الخميس، 22 محرّم 1447| 2025/07/17
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

جمہوریت کو ختم کرو اور خلافت کو قائم کرو پاکستان کی دہلیز پرایک مستقل صلیبی وجود کو تحفظ فراہم کر کے کیانی نے اپنی غداریوں میں مزید اضافہ کیا

امت کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان کی دہلیز پر امریکہ کو مستقل فوجی اڈے قائم کرنے میں مدد فراہم کر کے جنرل کیانی غداری کی ہر حد کو پار کرتا جا رہا ہے۔ 25 مئی 2013 کو جنرل کیانی نے جی ایچ کیو راولپنڈی میں ایساف کمانڈر جنرل جوزف ایف ڈنفورڈ سے ملاقات کی۔ آئی ایس پی آر کے جاری کردہ بیان کے مطابق ملاقات کے دوران جنرل کیانی نے افغانستان میں امن کے قیام اور نیٹو افواج کے انخلأ کے لیے امریکہ کو تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ خطے میں امریکہ کے سب سے اہم آدمی جنرل کیانی کی یہ ملاقات مختلف امریکی و مغربی اہلکاروں اور بین الاقوامی اداروں سے ہونے والی ان ملاقاتوں کا تسلسل تھی جن کا مقصد افغانستان پر امریکی گرفت کو مضبوط بنانا تھا۔ اس سے قبل 20 مئی 2013 کو جنرل کیانی نے جی ایچ کیو راولپنڈی میں آئی ای ڈیز (Improvised Explosive Devices) کے حوالے سے ایک پالیسی بنانے اور پاکستان سے کیمیائی کھاد کی افغانستان کے طالبان کو فراہمی روکنے کے لیے ایک بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب بھی کیا۔ امریکی فوج کے تخمینوں کے مطابق 80فیصد افغان بم کیمیائی کھاد سے بنے ہوتے ہیں اور افغانستان میں ہونے والی امریکی اموات میں سے 60 فیصد انھی بموں (IEDs) سے ہوتی ہے۔ فوجی قیادت میں موجود اپنے ساتھی غداروں کے چھوٹے سے گروہ کی مدد لینے کے ساتھ ساتھ جنرل کیانی نے سیاسی قیادت میں موجود غداروں کی مدد بھی طلب کر لی ہے۔ لہذا نواز شریف اور دوسرے بِکاؤ سیاستدان اب مسلمانوں کو اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اپنے ہتھیار ڈال دیں اور صلیبی قبضے کو تسلیم کرلیں۔ کراچی اور کوئٹہ میں آپریشنز اسی منصوبہ بندی کا حصہ ہیں تاکہ مسلمانوں کو یہ بات کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔ یہ معاونت اس مدد کے علاوہ ہے جو جنرل کیانی نے فوج میں امریکی راج کی مخالفت کرنے والے افسران کو ہٹانے، نیٹو سپلائی لائن کو تحفظ فراہم کرنے اور امریکہ کو پاکستان میں ڈرون حملوں کی اجازت دینے کی صورت میں فراہم کر رکھی ہے۔
جنرل کیانی اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود اس کے ساتھی پاکستان کے عوام اور افواج پاکستان کو یہ کہہ کر دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ دراصل امریکہ کو خطے سے نکلنے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔ یہ امریکی ایجنٹ پاکستان کے عوام اور افواج میں موجود شدید غصے سے باخبر ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں پاکستان کے مسلمان خطے میں امریکی موجودگی کو اپنے اور اپنے دین کے لیے براہ راست خطرہ سمجھتے ہیں۔ لہذا امریکہ نے ان حکمرانوں کو ایسا ظاہر کرنے کی اجازت دی ہے کہ جیسے خطے سے امریکہ کو نکلنے میں مدد فراہم کر کے یہ لوگوں کی خواہش کو پورا کر رہے ہیں جبکہ درحقیقت یہ غدار حکمران محدود انخلأ کے دھوکے میں افغانستان میں مستقل امریکی اڈوں کے قیام کے ذریعے خطے میں امریکی موجودگی کو مضبوط بنانے کے لیے امریکہ کی مدد کر رہے ہیں۔ یہ ہے ان غداروں کی مسلمانوں کے خلاف دوہری حکمت عملی کی حقیقت جس کا مقصد اپنے کافر آقاوں کے خوشنودی حاصل کرنا ہے۔
يُخَادِعُونَ ٱللَّهَ وَٱلَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلاَّ أَنْفُسَهُم وَمَا يَشْعُرُونَ
"وہ اللہ کو اور ایمان والوں کو دھوکہ دیتے ہیں، لیکن دراصل وہ خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں، مگر سمجھتے نہیں" (البقرة:9)
اے افواج پاکستان کے افسران! تمھارے حکمرانوں کا طرز عمل تمھارے سامنے ہے۔ یہ افغانستان پر حملے اور خطے میں امریکہ کو اپنے قدم جمانے کے لیے اس کی جانب دوڑے چلے جاتے ہیں اور پاکستان کی سرزمین اور فضائیں اس مقصد کے حصول کے لیے اس کے سامنے کھول دیتے ہیں۔ انھوں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں اور شہروں میں مجاہدین کا پیچھا کیا، انھیں گرفتار کیا اور پھر انھیں امریکہ کے حوالے کیا۔ پھر جب امریکہ کی افغانستان میں مشکلات بہت بڑھ گئیں تو انھوں نے افواج پاکستان کو قبائلی علاقوں میں بھیج دیا تاکہ افغانستان جانے والے مجاہدین کا راستہ روکا جاسکے اور پاکستان میں فتنے کی جنگ کو بھڑکایا جائے جس کا ایندھن افواج پاکستان کے جوان اور پاکستان کے شہری بن رہے ہیں۔ اور اب بجائے اس کے کہ یہ بزدل، صلیبیوں اور ان کے دم توڑتے قبضے کے خلاف اپنی افواج اور مجاہدین کے طاقت کو یکجا کریں یہ مجاہدین کو اس بات پر مجبور کر رہے ہیں کہ وہ ہتھیار پھینک دیں۔
اے بھائیو! حزب التحریر کو نصرة فراہم کرو اور مشہور فقہی اور رہنما، امیر حزب التحریر، شیخ عطا بن خلیل عطا ابو رشتہ کی بیعت کرو، پاکستان میں خلافت کا فوری قیام عمل میں لاؤ اور اس امت کی تذلیل کے دنوں کا خاتمہ کر دو۔ بھائیوں یہی وقت ہے دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن سٹیٹ بننے کی بجائے اس امت، اس کے دین اسلام اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی فرنٹ لائن سٹیٹ بن جاؤ۔ حزب التحریر تمھیں پکارتی ہے کہ تم میں جنھوں نے اب تک اس پکار پر لبیک نہیں کہا وہ لازمی اب اس کا جواب دیں۔

Read more...

جمہوریت کو ختم کرو اور خلافت کو قائم کرو بجلی کا بحران عوام سے جمہوریت کا بہترین انتقام ہے

ملک بھر میں جاری بجلی کا بدترین بحران عوام سے جمہوریت کا بہترین انتقام ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرتا کہ اس بحران کی بنیادی وجہ بجلی کی پیداواری صلاحیت کی کمی نہیں ہے تو پھر آخر کیوں عوام کو نہ تو مشرف و شوکت عزیز کی حکومت اور نہ ہی زرداری و کیانی کی حکومت اس بحران سے نجات دلاسکی۔ حکمران گردشی قرضے، مہنگے فرنس آئل،بجلی چوری، بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں موجود شدید بد انتظامی کو اس مسئلے کی وجوہات قرار دیتے ہیں۔ کیا یہ ایسے مسائل ہیں جنھیں پچھلی دو حکومتیں بھی حل نہیں کرسکتی تھیں۔ جمہوریت کی بدولت بجلی کے پیداواری ادارے اور تقسیم کار کمپنیاں عوامی اثاثے نہیں بلکہ نجی کاروبار ہیں۔ جب حکومت ان کے واجبات ادا نہیں کرتی تو وہ بجلی کی پیداوار میں کمی یا پاورپلانٹ ہی بندکرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ لہذا اس بات کے باوجود کہ بجلی کی پیداواری استعداد 21000میگاواٹ جبکہ انتہائی طلب 17500میگاواٹ ہے، بجلی کی پیداوار 9000میگاواٹ سے بھی کم ہوجاتی ہے۔ جمہوریت ہی اس قسم کی پالیسی کی اجازت دیتی ہے جس میں چیز استعمال کرلینے کے باوجود اس کی قیمت ادا نہیں کی جاتی۔اس کے علاوہ جب عوامی غم و غصہ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بجلی کی پیداوار بڑھا بھی دی جاتی ہے تو اس کامطلب ریاست کے لیے مزید خسارہ اوراس خسارے کو پورا کرنے کے لیے مزید قرضہ اور لوگوں کے لیے مہنگی بجلی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ یہ پالیسی اس لیے اختیار کی جاتی ہے تا کہ عوام شدید بد حالی کا شکار ہو کر ملک میں امریکی راج کے خلاف آواز بھی بلند نہ کرسکیں۔ درحقیقت بجلی کا کوئی بحران سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ یہ مسئلہ حکمرانوں نے جانتے بوجھتے پیدا کیا ہے جس کی وجہ سے مسلم دنیا کا طاقتور ترین ملک کسی کمزور ترین افریقی ملک سے بھی کمزور تر لگنے لگا ہے تا کہ حکمران امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کا جواز فراہم کرسکیں۔
11مئی2013کے انتخابات کے نتیجے میں آنے والے حکمرانوں نے بھی قوم کو حکومت سنبھالنے سے قبل ہی یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ وہ اس بحران کے خاتمے کی کوئی مدت متعین نہیں کرسکتے۔ اس کے ساتھ ہی وہ یہ تائثربھی مستحکم کررہے ہیں کہ وہ ملک جس نے بغیر کسی بیرونی مدد کے شاندار ایٹمی اور میزائل ٹیکنالوجی حاصل کی،اس بحران کو امریکہ،چین اور بھارت کی مدد کے بغیر حل نہیں کرسکتا۔ ایک طرف یہ حکمران اس بحران کے خاتمے کے لیے وسائل کی کمی کا رونا روتے ہیں لیکن بارہ سالوں سے امریکی جنگ کو لڑنے کے لیے معیشت کو 70ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچا چکے ہیں اور پاکستان کے عوام کے خون پسینے کی کمائی سے حاصل ہونے والی اربوں روپے کی رقم کو نیٹو سپلائی لائن کوبرقرار رکھنے اور اس کی حفاظت کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
جمہوریت و آمریت صرف اور صرف امریکہ اور استعماری طاقتوں کے مفادات کو پورا کرتی ہے۔ صرف خلافت ہی عوام کو بجلی کے اس بدترین بحران سے، توانائی سے متعلق اسلام کے احکامات کے نفاذ کے ذریعے، نجات دلائے گی۔ خلافت رسول اللہﷺ کے ارشاد ((المسلمون شرکاء فی ثلاث الماء و الکلا و النار)) ''تمام مسلمان تین چیزوں میں شریک ہیں: پانی ، چراگاہیں اور آگ'' (ابو داؤد)، کے مطابق بجلی کے تمام پیداواری کارخانوں،یونٹس،اداروں اور اس کی تقسیم کار کمپنیوں کو عوامی ملکیت قرار دے گی اور پیٹرول،ڈیزل،فرنس آئل وغیرہ پر عائد ٹیکسز کا خاتمہ کردے گی ۔ ان اقدامات کے نتیجے میں عوام کو نہ صرف بجلی گھروں کے نجی مالکان کی بلیک میلنگ سے نجات مل جائے گی بلکہ سستی بجلی بھی میسر آئے گی۔ اس کے علاوہ خلافت خود انحصاری کے حصول کے لیے بجلی پیدا کرنے کے لیے ریاست میں دستیاب وسائل جیسے پانی، کوئلہ،گیس وغیرہ کو استعمال میں لائے گی اور اس طرح بجلی کی پیداواری لاگت میں مزید کمی آئے گی۔
حزب التحریر عوام کو خبردار کرتی ہے جمہوریت و آمریت سرمایہ دارانہ نظام کو نافذاور استعماری ممالک کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ صرف خلافت ہی اسلام کے نفاذ کے ذریعے امت کو سرمایہ دارانہ نظام کے ظلم اور استعماری ممالک کے شکنجے سے آزاد کرائے گی۔ لہذاخلافت کے قیام کی جدوجہد میں حزب التحریر کے ساتھ شامل ہوجائیں۔

شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

پاکستان کے جابر کے نام کھلا خط ایک سال سے نوید بٹ کا اغوا ،خلیفۂ راشد کے ہاتھوں تمہارے انجام کو نہ تو روک سکے گا اور نہ ہی اس میں تاخیرہوگی

اس پر سلامتی ہوجو ہدایت کی پیروی کرے
ہم یہ خط دنیا بھر میں موجود پاکستانی سفارتی خانوں کے ذریعے اورایسے مقامی ذرائع سے تمہیں بھیج رہے ہیں کہ جن کے متعلق ہم جانتے ہیں کہ ان کے ذریعے یہ خط تم تک پہنچ جائے گا۔
جنرل کیانی ،ہم تم سے تمہاری اس حیثیت کی بناپر مخاطب ہیں کہ تم پاکستان میں امریکہ کے سب سے اہم ایجنٹ ہو اور پاکستان سمیت اس پورے خطے میں امریکی راج کے نگہبان ہو۔ ہم تم سے ایک ایسے وقت میں مخاطب ہیں جب تمہاری غداریوں پر پردہ ڈالنے والی راجہ پرویز اشرف کی حکومت جاچکی ہے اور11مئی 2013کے انتخابات کے نتیجے میں نواز شریف کی حکومت مستقبل میں تمہاری غداریوں پر پردہ ڈالنے کے لیے تیار کھڑی ہے۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہارا یہ کھیل تمہارے سنگین جرائم کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے پوشیدہ رکھ سکتا ہے ، جوکہ السمیع (سننے والا)،البصیر(دیکھنے والا) اور العلیم( تمام علم رکھنے والا) ہے!
آج جب ہم تم سے مخاطب ہیں تو تم نے امریکی افواج کو پاکستان کے دہانے پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کے لیے، پاکستان کے راستے مدد فراہم کر کے، ہماری عوام اور ہماری افواج کے ساتھ غداری کی ہے۔ اورٍاب تم پاکستان، اس کی عوام اور افواج کے ساتھ اپنی غداری کو مزید سنگین بنا رہے ہو، کیونکہ تم افغانستان سے محدود اور جزوی فوجی انخلا ء کے نام پرصلیبیوں کے مستقل فوجی اڈے قائم کرنے میں بھر پورمدد فراہم کر رہے ہو ۔ تم وہ غدار ہو جس نے اُس حلف کو توڑ دیا ہے ، جو تم نے دشمن سے اس ملک کا دفاع کرنے کے لیے اٹھایا تھاجب تم نے دشمن امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسیوں، افواج اور پرائیویٹ فوجی تنظیموں کو ملک بھر میں آزادانہ گھومنے اور اس ملک کی عوام اور افواج کے خلاف خونی سازشیں کرنے کی اجازت دی ۔ تم وہ بد عہد ہو، جو ہر اُس مسلمان، چاہے وہ فوجی افسر ہو یا سیاست دان، کی زبان کو خاموش کروادیتے ہو اوراسے اپنے تاریک قید خانوں میں پھینک دیتے ہو ،جو تمھارے سامنے کلمۂ حق بلند کرتا ہے اور امت کے خلاف تمہاری غداری کو اس لیے بے نقاب کرتا ہے تا کہ اس امت کو تمھارے شر سے محفوظ کرسکے ۔
لہٰذا ہم تمہارے ہاتھوں اپنے معززبھائی نوید بٹ کے اغوا کی سخت مذمت کرتے ہیں جسے 11مئی 2012ء کو تمہارے غنڈوں نے اغوا کیا تھا اور اب انہیں تمہارے خفیہ قید خانوں میں قید ہوئے ایک سال کا عرصہ گزرچکا ہے۔ نوید بٹ، پاکستان میں حزب التحریرکے ترجمان ہونے کے ناطے ،اپنی بے باکی اور بے خوفی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں ۔ لوگوں کو اچھی طرح یاد ہے کہ نوید بٹ اللہ کے سواکسی سے نہیں ڈرتے تھے اور اس ملک اور امت کے خلاف امریکہ کے منصوبوں کو مؤثر انداز سے بے نقاب کرتے تھے۔ نوید بٹ نے ان شیطانی منصوبوںکو اس وقت بھی بے نقاب کیا جب تم مشرف کے دست راست تھے اور جب امریکیوں نے تمہیں مشرف کی جگہ پاکستان میں اپنے نئے ایجنٹ اور اہم ترین مہرے کے طور پر بٹھایاتھا۔ اور ہم اپنی مذمت میں اس دعا کو بھی شامل کرتے ہیں کہ اللہ تم پر اپنا غضب نازل کرے کیونکہ تم نے ان لوگوں کے خلاف جنگ کا اعلان کررکھا ہے جو اپنے رب اللہ سبحانہ و تعالی سے مخلص اور اس کے فرمانبردار ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ایک حدیث قدسی کے ذریعے ارشاد فرماتا ہے : ((من أھان لی ولیاً فقد بارزنی فی العداوة)) ''جس کسی نے میرے دوست کی اہانت کی اس نے مجھے دشمنی کا چیلنج دیا'' (بخاری)۔
ہم تمھیں مزید خبردار کرتے ہیں کہ انشاء اللہ مسلمانوں کا خلیفۂ راشد، جواسلام کی بنیاد پرحکمرانی کرے گا اور امت کو اس کے دشمنوں کے خلاف یکجا کرے گا، وہ جلد تمہاری گردن میں طوق ڈالے گا ،اوراس وقت نوید بٹ کے اغواء کا جرم بھی تمھارے جرائم میں شامل کیا جائے گا۔ اس دن کے آنے سے قبل اپنی توبہ اور معافی کے لیے جو ہلکا ترین کام تم کر سکتے ہو وہ یہ ہے کہ تم خلافت کے قیام کی طرف امت کی پیش قدمی کو راستہ دو اور حزب التحریرمیں موجود امت کے بیٹوں کے راستے سے ہٹ جاؤ۔ اس طرح تم اُس وقت اپنی صفائی میں کسی حد تک یہ کہہ سکو گے کہ تم نے بھی اس امت کا ساتھ دیا تھا؛ فتح وخوشی کا وہ وقت کہ جو اب قریب آن پہنچاہے۔
اگر تم ہماری اس تنبیہہ کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے تو ہم تمھارے لیے اُس نازک اور غیر محفوظ صورتحال کو بھی بیان کیے دیتے ہیں کہ جس سے تم دوچار ہو ۔
سب سے پہلے تو تم خود اپنے ان پیغامات پر غور کروجو تم نے اپنے غنڈوں اور جاسوسوں کے ذریعے حزب التحریرکو بھیجے ہیں ۔ ان پیغامات میں تم نے حزب کو اپنی زبان نرم کرنے کو کہا اور اس کے بدلے میں پیش کش کی کہ تم حزب کے خلاف اپنے جبر کو کم کردو گے، یہاں تک کہ نوید بٹ کو بھی رہا کر دو گے! کیا تم نے غور نہیں کیا کہ حزب کی طرف تمہارا بار بار کایہ فضول پیغام خود تمہاری کمزور صورتحال کی تصدیق کرتاہے ؟ تمہارے یہ پیغامات ثابت کرتے ہیں کہ حق و سچ پر مبنی ہمارے موقف نے تمھیں چاروں جانب سے گھیر رکھاہے۔ کیونکہ تم اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہو اور ہم بھی آگاہ ہیں کہ جن مسلم افسران پر امریکہ نے تمھیں بٹھایا ہے ان میں اسلام اور اسلام کے احکامات کی محبت بہت گہرائی سے پیوست ہے۔ اورکیا تم نہیں جانتے کہ فوج کے افسران اپنی بیریکوں میں اور میسوںمیں تمہیں اور تمہارے آقا کو کن کن ناموں سے پکارتے ہیں ،اور اسلام اور خلافت ان کی نظر میں کتنا عظیم مقام رکھتے ہیں؟
دوسرے تم اس دباؤ پر غور کرو، جوامریکہ کی طرف سے تم پر ڈالا جاتا ہے کہ تمہیں خلافت کی دعوت اور اس کی جماعت حزب کے خلاف فرنٹ لائن میں ہونا چاہئے۔ کیا تم اس بات پر غور نہیں کرتے کہ حالیہ کچھ عرصے کے دوران اس دباؤ میں زبردست اضافہ ہو گیا ہے؟ جان لو کہ یہ دباؤ اس وجہ سے ہے کہ تمہارا آقا امریکہ محسوس کر رہا ہے کہ خلافت کا قیام بہت قریب ہے،جس کی واضح نشانیاں پوری مسلم دنیا میں نظر آرہی ہیں خواہ یہ پاکستان ہو یا شام یا کوئی بھی دوسرا مسلم ملک۔ انشاء اللہ اب وہ وقت زیادہ دور نہیں جب اعلیٰ پائے کے سیاست دان عطا بن خلیل ابو رَشتہ، امیر حزب التحریر، تمام مسلمانوں کے خلیفہ کی حیثیت سے تم سے معاملہ کریں گے۔ اور یاد رکھوکہ مسلم دنیا کے دیگر جابر حکمرانوں کے مقابلے میں تمہاری صورتحال زیادہ کمزور ہے کیونکہ تم اس سرزمین پر بیٹھے ہو جس کی فوج دنیا کی ساتویں بڑی فوج ہے اور یہ وہ فوج ہے جو اپنے آپ کو خالد بن ولید، صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم کی اولاد سمجھتی ہے ۔ اس حقیقت پر بھی غور کرو کہ جب جابر حکمران گرتے ہیں یا اپنے مغربی آقائوں کی خدمت کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو ان کے یہی مغربی آقا خوشی خوشی انھیں ان کی بدقسمت زندگی کے حوالے کردیتے ہیں اورپھر امت انھیں گٹر نما تہہ خانے یا سیوریج پائپ سے نکال کر ان کے انجام تک پہنچا دیتی ہے۔
اے پاکستان کے جابرحکمران! تیسری بات یہ ہے کہ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تم تبدیلی کی ہواؤں سے محفوظ رہو گے، توذرا اپنے سے پہلے کے جابروں اور فرعونوں کے انجام کو یاد کروکہ جو یہ گمان کرتے تھے کہ گویا وہ ہمیشہ برقراررہیں گے اور اللہ کی بجائے وہ لوگوں کی جانوں کے مالک اوران کے رازق ہیں ۔ لیکن انھیں اس چیز نے گھیر لیا جو ان کے لیے اللہ سبحانہ و تعالی نے مقرر کررکھی تھی۔ اور انہی میں سے ایک اپنی سیاہ بدقسمتی کا انتظار کررہا ہے جسے وہ جلد ہی دیکھ لے گا۔
(اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہِ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا)
''اللہ تعالی اپنا کام پورا کر کے ہی رہے گا۔ بے شک اللہ تعالی نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کررکھا ہے''(الطلاق:3)

Read more...

کو ئی ہے جو وسطی افریقہ کے مسلمانوں کی مدد کرے!

پریس ریلیز

کل بروز پیر 17 فروری 2014 کو بی بی سی کی ویب سائٹ نے رپورٹ کیا کہ "وسطی افریقہ میں افریقی فورسز نے انٹرینشنل سپورٹ مشن فار سنٹرل افریقن ری پبلک(ISMCA) کی سرپرستی میں ان 2,000 مسلمانوں کی ملک بدر ی پر قابو پا لیا ہے، جومسیحی ملیشیا کے فرقہ وارانہ تشددکے حملوں سے فرار ہوکر کیمرون کی طرف منتقل ہورہےتھے۔ بی بی سی کے رپورٹر کے مطابق، جوروانڈا کے فوجیوں کے قافلے کے ساتھ سفر کر رہا تھا، "فوجیوں کے قافلے پر بندوقوں، نیزوں، تلواروں، تیروں، پتھروں اور چھریوں سے حملہ کیاگیا"۔
عیسائیوں کی طرف سے مسلمانوں کو قتل کرنے اور ان کے جسموں کے بخیے ادھیڑنے، بلکہ ان کے گوشت تک کو کچا کھانے کے کئی یقینی شواہد موجود ہیں۔ بی بی سی نے 13 جنوری 2013 کو ایک ایسے شخص کے بارے میں جس کا گوشت انتقامی طور پر کھایا گیا تھا، کے متعلق تفصیلی تحقیقات پر مبنی ایک مضمون نشر کیا۔ مضمون میں بتایا گیا ہے کہ عینی شاہدین کے مطابق 20 سے زائد لوگوں نے ایک گاڑی والے کو زبردستی روکا، جو کہ ایک مسلمان تھا۔ انہوں نے اس کو سڑک پر گھسیٹا، اور اس کو زدوکوب کرنے لگے، اس کے سر پر ایک بڑا پتھر مارا، پھر اس کو آگ لگا دی، پھرایک شخص جھپٹ کر اس کے پورے پاؤں کو کاٹ ڈالتاہے اور اسے کچا کھانا شروع کر دیتا ہے۔ جمہوریت پسند وں نے اس بدترین جرم پرچپ سادھ لی ہوئی ہےاور قاتلوں کے ساتھ مل کران کی اس "بہادری" پرانہیں شاباش دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا "ہم سب مسلمانوں سے نہایت غصہ میں ہیں، ہم اس کو روکنے کے لئے کچھ نہیں کرسکتے"۔
دوسری طرف افریقی امن فورسز کے ساتھ تشدد کو روکنے کے سلسلے میں تعاون کرنے کے بہانے فرانس نے اپنی فوجیں داخل کیں۔ ان فوجوں نے ان صلیبی قاتلوں کی بھرپورجانب داری کی جومسلمانوں اور ان کے مقدسات کے خلاف جرائم کے مرتکب تھے۔ اس لئے وسطی افریقہ میں عالمی فورسز سے تحفظ کی امید کرنے والوں کی حالت یوں ہے جیسے کو ئی کڑکتی دھوپ سے بھاگ کر آگ کے ذریعے پناہ حاصل کرنے کی کو شش کرے۔
وسطی افریقہ میں ہمارے مسلمان بھائیوں کے ساتھ روارکھے جانے والے جرائم اور ظلم وستم کی یہ ایک جھلک ہے، اس کی وجہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن صلیبیوں کاوہ حسد ہے جس میں جل کر وہ اس قسم کی ناپاک کاروائیوں پراترآتے ہیں۔ فرانس کے تعاون اور عالمی گٹھ جوڑ کے سائے تلےبدترین قتل وغارت گری اور بد ترین تشدد، اعضاء کو الگ کرکے ٹکڑے کردینا، آگ میں جلادینا، جسموں کو چیرپھاڑکرنااور خام انسانی گوشت کاکھانا، وہ صورتحال ہے جس کاسامناوہاں کے مسلمان کررہے ہیں۔ دوسری طرف مسلم ممالک کے حکمران شرمناک بزدلی کامظاہرہ کررہے ہیں۔ وسط افریقی مسلمانوں کے ساتھ ان کارویہ بالکل ویساہی ہے جیساکہ 1995 میں سربرانیکاکے مسلمانوں کے ساتھ انہوں نے روارکھا، جس میں 8ہزارسے زائد عام شہریوں کو موت کے گھاٹ اتاردیاگیااور اقوام متحدہ کے ڈچ فوجیوں کے آنکھوں کےسامنے بوسنیائی مسلمان خواتین کی منظم طورپرعصمت دری کی گئی۔ شام میں امریکہ کے ہاتھوں خونریزی کی داستان ہویابرمامیں جاری صورتحال، فلسطین، آوانتی، کشمیر، مشرقی ترکستان اور مسلمانوں کے دیگرمصیبت زدہ علاقوں کے لہورنگ مناظر۔۔۔۔۔۔ان تمام مصائب وآلام اور ظلم وستم کاخاتمہ جودنیابھرمیں مسلمانوں پر ڈھائے جاتے ہیں، صرف اور صرف اس خلافت کے قیام کے ذریعے ممکن ہے، جوامت کی ڈھال اور جس کافریضا اس کی رکھوالی کرناہوتا ہے۔
لہٰذا حزب التحریر کامرکزی میڈیاآفس وسطی افریقی مسلمانوں کے حق میں ایک مہم کاآغاز کرنے والاہے، کیونکہ رسول اللہﷺ کاارشاد گرامی ہے «مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ، مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى». " آپس کی محبت، ہمدردی اور مہربانی میں مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی طرح ہے، جب اس کے کسی عضو میں تکلیف ہوتوساراجسم اس کی وجہ سے جاگتااور بیماررہتاہے"۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا۔ اس مہم اور اس کے مندرجات کااعلا ن اپنے وقت پرعنقریب ہورہاہے۔
﴿إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ﴾
"یقین رکھوجن لوگوں نے مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو ظلم کانشانہ بنایاہے، پھرتوبہ نہیں کی ہے، اُ ن کے لئے جہنم کاعذاب ہے اور ان کو آگ میں جلنے کی سزادی جائے گی"۔ (سورۃ البروج: 10)
عثمان بخاش
ڈائریکٹرمرکزی میڈیاآفس
حزب التحریر

 

 

Read more...

شامی انقلاب کاراستہ روکنے کے لئے اوبامہ کےآپشنز

پریس ریلیز

امریکی سیکریٹری خارجہ جان کیری نے جمعہ کے دن 14 فروری 2014 کو یہ کہا کہ "صدرباراک اوبامہ نے ایک دفعہ پھرشام کے حوالے سے امریکی پالیسی پر مختلف آپشنز کو پیش کرنے کا مطالبہ کیاہے ، لیکن اب تک کسی آپشن کو ان کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ "کیری نے صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے کہا "اوبامہ شام میں بگڑتی انسانی صورتحال پر تشویش زدہ ہیں ، اور اس لئے بھی کہ وہ دیکھتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان امن مذاکرات، منصوبے کے مطابق عبوری حکومت کی تشکیل پر غور و فکر کے حوالے سے اب تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے"۔ کیری نے مزید کہا کہ "اس لئے اوبامہ نے ہم سب سے مطالبہ کیا ہے کہ ہم متعدد آپشنز پر غور کریں ، جو موجود ہوں یا نہ ہوں "۔
لگتا ایسا ہے کہ کیری اور اس کا صدر دونوں ہی شامی انقلاب کو سرنگوں کرنے کے لئے میسر آپشنز کے حوالے سے شش و پنج کی کیفیت میں مبتلاء ہیں ۔ سیاسی حل پر کام جنیوا میں ہوا ، جہاں امریکہ اور اس کے چیلوں مجرم بشار حکومت اور الجربا کی قیادت میں قومی اتحاد کی نمائندگی کرنے والے نام نہاد سیاسی مخالفین کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ ہرشخص یقینی طور پر یہ جانتا ہے کہ بشارامریکہ کے کسی بھی حکم سے روگردانی نہیں کرتا، خواہ وہ کیمیائی اسلحے کی سپرد گی ہو، یا شام کی مشتعل اورنالاں قوم کاقتل عام ہو۔ اسی طرح سب یہ جانتے ہیں کہ اس اتحاد کا کرتادھرتا روبرٹ فورڈ ہی ہےجسےاس نے اپنے ہاتھوں سے تشکیل دیاہے ۔ سواس اتحادکے پاس اگرکوئی اختیارہے تو صرف اتناکہ ہائی کمشنرصاحب کی خواہشات کی اطاعت بجالانے میں لگارہے کیونکہ اسد کے جانے کے بعد اس نے یہ امیدیں لگائی ہیں کہ وہ ان کوبھی کسی حقیرسی خدمت کاشرف بخش دے گا، جیساکہ برطانیہ نے شریف حسین اوراس کے بیٹے فیصل کے ساتھ کیاتھا، جب خلافت کے انہدام کے بعد غنائم کی تقسیم پربحث کی جارہی تھی۔
جہاں تک حقیقی مذاکرات کاتعلق ہے تویہ شام کے میدانوں میں ہورہے ہیں ، جہاں اوبامہ شام کے اس سرپھرے اورناقابل تسخیر انقلاب پراپنے حل کومسلط کرنے کیلئے موجود آپشنز کوکام میں لانے کے حوالے سے تذبذب کاشکارہے، کہ کیاسکڈ میزائل چلانے کا سلسلہ پھر شروع کیا جائے ؟ یا بارود سے بھرے ڈرم گرانے کا سلسہ جاری رکھےیاپھر کیمیائی اسلحہ ایک بار پھر استعمال کیا جائے؟ کیاایران اور اس کے پیرو کار ، جوظلم اورظالموں کے خلاف کربلاء انقلاب کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے تھے، اس قابل ہیں کہ شامی انقلابیوں کوانکل سام کے آگے جھکادیں گے ( انکل سام جس نے ایرانی حکومت کے ساتھ ایٹمی معاملہ طے کرکے اس کی زندگی کوطول دی اورایرانی خزانے میں کئی ملین ڈالرکی ترسیل کی تاکہ شام میں اپنی جنگ کی مالی ضرورتوں کوپوراکرسکے) اوراس مقصد کے حصول کیلئے وہ تکفیری دہشت گردی کامقابلہ کرنے کے نعروں کواستعمال کرتے ہیں۔
مگراس کاجواب شام کے علاقے درعا سے آیاکہ مذکورہ بالاآپشنز کے ساتھ امریکہ نے نمازِجمعہ کی ادائیگی کرکے مسجد سے نکلنے والوں کے ہجوم میں بارود سے بھری گاڑیوں کے دھماکے کروائے۔جیساکہ کل درعاکے شہر الیادودۃ میں ہوا، جہاں حکومت کے ایجنٹوں نے بارودسے بھری گاڑی گھسادی جو جمعہ کی نماز کےبعدپھٹ گئی ،جس کے نتیجے میں 32 نمازی جاں بحق اوردسیوں لوگ زخمی ہوئے جن کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔
ہمارے نزدیک یہ بعید نہیں کہ ان آپشنز کے ساتھ ساتھ بعض "مشائخ" کی طرف سے فتوی ٰ صادرکیاجائے کہ ولی الامرکے خلاف خروج حرام ہے۔ جب واشنگٹن کے پاس سیاسی حل تیار ہوجائے گا تو پھر جس چیز کی ضرورت ہو گی وہ صرف سعودی انٹیلی جنس کی سرپرستی میں نکلنے والے فتوئے کی ضرورت ہو گی جس کےلئے بس ولی الامر کی طرف سے ادنی ٰاشارے کی دیرہے۔ جہاں تک ایک ایسےخلیفہ کی بیعت کی طرف دعوت کی بات ہے جواللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے کرے اورشام کی مبارک سرزمین میں خونریزی کی روک تھام کرے ، توعرض ہے کہ سلطان کے مشائخ اس سے پہلوتہی کرتے ہیں ،کیونکہ ایساکرکے وہ ولی الامر کی ناراضگی مول لیں گے ،جبکہ اگر کائنات کے مالک کی معصیت ہوجاتی ہے تواس میں ان کااپناایک نقطہ نظرہے، یہ لوگ زندگی سے پیارکرتے ہیں، چاہے اس کے لئےکتنی ہی ذلت و رسوائی اورجبارذات کی طرف سے غصے کے حقدارٹھہرتےہوں۔
اس میں خیرہی خیرہے ، کیونکہ شام کے انقلاب نے مسلمانوں کے ساتھ امریکی دشمنی کی حقیقت کھول کررکھ دی ،اتحاد کے اندراس کے بنائے ہوئےآدمیوں کی حقیقت کوبے نقاب کیااورشیطان ِاکبرکانعرہ لگانے والی ایرانی حکومت کی منافقت کا پردہ چاک کیا۔ اسی طرح مینڈکوں کی طرح ٹرٹر کرنے والےان خلیجی مشائخ کے دجل کوبے نقاب کیاجواپنے "ولی امر " کی مرضی کے فتوے صادرکرتے ہیں ۔ ان کایہ عمل ان کودنیاوآخرت میں ہلاکت کی طرف لے جائے گا۔
جہاں تک امت کےواحد آپشن کا تعلق ہے تووہ یہ ہے کہ تمام اسباب کے پیدا کرنے والے سے نصرت کے اسباب مانگے اوررب العالمین کے سامنے مخلص بن کر اپنی بندگی پیش کرکے گڑگڑائے، پھرمنہج نبوی کے مطابق خلافت راشدہ ثانیہ کے لئے مخلصین کے ساتھ سنجیدہ اوران تھک عمل کرے ۔ اللہ رب العزت کاارشاد ہے۔
﴿وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِندِ اللّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ﴾
"اورفتح توکسی اورکی طرف سے نہیں ، صرف اللہ کے پاس سے آتی ہے جومکمل اقتدارکابھی مالک ہے،تمام تر حکمت کابھی مالک " (آل عمران: 126)۔
اوراللہ کاوعدہ حق ہے،
﴿وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ﴾
"اورہم نے زبورمیں نصیحت کے بعد یہ لکھ دیاتھاکہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے" (الانبياء: 105)۔
عثمان بخاش
ڈائریکٹرمرکزی میڈیاآفس
حزب التحریر

 

 

Read more...

سوال کا جواب: مجددکی پہچان

 

سوال: اللہ آپ کے ہاتھوں مسلمانوں کو فتح یاب کرے اور آپ کے علم سے ہمیں استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
مشہور صحیح احادیث میں سے ایک حدیث وہ ہے جسے جلیل القدر صحابی ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہﷺ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ((إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا)) "بے شک اللہ ہر سو سالوں میں اس امت میں ایسا شخص بھیجتا ہے جو اس دین کو امت کے لیے زندہ کرتا ہے" (ابوداود 4291 نےروایت کی اور اسخَوی نے المقاصد الحسنة 149 میں اور اللبانی نے السلسلة الصحيحة 599 میں اسے صحیح قرار دیا ہے)۔ سوال یہ ہے کہ حدیث میں مجدد کا جو ذکر ہے یہ ایک فرد کے لیے ہے یا جماعت کے لیے؟ اور کیا یہ ممکن ہے کہ آپ ماضی میں گزرے ہوئے مجددین کی فہرست بیان کردیں؟ (ازطرف ابو مومن حماد)
جواب: وعليكم السلام ورحمۃ الله وبركاتہ
جی ہاں یہ حدیث صحیح ہے اور اس سے منسلک پانچ معاملات ہیں:
1۔ سو سال کا آغاز کس تاریخ سے ہوتا ہے؟ کیا یہ اللہ کے نبیﷺ کی پیدائش سے شروع ہوتا ہے؟ یا نبیﷺ کی بعثت سے ؟ یا ہجرت کے وقت سے یا پھر ان کی وفات سے؟
2۔ کیا ہر سو سال کے آغاز کا مطلب ہر سو سال کا آغازہے یا سو سالوں کے دوران یا سو سالوں کے آخر میں؟
3۔ کیا لفظ 'مَن' کا مطلب ایک فرد کا ہے یا لوگوں میں سے ایک گروہ جو لوگوں کے لیے دین کو زندہ کرے۔
4۔ کیا کسی صحیح ذریعے سے ایسی کوئی خبر ملتی ہے جو پچھلے کئی سو سالوں میں مجددین کی تعداد بتاتی ہو؟
5۔ کیا یہ جاننا ممکن ہے کہ چودھویں صدی ہجری میں جو 30 ذی الحجہ 1399 کو ختم ہوئی کون مجدد تھا جس نے لوگوں کے لیے دین کو زندہ کیا۔
میں مقدور بھر کوشش کرو ں گا کہ ان ممکنات کے متعلق جو مضبوط ترین رائے (راجع قول) ہے بغیر کسی اختلافی نکات میں پڑے بیان کردوں۔ اور میں کہتا ہوں کہ توفیق اللہ کے پاس ہے اور وہی سیدھے راستے کی طرف ہدایت دینے والا ہے ۔
1۔ کس تاریخ سے سو سالوں کا آغاز ہوتا ہے؟
المناوی نے فتح القدیر میں کہا ہے کہ "اور انھوں نے سال کے آغاز کے معاملے میں اختلاف کیا ہے۔کیا یہ آغاز پیدائش نبوی سے ہے یا بعثت سے یا ہجرت سے یا پھر آپ ﷺ کی وفات سے؟ اور میری رائے میں راجع قول یعنی قوی بات یہ ہے کہ اس کو ہجرت سے لینا چاہیے کیونکہ یہ وہ دن ہے جس دن مسلمانوں اور اسلام کو ریاست کے قیام سے عزت اور طاقت عطا کی گئی۔ اور یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کو سال کےآغاز کے بارے میں جاننے کے لیے اکٹھا کیا تو انھوں نے ہجرت پر ہی انحصار کیا"۔ الطبری نے اپنی طریق میں کہا ہے کہ "عبد الرحمن ابن عبد اللہ بن عبدل الحکم نے مجھ سے کہا ، نعیم بن حماد نے ہم سے کہا کہ الدراوردی نے ہمیں عثمان بن عبید اللہ بن ابی رافع سے بتایا، جس نے کہا کہ میں نے سعید ابن مصعب کو کہتے سنا کہ ، 'عمر بن خطاب نے لوگوں کو اکٹھا کیا اور ان سے پوچھا ، کس دن سے ہم تاریخ لکھیں تو علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ اس دن سے جس دن اللہ کے نبی ﷺ نے ہجرت کی اور شرک کی زمین کو چھوڑا"۔ اور ابو جعفر نے کہا "ہجرت کے پہلے سال کا تعین اس سال کے محرم سے ہونا چاہیے جس سال محمد ﷺ نے ہجرت کی یعنی نبی ﷺ کی مدینہ آمد سے دو ماہ اور چند دن قبل سے کیونکہ محمدﷺ 12 ربیع الاول کو مدینہ پہنچے تھے"۔ اس بنیاد پر یہ زیادہ بہتر ہے کہ سو سال کی گنتی ہجرت کی تاریخ سے کی جائے جس کی تبنی صحابہ کرام نے کی۔
2۔ جہاں تک صدی کی شروعات کا تعلق ہے تو راجع قول اختتام ِصدی کا ہے یعنی کہ مجدد ایک ایسا متقی و مشہور عالم ہے جوسو سال کے آخر میں ہو گا اور اس کا انتقال بھی سو سال کے آخر میں ہو گا نہ کہ صدی کے شروع یا وسط میں۔ جہاں تک میرا اس رائےپر بھروسہ کرنے کا تعلق ہے تو اس کی وجہ یہ ہے:
ا) صحیح روایت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ "عمر بن عبدلعزیز (راس) پہلے سو سالوں کے آغاز میں آئے اور 101 ہجری میں ان کا انتقال ہوا جب ان کی عمر 40 سال تھی۔ جبکہ امام شافعی دوسری صدی ہجری کے آغاز میں آئے اور ان کا انتقال 204 ہجری میں 54 سال کی عمر میں ہوا۔
اب اگر ہم دوسری رائے کو سو سالوں کے آغاز کے بارے میں دیکھیں جو صدی کے آغاز کو ان سو سالوں کے لیے بنیاد بناتی ہے تو پھر عمر بن عبدالعزیز پہلی صدی کے مجدد نہیں ہوں گے کیونکہ آپ کی پیدائش 61 ہجری میں ہوئی۔ اور امام شافعی بھی دوسری صدی ہجری کے مجدد نہیں ہوں گے کیونکہ ان کی پیدائش 150 ہجری میں ہوئی۔ اس کا مطلب ہوا حدیث میں ہر سو سال پر مجدد کی آمد سو سال کے آخر کے بارے میں ہے نہ کہ آغاز کے بارے میں یعنی مجدد صدی کے وسط میں پیدا ہو ، پھر صدی کے آخر کی طرف وہ مشہور عالم ہو اور صدی کے اختتام پر اس کا انتقال ہو۔
ب) جہاں تک اس دلیل کا تعلق ہے جو یہ بتاتی ہے کہ عمر بن عبد العزیز پہلی صدی کے مجدد تھے اور امام شافعی دوسری صدی کے مجدد تھے، جو اس امت کے علما اور اماموں میں مشہور ہے تو ازہری اور امام احمد بن حنبل اورشروع اور بعد کے علما اس بات پر متفق ہیں کہ پہلی صدی ہجری کے مجدد عمر بن عبدالعزیز اور دوسری صدی ہجری کے مجدد امام شافعی ہیں۔ عمر بن عبد العزیز کا انتقال 101 ہجری میں ہوا جب ان کی عمر 40 برس تھی اور ان کی خلافت کی مدت ڈھائی سال تھی جبکہ امام شافعی کا انتقال 204 ہجری میں ہوا جب ان کی عمر 54 برس تھی۔ حافظ ابن حجر نے 'توالی التاسیس' میں بیان کیا ہے کہ "ابو بکر البزار نے کہا کہ میں نے عبد المالک بن عبد الحمید المامونی کو کہتے سنا کہ میں امام احمد بن حنبل کے ساتھ تھا جب امام شافعی کا ذکر ہوا تو میں نے دیکھا کہ امام احمد نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور رسول اللہ سے منقول کیا کہ اللہ تعالی ہر سو سال کے شروع میں ایک ایسے شخص کو چنتا ہے جو ان کو دین سِکھاتا ہے ۔اور انھوں نے کہا کہ عمر بن عبد العزیز پہلی صدی ہجری کے آخر میں تھے اور میں یہ امید کرتا ہو ں کہ دوسری صدی ہجری کے آخر میں وہ امام شافعی تھے"۔
اور ابو سعید الفربابی نے کہا کہ امام احمد نے کہا "بے شک اللہ لوگوں کے لیے ہر سو سال میں ایسے شخص کو چنتا ہے جو ان کو سنت سِکھاتا ہے اور نبیﷺ کی سنت سے جڑے ہوئے جھوٹ کو رد کرتا ہے، تو ہم نے اس کو سمجھا اور جانا کہ پہلی صدی ہجری کے مجدد عمر بن عبدالعزیز تھے جبکہ دوسری صدی ہجری میں امام شافعی تھے۔اور خاتم نے اپنی مستدرک میں ابو الوحید سے روایت کیا کہ "میں ابو العباس بن شریح کی مجلس میں تھا جب ایک شیخ ان کے پاس آئے اور ان کی تعریف کی۔ پھر میں نے ان کو کہتے سنا کہ ابو طاہر الخولانی نے ہم سے کہا اور دوسرا عبد اللہ بن وحب کہ سعید ابن ایوب نے مجھے شوراحیل بن یزید سے بتایا، انھوں نے ابو القامہ سے اور انھوں نے ابو ہریرہ سے بتایا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ((إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا)) " بے شک اللہ اس امت میں ہر سو سال کے آخر میں ایک ایسا بندہ( مجدد) بھیجتا ہے جو ان کے لیے دین کو زندہ کرتا ہے"۔ تو اے قاضی خوشخبری ہو کہ بے شک اللہ تعالی نے پہلی صدی ہجری کے آخر میں عمر بن عبد العزیز کو بھیجا اور دوسری صدی ہجری کے آخر میں اللہ نے محمد ابن ادریس الشافعی کو بھیجا۔حافظ ابن حجر نے کہا کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ حدیث اس دور میں مشہور تھی۔
د) یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی چیز کے آغاز کا مطلب لغوی طور پر اس کی ابتدا ہوتی ہے تو پھر ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ قوی رائے میں ہر سو سال کے آغاز سے مطلب سو سال کے آخر ہوتے ہیں، ابتدا نہیں ہوتا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح 'راس' کا مطلب عربی میں کسی چیز کی ابتدا ہوتی ہے اسی طرح 'راس' کے معنی آخر کے بھی ہیں۔ تاج العروس لغت میں کہا گیا ہے کہ کسی چیز کے راس کا مطلب ہے راس کی انتہا یعنی اس کا آخری حصہ۔ اور لسان العربی لغت میں کہا گیا ہے چھپکلی اپنے راس کے ساتھ بل سے باہر آئی جس کا مطلب یہ ہے کہ سر پہلے باہر آیا یا دُم، یعنی آخری حصےکا پہلا حصہ۔ اس لیے کسی چیز کے راس کا مطلب عربی زبان میں ابتدا ہوسکتا ہے اور اس کا مطلب انتہا بھی ہوسکتاہے چاہے وہ آغاز ہو یا آخر ۔ لہذا ہمیں قرینہ کی ضرورت ہے جو ظاہر کرے کہ یہاں کون سے معنی مطلوب ہیں۔ کیا "سو سال کے راس" کا مطلب آغاز ہے یا آخر؟ اور یہ قرینہ پچھلی روایت میں موجود تھا جس کے مطابق عمر بن عبد العزیز پہلی صدی کے مجدد تھے اور ان کا انتقال 101 ہجری میں ہوا اور امام شافعی دوسری صدی ہجری کے مجدد تھے اور ان کا انتقال 204 ہجری میں ہوا۔ یہ تمام دلائل واضع کرتے ہیں کہ قوی معنی حدیث میں راس کے سو سال کے آخر میں مجدد کے ہیں نہ کہ شروع میں۔لہذا ان دلائل کی بنیاد پر میرے نزدیک مضبوط رائے یہ ہے کہ 'راس' کے معنی ہیں"ہر سو سال میں راس" کا مطلب صدی کے آخری حصے کے ہیں۔
3۔ جہاں تک لفظ 'مَن' کا تعلق ہے کہ یہ ایک فرد کے لیے ہے یا ایک گروہ کے لیے تو حدیث کہتی ہے ((يبعث لهذه الأمة... من يجدد لها دينها)) "اللہ امت میں ایسا شخص بھیجتا ہے جو اس امت کے لیے دین کو زندہ کرتا ہے"۔ اب اگر 'مَن' سے مرادگروہ ہوتا تو فعل جمع کی شکل میں ہوتا جیسے 'یجدونا'، لیکن یہاں فعل واحد کی شکل میں ہے۔ قطع نظر اس کے کہ 'مَن' جمع کے معنی بھی ظاہر کرتا ہے چاہے فعل واحد کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو۔ میرے نزدیک یہاں قوی رائے فرد کے معنی ظاہر کرتی ہے کیونکہ قرینہ 'یجدو' واحد کی شکل میں موجود ہے۔ اور میں قوی رائے بیان کر رہا ہوں کیونکہ جو لفظ یہاں استعمال ہوا ہے اس کے معنی قطعی طور پر فرد کے نہیں ہیں چہ جائکہ فعل واحد کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو۔ اس وجہ سے کچھ فقہا نے یہاں 'مَن' کے معنی سے گروہ مراد لی ہے اور انھوں نے وہ قول لیے ہیں جو ہر صدی میں علما کے گروہوں کے بارے میں ہے ۔ لیکن یہ رائے پہلی بیان کردہ رائے سے کمزور ہوجاتی ہے جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے۔
آخر میں قوی رائے یہ ہے کہ 'مَن' سے مراد فرد کے ہیں یعنی مجدد، جس کا حدیث میں ذکر ہے یعنی ایک فرد جو متقی اور مشہور عالم ہیں۔
4۔ جہاں تک گزری ہوئی صدیوں میں مجددین کے ناموں کی فہرست کا تعلق ہے تو روایات بتاتی ہیں کہ سب سے مشہور فہرست منظم انداز میں السیوطی کی ہے جو نویں صدی ہجری تک بیان کرتی ہے اور وہ اللہ سے دعاگو ہیں کہ وہ خود نویں صدی ہجری کے مجدد ہوں۔ اب میں ان کا کچھ حصہ بیان کرتا ہوں۔
۔ پہلی صدی ہجری میں عمر تھے، عادل خلیفہ جس پر سب متفق ہیں۔
۔ اور امام شافعی دوسری صدی میں اپنے اونچے علم کی بنیاد پر۔
۔ پانچویں امام غزالی اپنے بحث اور دلائل کی بنیاد پر ۔
۔ ساتویں جو اونچائی تک اونچے ہوئے ابن دقیق العید جس پر سب متفق ہیں۔
۔ اور یہ نویں صدی ہے اور جو ہدایت دیتا ہے وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا اور میں امید کرتا ہوں کہ نویں صدی کا مجدد میں ہوں کیونکہ اللہ کا کرم کبھی ختم نہیں ہوتا۔
5۔ اور کیا ہم یہ جان سکتے ہیں کہ کون تھا چودھویں صدی ہجری کا مجدد جو 30 ذی الحجہ 1399 کو اختتام پذیر ہوئی جس نے لوگوں کے لیے دین کو زندہ کیا۔
یہ بات میری توجہ میں آئی جو مشہور اور قابل احترام علما ء کے درمیان موجود ہے جس کے مطابق 'راس' صدی کے آخر میں ہے۔ عمر بن عبدالعزیز 61 ہجری میں پیدا ہوئے اور پہلی صدی ہجری کے آخر میں 101 ہجری میں ان کا انتقال ہوا اور امام شافعی سن 150 ہجری میں پیدا ہوئے اور صدی کے آخر میں 204 ہجری میں ان کا انتقال ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں ہر مجدد صدی کے وسط میں پیدا ہوا اور صدی کے آخری دور میں مشہور ہوا۔ اور جیسا کہ میں نے کہا کہ میرے نزدیک مضبوط ترین رائے جو قابل احترام علما ءکے نزدیک مشہور ہے کہ عمر بن عبد العزیز پہلی صدی کے مجدد تھے اور امام شافعی دوسری صدی ہجری کے۔ تو اس بنیاد پر میرے نزدیک قوی رائے یہ ہے کہ عظیم عالم ِدین تقی الدین النبہانی چودھویں صدی کے مجدد تھے۔ ان کی پیدائش 1332 ہجری میں ہوئی اور وہ صدی کے آخر میں مشہور ہوئے خاص کر جب انھوں نے جمادی الثانی 1372 ہجری میں حزب التحریر کی بنیاد رکھی اور ان کا انتقال 1398 ہجری میں ہوا۔ ان کی دعوت مسلمانوں کے اہم ترین مسئلے یعنی خلافت کے قیام کی طرف تھی، اسلامی زندگی کے ازسرنو آغاز کی طرف اور اس دعوت نے مسلمانوں کی زندگیوں پر گہرا اثر ڈالا ۔ اور ان کی دعوت اور اجتہاد کےذریعےخلافت آج مسلمانوں کی آواز بن چکی ہے۔ تو اللہ کا رحم اور مہربانی ہو ابو ابراہیم پر اور اللہ کی مہربانی ہو ان کے بھائی ابو یوسف پر جو ان کے بعد آئے اور اللہ ان کو جنت میں انبیاء، صدیقین، شہدا ءاور صالحین میں اکٹھا کرے اور یہ کیا ہی عظیم صحبت ہے۔
میرے بھائی ابو مومن! یہ وہ ہے جو میں سب سے قوی سمجھتا ہوں اور اللہ سب سے زیادہ با خبر ہے کہ کیا صحیح ہے اور اسی کا ہے جو سب سے بہتر ٹھکانہ ہے۔
آپ کا بھائی،
عطا بن خلیل ابو الرشتہ

Read more...

حزب التحریر نے خلافت کی صحت پالیسی کا اعلان کردیا خلافت صحت کی سہولیات کی دستیابی کو تمام شہریوں کا حق قرار دے گی

حزب التحریر ولایہ پاکستان نےخلافت کے شہریوں کی صحت کو یقینی بنانے کے حوالے سے پالیسی دستاویزجاری کی ہے۔یہ پالیسی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ صحت کی سہولیات کی دستیابی معاشرے کی ایک بنیادی ضرورت اورحق ہے اور آنے والی خلافت میں بلا امتیازِ رنگ، نسل، جنس اور مذہب ،یہ حق تمام شہریوں کو حاصل ہوگا۔
پاکستان کی صحت عامہ کی صورتحال انتہائی پریشان کن ہے ۔ قابل علاج مگر خطرناک بیماریاں عام ہیں، مریضوں کی صحت کے حوالے سے تعلیم کی کمی، ناقص طریقہ علاج جو صحت کے اصولوں سے متصادم ہے، صحت عامہ کا کوئی جامع نظام نہ ہونا، ناقص بنیادی کلینیکل تربیت اور بنیادی طبی تحقیق کی غیر موجودگی جو مقامی بیماریوں اور صحت کی ضروریات کی بنیاد پر کی جارہی ہو۔ اس وقت نجی شعبہ 80فیصد بیرونی مریضوں(outpatient) کی دیکھ بحال کرتا ہے۔ صحتِ عامہ کی سہولیات کی فراہمی میں نجی شعبہ کے غلبے نے اِن سہولیات کی فراہمی کوخدمت کی جگہ کاروبار اور بنیادی حق کی بجائے آسائش بنا دیا ہے۔ مسلسل بڑھتی ہوئی نجی ڈاکٹر وںکی فیس، ادوایات اور میڈیکل ٹیسٹ کی قیمتوں نے پاکستان کے عوام کی اکثریت کے لیے ایک آسان اور سستا علاج انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔
یہ افسوسناک صورتحال جمہوریت کے سب سے بڑے دعویدار ، اور ہمارے حکمرانوں کے آئیڈل ماڈل ، امریکہ کے نطام سے منسوب ہے۔ امریکہ میں جمہوریت نے مریضوں کو گاہک اور صحت کی سہولت کو ایک آسائش بنا دیا ہے۔ جمہوریت نے صحت عامہ کے شعبے اور ادویات میں تحقیق کو ایک چھوٹے سے اشرافیہ کے طبقے کو فائدہ پہنچانے کے لیے نجی شعبے کے حوالے کردیا ہےاور یوں یہ اقلیتی طبقہ کروڑوں لوگوں کی پریشانیوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ نجکاری کی بدولت طبی ادویات اور صحت کی سہولیات نہ صرف دنیا کے بیشتر لوگوں کے لئے بلکہ مغربی دنیاکے کئی لوگوں کے لیے بھی ایک ناقابل حصول شے بن چکی ہیں۔
یہ تکلیف دہ صورتحال خلافت کے دور سے کوسوں دور ہے۔ خلافت میں ریاست رسول اللہ ﷺ کے احکامات کی بنیاد پر ایک مضبوط صحت عامہ کے شعبے کو چلاتی تھی۔ رنگ ،نسل، جنس یا مذہب سے قطع نظر ریاست کے تمام شہریوں کو صحت کی سہولیات کی فراہمی ریاست خلافت پر فرض ہے۔ رعایاکے لیے صحت اور علاج معالجے کی ضروریات کو فراہم کرنا بھی ریاست کے فرائض میں شامل ہے۔ ڈسپنسریاںاورہسپتال وہ سہولیات ہیں جن سے مسلمان ادویات اور علاج معالجے کے سلسلے میں فائدہ اُٹھاتے ہیں ۔
ریاست اپنے عام شہریوں کو ہر قسم کی طبی سہولتیں مفت فراہم کرے گی۔ تاہم ڈاکٹروں کو فیس پر بلوانے یا ادویات کی خرید و فروخت پر پابندی نہیں لگائے گی۔
صحت عامہ کی اس قدر عظیم ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے درکار مالیاتی وسائل کو حاصل کرنے کے لیے ریاست خلافت محاصل کے نظام میں شریعت کے مطابق تبدیلیاں لائے گی اور تعلیمی ترقی کی رفتار کو بھی بڑھائے گی۔ خلافت عوامی اثاثوں جیسے توانائی کے وسائل اور ریاستی اداروں جیسا کہ تعمیراتی کمپنیوں اور بھاری صنعتوں سے وسیع مالیاتی وسائل حاصل کرے گی۔ خلافت صنعتوں پر زکوٰۃ اور زراعت پر خراج نافذ کرے گی اور ظالمانہ انکم ٹیکس اور جنرل سیلز ٹیکس کا خاتمہ کرے گی جنھوں نے معاشی سرگرمیوں کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔
نوٹ :اس پالیسی اوراس سے متعلق ریاست خلافت کے دستور کی دفعات کے تفصیلی دلائل جاننے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیے۔
http://htmediapak.page.tl/policy-matters.htm

Read more...

سوال کا جواب: ترکی میں اردگان اور فتح اللہ پارٹی کی باہمی مخاصمت اور امریکی سفیر کے بارے اردگان کا بیان

 

سوال: ترک وزیر اعظم اردگان نے 25 دسمبر 2013 کو نئی حکومت کی تشکیل کااعلان کردیا، جس میں دس وزراء کوتبدیل کیا ہے، جبکہ تین وزراء نے استعفے دیدئے ہیں، ان میں وزیر ماحولیات بھی شامل ہیں جنھوں نے اردگان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ یہ سب کچھ ترک حکومت کی مالی اور سیاسی کرپشن کے سکینڈل کے پس منظر میں پیش آیا جس نے پچھلے دس دنوں سے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس سے پہلے 20 دسمبر 2013 کو ان 49 لوگوں میں سے 24 کو گرفتار کر لیا گیا تھا، جو حکومت اور اس کی پارٹی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے، جن کو 17 دسمبر 2013 کو کرپشن کے الزام میں تفتیشی اداروں نے طلب کیا تھا.....اس کے بعد وزیراعظم نے ان لوگوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جو ان کی گرفتاری اور ان کی کرپشن کو بے نقاب کرنے کا باعث بنے تھے۔ وزیراعظم نے دسیوں سکیورٹی افسران کو بھی معطل کیا جن پر فتح اللہ گولن تحریک میں سے ہونے کاشبہ تھا اوراس پارٹی پر خوب غصہ نکالا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ ترک وزیراعظم نے ترکی میں امریکی سفیر کوبھی تنقید کانشانہ بنایا۔ سوال یہ ہے کہ کن حالات کی بنا پر اردگان اور فتح اللہ پارٹی کے درمیان تعاون اور حمایت کے تعلقات باہمی مخاصمت میں تبدیل ہوئے؟ امید ہے کہ حتی الامکان اس کی تفصیل سے آگاہ کردیں گے، کیونکہ مذکورہ پارٹی کے ساتھ اردگان کے حالیہ برتاؤ کے بعد اس حوالے سے ہمارے اندر اُلجھن پیداہوئی ہے۔ نیز یہ کہ امریکی سفیر کے بارے میں اردگان کے بیان کا کیا مطلب ہے؟ باوجودیکہ امریکہ کے ساتھ اردگان کے اس حد تک مضبوط تعلقات رہے ہیں کہ اسے ترکی میں امریکہ کا آدمی کہا جاتا ہے۔

 

جواب : موجودہ صورتحال کی تمہید بننے والے عوامل اور اس پرمرتب ہونے والے نتائج کو سامنے لایا جائے تو مذکورہ بالا سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے۔
1۔ تفتیش کے اعلان اورگرفتاریوں نے حکومت، اس کی پارٹی اورپارٹی صدر اردگان کو اس لئےاشتعال دلایا کہ یہ صرف حکومتی ارکان اوراس کی برسر اقتدار پارٹی کے خلاف تھا۔ ان میں حکومتی وزیروں کے چار بیٹے، استنبول کے علاقے الفاتح کا میئر اور سٹیٹ بینک کا CEO بھی شامل تھے۔ اسی طرح ان میں حکومت کے قریبی بزنس مین بھی شامل تھے۔ دوسری طرف ترکی میں تین مہینے بعد 30 مارچ 2014 کو انتخابات بھی ہونے والے ہیں، جس میں اردگان دوبارہ صدر بننے کے لئے اپنی عوامی مقبولیت میں اضافے کا خواہشمند ہے۔ صدارتی انتخابات مقامی انتخابات کے چند مہینوں بعد 26 اگست 2014 کو منعقد ہونے والے ہیں۔ صدارتی انتخابات میں عوام بلاواسطہ ووٹ استعمال کریں گے جبکہ اس سے پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا کیونکہ صدر کا انتخاب پارلیمنٹ کیا کرتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اردگان نے نہایت سخت رد عمل دکھایا چنانچہ اس نے فتح اللہ گولن تحریک کے پیروکار سکیورٹی افسران کو تبدیل کیا اور انھیں عدلیہ کی مدد سے سبق سکھانے کی دھمکی دی جیسا کہ اخبار ملیات میں 18 دسمبر 2013 کو یہ رپورٹ شائع کی گئی کہ ".....لیکن عدلیہ کے میدان میں کام کرنے والوں کو حقوق اور قانون کا احترام کرنا ضروری ہے، انھیں کسی مخصوص گروہ کی ہدایت کے مطابق کام نہیں کرنا چاہیے کیونکہ عدلیہ میں کام کرنے والے کسی شخص کو یہ حق نہیں کہ وہ انتظامیہ پر دباؤ ڈالے یا ایسی ہدایات و احکامات دے جو وہ نہیں دے سکتا۔ اگر تم عدلیہ کو لوگوں پر دباؤ ڈالنے کیلئے استعمال کرو گے تو ہم بھی اپنی ذمہ داری پورا کر کے رہیں گے اورہم نے کر کے دکھایا"، اس کااشارہ سکیورٹی افسران کی معطلی کی طرف تھا۔ گولن تحریک کے مقابلے میں اپنے مؤقف کے حق میں ہمدردی حاصل کرنے کے پیش نظر اس نے کھل کر بیرونی مداخلت کا اشارہ دیا، اس نے کہا "آخری دنوں میں جو کچھ ہوا وہ ایک بین الاقوامی مداخلت ہے اور یہ بیرونی احکامات پر اندرونی کارندوں کی ایک کاروائی تھی " جیسا کہ اسی اخبار میں آیا.....پھر اس کے بعد ہی 20 دسمبر 2013 کو جب کہ وہ اپنے حق میں رائے عامہ کے حصول کے سلسلے میں اپنے دورے پر تھا اور سامسون میں قیام کر رہا تھا تو اس نے کہا کہ "سفیربعض سازشی سرگرمیوں میں ملوث ہے، میں اس سے کہتا ہوں کہ اپنا کام کرو، اگر تم اپنے دائرے سے باہر قدم رکھو گے تو ہماری حکومت اس حد تک جائے گی جتنی کہ اس کے پاس صلاحیت ہوگی".....(ملیات 17 دسمبر 2013)، اس کا اشارہ امریکی سفیر ریچارڈونی کی طرف تھا۔ اردگان بعض ترک اخبارات The Star, The New Twilight ,The Evening میں شائع ہونے والی خبر پرتبصرہ کر رہا تھا جبکہ انقرہ میں امریکی سفیر نے 17 دسمبر 2013 کو بعض یورپی نمائندوں کے ساتھ ملاقات بھی کی.....اور یہ رپورٹ اس بات کا اشارہ دے رہی تھی کہ ان واقعات میں امریکی سفیر ملوث ہے، اس لئے اردگان گولن پارٹی کے بارے میں غیظ و غضب سے بھر پور بیانات دیتا رہا اور امریکی سفیر کو نہایت محتاط رہنے کے لئے متنبہ کرتا رہا۔
2۔ جہاں تک گولن تحریک کاتعلق ہے تو مشہور یہ ہے کہ جب سے اردگان اور اس کی پارٹی نے 2002 سے اقتدار سنبھالا ہے، گولن نے ان کی پشت پناہی کی۔ حکومت نے کئی اداروں میں اس کو سرائیت کرنے کی اجازت دی، اس پر مستزاد یہ کہ یہ پارٹی بڑی تعدادمیں پرائیویٹ ٹیوشن مراکز کی دیکھ بھال کرتی تھی جن کے ذریعے طالب علموں کی ٹیوشن سے پارٹی کیلئے فنڈ اکٹھے کئے جاتے تھے، ساتھ ہی پارٹی کے ساتھ کام کرنے کیلئے انہی طالبعلموں کو تیار کیا جاتا تھا اور یہ سب کچھ اعلانیہ ہوا کرتا تھا اور اردگان کو ان سے کسی قسم کا خطرہ نہیں تھا، بالخصوص جبکہ یہ پارٹی اپنی سرشت میں پیری ومریدی کی ایک شکل ہے۔ بالفاظ دیگر یہ کوئی سیاسی تنظیم نہیں جس کا کوئی سیاسی ایجنڈا ہو جس کو نافذ کرنے کیلئے وہ حکومت کے ساتھ مزاحمت کرے۔ اس لئے اردگان ان کو کوئی خاص توجہ نہیں دیتا تھا اور خاص کر یہ پارٹی اردگان کے مثل امریکہ کا دست و بازو ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ان دونوں کے کردار اور اسالیب مختلف ہیں.....ان دونوں نے اداروں پر تسلط اور برطانیہ کے وفادار قومی ڈھانچے کو توڑنے میں کردار ادا کیا۔ اسی تحریک کے ذریعے امریکہ کو اداروں پر اثر انداز ہونے کا موقع ملا۔ اسی طرح امریکہ کو اردگان اور اس کی پارٹی کے واسطے فوج اور سیاست کے مراکز میں سرائیت کا موقع ملا، یوں یہ دونوں گروپ اور پارٹی ترکی میں امریکہ کے دو بازو ہیں اور ان کی آپس میں دوستی اور تعاون اور ایک ہی مرکز کے ساتھ وفاشعاری کا تعلق رہاہے۔ یہاں یہ بات بھی مد نظر رہے، کہ امریکہ اردگان حکومت کے اوائل میں ترکی میں اپنے آدمیوں کی ایک متحد اور مضبوط پارٹی بنانے کا خواہش مندتھا کیونکہ ان دنوں برطانوی قوتوں کی عدلیہ اور فوج کے اندر مؤثر قوت موجود تھی جو امریکہ کے لئے تشویش کا باعث تھی.....ان عوامل کی بنا پر امریکہ کو یہ خواہش ہوئی کہ اردگان اور اس کی پارٹی اور فتح اللہ گولن تحریک کے درمیان بغیر کسی کشیدگی کے صاف ستھرے تعلقات قائم ہوں۔ یہ حالات 2010 کے اوائل تک برابر جاری رہے۔ اس سال کچھ ایسے حوادث پیش آئے جس میں اردگان اور فتح اللہ گولن کے درمیان اختلافات کے بیج بوئے گئے۔ سب سے پہلے فتح اللہ گولن نے مرمرہ کشتی (Marmara Flotilla) کے بارے میں خط بھیجا، جس پر یہودیوں نے 31 مئی 2010 کو جارحیت کی تھی، گولن نے اپنے خط میں واضح کیا: "کشتی کو اسرائیلی پانیوں میں روانہ کرنا زبردست غلطی تھی، سب سے پہلے تل ابیب سے اس کی اجازت حاصل کرنا ضروری تھا"۔ اس خط میں اس نے کشتی بھیجنے کے فیصلے کو غلط قرار دیا اور یہودی وجود کے عمل اور ان کی جانب سے کشتی میں سوار ترکوں کو قتل کرنے میں اسرائیل کو حق بجانب قرار دیا، جبکہ اردگان کشتی اور اس میں سفر کرنے والوں کے ساتھ کھڑا تھا لہٰذا اردگان نے فتح اللہ کے خط کو شخصی تنقید سمجھا۔ اس سب کے باوجود دونوں نے معاملے کو رفع دفع کر دیا اور ان کے درمیان تعلقات دوستانہ نہج پر آگئے۔ 12 ستمبر 2010 کو اردگان نے دستوری ترامیم پر ریفرنڈم کی دعوت دی جس کی فتح اللہ نے حمایت کی۔ اس ریفرنڈم (استصواب رائے) میں "ہاں" کے پلڑے میں وزن ڈالنے میں فتح اللہ کا اثر تھا۔ گولن نے ریفرنڈم سے چند ہفتے قبل امریکہ میں اپنے ہیڈ کوارٹر سے ترک قوم کو دستوری ترامیم پر اتفاق رائے کی دعوت دیتے ہوئے کھل کر کہا: "یہ ترامیم اگرچہ محدود ہیں مگر ان پر بعد میں اثرات مرتب ہوں گے اوریہ مزید آزادیوں اور جمہوری مشق کیلئے ایک تحریک ہوں گی"۔ اردگان اس ریفرنڈم میں کامیاب ہوا، جہاں ان ترامیم پر 58٪کی نسبت سےاتفاق رائے حاصل ہوا اور برسر اقتدار پارٹی نے اپنے ہیڈ کوارٹر کے سامنے ایک بڑے جلسے کاانتظام کیا۔
اس اتفاق رائے پر اداروں میں بڑی تبدیلی مرتب ہوئی، جس کی وجہ سے ان آسامیوں پر بحالی عمل میں لائی گئی جن کو قوم پرستوں سے خالی کر کے پارٹی کے لوگوں کو ان پر مقرر کیا گیا۔ اس طرح عدلیہ کی سپریم کونسل اور پبلک پراسیکیوٹرز میں بھی تبدیلیاں ہوئیں اور روزگار کے نئے مواقع پیداکئے گئے۔ یہ سب کچھ گولن تحریک کے مفاد میں کیا گیا جس کی وجہ سے اس کو ان با اثر اداروں میں اثر و رسوخ حاصل ہوا، یوں تحریک نے سپریم جوڈیشل کونسل اور پبلک پراسیکیوٹر کے ماتحت اہم اور سپیشل عدالتوں پر تسلط حاصل کرلیا۔
3۔ اس کے بعد 2011 کے شروع ہوتے ہی ان کے درمیان دوبارہ بحران پیدا ہوا، جب اردگان نے دیکھا کہ سکیورٹی اور عدلیہ کے اندر تحریک کااثر و نفوذ اس کیلئے پریشانی اور تکلیف کاباعث ہو رہا ہے، اور تحریک غلبہ و تسلط حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے.....اب پہلے کی طرح تحریک کا رویہ تعاون کا نہیں رہا تھا اور اردگان اور گولن تحریک کے درمیان اب عمل اور رد عمل کا تبادلہ ہونے لگا۔
ا۔ 2011 کے آغاز سے اردگان نے اس تحریک کا اثر ختم کرنے پر کام شروع کیا، چنانچہ 2011 کے الیکشن میں پارلیمنٹ کی ممبرشپ کیلئے امیدواروں کی فہرست سے اس تحریک سے وابستہ لوگوں کی چھانٹی کی، پھر سکیورٹی اور بعض عدالتوں سے اس تحریک سے وابستہ اشخاص کو معزول کردیا۔
ب۔ اس عمل کے ردعمل میں اس تحریک کے ذرائع ابلاغ نے اردگان پر یورش کر دی۔ نہ صرف یہ بلکہ تحریک نے نیشنل انٹیلی جنس اداروں کے سربراہ خاقان فیدان کی گفتگو کا پروپیگنڈا شروع کیا جو اس نے کردستان کی لیبرپارٹی Öcalan's PKK کی قیادتوں کے ساتھ 2009-2010 میں اوسلو میں کی تھی اور جس کی کیسٹ ستمبر 2011 میں نشر کی گئی تھی۔ گفتگو کا موضوع کرد مسئلے کا تصفیہ تھا۔ اس زمانے میں اس بات چیت کو خفیہ رکھا گیا تاکہ اس کا اعلان ہونے سے پہلے فضا کو ساز گار بنایا جا سکے .....اس تحریک کی طرف اعتراض کی انگلیاں اٹھائی جانے لگیں کہ اس کیسٹ کو نشر کرنے میں اسی کا ہاتھ ہے۔ 7 فروری 2012 کو تحریک کے وفادار چیف پراسیکیوٹر کو انٹیلی جنس سربراہ کے ساتھ تفتیش کیلئے طلب کیاگیا۔
ج۔ اردگان نے اس کو اپنے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ سمجھا کیونکہ یہ وزیراعظم پر اثر انداز ہو کر رہے گا اور ان رازوں سے پردہ اٹھائے گا جو کرد لیبر پارٹی کے ساتھ ریاست کے اپنی انٹیلی جنس کے ذریعے رابطوں سے متعلق ہیں۔ اس لئے اردگان اپنے انٹیلی جنس سربراہ کو کسی بھی قسم کی قانونی گرفت سے بچانے کیلئے سرگرم ِ عمل ہوا اور اس کیلئے اس نے پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کروایا کہ: "انٹیلی جنس اسٹیبلشمنٹ کے ملازمین اور وہ لوگ جن کو وزیراعظم کی طرف سے خصوصی کام سپرد کئے گئے ہوں، سے تفتیش نہیں کی جائے گی، سوائے اس کہ وزیراعظم اس کی اجازت دیدیں"۔ اس کے بعد اردگان نے انقرہ، استنبول اور ازمیر میں انٹیلی جنس حلقوں کی صفائی کیلئے آپریشن کیا۔ ایساہی اس نے تعلیمی نیٹ ورک اورعدلیہ میں سے ان اشخاص کی صفائی پر کام کیا جو گولن تحریک سے وابستہ تھے۔
د۔ پھروہ مرحلہ آیا جو اس تحریک پر زور دار طریقے سے اثر انداز ہوا۔ اس سے مراد اردگان کاوہ منصوبہ ہے جو کہ وہ پرائیویٹ ٹیوشن مراکز کے خاتمے اور ان کو حکومتی نصاب کی تعلیم دینے والے پبلک سکولوں یا سیکنڈری سکولوں میں تبدیل کرنے کیلئے عمل میں لایا۔ لگ بھگ ایک ہزار مراکز تحریک سے وابستہ تھے۔ یہ مراکز طالبعلموں کے سرپرستوں سے مہنگی فیسوں کا مطالبہ کرتے تھے۔ طالب علم حکومتی سکولوں میں اپنی کمزور تعلیمی سطح کو مضبوط کرنے کیلئے ان مراکز کی طرف رجوع کرتے تھے تاکہ وہ ملک کی بڑی یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے کے قابل بن سکیں۔ تحریک اس کے درپردہ دو بنیادی اہداف کیلئے کوشاں تھی: مال کمانا اور تحریک کیلئے طالبعلموں کو حاصل کرنا۔ اس لئے اردگان حکومت نے تعلیمی نظام میں یہ تبدیلیاں کرنی چاہیں اور ان مراکز کو ایسے پبلک سکولوں میں تبدیل کیا جو حکومتی نصاب کی تعلیم دیتے اور ان کو حکومت کی نگرانی میں لایا گیا۔ اس نے یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے کا نظام تبدیل کیا۔ پرانے نظام میں داخلے کیلئے سیکنڈری کی تعلیم کے بعد داخلے کیلئے تیاری کا سال نصاب سے خارج کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے سرپرستوں کی بڑی تعداد اپنے بچوں کوان مراکز میں بھیجنے پرمجبور ہوتی تھی تاکہ وہ یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے کے قابل بنیں، اوراپنے پسندیدہ شعبہ میں داخلے کیلئے اعلیٰ نمبرحاصل کرسکیں۔ ان مراکز کو ختم کرنے یا بند کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تحریک، مال کمانے اور افراد سازی، دونوں میدانوں میں نقصان اٹھائے گی۔ اس لئے جب اردگان نے ان مراکز کو معطل کرنے اور ان کو حکومتی تحویل میں دینے کا اعلان کیا تو تحریک غصے سے بپھر گئی.....تحریک نے اردگان کی اس کاروائی پر رد عمل کے بارے سوچنا شروع کیا، تاکہ تین مہینوں بعد 30 مارچ 2014 کو منعقد ہونے والے انتخابات میں اس کی کامیابی پر اثر انداز ہوا جاسکے۔
ھ۔ اس کے بعد کرپشن کا سکینڈل سامنے آیا جس میں اردگان کی حکومت اور اس کی پارٹی کے لوگوں اور اس کے مقربین کو گرفتار کیا گیا.....اس کا الزام فتح اللہ گولن تحریک پر لگایا گیا کیونکہ تحریک ان پر الزام لگاتی رہی اور اس نے ان گرفتاریوں اور تحقیقات پر خوشی کا اظہار کیا تھا اور اس کو اپنے ذرائع ابلاغ میں اچھالا۔ مگر اردگان کی طرف سے تبادلوں کی جو تیز تر کاروائیاں کی گئیں، یعنی کئی سکیورٹی آفیسرز کو معزول کیا جن کے تحریک کے ساتھ روابط تھے۔ ان تبدیلیوں نے تحریک کی خوشیوں پر پانی پھیر دیا اور ان کو خاصی پریشانی ہوئی۔ اب تحریک نے ان تبدیلیوں کیلئے رکاوٹیں پیدا کرنے یا خلل ڈالنے کی کوششیں شروع کر دیں کہ یہ تبدیلیاں غیر قانونی یا غیر لازم ہیں۔ اس کے ہمنوا میڈیا نے یہ خبر شائع کی کہ جولائی 2013 سے اب تک حکومت کی طرف سے سکیورٹی افسران کی تبدیلیوں کو صدر نے مسترد کیا ہے اور وہ اس سے متفق نہیں ہیں.....پھر صدارتی دفتر نے 20 دسمبر 2013 کو فی الفور صدر عبداللہ گل کا بیان شائع کیا اور گولن تحریک کی طرف سے شائع کی گئی خبر کو جھٹلایا .....اس طرح پارٹی کی طرف سے یہ تاثردینےکی کوشش ناکام ہوگئی کہ اردگان اور عبداللہ گل کے درمیان اختلافات ہیں۔ اس کے بعد تحریک یہ محسوس کرتے ہوئے اردگان پر برسنے لگی کہ ان تبدیلیوں نے ان کے دلوں پر گھاؤ لگایا ہے، چنانچہ تحریک کے صدر فتح اللہ گولن نے پنسلوانیا، امریکہ میں اپنے ہیڈ کوارٹر سے غصے سے بھرا ایک ریکارڈ شدہ آڈیو بیان نشر کیا جسے 21 دسمبر 2013 کو اس کے ذرائع ابلاغ نے شائع کیا۔ اس میں دعا کی گئی اور دعا کچھ یوں تھی "اے اللہ جنہوں نے چوروں کو چھوٹ دی اور چوروں کا پیچھا کرنے والوں کا پیچھا کیا، تو ان کو زمین میں دھنسا دے، اے اللہ جن لوگوں نے مجرموں سے چشم پوشی کی اور مجرموں کا پیچھا کرنے والوں کو بد نام کیا اے اللہ تو ان کو زمین میں دھنسا دے، اے اللہ ان کے گھروں کو جلا دے ان کے مکانوں کو مسمار کر دے ان کا شیرازہ بکھیر دے ان کی نسل کاٹ دے، ان میں پھوٹ ڈال دے، ہمیں ان پرفتح دلا دے"۔ معلوم ہوتا ہے کہ تحریک پر کیا گیا حملہ زور دار تھا، تاہم وہ ٹوٹنے اور ختم ہونے سے بچ گئی۔
4۔ یوں 2010 سے اردگان اور فتح اللہ گولن کے درمیان حالات نے پلٹا کھایا اور اس کے بعد مسلسل تین سالوں تک حالات میں مزید گرمی آتی رہی جو آج تک جاری ہے۔ تحریک اور پنسلوانیا میں مقیم اس کے صدر نے امریکہ کی خدمت گزاری میں جو کچھ پیش کیا گیا ان میں، اللہ کے دین کے خلاف جسارت، نظام خلافت کے ساتھ دشمنی اور پارٹی کی طرف سے آخری سانس تک امریکی مفادات کی حمایت کرنا شامل ہے۔ ان تمام کی بنا پر گولن نے یہ گمان کیا کہ اردگان کے ساتھ روز افزوں مقابلہ اور مزاحمت کرکے امریکی خوشنودی سمیٹ لے گا۔ یوں امریکہ اس کو اردگان کا متبادل ٹھہرا دے گا اور اردگان کے ساتھ مقابلے میں اس کی حمایت کر دے گا.....چنانچہ، جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا، وہ اردگان کیلئے پریشانیاں پیدا کرنے پر اتر آیا۔ جہاں تک امریکہ کیلئے پارٹی کی خدمات کا تعلق ہے جن بنیادوں پر گولن کا خیال تھا کہ امریکہ اس کی حمایت کرکے اسے اردگان کامتبادل ٹھہرا دے گا، تو ان میں سے کچھ یہ ہیں:
ا۔ معتدل اسلام کی طرف اس کی دعوت یا بالفاظ دیگر سیکولر جمہوری افکار سے آلودہ ترمیم شدہ اسلام کی دعوت، وہ ان افکار کا شدت کے ساتھ دفاع بھی کرتا تھا اور اسی طرف لوگوں کی رہنمائی کرتا تھا، اس کیلئے وہ اپنی تحریک کے ذرائع کو کام میں لاتا تھا۔
ب۔ بین المذاہب، بالخصوص یہود ونصاریٰ کے ساتھ، مکالمہ میں اس کی پارٹی کی متحرک سرگرمیاں، تاکہ ان سب کو مسلمان سمجھ کر ان کو مسلمانوں کے برابر کیا جائے، یہ پارٹی دعوت دیتی تھی کہ ان کیلئے مساجد کے ساتھ عبادت خانے تعمیر کئے جائیں۔ نیز علوی نصیریوں کیلئے بھی عبادت خانوں کی تعمیر کی بات کی۔
ج۔ اسلامی ریاست ِخلافت کے قیام کی دعوت دینے والی تمام تحریکوں پر حملے، پارٹی نے ان سب پر علیحدگی پسندی اوردہشت گردی کا الزام لگایا۔ اپنے اس میڈیا جو اس کی ملکیت ہے، کے ذریعے ان کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا اور سکیورٹی اور عدالتی اداروں کو ان کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔
د۔ اس کے صدر نے امریکہ کو 1990 سے اپنا ہیڈکوارٹر بنایا ہوا ہے۔ امریکی حکام اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ اس کی ملاقاتوں کا دائرہ وسیع ہوا۔ پھر اس نے امریکہ میں ایسے لیکچر دیے جو امریکی مفادات کے معاون افکار و نظریات پر مشتمل تھے۔ اس نے پہلے بھی امریکہ کی عراق و افغانستان جنگ کو برا نہیں سمجھا اور آج بھی اس کے متعدد ذرائع ابلاغ شام کی اسلامی انقلابی تحریکوں پرتنقید کرتے ہیں اور ان کو دہشت گرد تصور کرتے ہیں، ان کو بدنام کرنے میں لگے ہیں اور اس کے خلاف امریکی موقف کی تائید کرتے ہیں۔
ھ۔ یہودی وجود کی حمایت کرنا۔ اس نے مئی 2010 کے اواخر میں اہل غزہ کی مدد کیلئے روانہ کی جانے والی مرمرہ کشتی بھیجنے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور یہود کو اس پر حملہ کرنے کا حق دیا۔ اس نے ترک لوگوں کی قربانیوں پر کوئی تعزیت کی نہ ہی ان کو شہداء کہا۔ اس سے پہلے اس نے 1991 میں یہود پر صدام حسین کے حملہ کو بھی ناپسند کیا تھا اور اس حملے کی زد میں آنے والے یہودیوں کے قتل پر افسوس کا اعلان کیا تھا۔ انٹرنیٹ پر اس کی ویب سائٹ نے فتح اللہ گولن کی ایک تصویر شائع کی جس میں وہ مشرقی یہودیوں کے ایک ربی (پادری) الیاہودورون کے ساتھ 1998 میں ملاقات کرتے ہوئے دکھایا گیا ۔
مذکورہ خدمات محض چند مثالیں ہیں.....پارٹی نے یہ گمان کیا کہ اس طرح وہ امریکی حمایت حاصل کرلے گی اوراس کو اردگان پر برتری دلا دے گی۔ غالب خیال یہی ہے کہ اس کا یہ گمان اس کے لئے تباہ کن ثابت ہوگا کیونکہ امریکہ اردگان کو، جو ایک سیاسی تحریک کا لیڈر ہے ، اپنے مفادات کے حصول میں گولن اور اس کے مریدوں کی تحریک سے بڑھ کر باصلاحیت سمجھتا ہے۔ امریکہ نے ترکی کے اندر اگر کچھ حاصل کیا ہے اور اپنا اثر و نفوذ وہاں مستحکم کیا ہے تو یہ صرف اس سیاسی پارٹی کے بل بوتے پر جس کی قیادت اردگان کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اپنے سیاسی منصوبوں بالخصوص کرد مسئلے سے متعلق امریکی پلان کے نفاذ، یا اندرون اور بیرون ملک اس کے دوسرے منصوبوں بشمول شام کے مسئلے میں کامیابی کیلئے امریکہ اس کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔ اگر اردگان پر دباؤ بڑھ جائے اور وہ استعفی ٰ دیدے تو غالب گمان یہ ہے کہ امریکہ جسٹس پارٹی میں سے کسی دوسرے مضبوط شخص کو ڈھونڈے گا، نہ کہ فتح اللہ گولن کو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فتح اللہ گولن کی تحریک حقیقت میں ایک غیرسیاسی تحریک ہے جو "جیتنے والے کے ساتھ ہے " کی مصداق ہمیشہ سے سیاسی پارٹیوں کے سائے تلے رہی ہے۔ یہ گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میں تورگت اوزال کی ANAP کے ساتھ رہی، اس کے بعد رفاہ پارٹی کی حمایت کی، پھر نجم الدین اربکان کی زیرقیادت رفاہ پارٹی کے زوال کے بعد 1998 میں اجاوید کی قیادت تلے سوشلسٹ جمہوری پارٹی کی حمایت کی۔ جب جسٹس اینڈ ڈویلپنمٹ پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تو اس کے سائے تلے آئی، اس لئے اس کوایک موقع پرست تحریک کی نظرسے دیکھا جاتا ہے جو اقتدار حاصل کر لینے والی ہر سیاسی پارٹی کی حمایت کرتی ہے تاکہ ذاتی مفادات کے حصول کو ممکن بنائے۔ اس بنا پر متوقع یہ ہے کہ وہ اردگان کے ساتھ صلح کرنے کیلئے کام کرے گی کیونکہ ایسا کئے بغیر وہ نقصان اٹھائے گی .....اور اس کی شروعات اس تحریک اور اس کے پیروکاروں کی کار گزاری سے ظاہر ہو رہی ہے۔ چنانچہ گولن نے اردگان پر درپردہ وار کرنے سے کنارہ کشی اختیار کی، جبکہ مہینہ پہلے اس کو فرعون اور نمرود تک کہا تھا۔ اس نے اپنی آواز میں اپنی تحریک کے لوگوں کو ایک آڈیو پیغام دیا تھا کہ "جب فرعون اور نمرود تمہارے مقابل ہوں تو تم حق پر ہو گے"۔ پھر مزید سکڑتا گیا یہاں تک کہ حال ہی میں یہ تجویز دی کہ اس کے پرائیویٹ ٹیوشن مراکز کو باقی رکھا جائے بھلے ان کو حکومت کی نگرانی میں ہی دے دیا جائے۔ مگر اردگان اپنے فیصلے پرمصر رہا.....حتی کہ عدلیہ اور سکیورٹی اداروں میں بھی فتح اللہ کے آدمیوں میں اب مزید بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رہی۔ چنانچہ کئی لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور جو اپنے اداروں میں کام کرتے رہے وہ اپنے فیصلوں میں گومگو کی کیفیت سے دو چار ہیں۔ چنانچہ بعض عدالتوں نے اردگان کے فیصلے سے اتفاق کیا کہ وہ سکیورٹی منتظمین کی طرف سے افسران بالا کی موافقت کے بغیر براہ راست فیصلے قبول نہیں کریں گی، جبکہ قلیل تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے اس فیصلے سے جی چھڑانے کی کوشش کی۔ 27 دسمبر 2013 کو پرائیویٹ این ٹی وی نیوز نے کہا "ایک ترک عدالتِ عالیہ نے حکومت کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا کہ تحقیقات کرنے والے پولیس افسر، افسران بالا کو مطلع کر دیا کریں"، لیکن اس کے ساتھ عربی سکائی نیوز نے 26 دسمبر 2013 کو بتایا کہ ترک حکومت کے وزراء پر لگائے گئے کرپشن الزامات کی تحقیقات کی قیادت کرنے والے اٹارنی جنرل معمر اکاش نے کہا "اسے اس مسئلے میں مشکلات کاسامناہے" وہ اس طرف اشارہ کر رہا تھا کہ "تحقیقات میں رکاوٹ آ چکی ہے".....
اردگان سکیورٹی اور عدلیہ میں موجود اس تحریک کے معاونین کو برابر دھمکا رہا تھا۔ اس نے صوبہ اوردو میں فاتصا کی عدلیہ کے دورے کے دوران کہا "میں عدلیہ سے یہ کہتا ہوں! تم انتظامیہ سے کہتے ہو کہ وہ اپنے اندر موجود میل کچیل کو صاف کریں مگر تم خود مکمل طور پر صاف نہیں ہو، اورہم اپنے اختیارات کوجانتے ہیں" (حریت 21 دسمبر 2013)۔ اس طرح مستقبل کی توقعات کے حوالے سے اردگان کا موقف فتح اللہ کے موقف سے زیادہ قوی ہے، خاص کر جب کہ اردگان کا فوج کے اندر اثر و رسوخ مؤثر ہوا ہے، چنانچہ ترک ذرائع نے بتایا کہ ترک مسلح افواج نے ایک بیان صادر کیا جس میں کہا گیا ہے کہ "وہ کسی بھی قسم کی سیاسی آراء اور سیاسی تانے بانوں سے اپنے آپ کو دور رکھتی ہے وہ ترک قوم کی وفادار ہے" یہ بیان 27 دسمبر 2013 کو یونائیٹڈ پریس انٹرنیشنل اور الحیات ویب سائٹ پرجاری کیا گیا۔
5۔ جہاں تک اردگان کے اپنے بیان میں امریکی سفیر کی طرف اشارے کی بات کا تعلق ہے جسے اخبار ملیات نے 21 دسمبر 2013 کو شائع کیا تو معاملہ یہ ہے کہ:
ا۔ مذکورہ کرپشن کے فیصلوں میں گرفتاری مہم کے دوران تین اخبارات "The Star, The New Twilight, The Evening" نے ایک خبرشائع کی، خبر میں بتایا گیا کہ 17 دسمبر 2013کو امریکی سفیر ریچرڈونی نے انقرہ میں یورپی یونین کے بعض نمائندوں سے ملاقات کی۔ رپورٹ اس بات کا اشارہ دے رہی تھی کہ ان واقعات میں امریکی سفیر ملوث ہے۔ ان اخبارات نے دعوی ٰکیا کہ وزیرخارجہ داؤد اوگلو جلد ہی امریکی وزیرخارجہ جان کیری کے ساتھ رابطہ کرکے اسے سفیر کے طور طریقوں سے متعلق وزارت خارجہ اور سفارتی عملے کی بے چینی کے بارے میں آگاہ کرے گا.....
اس کے باوجود امریکی سفیر رچرڈونی نے اس خبر کوجھٹلایاہے اورکرپشن کیس سے متعلق گرفتاریوں کے ساتھ امریکہ کے کسی بھی قسم کے تعلق کی نفی کی ہے اور یہ اس کے ٹویٹر پیغام کے ذریعے معلوم ہوا ہے، اس نے کہا "امریکہ کا، رشوت ستانی یا غیر قانونی اسالیب کے کرپشن کیسوں کے حوالے سے ، گرفتاریوں کوئی تعلق نہیں۔ یہ خبریں محض جھوٹ اور بہتان ہیں۔ کوئی بھی شخص ترکی امریکہ تعلقات کو ان جیسے بے بنیاد دعوؤں کے ذریعے خطرات سے دوچار نہیں کر سکتا اور دونوں ممالک کے درمیان دوستی و تعاون کا رشتہ دونوں ممالک کیلئے ناگزیر اہمیت کا حامل ہے" (اخبار ملیات 21 دسمبر 2013)۔ مگر اردگان نے اس سے فائدہ اٹھایا، ایسا محسوس ہوتا ہے گویا اس کو اس خبر کی اشاعت کے وقت کا علم تھا، جس کی وجہ سے بعض تجزیہ نگاروں کو یہ کہنا پڑا کہ یہ خبر اردگان کیلئے تیار کی گئی تھی تاکہ موجودہ واقعات کا استحصال کرتے ہوئے وہ کہہ سکے کہ یہ واقعات بین الاقوامی دراندازی کی وجہ سے ہیں، تاکہ اس کو بیرونی سازش باور کرا کر لوگوں کے جذبات اپنے ساتھ ملاسکے! اور جب وہ اپنے حق میں رائے عامہ کے حصول کے سلسلے میں دورے پرتھا، اس نے 20 دسمبر 2013 سامسون میں قیام کے دوران کہاکہ "سفیربعض سازشی سرگرمیوں میں ملوث ہے، میں اس سے کہتا ہوں کہ اپنا کام کرو، اگر تم اپنے دائرے سے باہر قدم رکھو گے تو ہماری حکومت اس حد تک جائے گی جتنی کہ اس کے پاس صلاحیت ہوگی".....(ملیات 17 دسمبر 2013)۔ مگر بعد میں جو کچھ ہوا وہ یہ کہ نہ تو داؤد اوگلو کیری سے ملا، اور نہ ہی اردگان کا یہ بیان زیادہ دیر منظر نامے پر رہا، بلکہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے جنرل نائب صدر حسین چلیک نے یہ بیان دیا "یقیناً امریکی سفیر فرنک ریچرڈونی نے اپنے ٹویٹر کے ذریعے اس کے بیان سے متعلق خبروں کی تردید کی ہے، جو ہمارے ہاں کےبعض معتبر اخبارات میں شائع ہوئیں" (حریت21 دسمبر 2013)۔
ب۔ باوجود یکہ ایک ملک جب بیرونی مداخلت پر احتجاج کرتا ہے تو مروجہ طریقے کے مطابق اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے لئے اس کی طرف اپنا وزیر خارجہ بھیجتاہے یا سفیر کو طلب کرتا ہے.....اسی طرح اگر کسی ملک کے اندر تعینات سفیر کسی خبر کی تردید کرتا ہے جو اس ملک کی طرف سے اس کے بارے میں شائع کی گئی ہو، تو معمول کے مطابق وہ اس ملک کی وزارت خارجہ کو پیغام دیتا ہے جس میں وہ اس خبر کی تردید کرے.....لیکن یہاں صرف اتنا ہوا کہ صدر نے زبانی بیان دیا اور سفیر نے ٹویٹر پر اس کی تردید کی، یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اردگان اور سفیر کے درمیان الفاظ کا یہ تبادلہ ایک ڈرامے کے سوا کچھ نہیں جس میں ناکام قسم کے کردار اداکاری کر رہے ہیں۔ یہ بات کہ امریکی سفیر کے بارے میں اردگان کا بیان باتیں ہی باتیں ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ جس تاریخ کو ملیات اخبار نے اردگان کا بیان شائع کیا اسی دن یعنی 21 دسمبر 2013 کو اخبار نے ایک خبر شائع کی جو کچھ اس طرح تھی"یہ بات قابل توجہ ہے کہ جب بین الاقوامی دراندازی سے کی جانے والی کرپشن کی تحقیقات کی پیروی کی جار ہی تھی، اسی دوران امریکی مشیر ڈیوڈ کوہن استنبول پہنچ جاتا ہے جو دہشت گردی اور مالیات سے متعلق امریکی وزارت خزانہ کے ماتحت کام کرنے والے انٹیلی جنس محکمہ کا انچارج ہے اوراسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سےمشہور ہے۔ پھر وہ ترکی میں بینکوں کے منیجرز سے ملتا ہے اور ان کے ساتھ مالی امور اور ایران پر پابندیوں کے بارے میں بات چیت کرتاہے.....مشیر حکومتی اتھارٹی میں سے کسی کے ساتھ نہیں ملا"۔ یہ خبر اس بات کی طرف اشارہ کررہی ہے کہ اردگان کے الفاظ خالی بندوق کی طرح ہے جوپٹاخے تو مارتی ہے لیکن نقصان نہیں پہنچاتی۔ تو امریکی ذمہ داران آجاتے ہیں اورجس سے چاہیں ملاقات کرتے ہیں، جبکہ حکومتی ذمہ داروں کے ساتھ ملاقات کئے بغیر چلے جاتے ہیں۔
ج۔ اردگان کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ اس کے امریکہ کے ساتھ روابط ہیں۔ وہ ترکی کے اندر اور باہر اس کے منصوبوں کو نافذ کرتا ہے۔ یہ منصوبے بالخصوص اندرونی منصوبے تکمیل کے متقاضی ہیں۔ اگر اردگان چلا جائے تو یہ سارے منصوبے معطل ہوجائیں گے.....امریکہ اردگان کواپنے طاقتور آدمیوں میں سے گردانتا ہے جنہوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ترکی کے اندر اس کے اثر و رسوخ کو قائم کرنے کے مواقع فراہم کئے ہیں۔ اس سے قبل کی دہائیوں میں مصطفیٰ کمال کے عہد سے ترکی پر فوج کے ذریعے برطانوی اثر و رسوخ کا تسلط تھا جس نے اسلام اور مسلمانوں کے سخت ترین دشمن برطانیہ کے مطالبے کو پورا کرتے ہوئے لوزان کانفرنس میں خلافت کے خاتمے کا اعلان کردیا جس کے بدلے برطانیہ اس کو جمہوریہ ترکی کا صدر بنائے گا۔ اسی زمانے سے ترکی کی حکومتوں پر برطانوی اثر و نفوذ مسلط رہا ہے، جسے ختم کرنا امریکہ کیلئے ممکن نہیں تھا، بالخصوص فوج میں۔ مگرجب اردگان نے اقتدار سنبھالا برطانوی اثر و نفوذ کمزور پڑ گیا اور سیاسی منظر سے اوجھل ہو گیا اور برطانیہ نواز سیاسی پارٹیاں جن میں نمایاں پیپلز پارٹی ہے نہایت کمزورہوگئیں.....اس طرح اروگان کی حکومت میں اب امریکی اثر و نفوذ کا تسلط ہے جس کی نمائندگی صدر اور وزیراعظم کرتے ہیں۔ اس لئے اردگان کی طرف سے سفیر کے بارے میں یہ ایک لفظی بیان جس کی کوئی عملی حقیقت نہیں۔ ایسے بیانات کو امریکہ جانتا ہے اور اس بیان دینے والے کو بھی جانتا ہے کہ اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا.....
6۔ خلاصہ یہ ہے کہ :
ا۔ ترکی کے موجودہ بحران کے قطبین امریکی ایجنٹ اردوگان اورفتح اللہ گولن ہیں۔
ب۔ برطانیہ جب تک ترکی پر اپنا اثر و رسوخ رکھتا تھا اس وقت تک امریکہ اردگان اور فتح اللہ کو ایک قوت اور باہم شیر و شکر دیکھنا چاہتا تھا، جب برطانیہ کا اثر کم ہوا تو امریکہ نے جسٹس پارٹی اور فتح اللہ کے تنازع پر خاموشی اختیار کی اور ان کو کھلا چھوڑ دیا تاکہ وہ اس کی وفاداری اور اس کے مفادات کی خدمت گزاری میں ایک دوسرے کے سے مقابلہ کریں۔
ج۔ غالب گمان یہ ہے کہ ممکنہ پیش بینی سے کم از کم اردگان کی حکومت رہے گی، وہ اپنی مقبولیت کو برابر اپنے قبضے میں رکھے ہوئے ہے، حتی کہ اگر اس پر دباؤ بڑھ جائے تو امریکہ گولن کی بجائے جسٹس پارٹی میں سے کسی دوسرے شخص کو ترجیح دے گا کیونکہ امریکہ کو یہ پتہ ہے کہ فتح اللہ کی تحریک شیخ اور مریدوں کی تحریک جیسی ہے، جسے اپنا وجود باقی رکھنے کیلئے کسی بااقتدار پارٹی کے سائے تلے رہنا پڑتا ہے، اسے حکومت نہیں مل سکتی۔
د۔ یہ امریکہ اور اس کے ایجنٹوں کے اندازے ہیں، امت جس چیز کیلئے عمل کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ برطانوی اور امریکی اثر و نفوذ اور اس کے ایجنٹوں اور پیروکاروں کو اکھاڑ پھینکیں، ان شاء اللہ، اور خلافت کو دوبارہ قائم کریں جیسا کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ((ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ)) "پھرنبوت کے نقش قدم پر خلافت ہوگی" (احمد اور داؤد اطیالسی نے روایت کی)۔ اورجس نے بھی خلافت اور اس کیلئے کام کرنے والوں کے ساتھ مقابلہ کیا اور استعماری کفار کا ساتھ دیا چاہے برطانوی ہوں یا امریکی، روسی اور فرانسیسی وغیرہ، ایسے لوگ دنیا و آخرت میں مسلمانوں کے ہاتھوں ذلت و رسوائی اٹھائیں گے۔
﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾.
"اوراس روز مؤمن خوش ہوجائیں گے - اللہ کی مدد سے، وہ جسے چاہتا ہے مدد دیتا ہے اور وہ غالب اور مہربان ہے" (الروم : 4-5)

Read more...

وضاحتی خط حزب التحریر پر جھوٹے الزامات خلافت کے قیام کو روک نہیں سکتے خلافت کے قیام کو قریب دیکھ کر امریکہ اپنے جھوٹے ایجنٹوں کو حرکت میں لے آیا ہے

10 فروری 2014 بروز پیر، پاکستان کے مختلف ٹی وی چینلز پر یہ خبر نشر ہوتی رہی کہ وزارت داخلہ نے کراچی پولیس اور رینجرز کو ایک رپورٹ بھیجی ہے کہ کراچی یونیورسٹی میں القائدہ کی ذیلی تنظیم حزب التحریر قائم ہوچکی ہے جس نے وہاں پر لیفلٹ بھی تقسیم کیے ہیں۔ امریکی ایجنٹ حکمرانوں کی جانب سے اس قدر مزحکہ خیز جھوٹ واشنگٹن کے فکری دیوالیہ پن اور پاگل پن کا واضح ثبوت ہے۔ حزب التحریر ایک اسلامی سیاسی جماعت ہے جو خلافت کے قیام کے لیے رسول اللہﷺ کے منہج پر چلتے ہوئے صرف اور صرف فکری و سیاسی جدوجہد کرتی ہے۔ حزب خلافت کے قیام کے لئے عسکری جدوجہد کی راہ کو اسلام کی رو سے حرام تصور کرتی ہے۔ یہ بات ہر باخبر انسان جانتا ہے کہ 1952 میں حزب التحریر بیت المقدس میں قائم ہوئی تھی اور اپنے قیام کے وقت سے ، طریقہ کار کے اختلاف کے باوجود وہ تمام اسلامی جماعتوں کو دینی بھائی سمجھتی ہے۔ حزب نے کبھی بھی کسی جماعت کے پروگرام میں شرکت نہیں کی سوائے اس صورت کے کہ وہ سیاسی و فکری پروگرام ہو۔
ایجنٹ حکمرانوں کی جانب سے حزب التحریر کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے میں آنے والی تیزی کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس حزب کی سیاسی و فکری جدوجہد کے خلاف سچ اور حقیقت پر مبنی بات کرنے کے لئے کوئی مواد سرے سے ہے ہی نہیں۔ وہ اور ان کے کافر استعماری آقا عوام اور افواج میں اسلام ، خلافت اور حزب التحریر کی بڑھتی ہوئی محبت سے ششدر ہوگئے ہیں۔ حزب التحریر سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں کو یہ بتا دینا چاہتی ہے کہ وہ حزب التحریر کے خلاف جتنا بھی جھوٹا پروپیگنڈہ کر لیں ، اللہ سبحانہ و تعالٰی کے حکم سے اسلام ایک ریاست کی صورت میں قائم ہو کر ہی رہے گا۔ وہ اپنی اس کوشش میں ویسے ہی بُری طرح سے ناکام و نامرادہوں گے جیسا کہ اس سے پہلے قریش کے کفار ناکام اور ذلیل ہوگئے تھے جب انھوں نے رسول اللہﷺ کو جادوگر، شاعر اور کاہن قرار دینے کے لئے زبردست مہم چلائی تھی۔
حزب التحریر پاکستان میں موجود میڈیا کے تمام اداروں کو بھی یاد دہانی کراتی ہے کہ جھوٹی خبر کو شائع کرنا بھی گناہ ہے۔ پاکستان کا میڈیا اس بات سے پوری طرح باخبر ہے کہ حزب التحریر ایک سیاسی جماعت ہے دنیا بھر میں اپنے شباب کی گرفتاریوں، ان پر تشدد یہاں تک کہ ان کی شہادتوں کے باوجود اپنے قیام کے دن سے لے کر آج تک، اس نے کبھی عسکری جدوجہد کہ راہ کو اختیار نہیں کیا کیونکہ وہ اس طریقہ کا ر کو حرام تصور کرتی ہے۔ لہٰذا ہم پاکستان کے میڈیا کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ حزب التحریر میں موجود اپنے بھائیوں اور بیٹوں کے خلاف حکومتی سازشوں اور جھوٹ کا حصہ نہ بنیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا ، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيراً أو ليصمت "وہ جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے۔۔۔اسے سچ بولنا چاہیے یا پھر وہ خاموش رہے" (بخاری و مسلم)۔

شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

روس تاتارستان کے مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہا ہے حزب التحریر ولایہ پاکستان نے روسی قونصل خانے کے باہر مظاہرہ کیا

حزب التحریر ولایہ پاکستان نے دو کروڑ کی آبادی پر مشتمل پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں روسی قونصل خانے کے باہر مسجد عمر پر مظاہرہ کیا۔ حزب التحریر ولایہ پاکستان تاتارستان میں روسی سکیورٹی ایجنسیوں کےہاتھوں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے شدیدمظالم کی پر زور مذمت کرتی ہے۔ ان روسی غنڈوں نے مسلمانوں کو مارا پیٹا ، ان کی ہڈیاں توڑ ڈالیں اور انھیں بجلی کے ذریعے اذیت کا نشانہ بنایا۔ مظاہرین نے بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا: "اے تاتارستان کے مسلمانو! خلافت کا قیام قریب ہے جوتمہیں روس کے مظالم سے نجات دلائے گی"۔
روس کو یہ جان لینا چاہیے کہ اس قسم کا جبر و تشدد اسلام کو اپنی منزل پر پہنچنے سے روک نہیں سکتا۔ تاریخ ان جابروں کی ذلت آمیز شکستوں سے بھری پڑی ہے جنھوں نے مسلمانوں کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنانے کی ہمت کی تھی۔ روس کو یہ بھی جان لینا چاہیے کہ وہ آج شام میں جس خلافت کے قیام سے شدید خوفزدہ ہے وہ اللہ کے حکم سے جلد ہی قائم ہو گی۔ اور چاہے پاکستان کو خلافت کا نقطہ آغاز بننے کا شرف حاصل ہوتا ہے یا نہیں ، لیکن مسلمانوں کی وسیع و عریض زمینیں اور طاقتور وسائل ایک بار پھر خلیفہ راشد کی قیادت میں ایک ہو جائیں گے۔
اے اللہ، الجبار، العزیز، مسلمانوں کو ان کی ڈھال خلافت اب ایک بار پھر لوٹا دیجئے! پھر ظالم و جابر افسوس سے اپنے سر پکڑے بیٹھے ہوں گے اور ان کے دل اس بات سے خوفزدہ ہوں گے کہ اب ان کے جرائم کا پورا پورا حساب لیا جائے گا! وہ مسلمانوں کی تمام افواج کو ایک فوج کی صورت میں دیکھیں گے جو جابروں کو ان کے انجام تک پہنچائے گی اور ایمان والوں کے دل اس سے سکون حاصل کریں گے۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں،
قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ
"ان سے تم جنگ کرو، اللہ تعالٰی انہیں تمھارے ہاتھوں عذاب دے گا، انہیں ذلیل و رسوا کرے گا، تمھیں ان پر مدد دے گا اور مسلمانوں کے کلیجے ٹھنڈے کرے گا"(التوبۃ:14)
اے افواج پاکستان! ہر جگہ شیطان کی کی دوست مسلمانوں کے خلاف اکٹھا ہو چکیں ہیں ۔ یہی وقت ہے کہ آپ صرف اللہ سے ڈریں اور ذلت و رسوائی کی لہر کا رخ موڑ دیں اور خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرۃ فراہم کر کے ایک عظیم و شان فتح سے امت کو ہمکنار کریں۔
إِنَّمَا ذَلِكُمْ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلاَ تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِي إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ
"یہ خبر دینے والا شیطان ہی ہےجو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے۔ تم ان کافروں سے نہ ڈرو اور میرا خوف رکھو، اگر تم مؤمن ہو"(آل عمران:175)

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک