الثلاثاء، 01 جمادى الثانية 1446| 2024/12/03
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

المكتب الإعــلامي
ولایہ افغانستان

ہجری تاریخ    9 من صـفر الخير 1446هـ شمارہ نمبر: 04 / 1446
عیسوی تاریخ     جمعرات, 15 اگست 2024 م

پریس ریلیز

15 اگست: ایک شاندار دن

جس کے ثمرات ضائع ہوتے چلے جا رہے ہیں!

)ترجمہ)

 

15 اگست کا دن کابل میں جمہوری نظام کے خاتمے اور مجاہدین کے داخلے کی سالانہ یاد کا تیسرا سال ہے۔ یہ دن نہ صرف ایک قابض کو شکست دینے بلکہ جمہوری حکومت کے انہدام کی وجہ سے ایک تاریخی اور بابرکت دن سمجھا جاتا ہے۔ اس دن نے افغانستان کو وسط ایشیا اور پاکستان کو متحد کر کے ایک طاقتور خلافت میں تبدیل کرنے کا موقع فراہم کیا تھا۔ تاہم، بدقسمتی سے، پچھلے تین سالوں کے دوران مغربی طاقتوں، خطے کے غدار حکمرانوں اور بدنیت عناصر نے اس ہدف سے حکومتی نظام کو منحرف کرنے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے۔

 

کچھ لوگوں نے اس وقت اس واقعے کو "نصرۃ" (اللہ کی مدد) قرار دیا تھا۔ جس طرح لفظ "نصرۃ" کا لفظی مطلب "بارش کا پانی" ہے جو زمین کو سیراب کرتا ہے اور اسے جاوداں بخشتا ہے، اسی طرح دنیا بھر کے مسلمانوں کی امید تھی کہ وہ افغانستان میں اسلامی خلافت کے قیام کے ذریعے "رحمت کی بارش" دیکھیں گے۔ جبکہ شرعی اصطلاح میں لفظ "نصرۃ" کا مطلب اہل قوت کی مدد اور حمایت حاصل ہونا ہے، جو اسلامی حکمرانی کو مضبوط کرنے اور اس کی حفاظت کرنے کے لئے کسی خاص ریاست پر اتھارٹی رکھتے ہوں۔

 

تاہم، بدقسمتی سے آج تک اس "نصرۃ" یا "رحمت کی بارش" کے کوئی آثار نظر نہیں آتے، بلکہ اسے صرف "زبردستی سے کیا گیا غلبہ" کہا جا سکتا ہے۔ "نصرۃ" کی حکمت اور خوبصورتی میں سے ایک یہ ہے کہ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دین کے مضبوط قیام کی طرف لے جاتی ہے، جہاں مسلمان زمین پر قیادت کرنے کے وارث بن جاتے ہیں، اور ریاست اسلام کے ذریعے اللہ کے کلمے اور دین کو سربلند کرنے، فتوحات حاصل کرنے، مصنوعی سرحدوں کو ختم کرنے، مسلمانوں کے خون اور مقدسات کا دفاع کرنے، اور بالآخر لوگوں کو اسلام یا دار الاسلام میں بڑی تعداد میں داخل ہونے کی طرف راغب کرنے کے لیے جہاد میں مصروف ہو جاتی ہے۔

 

تاہم، پچھلے تین سالوں میں، موجودہ حکمرانوں نے حکومت، معیشت، تعلیم، معاشرت، اور خارجہ پالیسی کے شعبوں میں مکمل اور جامع طور پر اسلام کو نافذ نہیں کیا ہے۔ یہ صرف اپنی سرحدوں تک ہی محدود رہی ہے، جہاد کو معطل کر دیا گیا ہے، مشرقی ترکستان، وسطی ایشیا، فلسطین، اور دیگر علاقوں میں مظلوموں کا دفاع کرنے میں ناکام رہی ہے، اور اس حکومت نے عملاً اس عالمی نظام میں ضم ہونے کی کوشش کی ہے، جو بنیادی طور پر سیکولر بنیادوں پر کھڑا ہے۔ ان تین سالوں میں نہ صرف یہ کہ لوگوں نے بڑی تعداد میں اسلام قبول نہیں کیا، بلکہ لاکھوں افراد ہماری زمینیں ہی چھوڑ کر مغرب کی طرف چلے گئے ہیں۔ کیا مجاہدین نے نیٹو کو شکست نہیں دی تھی جیسے احزاب میں افواج نے کیا تھا؟ پھر آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ غیر اسلامی پالیسیوں کے نتیجے میں دشمنوں کے دلوں سے مجاہدین کا خوف دن بدن کم ہو رہا ہے۔ جب احزاب شکست خوردہ ہوئیں، تو محمد صلى الله علیہ وسلم نے ان کے ساتھ صلح کرنے کی کوشش نہیں کی، نہ ہی ان کی مدد طلب کی یا ان سے کسی بھی قسم کی تسلیم کرنے یا قانونی حیثیت دینے کی درخواست کی۔ آپ صلى الله عليه وسلم نہ تو کافروں کے ساتھ نرمی برتتے تھے اور نہ ہی مسلمانوں اور حاملین دعوت پر سختی کرتے تھے، برعکس آج کے تمام مسلم حکمرانوں کے جو کفار کے ساتھ یارانے رکھتے ہیں اور مسلمانوں کو ناحق قید کرتے ہیں۔ اس کے بجائے، رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے اعلان کیا:

 

«الآن نغزوهم ولا يغزونا؛ نحن نسير إليهم»

"اب ہم اُن کی طرف جنگ کے لئے جائیں گے اور آئندہ وہ ہماری طرف جنگ کے لئے نہ آ سکیں گے۔ ہم ان کی طرف اقدامی طور پر بڑھ رہے ہیں!" (صحیح البخاری)۔

 

ہم یہ جانتے ہیں کہ مجاہدین میں ایسے مخلص رہنما موجود ہیں جو اسلام کے بارے میں سنجیدہ ہیں اور ان کی نیتوں میں کوئی شک نہیں ہے۔ تاہم، اگر اسلام کو نافذ اور پیش نہ کیا جائے، تو اس دوران سب سے مخلص دل بھی متاثر ہو سکتے ہیں، اور بھلائی (خیر) اور فتح کا موقع کھو سکتا ہے۔ اگرچہ یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ "اسلام کو نافذ اور اس پر عمل کرنے کے لیے تیاریاں اور انتظامات ہو رہے ہیں اور فوراً عجلت کی ضرورت نہیں ہے"، تو اس پر ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بنیادی کاموں کو انجام دینے اور اسلام کو مکمل طور پر نافذ کرنے اور عمل کرنے کے لیے تین سال کافی طویل عرصہ ہوتا ہے۔

 

جیسا کہ رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم، جو مسلمانوں کے لیے حکمرانی کرنے میں ایک مثالی نمونہ ہیں، نے ریاست کی تشکیل میں پہلا قدم عوام، بااثر رہنماؤں اور اہلِ قوت سے باقاعدہ بیعت حاصل کر کے اٹھایا۔ اس کے بعد کا قدم اسلامی حکمرانی کے بنیادی اصولوں اور حدود کو واضح کرنا تھا تاکہ اسلامی ریاست کو دیگر ریاستوں سے ممتاز کیا جا سکے۔

 

پہلے تین سالوں میں، نبی کریم صلى الله علیہ وسلم نے ’امت‘ کے تصورات کو بلند کیا، ریاستی حکمرانی کی بنیادیں رکھیں، اور اپنی خارجہ پالیسی میں واضح کیا کہ ریاست کا مقصد دین کو دنیا تک لے کر جانا ہے، اور اس مقصد کو حاصل کرنے کا طریقہ قتال (جنگ) اور جہاد کے ذریعے ہے۔ اسی لیے، تین سال کے اندر اندر اسلامی ریاست کی فوج کو کئی مہمات اور جنگوں کے لیے اپنی سرحدوں سے باہر بھیجا گیا، اور ہجرت کے دوسرے ہی سال میں غزوہ بدر میں، محدود فوجی وسائل کے باوجود، انہوں نے قریش کے مشرکین کو شکست دے دی۔

 

بدقسمتی سے، پچھلے تین سالوں میں حکمرانی کے بنیادی اصولوں کو ہی واضح نہیں کیا گیا، اور موجودہ حکومت کے کچھ رہنماؤں نے تو عملاً اپنی توجہ اسلام کے نفاذ اور عوام کی رہنمائی پر مرکوز کرنے کے بجائے عوام کو دبانے، حاملین دعوت کو خاموش کرنے، اور اپنی صفوں میں اقتدار کی کشمکش پر مرکوز کر رکھی ہے۔

 

ہم ایک بار پھر اپنے مجاہد بھائیوں کو یاد دلاتے ہیں کہ ہمارا دین (اسلام) خلوص نیت کے ساتھ نصیحت پر مبنی ہے۔ ابھی بھی موقع باقی ہے کہ ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ عہد کو حکمرانی کی بنیاد بناتے ہوئے اس غلبے کو نصرۃ میں تبدیل کر سکتے ہیں اور حقیقی مومنوں کی صفات کو اپنا سکتے ہیں۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ مجاہدین میں عظیم خیر موجود ہے اور ان میں اخلاص اور تقویٰ غالب ہے۔ لہٰذا، یہ ضروری ہے کہ ان کی طاقت، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امانت ہے، کو اسلام کے نفاذ اور اس کے قیام کے لیے استعمال کیا جائے۔ اگر اسلام نافذ نہیں ہوتا، تو مجاہدین اور عوام فساد اور تقسیم کا شکار ہو جائیں گے، اور قیامت کے دن، اللہ (جبار) کے سامنے ان لوگوں کا ذمہ دار کون ہو گا جو بغیر خلیفہ اور اسلام کے نفاذ کے ایک دن بھی گزارتا ہے؟

 

ولایہ افغانستان  میں حزب التحرير کا میڈیا آفس

 

المكتب الإعلامي لحزب التحرير
ولایہ افغانستان
خط وکتابت اور رابطہ کرنے کا پتہ
تلفون: 
www.ht-afghanistan.org
E-Mail: info@ht-afghanistan.org

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک