بسم الله الرحمن الرحيم
تقریر - 9
معاشی بحران اور سرمایہ داری نظام کی حقیقت
جمال هاروود – بريطانيا
اللہ سبحانہ و تعالیٰ قران مجید میں فرماتے ہیں:
﴿وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا﴾
"اور اسی طرح ہم نے تم کو امتِ وسط (معتدل) بنایا ہے، تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر (آخرالزماں ﷺ) تم پر گواہ بنیں۔" 2:143
لیکن یہ معاملہ کسی مخصوص دور تک محدود نہیں ہے۔ یہ معاملہ صرف رسول اللہ ﷺ کے دور کے مسلمانوں تک محدود نہیں بلکہ ہر دور کے مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ اوربے شک نبی ﷺ ہم پر گواہ ہیں ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں ہرطرح سے جوابدہ ٹھراتے ہیں ۔
نبی ﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا
«لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالَّذِي يَشْبَعُ وَجَارُهُ جَائِعٌ إِلَى جَانِبِهِ»
"وہ شخص مومن نہیں ہے جو خود پیٹ بھر کر کھانا کھائے اوراس کا پڑوسی بھوکا رہے" (السیوطی)
اس کے باوجود غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بے گھرلوگوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور امت اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہی. اور اب 100 سال ہو گئے ہیں۔
–گزشتہ سال فروری میں بی بی سی پر گولڈمین سیکس انویسٹمنٹ منیجر کے سابق چیئرمین جم اونیل نے انٹرویو میں کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ کورونا وائرس کتنا تباہ کن ہے لیکن یہ بات زور دے کر کہی کہ سرمایہ دار "ایک اچھا بحران ضائع نہیں ہونے دیں گے"۔ اور ایک سال بعد ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس کا مطلب کیا تھا۔
• تمام ممالک یا تولاک ڈاؤن (گھروں میں نظر بندی) میں ہیں یا اس سے باہرآ رہے ہیں۔
• چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار بند ہو گئے
• اسکول بند ہوچکے ہیں
بڑھ رہا ہے غربت میں اضافہ اور حکومتی امداد پر انحصار
• حقوق اور آزادیوں میں کمی ہو رہی ہے
اور ہر جگہ دولت مند اورزیادہ دولت مند ہو تے جا رہے ہیں–
عالمی ادارہ صحت کے ڈیوڈ نابارو سرمایہ دارانہ نظام کو ذ مہ دار ٹھراتے ہوے کہتے ہیں کہ ہم اس سال کہاں آ پہنچے ہیں :
"دیکھوپوری دنیا میں چھوٹے کسانوں کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ ... دیکھو غربت کی سطح کہاں پہنچ گئی . ایسا لگتا ہے کہ اگلے سال دنیا میں غربت دوگنی ہو جائے گی ۔ اور بچوں میں غذائی قلت بھی کم از کم دو گناہو جاے گی ۔ "
کیا یہ سب ایک وائرس کی وجہ سے ہے؟نہيں!کوروناوائرس ہو یا نہ ہو ،سرمایہ دارانہ نظام غربت اور زندگی کی بربادی کا سبب بن رہا ہے۔گزشتہ سال نے جھوٹ اور منافقت کو بھی بے نقاب کیا ہے۔
برطانوی حکومت نے گزشتہ سال مارچ میں ہم سب کو اپنے گھروں میں نظر بند کر دیا تو کسی نے پوچھا کہ "ان لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے جن کے پاس گھر نہیں ہیں؟" ہزاروں لوگ جو سڑکوں پر کھلے آسما ن تلے سوتے ہیں۔ کتنے شرم کی بات ہے! لوگوں کے پاس گھروں میں نظر بندی کے لیے گھر بھی نہیں ہیں ۔ خیر، میں نے جانسن حکومت کو اتنی تیزی سے حرکت میں آتے کبھی نہیں دیکھا۔ ایک ہفتے میں برطانیہ میں کوئی رہائش کے بغیر نہیں تھا۔ اپنی پالیسیوں کے واضح مسئلے سے بچنے کے لئے انھوں نے ہزاروں بےگھرلوگوں کو رہائش فراہم کر دی ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر یہ چاہیں تو مسئلہ کا حل نکال سکتے ہیں۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام اس طرح سے کام نہیں کرتا۔ اس نظام کا مقصود عام لوگوں کے مسئلے کا حل نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک خاص اقلیتی طبقے کے مفاد میں کام کرتا ہے۔
عالمی آبادی کے ایک فیصد کا پوری دنیا کی ۴۴ فیصد دولت پر اجارہ داری ہے اور دولت کا یہ فرق ہر سال بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
کچھ لوگ "ازسرنو ترتیب "(ری سیٹ) کرنے کی بات کرتے ہیں۔
کوئی ازسرےنو ترتیب (ری سیٹ)نہیں ہے بلکہ وہی پرانا نظام چلتا جارہا ہے:
۔ چند محدود ہا تھوں میں دولت کا ارتکاز
۔ عیسائی راہب اور معیشت دان Thomas Robert Malthus کی پالیسیاں جو کہ آبادی کو محروم اور کم کرنے کا حل پیش کرتی ہے۔
۔ مزید غربت، چھوٹے کسان اورچھوٹے کاروبار کو ختم کرنا۔
۔ استحصالی مالی منڈیوں اور پیشوں کے ذریعے وسائل کی لوٹ مار شامل ہے۔
آج سے 50 سال قبل ازسرے نو ترتیب (ری سیٹ) کے عمل کے تحت ڈالر کی ازسرےنو ترتیب کا عمل شروع ہوا تھا۔ امریکیوں نے Bretton Woods کےسونے کے میعار gold standard سے دنیا کو ہٹا دیا۔ جس کے بعد 50 سال میں ڈالر کی قیمت میں 550 فیصد تک کمی ہوگئی۔ وہ زیادہ سے زیادہ ڈالر چھاپ رہے ہیں اب تو یہ ڈالر وں کی گنتی لاکھوں یا اربوں میں نہیں کرتے بلکہ کھربوں ڈالر میں کرتے ہیں ۔
دنیا کا سرمایہ دار نہ نظام قرض پر مبنی ہے جوکہ ناقابل ادا 300 ٹریلین ڈالر کا قرض ہے۔ مکمل ناقابل ادا قرض، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ یہ اس کو fiat money ، ناقبل بدل کاغذی کرنسی ،سے بدلنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں ۔
سرکاری مرکزی بینک آپ کی نقد رقم کو تبدیل کرنے اور چھیننے کے لئے نئی Digital Crypto Currencies شروع کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ Digital Crypto بھی fiat money ہے، اور اسے سونے یا چاندی کی پشت پناہی حاصل نہیں ہے ۔ لیکن اس بار یہ منفی شرح سود کے ساتھ ہو گا- یہ کوئی بھی رقم بچانے کی سزا ہے جو ضبطی دولت کی ایک قسم ہے۔ افراط زر کے ذریعے ضبط کرنا یاخرچ کرنے پر مجبور کرنا جس طرح نظام چاہے، اور اگر آپ اسے خرچ نہیں کریں گے تو وہ اسے "منفی شرح" سود کے ذریعے چھین لیا جائے گا۔ یہ حقیقتا ایک اور ٹیکس ہے، اور ہر ایک کے تمام اخراجات کو دیکھنے اور کنٹرول کرنے کی صلاحیت ہے۔
یہ بہت بڑا ظلم ہے۔
چینیوں نے پہلے ہی اپنی ڈیجیٹل کرنسی کا اجرا کر چکے ہیں۔
بس کوئی روکنے والا نہیں ہے. مسلمانوں کے خلاف جنگیں اور مداخلتیں تیزی سے جاری ہیں۔
یہاں تک کہ عالمی اقتصادی فورم مسلم دنیا کو سختی سے جکڑنےہیں فخرمحسوس کرتا ہے۔ حال ہی میں انہوں نے کہا:
"موجودہ تنازعات کی پیچیدگی اور ممکنہ تسلسل کے پیش نظر 2030 تک دنیا کے 80 فیصد انتہائی غریب ایسے علاقوں میں رہیں گے جنہیں حساس قرار دیا گیا ہے– جن میں مسلم اکثریتی ممالک یا قابل ذکر مسلم آبادی والی ریاستیں ہوں گی
"
اور یہ ایک درد ناک اور شرم کی بات ہے کہ مسلم امہ کے وہ علاقے جو دنیا کوغذائی وسائل مہیا کرتے تھے اب غاصبانہ قبضے، بدعنوانی اور حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے اپنی غذائی ضرورت پوری کرنے سے قاصر ہیں– لیکن قرضوں کی مد میں اپنے وسائل مغربی استعماری مہاجن ۔ آئی ایم ایف کو کھلا رہے ہیں ۔ International Food Policy Research Institute کے مطابق ہماری زمینوں میں غذائی بحران کے حل پر 7 ارب ڈالر کی لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔*** پھر بھی کوئی بھی اس چھوٹی سی رقم کی ادائیگی کے لئے کوشش نہیں کر رہا ۔
عالمی اقتصادی فورم اب نئے ٹیکسوں پر زور دے رہا ہے، یہاں تک کہ زکوٰۃ کے تصور سے ملتے جلتے دولت کےٹیکس بھی تجویز کر رہا ہے۔ انہوں نے حال ہی میں کہا:
"اگر (دستیاب نقد رقم) پر 2 فیصد ٹیکس لگایا جاے تو سال میں 1.6 ٹریلین ڈالر جمع ہو سکتے ہیں۔"
لیکن یہ اس دولت ٹیکس کواپنے مصنوعی قرضوں اور دولت کی چھپائی کے لیے استمال کرنا چاہتے ہیں ناکہ غربت کے خاتمے کے لئیے ۔
سرمایہ دارانہ نظام انصاف پر مبنی نہی ہے یہ غربت کے خاتمے کے بجاے مزید غربت پیدا کرتا ہے۔ اس نظام کا مقصد محض دولت کو چند مخصوص لوگوں کے ہاتھوں میں مرکوز کرنا ہے ۔ یہ سوچنا بھی بےوقوفی ہو گا کہ یہ کبھی بدل سکیں گے ۔ یا ان سے یہ توقع رکھنا کہ یہ ان مسائل کا حل نکال لیں گے جو انہی کے پیدا کردہ ہیں۔
اختتام سے پہلے میں کچھ حتمی خیالا ت پیش کرنا چاہتا ہوں
کافروں کو اختیار یا قیادت دینا حرام ہے
﴿وَلَن يَجْعَلَ اللّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلاً﴾
"اور اللہ کافروں کو ایمان والوں کے خلاف کبھی کوئی راستہ نہیں دے گا" [نساء 4: 141]
مسلم دنیا اور مغرب میں ہم جومسائل دیکھتے ہیں وہ زندگی میں اسلام کی عدم موجودگی کے باعث ہیں۔ اسلامی معاشرے کے بغیر اسلامی معیشت نہیں قائم ہو سکتی اور اسلام کی حکمرانی کے بغیر کوئی انصاف پسند معاشرہ نہیں ہو سکتا۔
اور اب ہم 100 ہجری سال کے بعد بھی اس حالت میں ہیں کہ ہماری گردن پر بیعت نہی اور ہماری ڈھال ہمارے پاس نہی جوکہ ہمارا امیر ہمارا خلیفہ ہے ۔
سورہ آل عمران میں اللہ کا حکم ہے
﴿وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾
"اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھے کام کا حکم دیں اور برے کام سے منع کریں اور یہی لوگ مراد کو پہنچے" 3:104 .
سو سال بعد ہماری ترجیح واضح طور پر خلا فت کو دوبارہ قائم کرنا اورآگے آنے والے خلفاء کو بیعت دینا ہے۔
یہ امت کی توانائی اورانتہک محنت کے بغیر ممکن نہی ہے حکومت اور نظام کو تبدیل کرنے کے لیے ایک مخلص گروہ کی قیادت درکار ہے
اس تبدیلی کے بغیردنیا میں حقیقی ٹھوس، اور سونے چاندی کی پشت پناہی والی کرنسی وجود پزیر نہی ہو سکتی ۔
خلافہ علی منھاج النبوہ ہی وہ واحد ضابطہ حیات ہے جو سود کو صریحا ً منع کرتا ہے خواہ وہ مثبت ہو یا منفی۔
اسلامی ریاست چھوٹے کاروبار اور چھوٹے پیمانے پر کاشت کاری بند کرنے کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
اورانہیں بڑی کارپوریشنوں کو دینے اور اثاثے ضبط کرنے کی بجائے شہریوں کو مفت میں زمین یا کوئی اور اثاثے دے کر ، یا باڑ لگانے کی اجازت دے کر ان کی مد د کرتی ہے۔
خلیفہ عوام پر کبھی بڑھتے ہوئے ٹیکسوں کا بوجھ نہیں ڈالے گا۔ اور زکوٰۃ کا استعمال قرآن کی ہدایت کے مطابق ہی کیا جائے گا۔.
اے اللہ ہماری مدد کیجئے تاکہ ہم آپ کے پیغام کو واضح طور پر سمجھ سکیں اور اسے آگے پہنچا سکیں
﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ﴾
"ہم نے آپ کو (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نہیں بھیجا سوائے رحمت بنا کر تمام عالمین کے لیے"[الانبياء: 21: 107] .