلیم ادریس نے امریکا سے مالی امداد اور ٹریننگ میں مدد کی درخواست کی اور یقین دہانی کروائی کہ وہ جہادی گروپوں سے نمٹنے کیلیے تیار ہے۔"
تمام منصوبے ایک طرف اور ایران اور حزب ایران کا استعمال کرکے شامی انقلاب کو فرقہ ورانہ رنگ دینے کی کوشش کا امریکی منصوبہ ایک طرف تھا۔ ایران کو بشار الاسد کی امداد میں اپنے عوام کو یہ بہانہ پیش کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی کہ ایران تو شام میں مقدس مقامات کی حفاظت کیلیے مداخلت کر رہا ہے۔ ادھر حمص اور لبنانی سرحد کے درمیان میں واقع اہم ترین شامی علاقے قصیر میں حزب ایران اور عسکری گروہوں میں لڑائی کا آغاز ہوچکا تھا اور یوں امریکا اپنی اس کوشش میں کافی حد تک کامیاب رہا کہ ظلم کے خلاف بغاوت کو فرقہ ورانہ رنگ دے کر بشار کی حکومت کو محفوظ بنایا جائے۔
دوسری جانب اب اسرائیل بھی شامی عوام کے خلاف کھل کر میدان میں آچکا تھا۔ حزب التحریر نے 7مئی 2013 کو امت سے خطاب میں ان علاقوں پر اسرائیلی بمباری کی تصدیق کی جہاں باغیوں کا پلڑا بھاری تھا " 5مئی 2013 کو اسرائیلی طیاروں نے شام پر بمباری کی ۔۔۔ یقیناً بشار حکومت یہود، امریکا اور اس کے حواریوں کو دشمن کے طور پر نہیں دیکھتی بلکہ اس کے دشمن تو بس شام کے عوام ہیں۔۔ اور یہی کھیل ہے جو امریکا اور اس کے حواری کھیلتے ہیں کہ ایک ایجنٹ کو دوسرے ایجنٹ سے تبدیل کردیا جائے۔"
ایک طرف شامی افواج کا بدترین ظلم جاری تھا تو دوسری جانب امریکا بھی مسلسل اپنی سیاسی چالیں چلنے میں مصروف تھا ۔ جارج صابرہ کی جگہ سعودی حمایت یافتہ احمد جربا شامی قومی اتحاد کے قائم مقام سربراہ کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھال چکے تھے۔ جب کہ عبوری وزیراعظم یہ کہہ کرعہدے سے مستعفی ہوگئے کہ وہ باغیوں کے زیرتسلط علاقوں میں حکومت قائم نہیں کرسکتے۔
اسی اثنا ء میں امریکا کے کئی زبانی دعووں اور دھمکیوں کے باوجود بشار نے اگست 2013میں دارالحکومت دمشق کے علاقے غوطہ پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کردیا جس میں تقریباً 300شہری جان سے گئے۔ امریکا کے مطابق تو یہ اس کی اپنی بنائی ہوئی سرخ لکیر تھی جس کو عبور کرنے پر امریکی صدر براک اوباما بار بار بشار کو دھمکیاں دیتا آیا تھا مگر حملہ ہوئے ڈیڑھ برس گزر چکے، آج تک بشار کے سر سے ایک امریکی طیارہ نہ گزرا۔ کیمیائی ہتھیاروں کا سارا ڈرامہ صرف اس لیے رچایا گیا کہ شام میں موجود کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کیا جاسکے تاکہ مستقبل قریب میں قائم ہونے والی خلافت کے پاس وہ صلاحیت ہی نہ ہو کہ وہ کفار کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکے، مگر وہ شائد بھول گئے کہ جنگ صرف عسکری قوت کےبل بوتے پرنہیں بلکہ ایمان کی طاقت سے لڑی جاتی ہے۔
شام کے بیدار عوام مسلسل دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بناتے آرہے تھے چاہے وہ بشار کے خلاف مزاحمت ہو یا سفارتی محاذ۔ 2014 کے اوائل میں دوسری جنیوا کانفرنس کی ناکامی اس بات کا واضح ثبوت ہے جب شامی اتھارٹی نے عبوری حکومت پر بحث کرنے سے انکار کردیا۔ حزب التحریر نے امت کی رہنمائی کا سلسلہ جاری رکھا" شامی عوام کو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہوگا اور اس بات کا یقین رکھنا ہوگا کہ فتح صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ آپ کو اپنے انقلاب کو شفاف انداز اور انتہائی وضاحت کے ساتھ برقرار رکھنا ہوگا ، وہ انقلاب جس کا آغاز یہ کہہ کر کیا گیا کہ 'یہ صرف اللہ کے لیے ہے، یہ صرف اللہ کے لیے ہے' اور اس بابرکت انقلاب کو جنیوا کانفرنس کی مذاکراتی میزوں پر فروخت کرنے سے ہر صورت باز رہا جائے، اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان یاد رکھنا جائے، " اے ایمان والو! اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ وہ تمہاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے میں نہیں چوکتے تمہیں جس چیز سے نقصان پہنچے وہی ان کو محبوب ہے ان کے دل کا بغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے ہم نے تمہیں صاف صاف ہدایات دے دی ہیں، اگر تم عقل رکھتے ہو (تو ان سے تعلق رکھنے میں احتیاط برتو گے) {سورۃ آل عمران: 118}
اور یقیناً امت کا نعرہ یہی تھا، "شعب یرید - الخلافۃ بالجدید"
ادھر امریکی حمایت یافتہ FSA بھی شدید ناکامی سے دوچار تھی۔ اسلام پسندوں نے اس کے قدم اکھاڑ کر رکھ دیے تھے ۔ پے درپے ناکامیوں کے پیش نظرFSA کی کمان سلیم ادریس سے بریگیڈیئر عبداللہ البشیر کو سونپی گئی۔ مگر شکست کے بادل مسلسل منڈلاتے رہے۔ ساری سیاسی چالیں شکست کھاچکی تھیں اس لیے ضروری تھا کہ حکمت عملی میں بنیادی تبدیلی لائی جائے ۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ عسکری تنظیم دولۃ اسلامیہ عراق و شام کو نشانہ بنانے کی آڑ میں امریکا بالآخر شام پر براہ راست حملہ آور ہوگیا ۔۔مگر یہ امت کے لیے کوئی انوکھی بات نہ تھی کیوں کہ اس کے متعلق امیر حزب التحریر شٰخ عطابن خلیل ابو الرشتہ مئی 2013 میں ہی آگاہ کرچکے تھے ۔ امیر حزب التحریر نے یہ واضح کیا تھا کہ ، "میڈیا کی سیکولر عناصر کو بے پناہ کوریج دینے کے باوجود سیکولر آوازیں بالکل دب کر رہ چکی تھیں اور امریکا خلافت کے قیام کیلیے اٹھنے والی آوازوں سے بوکھلاکر رہ گیا تھا۔"
امریکا اور اس کے حواریوں کے لیے صورتحال مسلسل بگڑتی جارہی تھی ۔ امیر حزب التحریر نے ڈیڑھ برس قبل ہی اس حقیقت سے پردہ اٹھادیا تھا کہ معاملات مکمل ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر امریکا نے تین نکات پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔ اول یہ کہ بشار کو قتل و غارت گری کی چھوٹ دی جائے تاکہ عوام کو اپنے منصوبوں کے سامنے گٹھنے ٹیکنے پر مجبور کیا جائے تاکہ شام میں سیکولر سول ریاست کا قیام ممکن بنایاجاسکے اور پھر مکمل ریاستی ڈھانچہ اور جمہوری نظام برقرار رکھتے ہوئے چہروں کو تبدیل کردیا جائے۔ تاہم کفار اور اسکے ایجنٹوں کو بیدار امت کے مقابلے میں ہمیشہ منہ کی کھانا پڑی ۔ شام کے عوام نے معاذ الخطیب، جارج سابرا، احمد جابرا ، عبوری وزیراعظم غسان ہیتو ، سلیم ادریس، عبداللہ البشیر، کوفی عنان ، لخدر براہمی ، جنیوا ون اور جنیو ٹو سمیت کفار کے تمام منصوبوں کو دھول چٹائی ۔
پہلا منصوبہ ناکام ہونے کی صورت میں ان کا دوسرا منصوبہ یہ تھا کہ اگر وہ اپنے حمایت یافتہ باغیوں یا حزب اختلاف کے ذریعے بشار الاسد کو عہدے سے ہٹانے میں ناکام رہے تو عالمی مداخلت کے ذریعے اپنی مرضی کی حکومت منتخب کی جائے گی ۔یہ دونوں منصوبے ناکام ہونے کی صورت میں کفار کی یہ سوچ تھی کہ معاملات اس حد تک بگڑ چکے ہیں ، ہر طرف اتنی تباہی پھیل چکی ہوگی کہ اگر اسلام کو اقتدار حاصل ہوبھی جاتا ہے تو امت مایوسی کے سبب نشاۃ ثانیہ حاصل کرنے کی خواہش رکھنے کے باوجود اپنے احیا ء کی جانب قدم نہ بڑھا سکے گی۔
مگر کفار اور ان کے پیروکار یہ سمجھنے میں قاصر رہے کہ یہ ایک بہترین امت ہے جسے دنیا کی امامت کے لیے چنا گیا ہے اور اس امت میں ایسے لوگ اب بھی موجود ہیں جو امت کو نشاۃ ثانیہ کی جانب لے جانا جانتے ہیں اور کفار و منافقین کے سارے منصوبوں کو ناکام بنادیں گے۔ یہ جانتے نہیں کہ یہ وہی امت ہے جس نے روم و فارس جیسے عظیم سلطنتوں کو ناکون چنے چبوانے پر مجبور کیا ، صلیبیوں کو ان کی اوقات یاد دلائی اور یہود و ہنود پر اپنا رعب و دبدبا طاری کیا۔ رب کائنات کا یہ فرمان کسی صورت جھٹایانہیں جاسکتا کہ ،
" تم وہ بہترین امت ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو یہ اہل کتاب ایمان لاتے تو انہی کے حق میں بہتر تھا اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایمان دار بھی پائے جاتے ہیں مگر اِن کے بیشتر افراد نافرمان ہیں۔"{ آل عمران:110}
امت مسلمہ کو اللہ نے وہ سب کچھ عطا کیا ہے جو اسے دنیا کی دیگر اقوام سے ممتاز کرتی ہے بس ضرورت ہے تو صرف اس بات کی کہ امت میں بیدار سیاسی شخصیات اور گروہ موجود رہیں جو امت کو کفار کے منصوبوں سے باخبر رکھیں ۔ اور اس باخبر اور باشعور حزب پر بھی یہ لازم ہے کہ وہ امت میں اپنی جڑیں مضبوط کرے اور امت کے ہر طبقے سے مستحکم روابط رکھے تاکہ امت حزب کے ساتھ آگے بڑھے اور کفار کے گھناؤنے منصوبوں کو ملیامیٹ کرنے کا سلسلہ جاری رکھے۔ امت کے فرزندوں کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم امت میں بہترین انداز میں دعوت رکھیں ، بہترین سیاست دان بنیں اور اس امت کو اس منزل تک پہنچائیں جس کی یہ مستحق ہے۔ یہ عمل ہمیں اس دنیا میں بھی عزت دلائے گا اور آخرت میں بھی ہمارا حساب شہدا ، صدیقین اور صالحین کے ساتھ کیا جائے گا، انشاء اللہ۔ بے شک عزت اور ذلت دونوں اللہ ہی کی طرف سے ہے۔
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا، " واللہ تم کسریٰ کے خزانے فتح کرو گے۔ میں نے کہا کسریٰ بن ہرمز کے؟ آپ ﷺنے فرمایا، ہاں کسریٰ بن ہرمز کے ۔تم میں مال کی اس قدر کثرت ہو پڑے گی کہ کوئی لینے والا نہ ملے گا۔ اس حدیث کو بیان کرتے وقت حضرت عدی نے فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فرمان پورا ہوا ۔ یہ دیکھو آج حیرہ سے سواریاں چلتی ہیں بےخوف خطر بغیر کسی کی پناہ کے بیت اللہ پہنچ کر طواف کرتی ہیں ۔ صادق و مصدوق کی دوسری پیشنگوئی بھی پوری ہوئی۔ کسریٰ کے خزانے فتح ہوئے میں خود اس فوج میں تھا جس نے ایران کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور کسریٰ کے مخفی خزانے اپنے قبضے میں لئے۔ واللہ مجھے یقین ہے کہ صادق و مصدوق (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تیسری پیشین گوئی بھی قطعاً پوری ہو کر ہی رہے گی۔"
واللہ ہمیں بھی یقین ہے کہ رسول ﷺ کی "نبوت کے نقش قدم پر خلافت کے دوبارہ قیام " کی بشارت بھی ضرور پوری ہو کر رہے گی۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
انجینئرعمیر ، پاکستان