اقوام متحدہ کی جانب سے صرف مغربی کنارے اور غزہ کو فلسطین قرار دینا افسوس اور شرم کا مقام ہے یا خوشیاں منانے کاموقع اور کیا یہ بہادرانہ موقف ہے؟
- Published in حزب التحریر
- Written by Super User
- سب سے پہلے تبصرہ کرنے والے بنیں
- الموافق
رات گئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی کہ فلسطین اقوام متحدہ کا غیر ممبر مبصر رکن ہے اور اس کی سرحدیں 4جون 1967کی ''مغربی کنارہ اور غزہ کی پٹی‘‘ہیں۔ اس قرارداد پرمغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی خاص کر 'الفتح ‘نے خوشی کی شہنائیاں بجائیں ،محمود عباس اور سائب عریقات نے بھی اسے فلسطین کے لیے تاریخی دن قرار دے کر اس پر خوشیاں منائیں۔جبکہ غزہ کی پٹی میں حماس نے بھی ان کے اس موقف کی حمائت کی اور خالد مشعل اور اسماعیل ھنیہ نے عباس کی اس کوشش میں مدد بھی فراہم کی ! اگرچہ اس قراردا د نے 1948ء کے فلسطین کو ہمیشہ کے لیے''ختم‘ کر دیا ہے جیسا کہ محمود عباس نے کہا،لیکن یہ کچھ لوگوں کے لیے بہت بڑی فتح اور کامیابی ہے ! یہ قرار داد اگر محمود عباس پر تھوپ دی جاتی تو ہم کہتے کہ یہ مجبور ہیں،لیکن انہوں نے خود اس قرارداد کو پیش کروانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زورلگا یا۔ اس برائی میں دونوں مد مقابل جماعتیں یعنی الفتح اور حماس اکھٹے نظر آئیں،حالانکہ یہ دونوں کبھی کسی خیر کے کام میں اکھٹے نظر نہیں آئے،اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سچ فرمایا ہے:
(أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ)
''کیا یہ لوگ زمین میں گھومے پھرے نہیں کہ ان کے دل (ایسے) ہوتے کہ اُن سے سمجھ سکتے اور کان (ایسے) ہوتے کہ اُن سے سن سکتے، بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہی اندھے ہوجاتے ہیں ‘‘(الحج:46)۔
تصورات کس قدر تبدیل ہوگئے اور اقدار کس قد ربدل گئیں کہ فلسطین کے زیادہ تر حصے کو اونے پونے داموں یہود کو بیچ دیا گیابلکہ بلا قیمت اس چیز کے بدلے جس کو صرف کاغذات میں غیر ممبر ملک فلسطین کہا جائے گا۔ اورا س پر ماتم کرنے کی بجائے شہنائیاں بجائی جارہی ہیں حالانکہ یہ انتہائی المناک اور گہرا زخم ہے! اللہ رحم کرے شاعروں کے سردار شوقی پر جس نے آج سے نوے(90)سال پہلے مصطفی کمال اتاترک کی جانب سے خلافتِ اسلامیہ کے نور کو بجھا کر اس کی جگہ سیکولر جمہوریت کی تاریکی کو لانے اور اسے کامیابی قرار دینے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا: کہ (عادت اغانی العرس رَجعَ نُواح ونعیت بین معالم الافراح) ''شادیانے ماتم اور نوحہ بن گئے اور شہنائیوں میں اعلانِ مرگ ہو گیا‘‘۔
یہ لوگ بھی ایسا ہی کر رہے ہیں اپنے ہاتھوں خود کو رسوا کر رہے ہیں اور ہماری مصیبتوں پر خوشیاں منارہے ہیں ۔ یہ اس قرارداد کو منظور کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور اس فلسطین کے لیے نہیں لگا رہے جس کو عمر رضی اللہ عنہ نے فتح کیا تھا، جس کوصلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے آزاد کروایا تھا اورخلیفہ عبد الحمید دوئم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی حفاظت کی تھی ۔۔ ہاں جو فلسطین ان اکابرین کی نظر میں فلسطین تھا یہ وہ فلسطین نہیں بلکہ یہ اس کا ایک چھوٹا ساٹکڑا ہے،لہٰذا اس معمولی سے ٹکڑے کے لیے یہ قرارداد اس طرح منظور کی گئی کہ امت کے ان غداروں کو اس قرارداد کو ایک کامیابی کی صورت میں پیش کرنے کا موقع مل جائے۔ اس چیز کو ممکن بنانے کے لیے امریکہ نے کردار ادا کیااور اس قرارداد کے حق میں ووٹ دلوائے،لیکن بظاہر اس قرارداد کی مخالفت کی ۔ اس طرح عباس اور عریقات کو اپنی اس غداری کے ''دفاع‘‘ میں یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ انہوں نے امریکہ کی مخالفت کے باوجود اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں اٹھا یاہے! انہیں معلوم ہے کہ وہ جھوٹے ہیں۔ امریکہ اگر انہیں بیٹھنے کا کہے تو وہ بغیر کسی حرکت کے بیٹھے رہتے ہیں ،لیکن امریکہ خود اس مسئلہ کا ایسا حل چاہ رہا تھا کہ جس کے ذریعے وہ ان تمام منصوبوں کا راستہ روک سکے جو اس کے اپنے موجوزہ حل یعنی دوریاستی منصوبے کے خلاف ہیں۔ لہٰذا خیانت ،دھوکہ اور پروپیگنڈہ کے تمام حربے استعمال کیے گئے تا کہ فلسطین کے بیشتر حصے کو گنوانے والی اس قرارداد کو بڑی کامیابی اور فتح ظاہر کیا جاسکے۔ رسول اللہ ﷺ نے سچ فرمایا ہے:ابنِ ماجہ نے ابو ہریرہؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((سیاتی علی الناس سنوات خدّاعات ،یصدّق فیھا الکاذب ،ویکذّب فیھا الصادق،ویوٗتمن فیھا الخائن ،ویُخوّن فیھا الامین،وینطق فیھا الرویبضۃ، قیل:و ماالرویبضۃ قال:الرجل تافہ فی امر العامۃ ))
''لوگوں پر ایسا وقت بھی آئے گا جب دھوکہ دہی عام ہو گی،اس وقت جھوٹوں کو سچا کہا جائے گا اور سچ بولنے والوں کو جھوٹا کہہ کر مذمت کی جائے گی۔ غداروں کو امانت دار جبکہ امانت داروں کو غدار کہا جائے گا۔ اور روبیضہ لوگوں میں کلام(ان کی نمائندگی) کریں گے ، پوچھا گیا رویبضہ کون ہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا: یہ نااہل، خائن اور ذلیل لوگ ہوں گے،جولوگوں کے اہم معاملات پر فیصلے کریں گے‘‘۔
اس کے باوجود ہم ان لو گوں سے کہتے ہیں جو ان قراردادوں کے ذریعے فلسطین کی اہمیت کو ہر لحاظ سے ''کم‘‘ کرناچاہتے ہیں اور ان لوگوں سے بھی جنہوں نے سیکولر ترکی کو اسلامی خلافت کا نعم البدل قرار دیا کہ :خلافت کے قیام اور فلسطین کی آزادی کے لیے ایک عظیم امت موجود ہے،امت میں سے کچھ بھٹکے ہوئے لوگ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اللہ کے اذن سے خلافت اور فلسطین کے لیے ایک مخلص اور سچی جماعت(حزب التحریر )موجود ہے جس نے امت کوساتھ لیتے ہوئے خود کو ان دو عظیم چیزوں کوواپس لینے کے لیے وقف کررکھا ہے۔ نبیِ صادق ﷺ نے اس کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا ہے: (ثم تکون خلافۃ علی منھاج النبوۃ )''اس کے بعد نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت قائم ہو گی‘‘(احمد، طیالسی)۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: (لتُقاتِلن الیہود فلتقتلنھم)''تم ضرور یہود سے لڑو گے اور انہیں قتل کرو گے ‘‘( مسلم)۔
( وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ )
'' اور اس روز مومن خوش ہوجائیں گے،یعنی اللہ کی مدد سے وہ جسے چاہتا ہے مدد دیتا ہے اور وہ غالب اور مہربان ہے‘‘(الروم:4-5)