الثلاثاء، 08 جمادى الثانية 1446| 2024/12/10
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

المكتب الإعــلامي
ولایہ افغانستان

ہجری تاریخ    18 من ذي الحجة 1445هـ شمارہ نمبر: Afg. 1445 / 30
عیسوی تاریخ     پیر, 24 جون 2024 م

پریس ریلیز

معدنیات نکالنے کے لیے حکمران حکومت کا طریقۂ کار دشمن (محارب) ریاستوں کو مضبوط کرے گا اور افغانستان کے مسلمانوں کو کمزور کردے گا !

 

         افغانستان کی وزارتِ معدنیات اور پیٹرولیم نے اعلان کیا ہے کہ گزشتہ ڈھائی سال کے عرصہ میں، افغانستان کے معدنیات کے شعبے میں سات ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ اس عمل میں، ملکی کمپنیوں کے علاوہ، قطر، ترکی، روس، ایران، چین اور برطانیہ کی کمپنیوں نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ افغانستان کی تاریخ میں معدنیات میں سب سے بڑی سرمایہ کاری تصور کی جا رہی ہے۔

ولایہ افغانستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس اس معاملے کے بارے میں مندرجہ ذیل اہم نکات کو قابل غور سمجھتا ہے:

 

اول : افغانستان کی کانیں عوامی ملکیت ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ الْمَاءِ وَالْكَلَإِ وَالنَّارِ»

”مسلمان تین چیزوں میں شراکت دار ہیں: پانی، چراگاہ اور آگ‘‘۔

اس حدیث میں ”آگ‘‘ کی اصطلاح کا مطلب ایندھن، توانائی اور اس سے اخذ کردہ اشیاء ہیں۔ اس طرح شریعت نے معاشرے کے تمام افراد کو عوامی ملکیت سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دے دی ہے۔ مثال کے طور پر، سعودی عرب کے تیل، قطر کی گیس، اور افغانستان کی کانوں میں تمام مسلمانوں کا حصہ ہے۔ لہٰذا، جو بھی حکومت مسلم امہ کی کانوں کا کنٹرول سنبھالتی ہے، اس پر لازم ہے کہ وہ کان کنی اور ان سے حاصل ہونے والی معدنیات کے استعمال کو شریعت کے اصولوں کے مطابق رکھے۔ شریعت کا اصول یہ ہے کہ کانوں کو عام اور ترقیاتی ریاستی بجٹ کے لیے آمدنی کا ذریعہ نہیں بنایا جانا چاہیے، سوائے ان حصوں کے جو مسلمانوں کی اجتماعی بہبود سے متعلق ہوں۔ مزید یہ کہ شریعت کے نقطہ نظر سے بڑی اور اہم نوعیت کی حامل کانوں کو نجی کمپنیوں کے حوالے کرنا جائز نہیں ہے۔ بلکہ، اسلامی ریاست عوام کی طرف سے کان کنی کرنے کی ذمہ دار ہے اور اس سے حاصل ہونے والا منافع مکمل طور پر عوامی بہبود اور خدمات پر خرچ ہونا چاہیے۔ یہ حکم تمام قسم کی عوامی ملکیت پر لاگو ہوتا ہے، چاہے وہ معدنیات نکالنا، کان کنی، صفائی، پیداوار، یا تقسیم ہو۔ لہٰذا، حکومت کا حالیہ عمل جس میں بڑی اور اہم نوعیت کی حامل کانوں کو نجی کمپنیوں کے حوالے کیا جا رہا ہے، ایک ناجائز عمل ہے اور سیاسی طور پر خطرناک نتائج کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

 

دوم: افغانستان کی سرزمین قیمتی اور متنوع قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ اس وقت چین، روس اور امریکہ نہ صرف افغانستان کے قدرتی وسائل پر نظریں جمائے ہوئے ہیں بلکہ وہ یا تو ان کانوں کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا اپنے حریفوں کو افغانستان کی اسٹریٹجک کانوں تک رسائی سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مزید یہ کہ یہ ممالک اپنے سیاسی اور انٹیلیجنس مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے معدنیات نکالنے والی کمپنیوں کو ایک پردے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ چونکہ افغانستان کی کانوں سے کان کنی کا عمل عالمی توانائی کی منتقلی اور مائیکرو چپ کی پیداوار کے لئے اہم کردار ادا کر سکتا ہے، اسی لئے بڑی طاقتیں افغانستان کی اسٹریٹجک کانوں اور نایاب عناصر کے معاہدوں پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ اور ان تک رسائی حاصل ہونا عالمی سیاسی کھیل میں توازن کو کسی ایک طاقت کے حق میں موڑ سکتا ہے۔ اس لیے حکمرانوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ افغانستان کی کانوں کو اس طرح سے منظم کریں کہ محارب ریاستوں کی معیشت اور صنعت مضبوط نہ ہونے پائے۔

 

سوم: معدنی وسائل کی تلاش، کان کنی، پروسیسنگ، اور نیلامی کے موجودہ عمل میں شفافیت اور مربوط نظام کا فقدان ہے، اور حکومتی نظام میں کچھ بااثر عہدے داروں کا ٹھیکوں اور استحصال میں اہم کردار پایا جاتا ہے۔ اس عمل کو جاری رکھنے سے افغانستان کو ”وسائل کے وبال" کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس سے یہ ملک سیاسی تنازعہ اور غیر ملکی ممالک اور داخلی دھڑوں کے درمیان مقابلے کا ذریعہ بن گیا ہے۔" "Resource Curse ”(وسائل کا وبال) ‘‘ ایسی حالت ہے جہاں معدنی وسائل اقتصادی ترقی اور استحکام کی بجائے غربت، بدحالی اور شدت پسندی کا سبب بنتے ہیں۔ اس خطرناک حالت کی علامات پہلے ہی دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہاں تک کہ اگر برسراقتدار حکومت کان کنی سے اربوں ڈالر بھی کمائے، تب بھی یہ ملک ایک دولت مند، پیداواری ریاست میں تبدیل نہیں ہو سکے گا بلکہ ایک صارف ریاست ہی بنا رہے گا۔

 

چہارم: ممالک کا مشاہدہ کرنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ معدنی وسائل کے غیر منظم استعمال سے عدم استحکام کی راہ ہموار ہوتی ہے۔

افغانستان صرف ایک ایسے نظام کے ذریعے "ریسورس کرس (وسائل کے وبال)" سے بچ سکتا ہے جو اسلامی افکار اور اصولوں کی بنیاد پر معدنی وسائل کا انتظام کرتا ہو، جیسا کہ اللہ تعالیٰ معدنی وسائل کی اہمیت اور استعمال کے بارے میں فرماتے ہیں

:

﴿وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ ۚ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ﴾

”اور ہم نے لوہا پیدا کیا اس میں (اسلحہٴ جنگ کے لحاظ سے) زور بھی شدید ہے۔ اور لوگوں کے لئے فائدے بھی ہیں اور اس لئے کہ اللہ معلوم کرے کہ کون ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں کی بن دیکھے مدد کرتے ہیں۔ بےشک اللہ قوی (اور) غالب ہے‘‘ ( الحديد؛ 57:25)

 

اس آیتِ مبارکہ پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام کے نقطہ نظر سے، معدنی وسائل بنیادی طور پر دو مقاصد کے لیے استعمال کیے جانے چاہئیں۔ (1) اللہ کے دین کی نصرت (نفاذ) کے لیے مسلح حربی تیاریوں میں ان کا استعمال اور (2) انسانی ضروریات اور فوائد کو پورا کرنے کے لیے ان کا استعمال۔

 

لہٰذا، معدنی وسائل کے لئے کان کنی کرنا اور ان کے استعمال کی کوئی بھی کوشش جو شریعت کے اصولوں، تقویٰ، اور گہری سیاسی بصیرت پر مبنی نہ ہو، عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے میں مددگار ثابت نہیں ہو گی، بلکہ طاقتور ممالک کے اثر و رسوخ اور بے اطمینانی کا باعث بنے گی۔ معدنی وسائل ایک نعمت ہیں جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ایک قوم کو عطا کیے ہیں؛ لہٰذا، ان وسائل کو مؤثر اور جائز طریقے سے عوام کے فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہیے، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان وسائل کو ایک صنعتی ریاست کی بنیاد رکھنے کے لیے استعمال کیا جائے جس کی جدید فوجی ٹیکنالوجی اسلام کے جامع نفاذ اور دیگر قوموں تک اسلام کا پیغام، دعوت اور جہاد کے ذریعے پہنچانے کے لیے ہو۔

ولایہ افغانستان  میں حزب التحرير کا میڈیا آفس

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
ولایہ افغانستان
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 
www.ht-afghanistan.org
E-Mail: info@ht-afghanistan.org

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک