الأربعاء، 25 جمادى الأولى 1446| 2024/11/27
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں! ویلیم ہیگ کو دوست رکھنے والوں کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں

12 جون 2012 کو برطانوی وزیر خارجہ ویلیم ہیگ نے اسلام آباد پہنچ کر اعلان کیا کہ "برطانیہ اعتماد اور فخر کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ وہ پاکستان کا دوست ہے"۔پاکستان پہنچتے ہی ہیگ نے شام کے مسلمانوں کے خلاف بات کرنے کے موقع کو ضائع نہیں کیا جو خلافت کے قیام کے لیے زبردست قربانیاں دے رہے ہیں جب اس نے شام میں مغربی مداخلت کے معاملہ کو اٹھایا۔ ہیگ کس دوستی کی بات کر رہا ہے؟ پاکستان کے مسلمان صدیوں سے جاری برطانیہ کی مسلم امت کے خلاف دشمنی کو اچھی طرح جانتے ہیں۔

انگریز صدیوں سے اپنے ہی ہمسائیوں سکاٹ، آئرش اور ویلش کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے، انگریز حکمرانوں نے دنیا کے معاشی مرکز، مسلم ہندستان پر اپنی لالچی نظریں جمائی اور مسلمانوں میں موجود غداروں کی مدد سے مسلم ہندوستان پر دو سو سال تک حکومت کی۔ پھر انگریز حکمرانوں نے عرب اور ترکوں میں غدار پیدا کیے تاکہ ان کی ریاست، خلافت کو تباہ کیا جا سکے یہاں تک کے اسی رجب کے مہینے سن 1342 ہجری بمطابق مارچ 1924 میں اس کا خاتمہ کر دیا۔ اس کے بعد فرانس کے ساتھ مل کر 1916 میں سکائیز پیکوٹ معاہدے کے ذریعے ان مسلمانوں کے درمیان جھوٹی سرحدیں قائم کر دیں جن کا رب ایک، رسول ﷺ ایک، قرآن ایک اور زمین بھی ایک تھی۔ دو سو سال تک ہندوستان کے مسلمانوں سے جنگ کرنے کے بعد لندن نے پورے ہندوستان پر مسلمانوں کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا کہ مسلمانوں کو ہندوستان کے اس حصے، پاکستان پر اختیار دیا جائے جو سب سے زیادہ غریب اور کمزور تھا۔ لیکن جب تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستان ایک مضبوط ریاست کی شکل میں سامنے آیا تو انگریز نے اپنے اتحادی ہندو بنیے کو 1971 میں پاکستان کو توڑنے کے لیے استعمال کیا۔ انگریز نے صرف پاکستان توڑنے میں ہی کردار ادا نہیں کیا بلکہ آج کے دن تک مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو یہ حق دینے سے انکار کر رہا ہے کہ وہ مسلم پاکستان کے ساتھ شامل ہو جائیں۔ یہ انگریز سانپ ویلیم ہیگ جس منہ سے خود کو پاکستان کا دوست کہتا ہے اسی منہ سے یہ مطالبہ بھی کرتا ہے کہ پاکستان نیٹو سپلائی لائن کھول دے۔

انگریز آج کے دن تک مسلمانوں سے، اسلام سے اور ان کی آنے والی ریاست خلافت کے خلاف جنگ کر رہا ہے۔ تو اگر یہ تمام مہربانیاں دوستی کے زمرے میں آتی ہیں تو پھر دشمنی کیا ہوتی ہے؟ جنگ عطیم دوئم کے بعد امریکہ کے ہاتھوں انگریز سے اس کے زیر اثر وسیع مشرق وسطی، جس میں پاکستان بھی شامل ہے، کی سرداری چھن جانے کے باوجو انگریز اس خطے کی سیاست میں ایک کمزور سازشی بوڑھے کا کرادر ادا کرتا آ رہا ہے جس کو وہ یہ کہ کہہ کر سراہتا ہے کہ "وہ ایک اہم کردار ادا کررہا ہے"۔ واشنگٹن کی طرح لندن بھی اس بات کو اچھی طرح سے جانتا ہے کہ امت مسلمہ اور استعماری طاقتوں کے درمیان کشمکش اب آخری مراحل میں ہے۔ آج امت مغربی طاقتوں کو ظالم سمجھتی ہے اور جانتی ہے کہ یہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں کوئی قصر نہیں چھوڑتے۔

انشاء اللہ جلد ہی خلافت قائم ہو گی اور وہ ان جھوٹی سرحدوں کو اکھاڑ پھینکے گی جو استعماری طاقتوں نے ان کے درمیان قائم کی تھیں اور ان کو ایک مضبوط اور وسائل سے مالامال ریاست کے تحت یکجا کر دے گی۔ خلافت دشمن ممالک جیسے امریکہ اور انگلینڈ سے تمام سفارتی، فوجی اور انٹیلی جنس تعلقات کو ختم کر دے گی کیونکہ ان تعلقات کی آڑ میں یہ اپنے لیے غداروں کی فوج کو بھرتی کرتے ہیں۔ اللہ سبحان و تعالی فرماتے ہیں:

 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُمْ مِنْ الْحَقِّ

اے لوگوں جو ایمان لائے ہو! میرے دشمنوں کو اپنا دوست مت بناوں جو تمھارے بھی دشمن ہیں جبکہ جو حق تمھارے پاس آ چکا ہے یہ اس کا انکار کرتے ہیں (الممتحنة۔1)


شہزاد شیخ

پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

ایجنسیوں نے نوید بٹ کے اغوا اور گرفتاری سے لاتعلقی کا جھوٹا بیان دے دیا سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غداروں تم خلافت کے قیام کو روک نہیں سکتے

آج حکومتی ایجنسیوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے روبرو سفید جھوٹ بولتے ہوئے نوید بٹ کے اغوا اور گرفتاری سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ کیانی اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار اپنے آقا امریکہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جھوٹ بولنے کا ریکارڈ قائم کر رہے ہیں۔ اس سے قبل بھی فوجی ایجنسیوں نے حزب التحریر کے اراکین کو اغوا کرنے کے بعد عدالتوں میں جھوٹے بیان حلفی جمع کرائے تھے کہ حزب کے اراکین ان کے قبضے میں نہیں۔ لیکن رہائی کے بعد ان اراکین نے عدالتوں کے سامنے یہ بیان ریکارڈ کروائے کہ انھیں فوجی ایجنسیوں نے اغوا کیا اور ان افسران کے نام بھی بتائے جنھوں نے ان پر تشدد کیا۔ اس کے علاوہ حالیہ دنوں میں ملک بھر سے غائب کیے جانے والوں کے لواحقین کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی انھی فوجی ایجنسیوں کا نام لیا جا رہا ہے۔ کیا پورا ملک جھوٹا ہے یا کیانی اور اس کے غنڈے سچے ہیں۔ دراصل کیانی اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود اس کے ساتھیوں سے کسی شرم کی توقع کی بھی نہیں جا سکتی کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے نہ صرف اس ملک کے عوام سے غداری کی ہے بلکہ اپنے ہی فوجی ساتھیوں کے خون سے آلودہ امریکی جنرلوں کے ساتھ ملنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور انھیں نیٹو سپلائی لائن کھولنے کی یقین دہانیاں کرواتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے نبی ﷺ کا فرمانہ ہے:

 

إِنَّ اللَّهَ لَيُمْلِي لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ يُفْلِتْهُ

"اللہ ظالم کو مہلت دیتا ہے یہاں تک کہ وہ اسے پکڑ لیتا ہے اور پھر وہ اسے نہیں چھوڑتا" (بخاری)

 

ایک طرف ملک میں کراچی سے لے کر پشاور اور اسلام آباد سے لے کر کوئٹہ تک امریکی دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہیں اور بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے ملک کو انارکی میں مبتلا کر رہے ہیں لیکن دوسری جانب نوید بٹ جیسے مخلص سیاست دانوں کو اغوا کیا جارہا ہے جو اس ملک کو امریکی غلامی سے نکالنے اور خلافت کے قیام کے ذریعے امت کی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ کی بحالی کی کوشش کر رہے ہیں۔ دراصل امریکہ اور اس کے یہ ایجنٹ حکمران اس تنکے سے بھی ڈرتے ہیں جو خلافت کے قیام کی تحریک کو تقویت پہنچا سکتا ہو اور اب جبکہ امریکہ خلافت کے قیام کو شام اور دوسرے اسلامی ممالک میں آتا دیکھ رہا ہو ان کے ظلم و ستم مین مزید اضافہ کر دیا ہے۔ کیانی اور اس کے ساتھیوں جان رکھو کہ خلافت کا قیام عنقریب ہے پھر نہ صرف اس دن امریکہ بلکہ تمھارے چہرے بھی خوف سے فق ہو رہے ہوں گے۔


شہزاد شیخ

پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Read more...

امریکہ اپنے خود ساختہ بشار کے متبادل ڈھونڈنے سے پہلے ہی اس کے مسلمانوں کے ہاتھوں بربادی سے خوفزدہ ہے اس لیے وہ یمن والے حل کو دہرانے کی کوشش کررہا ہے اور اس توہم پرستی کے ساتھ فوجی مداخلت کے اشارے دے رہا ہے کہ وہ اسلام کے دوبارہ اقتدار میں آنے کو روکے گ

 

پیر 28/05/2012کے دن امریکی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل مارٹن ڈیمپسی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا:،،یقیناًامریکی وزارت دفاع،،پینٹاگون،،شام میں جاری تشدد کو ختم کرنے کے لیے فوجی مداخلت کے آپشن کے لیے تیار ہے،یہ اچانک وضاحت امریکی وزیر دفاع پنیٹا،وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن اور خود صدر اوباماکے سلسلہ وار وضاحتوں کے بعد سامنے آیاکہ امریکہ شام میں فوجی مداخلت نہیں کرے گا کیونکہ اس سے معاملات پیچیدہ ہو جائیں گے،یہ وضاحت آخری بار،، G 8،،اور اس کے بعد نیٹو کے اجلاس کے موقعے پرکی گئی۔

 

شام کے لیے امریکی پالیسی ان خطوط پر کاربند تھی کہ اپنے ساختہ بشار کے لیے اس وقت تک قتل وغارت اور خون خرابہ کے لیے راستہ صاف رکھا جائے جب تک کہ اس کا ایسا متبادل تیار نہ کیا جائے جو شام میں اس کے اثرو نفوذ کے تسلسل کی حفاظت کر سکے،چنانچہ وہ اقتدار کی پر امن منتقلی کی آوازلگاکر،مذاکرات اور پے درپے مہلت کے ذریعے (بشار کے لیے)راستہ ہموار کرنے کی دلالی کر تا رہا تاکہ اپنے موجودہ ایجنٹ کے متبادل آنے والے ایجنٹ کو تیار کرنے سے فارغ ہو سکے.....گزشتہ تمام اقدامات،عرب مبصرین پھر عالمی مبصرین .......اس سلسلے کی آخری کڑی کوفی عنان کے اقدامات ہیں جو اس نے عام امریکی پالیسی کی خدمت کے طور پراٹھایا،خود عنان نے بھی اس کی وضاحت کی جس میں اس نے حکومت اور اپوزیشن کو مذاکرات کے میز پر مل بیٹنے کی دعوت دی،اس نے کہا کہ اس کی ذمہ داری شام کے موجودہ جھگڑے کا حل نکالنا ہے،ممکن ہے اس کی ابتدا سیاسی طریقے سے ہو......


یقیناًعنان کی جانب سے یہ پیش رفت امریکہ کے خصوصی اقدامات ہیں،اس کا یہ دورہ الحولہ کے قتل عام کے فورا بعد اورشام کی حکومت کے ساتھ بڑھتے ہوئے ڈبلومیٹک بائیکاٹ کے ماحول میں ہوا،جس میں شامی عوام کے لیے یہ پیغام تھا کہ صرف امریکی حل سے ہی شام کی حکو مت سے نجات مل سکتی ہے،یوں امریکہ اپنے منصوبے کی مارکیٹنگ کر رہا ہے:ایک مجرم حکومت جو انتہائی دیدہ دلیری سے نہتے شہریوں کے خلاف بھیانک جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے جبکہ جس پیش قدمی کی قیادت کوفی عنان کررہا ہے جو انسانیت کے خلاف جرائم پر پردہ ڈالنے کے فن کا ماہر ہے،بوسنیا میں اس کا کردار اس کا منہ بولتا ثبوت ہے،ہمارے حافظے میں بسنیاکے اس ہولناک خونریزی کی تصاویر ابھی تک محفوظ ہیں جب مغرب نے وہاں کے مسلمانوں کو ایک لمبے عرصے تک قتل اور ذبح ہو نے کے لیے چھوڑ دیا جس میں سیربرنٹسا میں8000بوسنیائی مسلمان مرد اور بچے قتل کیے گئے،یہی کوفی عنان اس وقت اقوام متحدہ کے شعبہ امن کا ذمہ دار تھا،جب انہوں نے دیکھا کہ پلڑا مسلمانوں کا بھاری ہو رہا ہے تب انہوں نے مداخلت کر کے اپنا ظالمانہ حل مسلط کردیا۔


جس طرح بوسنیا میں مسلمانوں کا پلڑا بھاری دیکھ کر فوجی مداخلت کے حوالے سے امریکہ کا لہجہ بدل گیا تھااور اس نے مسلمانوں کے زور کو توڑنے اور ان کو اپنے خودساختہ حل کو قبو کر نے پر مجبور کر نے کا ارادہ کیا،اسی طرح اب شام میں سربکف انقلابیوں کے پلڑے کو بھاری اور اپنے پالتو بشار کو ڈھگمگاتادیکھ کر کہ وہ متبادل ایجنٹ کی دستیابی تک بھی ثابت قدم نہیں رہ سکتاتب امریکہ کالہجہ بدل رہا ہے اور بشار کو قتل وغارت اور خونریزی کی مہلت دینے کی بجائے نظام کے اندر سے ہی تبدیلی اور بشار کی چھٹی کر کے اس کے نائب کو ذمہ داری سونپ نا چاہتا ہے،جیسا کہ پہلے ہی قطر نے اس یمنی طرز کی طرف دعوت دی تھی لیکن اس وقت امریکہ اور شامی حکو مت میں موجود اس کے پیروکاروں نے انکار کیا تھا،کیونکہ یہ طریقہ برطانیہ کا بنایا ہوا تھا،پھر وہی خود اس کی طرف آرہا ہے،چنانچہ اوبامانے ،،G8،،کے سربراہان پر بشار کی چھٹی کر نے کی ضرورت پر زور دیا اور یمن کی طرف اشارہ کر تے ہوئے کہا اقتدار کی منتقلی کا یہی ماڈل شام میں بھی کامیاب ہو سکتا ہے.....امریکہ کے سیکیورٹی اڈوائزر توماس جونیلون نے بھی اس کا اقرار کیا کہ صدر اوباما نے روس کے وزیر اعظم مید یفیدف کے ساتھ کیمپ ڈیوڈG8 کے اجتماع کے موقعے پر یمن کے طرز پراقتدار کی پر امن منتقلی کا معاملہ زیر بحث لا چکا ہے،اور اوباما اور پوٹن کی ہونے والی پہلی ملاقات میں بھی یہہ بات چیت کا موضوع ہو گا.....


امریکہ اس بات کو جان چکا ہے کہ شام میں لوگ ایک ایجنٹ کو دوسرے ایجنٹ سے یا ایک قبیح چہرے کو اس سے بھی بدتر یااس سے ذراکم بدصورت چہرے سے بدلنے کے لیے نہیں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں،بشار اس کا نائب یا اس کے نائب کا نائب یا اس کے سارے چمچے .....وحشیانہ جرائم اورخیانت میں برابر کے شریک ہیں،شام کے انقلابی اس کے سوا کسی متبادل پر راضی نہیں ہوں گے کہ اس نظام کو جھڑوں سے نکال کر پھینک دیا جائے اور اسلام کے دارالحکومت شام میں اسلامی حکومت اور خلافت راشدہ کو قائم کیا جائے.....یہی وجہ ہے کہ امریکہ فوجی مداخلت کی دھمکی پر مجبور ہو گیا،چنانچہ امریکی فوج کے سربراہ جنرل مارٹن ڈیمپسی کی مذکورہ وضاحت اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگر شام میں اس کے اثرونفوذ کو خطرہ ہو گیا تو عسکری مداخلت کا آپشن کھلا ہے،یہ شام میں نظام کو بدلنے کے لیے مداخلت نہیں جیسا کہ کچھ لوگ غلط فہمی سے ایسا سمجھ رہے ہیں،اس وقت اس قسم کے بیان کا مطلب یہ ہے کہ شام کی صورت حال اس قدر بگڑ چکی ہے کہ اس سے امریکی اثرو نفوذ کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے،یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ بشار کی حکومت بھی اس قدر کمزور ہوچکی ہے کہ متبادل ایجنٹ کی دستیابی تک بھی قائم نہیں رہ سکتی،یہی وجہ ہے کہ امریکہ انقلابیوں کو ڈرانے کے لیے کہ وہ شام میں اسلامی حکومت قائم نہ کریں فوجی مداخلت کے شوشے چھوڑرہا ہے کیونکہ اس کے بعدامریکہ ہمیشہ کے لیے اپنے گھر تک ہی محدود ہو گا کبھی واپس نہیں آئے گا۔


اے مسلمانوں:شام کی حکومت صرف داخلی طور پر انتشار کا شکار نہیں بلکہ اس کی بنیادیں ہی گرنے والی ہیں اور مختلف سرگرمیوں میں اضافے کی وجہ سے اس مبارک انقلاب کا پلڑا بھاری ہو تا جا رہا ہے،ساتھ ہی لوگوں کی طرف سے افسانوی حد تک ایمانی ثابت قدمی اور نظام کو گرانے پر اصراربرقرار ہے،دمشق کے ہڑتال نے بھی واضح اشارہ دیا کہ بشار انتظامیہ اپنے قلعوں ،جائے پناہ اور بیرکوں سے باہر نہ نکل سکی اور الحمیدیہ کا مشہوربازار بند کردیا گیا،اس بعداس کا جڑوان بازار الحریقہ اورالعصرونیہ پھر ساتھ ہی مدحت پاشا کا ثقافتی بازاراور خالد بن ولید روڈ وغیرہ......یوں دمشق کے دل کا اسٹرائیک نظام کے زہر خوری کی وجہ سے تڑپنے والے معدے کے لیے ایک اور مظبوط جھٹکا تھا۔

 

اے اللہ تعالی کے اذن سے نصر اورکامیابی کے شام کے انقلابی مسلمانوں :

علمبردار جھوٹ نہیں بولتے حزب التحریرمغرب اور اس کی حرکات سے تمہیں آگاہ کر تی ہے،خصوصی طورپر اس فیصلہ کن لمحے میں ان کے تمام اقدامات کو مسترد کر نے کا اعلان کرو اس اپوزیشن کو بھی اتار پھینکو جو مغرب کے زہر آلودحل کا مطالبہ کر رہا ہے،جو یوں ہے کہ اسد کے بعد شرع آئے گا جیسا کہ یمنی ماڈل میں ہوا کہ علی عبد اللہ صالح کے بعد عبد ربہ آیا ،اسی حل کو اوباما نے پوٹن کے سامنے پیش کیا ہے،مغرب سے کسی بھی قسم کا رابطہ اور حل کے مطالبے کو ایسی عظیم خیانت سمجھو جس کو معاف نہیں کیا جاسکتا،امریکی فوجی کمانڈر کی طرف سے عسکری مداخلت کی دھمکی تمہیں خوفزدہ نہ کرے ،جب تک تم اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ساتھ صادق ہو امریکہ اور اس کا ٹولہ اللہ کے اذن سے دم دبا کر بھا گے گا......تم اپنے مخلص فوج اور اپنی امت کی بھر پو توجہ سے اس نظام کے قلعہ قمع کر نے پر قادر ہو ،جس طرح تم نے یہ اعلان کیا تھا کہ ،،اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں جھکیں گے ،،اسی طرح یہ اعلان بھی کروکہ،،امریکہ کے سامنے نہیں جھکیں گے اور اس کے حل کو قبول نہیں کریں گے،،.....اعلان کرو کہ سازشوں کا زمانہ گزر گیا.....آج کے بعد تمہارا ہمارے اوپر کوئی غلبہ نہیں ہو گا.......اعلان کرو کہ ہمارے انقلاب کا منزل مقصود مغرب بناوٹی کافر نظام اور اس کے سرکش ایجنٹوں سے مکمل آزادی ہے.......ہم سوائے اسلام کے کسی اور چیز پر دین، حکمرانی اورنظام زندگی ،،خلافت علی منہاج نبوت ،،کے طور پرراضی نہیں ہوں گے.....اعلان کرو کہ شام کی سرزمین اسلام کی دارالحکومت ہے،عظیم معرکے کا میدان ہے،یہ تمام مکرو فریب کر نے والوں اور اس کے اور مسلمانوں کے حق جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کا قبرستان ثابت ہو گا،

(سیصیب الّذین اٗجرموا صغار عند اللہ وعذاب شدید بما کانو یمکرون)

ترجمہ:،،عنقریب ان مجرموں کو اللہ کی طرف سے ذلت اورشدید عذاب کا سامنا ہوگا جوچالبازیاں کر تے ہیں،،

Read more...

پانیٹا! امریکہ کے لیے امت کے صبر کا دامن بہت پہلے ختم ہو چکا ہے!

امریکہ کے سیکریٹری دفاع لیون پانیٹا نے 7 جون 2012 کو امریکہ کی افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جاری صلیبی جنگ میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے اپنی مایوسی کا اظہار کیااور کہا "ہم اپنے صبر کی انتہا کو پہنچ رہے ہیں"۔ واشنگٹن اور پاکستان میں اس کے ایجنٹ کیانی یہ جان لیں کہ امت امریکہ کے مظالم کے حوالے سے اپنے صبر کا دامن بہت پہلے چھوڑ چکی ہے اور پاکستان کے مسلمان بھی یہی جذبات رکھتے ہیں۔

پاکستان کی افواج نے، جو کہ امت کی سب سے مضبوط فوج ہے اور امریکی بدمعاشی کا مقابلہ کر سکتی ہے، کیانی کی غداری کی وجہ سے بہت نقصان اٹھایا ہے۔ افغانستان کی آزادی کے لیے قابض امریکی افواج کے خلاف اپنے قبائلی مسلمان بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے، افواج پاکستان نے قبائلی علاقوں میں فتنے کی جنگ میں ہزاروں جانوں کا نقصان اٹھایا ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جس کا مقصد بزدل امریکی افواج کو تحفظ فراہم کرنا ہے جو چند مٹھی بھر مجاہدین کے ساتھ لڑنے میں اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتی ہے۔ یہ نقصان اس کے علاوہ ہے جو امریکی فوج اور اس کی ایجنسیوں نے پاکستان بھر میں افواج پاکستان کو پہنچایا ہے لیکن اس کا الزام مسلمانوں پر ڈال دیا جاتا ہے تاکہ افواج پاکستان کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ قبائلی علاقوں میں جنگ لڑنے پر تیار ہوں۔

اگر یہ سب کچھ بھی پاکستان کے مسلمانوں کے لیے امریکہ سے مایوس ہو جانے کے لیے کافی نہیں تھا تو امریکہ نے پاکستانی افواج کو تین محاذوں پر پھیلا دیا ۔پہلے امریکہ نے افواج پاکستان کوقبائلی علاقوں میں جانے پر مجبور کیا۔ دوسرا امریکہ نے افغانستان کی سرزمین کو بھارت کے لیے کھول دیا تا کہ وہ نہ صرف بلوچستان بلکہ قبائلی علاقوں میں بھی بدامنی پیدا کر سکے۔ تیسرا امریکہ نے کیانی اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود اس کے چند غدار ساتھیوں کو بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے نام پر بھارت کے سامنے جھک جانے کا حکم دیا اور بھارت کو یہ قوت بخشی کے وہ مقبوضہ کشمیر میں اپنے ظلم و ستم میں مزید اضافہ کر دے۔ اور اگر یہ سب کچھ بھی مسلمانوں کے صبر کے دامن کو لبریز نہیں کر سکا تو دہشت گردی کے نام پر پاکستان کی معیشت کو پہنچنے والے اربوں ڈالر کے نقصان اور امریکی ڈرون حملوں اور بم دھماکوں کے ذریعے ہزاروں نہتے شہریوں کی ہلاکت بھی کیا ہمارے صبر کا امتحان نہیں ہے؟

یقیناً امت امریکہ کی ناانصافیوں کے حوالے سے اپنے صبر کی انتہا کو پار کر چکی ہے اور اب ایک انقلاب کے ذریعے امریکہ کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے جس کی قیادت اس وقت شام کے بہادر مسلمان کر رہے ہیں جو یہ اعلان کر رہے ہیں کہ "لوگ نئی خلافت چاہتے ہیں"۔ اب یہ مسلم افواج کے افسران پر منحصر ہے کہ وہ کب اپنے درمیان موجود چند غداروں کو اس طرح سے جھٹک دیتے ہیں جیسے کندھے پر بیٹھی مکھی کو جھٹک دیا جاتا ہے اور اسلام کو دوبارہ سربلندی سے سرفراز کرتے ہیں۔ یہ ان افسران پر لازم ہے کہ وہ خلافت کے قیام کے لیے حزب التحریر کو نصرة دیں اور پھر پانیٹا اور اس کے دوست وہ دیکھے گے جو وہ نہیں دیکھنا چاہتے۔ ایک ایسی امت جو اسلام کی بنیاد پر باعزت اورطاقت ور ہو گی اور امریکہ سے اس کے ایک ایک زیادتیوں کا حساب لے گی۔

وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ

"لیکن عزت، طاقت اور شہرت سب اللہ اور اس کے رسولﷺ اور ایمان والوں ہی کے لیے ہے لیکن منافقین نہیں جانتے۔"(منافقون۔8)

ہم پانیٹا اور اس کے استعماری ملک کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اس امت کے خلاف اپنی خوفناک پالیسیوں اور منصوبوں سے دست بردار ہو جائے، آزادی کے نام پراپنے بوسیدہ نظریہ حیات کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دے اور وحی کی بنیاد پر قائم نظریہ حیات یعنی اسلام کو قبول کر لے جو اس کے لیے اس دنیا اور آخرت دونوں میں فائدے مند ہو گی۔اور اگر وہ اس سے انکار کرتے ہیں تو انھیں غلط نظریہ حیات پر قائم اپنے سابق پیش رو یعنی رومنز، فارس اور فروعون کے انجام سے سبق سیکھنا چاہیے۔

أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَبْلُ فَذَاقُوا وَبَالَ أَمْرِهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

"کیا تم تک ان کی خبر نہیں پہنچی جنھوں نے انکار کیا اور انھوں نے اپنے انکار کا مزہ چکھا اور ان کے لیے تکلیف دہ عذاب ہے۔"(تغابون۔5)

 

شہزاد شیخ

پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

 

Read more...

نوید بٹ کو اغوا کے تین ہفتوں بعد بھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا

پاکستان میں حزب التحریر کے ترجمان نوید بٹ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود تین ہفتے گزر جانے کے بعد بھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ حکومتی وکیل نے یہ عذر پیش کیا کہ متعلقہ ایجنسیوں کو ابھی تک نوٹس بھیجے نہیں جاسکے لہذا مزید وقت دیا جائے جس پر عدالت نے 11 جون کی نئی تاریخ دے دی جب تک نوید بٹ کو اغوا ہوئے ایک ماہ کا عرصہ گزر چکا ہوگا۔

مواصلاتی ترقی کے اس دور میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے نوٹس تین ہفتے گزر جانے کے بعد بھی متعلقہ اداروں کو بھیجے نہیں جا سکے اور عدالت نے بھی کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مزید ایک ہفتے کا وقت دے دیا۔ کیا یہ بات حیر ت کا باعث نہیں کہ "آزاد عدلیہ" سیاسی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ فوجی اداروں سے بھی اپنے احکامات کی تعمیل کرانے سے قاصر ہے یا عدالتیں بھی دراصل قانونی موشگافیوں کا سہارا لے کر ان حکومتی غنڈوں کو اپنی غیر قانونی سرگرمیوں کو مکمل کرنے میں معاونت فراہم کر رہی ہیں۔ کیا آزاد عدلیہ اس حقیقت سے واقف نہیں کہ امریکی جاسوس سفارتی حیثیت کی آڑ لے کر اسلحے سمیت پورے ملک میں دندناتے پھرتے ہیں اور پکڑے جانے کے باوجود ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں بنتا بلکہ انھیں باعزت رہا کر دیا جاتا ہے

جبکہ پاکستان سے امریکی راج اور سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور خلافت کے قیام کا مطالبہ کرنے والوں کو دن دھاڑے اور رات کے اندھیروں میں ان کے بیوی بچوں کے سامنے سے اغوا کر لیا جاتا ہے، انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور یہ دھمکیاں دیں جاتی ہیں کہ اگر خلافت کے قیام کی پرامن سیاسی جدوجہد سے باز نہ آئے تو قتل کر دیے جاوں گے۔ ایک طرف "آزاد عدلیہ" اپنے ایک حکم کی تعمیل نہ کرنے پر سیاسی حکومت کے سربراہ گیلانی کو تو عدالت میں طلب کرتی ہے لیکن سینکڑوں لاپتہ افراد کے اغوا میں کیانی کے غنڈوں کے ملوث ہونے کے واضع شواہد کے باوجود کیانی کو کیو ں عدالت میں طلب نہیں کیا جاتا؟

کیا عافیہ صدیقی، سانحہ لال مسجد، اڈیالا جیل سے اغوا کیے جانے والوں اور بعد میں ان کی لاشیں ان کے لواحقین کے حوالے کیے جانے اور اس جیسے سینکڑوں واقعات یہ ثابت نہیں کرتے ہیں کہ کیانی اور سیاسی فوجی قیادت میں موجود اس کے چند غدار ساتھی ہر اس شخص کو نمونہ عبرت بنانا چاہتے ہیں جو ملک سے امریکی راج کے خاتمے اور اسلام کے مکمل نفاذ کا مطالبہ اور جدوجہد کرتا ہے۔

حزب التحریر کیانی پر یہ واضع کر دینا چاہتی ہے کہ اس کی یہ گھٹیا حرکتیں نہ اس سے قبل حزب کو اس کی جدوجہد سے روک سکی ہیں اور نہ آئیندہ وہ اس میں کامیاب ہوگا۔ کیانی کو قزافی، حسنی مبارک اور بن علی جیسے غداروں کا انجام یاد رکھنا چاہیے کہ وہ نہ تو ان جتنا مضبوط ہے اور نہ ہی ان سے زیادہ امریکہ کا پسندیدہ غلام ہے۔ انشاء اللہ خلافت کا قیام عنقریب ہے اور وہ دن مومنین کے لیے خوشی اور کیانی اور اس کے ساتھیوں کے لیے انتہائی خوف کا دن ہو گا۔

 

شہزاد شیخ

پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

 

Read more...

اگر خلافت کے قیام سے قبل یہ آخری سرمایہ دارانہ بجٹ تقریر ہے، تو پھر یقیناً یہ ایک "تاریخی" تقریر ہے

آج یکم جون 2012 کو وزیر خزانہ حفیظ شیخ کی بجٹ تقریر کو تاریخی قرار دیا جا رہا ہے، کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں کسی سیاسی حکومت کو پہلی بار اپنے پانچ سال پورے کرنے کا موقع ملا ہے اور اس نے پانچ بجٹ پیش کیے ہیں۔ لہذا، یہ بجٹ اس لیے "تاریخی" نہیں ہے کہ اس کے نتیجے میں سستی توانائی میسر ہو گی یا زراعت اور صنعتی شعبے کی بحالی ہو گی یا عوام کو کمر توڑ مہنگائی یا ظالمانہ ٹیکسوں سے نجات ملے گی۔ بلکہ یہ بجٹ صرف اس لیے "تاریخی" ہے کیونکہ موجودہ حکومت کو پانچویں بار اسے پیش کرنے کاموقع مل گیا ہے۔ حزب التحریر اعلان کرتی ہے کہ، جو امر اس بجٹ تقریر کو تاریخی بناتا ہے وہ یہ ہے کہ انشاء اللہ لوگ ایسی تقریر آخری دفعہ سنیں، جس میں سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد پر مزید ظالمانہ پالیسیوں کا اعلان ہوا، وہ نظام جو اپنی لوٹ کھسوٹ اور ناانصافی کی وجہ سے پوری دنیا میں تباہ ہو رہا ہے۔ جو امر اس بجٹ تقریرکو تاریخی بناتاہے وہ یہ ہے کہ خلافت کے قیام سے قبل یہ آخری سرمایہ دارانہ بجٹ تقریر ہو، وہ خلافت جو انشاء اللہ پاکستان کی مسلم سرزمین کو معاشی ترقی کا ایک زبردست نمونہ بنا دے گی۔ ہم آپ کے سامنے اسلام کے اس معاشی نظام کی چند نمایاں پالیسیاں بیان کرتے ہیں جو انشاء اللہ خلافت نافذ کرے گی۔

1- سستی بجلی اور صنعتی ترقی

خلافت کے قیام کے ساتھ ہی عوام کو سستی بجلی کی صورت میں فوری سہولت میسر ہو گی۔ یہ اس لیے ممکن ہو گا کیونکہ نظام خلافت میں عوامی اثاثوں کو نہ تو نجی اور نہ ہی ریاستی ملکیت میں رکھا جا سکتا ہے بلکہ عوام ان کے اصل مالک ہوتے ہیں، جبکہ ریاست عوام کی نمائندہ کے طور پر ان کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:

الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ الْمَاءِ وَالْكَلَإِ وَالنَّارِ

"تمام مسلمان تین چیزوں میں شریک ہیں: پانی، چراگاہیں اور آگ"۔ (احمد)

اس طرح توانائی کے تمام وسائل جس میں تیل و گیس کے کنویں، کوئلے کی کانیں اور بجلی پیدا کرنے کے کارخانے شامل ہیں کی کبھی بھی نجکاری نہیں کی جا سکے گی۔ خلافت کبھی بھی ان عوامی اثاثوں کو نفع حاصل کرنے کے لیے استعمال نہیں کرے گی بلکہ وہ اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ان عوامی اثاثوں کا فائدہ پورے معاشرے تک پہنچے۔ ان اقدامات کے بعد توانائی اور تیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی ہو گی، جس کی وجہ سے عوام کو سکون میسر ہو گا اور گرتی ہوئی زراعت اور صنعتی شعبے کو ایک نئی زندگی ملے گی۔

2- منصفانہ ٹیکسوں کا نظام

صرف خلافت کے قیام کی صورت میں ہی آپ کی جان ناقابل برداشت ٹیکسوں سے چھوٹ سکتی ہے کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا:

لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ صَاحِبُ مَكْسٍ

"کسٹم ٹیکس لینے والا جنت میں داخل نہ ہوگا"۔ (احمد)

اس حدیث کی روشنی میں ریاست اپنی مرضی یا عالمی بینک اور آئی۔ایم۔ایف کی شرط کی وجہ سے لوگوں پر ٹیکس نہیں لگا سکتی۔ ریاست خلافت کے بیت المال میں صرف انہی ذرائع سے مال و دولت آسکتی ہے جس کی اللہ سبحان و تعالی نے اجازت دی ہو۔ اسلام میں لوگوں کے ذاتی مال کی حرمت ہے اور ریاست خلافت "ٹیکسوں" کے نام پر اپنے شہریوں کو ان کی دولت سے محروم نہیں کر سکتی۔ صرف اللہ سبحان و تعالی ہی اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ کس مال و دولت پر منصفانہ ٹیکس لگ سکتا ہے اور کون اس قابل ہے جو اس کو ادا بھی کر سکے۔ اسلام کا اپنا ایک منفرد ٹیکس کا نظام ہے۔ عوام کی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد زائد عوامی اثاثوں کو بیرون ریاست بیچ کر حاصل ہونے والی آمدنی جیسے گیس، تیل، سونا، تانبہ۔ اسی طرح زراعی زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار پر عشر اور خراج اور صنعتی پیداوار پر لاگو ہونے والی زکوة، یہ وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعے ریاست خلافت لوگوں کے معاملات کی دیکھ بھال کے لیے وسائل اکھٹے کرے گی۔

3- قیمتوں میں استحکام

صرف ریاست خلافت کے قیام کے بعد ہی آپ قیمتوں میں استحکام دیکھیں گے اور یہ اس لیے ممکن ہو گا کیونکہ اسلام لازمی قرار دیتا ہے کہ ہر ایک سکہ اور نوٹ کی بنیاد حقیقی دولت یعنی سونے اور چاندی پر ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ سونے کے دینار جس کا وزن 4.25 گرام اور چاندی کا درہم جس کا وزن 2.975 گرام ہو، بنایا جائے۔ یعنی ریاست خلافت اپنی مرضی سے جب چاہے جتنا چاہے کرنسی نوٹ چھاپ نہیں سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں ریاست خلافت میں صدیوں تک اشیاء کی قیمتوں میں استحکام رہا۔

4- زرعی انقلاب

ریاست خلافت کے قیام کے بعد آپ زرعی پیداوار میں زبردست اضافہ دیکھیں گے۔ اسلام زمین کی ملکیت کا حق دار اس کو ٹھراتا ہے جو اس سے پیداوار حاصل کرتا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ أَعْمَرَ أَرْضًا لَيْسَتْ لِأَحَدٍ فَهُوَ أَحَقُّ

"جس کسی نے ایسی زمین کو کاشت کیا جو کسی کی ملکیت میں نہیں، تو وہ اُس کا زیادہ حقدار ہے"۔ (بخاری)

اسلام اس بات کو بھی لازمی قرار دیتا ہے کہ اگر ایک زمین کا مالک مسلسل تین سال تک کاشت نہ کرے تو اس سے زمین واپس لے لی جائے ۔اس قانون کے نتیجے میں زمین کا مالک اس بات کو یقینی بنائے گا کہ وہ زمین سے بھر پوراستفادہ حاصل کرے جس کے ذریعے زرعی پیداوار میں اضافہ ہو گا۔ ریاست خلافت ہر اس شخص کو عطیات اور بلا سودی قرضے فراہم کرے گی جو زمین کو کاشت کر سکتا ہو۔ اس طرح چند مہینوں میں ناصرف زمین کی کاشت میں اضافہ ہو جائے گا بلکہ دیہی علاقوں کی زندگی میں بھی ایک انقلاب آجائے گا۔

اس لیے حزب التحریر مسلمانوں کو اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ وہ اس کفریہ سرمایہ دارانہ نظام کو پھینک دیں اور فوری طور پر خلافت کے قیام کی سنجیدہ کوشش میں حزب التحریر کے ساتھ شامل ہو جائیں۔

 

شہزاد شیخ

پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

 

Read more...
Subscribe to this RSS feed

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک