بسم الله الرحمن الرحيم
تقرير 10
حزب التحریر ہی کیوں؟
شيخ يوسف مخارزة – فلسطين
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جو دونوں جہانوں کا رب ہے۔ اللہ کے رسولِ امین ﷺ پر درود و سلام کے بعد،
امت کا اصل مقصد، جو کہ خلافت ہے،عظیم ذمہ داری کے اعتبار سے، بوجھ کے اعتبار سے،راستے کی مشکلات کے اعتبار سے ،خارجی طور پر کفر ریاستوں اور ان کے نظاموں اور اندرونی طور پر ایجنٹوں، منافقوں، جاہلوں اورحقیقت پسندوں میں موجود کثیر دشمنوں کے اعتبار سے ایک بہت مشکل کام تھا۔
جو طریقہ کارکے حوالے سے اختلاف کرتے ہیں جن میں وہ شامل ہیں جو اپنے آپ کو اعتدال پسند کہتے ہیں، اوروہ جو انتہا پسند ہیں اور وہ جو موجودہ حقیقت کو اسلامی سمجھتے ہیں کہ جسے معمولی کمی بیشی سے ٹھیک کیا جا سکتا ہے،اور وہ جو معاشرے میں موجود لوگوں کو کفار کے طور پر دیکھتے ہیں کہ وہ واجب القتل ہیں، حزب التحریر امت کی اس حقیقت کو اسلام کی جامع سوچ (ideology) کے زاویے سے دیکھتی ہے۔ یہ لوگوں کو مسلمان کی حیثیت سے دیکھتی ہے جن پرکفر کی حکمرانی مسلط کی جارہی ہے، اور اس مسئلے کو امت کی زندگی سے اسلامی نظام کی زبردستی عدم موجودگی کے طور پر دیکھتی ہے، اور یہ کہ کوئی بھی اصلاحات کاعمل اس وقت تک مؤثر اور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوگا جب تک کہ امت اپنے دین اور اپنی حقیقت سے آگاہی کے ساتھ ساتھ اپنے معاشرتی تعلقات کو اسلام کے عقیدے سے نکلنے والے احکام کے ذریعے ٍقائم کرنے کا عزم نہ رکھے۔
حزب التحریر یہ سمجھتی ہے کہ پیوند لگانے کی کسی طرح کی بھی کوشش فساد کے اس دور کو مزید طویل کرے گی، اور استعمار کے ذرائع کے ساتھ کوئی بھی اتحاد یا تعلق غلامی اور گمراہی ہے ، اور جزوی فوائد کو حاصل کرنے کیلئے اسلام کے ذریعے حکمرانی کو پسِ پشت ڈال دینا موجودہ صورتحال کو رضامندی سے قبول کر لینا ہے۔
لہذا ، حزب نے امت میں یہ فہم اجاگر کرنے کابیڑا اٹھایا اور امت میں شعور بیدار کرنے کے لیے کام کیا تاکہ وہ اسلام کو اپنی آئیڈیالوجی کے طور پراختیار کرے اور حزب کے ساتھ مل کر زندگی میں اسلام کے مکمل عملی نفاذکی کوشش کرے۔ تو کٹھ پتلی حکمرانوں نے اس کا مقابلہ تشدد ، ظلم و ستم ،ذریعہ معاش پر پابندی ، قید اور بعض اوقات قتل سے کیا۔ اللہ کے فضل و کرم سے ،یہ جماعت ثابت قدم رہی اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ صبر کرتے رہے تاکہ اس کے اراکین اپنا اجر اللہ رب العالمین سے حاصل کریں۔یہ جماعت، اللہ کے رسولﷺ کے اس طریقہ کار پر عمل پیرا ہوکر ایک مضبوط ایمان والے باشعور گروہ کی تشکیل کے طریقہ کار پر عمل پیرا ہے جو معاشرے کے ساتھ رابطے کے لیے نکلے تاکہ ان غالب نظریات اور نظاموں کی نشاندہی کرے اور ان کو اسلام سے تبدیل کردے۔
حزب نے وطنیت پرستی، قوم پرستی ، جمہوریت ، اشتراکیت اور مخلوط خیالات جیسے فاسد نظریات کا مقابلہ کیا، اور اس نےاس فساد پر پلنے والی تاریک قوتوں کا بھی مقابلہ کیا۔
رسول اللہ ﷺ کے طریقہ کار پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے حزب ختم ہو جانے اور نقصان پہنچنےسے محفوظ رہی۔ اس نے فساد کے ساتھ سمجھوتہ یا مفاہمت کرنے کو قبول نہیں کیا اور کفریہ نظاموں میں شرکت کو بھی قبول نہیں کیا۔
لہذا، اللہ سبحانہ وتعالی نے حزب کو ان لوگوں کے ساتھ پیش آنے والے نتائج سے بچایا جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے طریقہ کار سے تاویلات کے ذریعے انحراف کیا،اور وہ اپنے اعمال کے شرمیں پھنس گئے۔ وہ اس کرپٹ حقیقت کا ایک لازمی جزو بن چکے ہیں ، ان کا میڈیا یہودیوں اور عیسائیوں کو خوش کرنے کے لیے غیر ذمہ داری میں مقابلہ کرتا ہے۔ جبکہ حزب ثابت قدم رہی اور اس نے سمجھوتہ نہیں کیا، نہ ہی چاپلوسی کی اور نہ ہی مشکوک کاموں میں ملوث ہوئی۔ بلکہ صورتحال کی سختی اور مشکلات کے باوجود وہ ثابت قدم ہے۔ اس کی وجہ حزب کا یہ ماننا ہے کہ کامیابی کا ذریعہ امت کا اسلام کی آئیڈیالوجی کو قائد بنانا ہے نہ کہ حزب کو قیادت دینا۔
امت آج حزب کے طریقہ کار سے پہلے سے کہیں زیادہ قریب آچکی ہے کیونکہ اس امت نے کرپشن کے ساتھ مفاہمت کی کوشش کی، اس نے انتہا پسند لوگوں کو آزمایا اور اس نے حزب کے رد کردہ تمام نظریات کو آزمالیا۔ اور امت کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے صرف ایک ہی آپشن بچا ہے اوروہ یہ ہے کہ لوگوں کے تعلقات میں اسلام قائم کیا جائے اور اس طرح امت حزب کی قیادت میں چلنے کیلئے پہلے سے کہیں زیادہ تیار ہے کیونکہ یہ امت گمراہ کن تجاویز کی ناکامیوں اور بھٹکنے کے بعد کے اثرات کا مشاہدہ کر چکی ہے۔ لہذا حزب امت کی توجہ کا مرکز بن گئی اور امت اور حزب کے درمیان راستہ بہت واضح ہوگیا جس میں کوئی ابہام نہیں۔
امت کو ان لوگوں کا بھی سامنا درپیش ہے جو کفار کے منصوبوں پر عمل پیرا ہیں ، یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ اچھا کام کر رہے ہیں، حلانکہ وہ عالمی سیاست اور اور کفار کے ارادوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یہاں تک کہ بہت ساری تحریکات اپنے دشمن کا بوجھ اٹھا کر چلتے چلتے انہیں وہاں تک پہنچا دیتی ہیں جہاں خود پہنچنا ان کیلئے نہایت مشکل ہے۔ وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ اسلام کی خدمت کررہے ہیں لیکن دراصل وہ کفار کے منصوبوں پر عمل پیرا ہیں! یہ اندھےپن کی حدہے جو بین الاقوامی اور مقامی صورتحال پر سیاسی شعور کی اہمیت سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ لہذا اپنے طریقہ کار کی وجہ سے حزب التحریر کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ کفار کے مقاصد حاصل کرنے کیلئے ان کی مدد و حمایت کر سکے۔
مزید یہ کہ، بہت ساری تحریکات کے اقتدار میں آنے سے حقیقت میں تبدیلی نہیں آئی اور نہ ہی کفر کی علامات ختم ہو سکیں ، اورنہ ہی امت اس پر مسلط کردہ کفر یہ نظام کو اکھاڑ کر پھینک سکی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تبدیلی محض ظاہری تبدیلی تھی ، جہاں ریاست کی جڑیں اپنا اثر قائم رکھتی ہیں اور ریاست کے ستونوں پر کنٹرول موجود رہتا ہے اور ان لوگوں پر بھی جو لوگ ووٹ کے ذریعے حکومت میں پہنچتے ہیں جو اس وقت تک اقتدار میں رہتے ہیں جب تک فوج ان کی حکومت گرا نہ دے جس پر ریاست کی جڑوں کا انحصار ہے۔
لہذا ، امت کی کوششیں بیکار ہوگئیں جب اس نے ان لوگوں کی پیروی کی جو معاشرے کے دل میں گھسنا چاہتے تھے، مگر ان کو حقیقی قوت نہ مل سکی اور وہ معاشرے سے بے دخل کردیئےگئے۔
جب لوگ پوچھتے ہیں کہ حزب التحریر ہی کیوں؟ ہم ان سے کہتے ہیں: اس لیے کہ یہ خلافت کو اپنا مقصد بنانے کے علاوہ کسی اور کام کا حصہ بننا قبول نہیں کرتی ، ایسے کام جس میں ایجنٹ شامل ہوں اور جسے کافر ممالک نے وضع کیا ہو، حزب چاہتی ہے کہ امت واقعتا اپنی مرضی کی مالک ہو ، اور یہ غیر اخلاقی ایجنٹوں کی حکومتوں میں حصہ نہیں لیتی۔ اور اس لیے کہ یہ اپنی شریعت کے طریقےکو فراموش نہیں کرتی ، اور نہ ہی یہ بیکار گفتگو میں مشغول افراد کے ساتھ وقت ضائع کرتی ہے، اور ناپاک نشستوں پر نہیں بیٹھتی اور منافقوں کی چاپلوسی نہیں کرتی ، ادھورے حل قبول نہیں کرتی اور ذلیل غلام ریاستوں کو قبول نہیں کرتی ۔ یہ ذاتی مفاد اور سیاسی عہدوں کے لیے سرکردہ نہیں ہوتی۔ یہ راہ حق پر ثابت قدم ہے اور باطل سے اعراض کرتی ہے اور امت کے دشمنوں کا سامنا کرتی ہے ، اسلام کو غفلت برتنےاوراسلامی شعائر کو ترک کرنے والوں اور اسلام کو شدت پسند ظاہر کرنے والوں کے اعمال سے پاک کرتی ہے۔ یہ امت کیلئے دوست اور دشمن میں فرق واضح کرتی ہے، اورامت کو مشکلات میں ثابت قدم رہنے کی دعوت دیتی ہے
چونکہ حزب اللہ سبحانہ وتعالی کے احکام کے علاوہ کسی دوسرے حکم کو یا جواللہ کی شریعت سے اخذ نہ کیا ہو، اسے قبول نہیں کرتی ، اس لیے حزب عزت کے سراب میں نہیں پڑتی جبکہ حقیقت ذلت کی ہے۔ اور چونکہ حزب التحریر امت کو یہ کہہ کر تقسیم نہیں کرتی کہ یہی واحد اسلامی گروہ ہے اور باقی سارے جہنم میں ہیں۔ بلکہ یہ ایسی حزب ہے جس نےاپنے آپ کو اسلام کےخاص فہم سے منظم کیا ہے۔ جو اس پر امت کی خدمت کو لازم کرتا ہے کہ امت کو شرعی احکامات کے مکمل عزم کے ساتھ نجات کی راہ کی طرف گامزن کیا جائے۔ وہ اس طریقے سے انحراف نہیں کرتے حتی کہ اپنے رب سے جاملیں۔
یہ سب حزب کا اسلام کے بارے میں شعور، دنیا کے بارے میں شعور اور عالمی صورتحال کے بارے میں علم و فہم کی وجہ سے ہےجس کیلئے حزب کسی تعریف اور تسکین کی خواہشمند نہیں۔
ان سب کی وجہ سے ، ہمارا انتخاب حزب التحریر ہے، وہ رہنما جو اپنے لوگوں سے جھوٹ نہیں بولتا۔ لہذا، ہمارے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اسلامی ریاست کے قیام کےلیے کام کریں، کیونکہ یہی ہماری عزت ، ہمارے رب کی رضا اورجہاد کے ذریعے ہمارے علاقوں کو آزادکروانے کا ذریعہ ہے۔