الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

ممتاز عالم، عطاء بن خلیل ابو الرشتہ امیر حزب التحریر

کا 1438 ہجری کے ذی الحج کے آغاز پر خطاب

 

﴿وَالْفَجْر وَلَيَالٍ عَشْر

"اس صبح کی قَسم۔اوران دس (مبارک) راتوں کی قَسم"

(سورةالفجر: 2-1)

 

اُن سچے ، پاکیزہ اور دعوت کے نیک علمبرداروں کے لئے، اگرچہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کے لئے پاکیزگی کا بیان نہیں کرتے۔

ہماری ویب سائٹ سے استفادہ کرنے والے حق کے اُن علمبرداروں کے لئے کہ جو اس میں اللہ کی اجازت کے ساتھ اچھائی کے متلاشی ہیں۔۔۔

اُن تمام مسلمانوں کے لئےکہ جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اُس کے رسول ﷺ سے محبت کرتے ہیں۔

اُن  تمام لوگوں  کو میری طرف سے دل کی گہرائیوں سے "اسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ"

جیسا کہ آپ واقف ہیں کہ ہم عید کی صبح آپ کو مبارک باد دینے کی روایت رکھتے ہیں مگر امام نے فجر کی نماز میں اوپر بیان کردہ مقدس آیات کی تلاوت کی،لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ میں ان دس برکت والے دنوں میں سے پہلے دن پر آپ  سے بات کروں، کہ اللہ نے اِن  دس دنوں کا وعدہ کیا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اِن  دس دنوں میں کیے گئےنیک اعمال کو باقی دنوں سے افضل قرار دیا ہیں۔ احمد نے اپنی مسند میں سعید بن جبیر سے اور اُنہوں نے ابن عباس سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

«مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهَا أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ يَعْنِي أَيَّامَ الْعَشْرِ قَالَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلَّا رَجُلًا خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْء»

"جس کسی نے بھی ان دنوں میں( یعنی ذی الحج کے پہلے دس دنوں میں) نیک اعمال کیے وہاللہ سبحانہ و تعالیٰ کے    نزدیک دوسرے دنوں میں کیے گئے اعمال سے افضل ہیں"، صحابہ  نے دریافت " کیا  الله  کی راہ میں جہاد کرنے سے بھی افضل ہیں؟"، آپ ﷺ نے جواب دیا " الله  کی راہ میں جہاد کرنے سے بھی افضل  ہیں"، سوائے اُس شخص کے کہ جو اپنی جان اور مال کے ساتھ  الله کی راہ  میں نکلا   اوران میں سے کسی چیز کے ساتھ واپس نہیں لوٹا  (یعنی شہید ہوگیا) "۔

 

یہ عظیم دن ذی الحج کے مقدس مہینے کے ساتھ  ہی شروع ہوتے ہیں اور عید قربان پر ختم ہوتے ہیں ، اور یہ کہ میں الله عز و جل سے دعا  کرتا ہو ں کہ ان دنوں کو اسلام اور مسلمانوں کے لئے خیر وبرکت کا  ذریعہ بنائے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہماری عبادات قبول فرمائے،اور یہ کہ یہ دس راتیں اُن تمام لوگوں کےلئے خیر کا باعث ہوں کہ جو ان دنوں کا ٹھیک طریقہ سے حق ادا کریں، کیونکہ یہ دن سچائی ، خلوص ،اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے کے دن ہیں ،جن میں اچھے اعمال اور دعائیں الله کی اجازت سےقبول ہوتی ہیں۔

 

پیارے بھائیوں اور بہنوں :

کچھ شباب کہتے ہیں کہ ہم پر بین الاقوامی، علاقائی، اور اور مقامی طور پر ہراساں کرنے کا عمل تیز ہوا ہے۔ جی ہاں، یہ بات سچ ہے، لیکن یہ ناامیدی یا غم کی وجہ نہیں ہے بلکہ یہ تو کامیابی کی نشانی ہے کیونکہ بحران میں شدت اس کے ختم   ہونے کی نشانی ہوتی ہے، اور رات کی شدید تاریکی  حقیقی صبح کی آمد کا  اعلان ہوتاہے۔ پس ہم جانتے ہیں کہ کفارِ قریش نے آپ ﷺ کی دعوت کامقابلہ کیا، اور دعوت کے راستے میں ہر لمحہ بڑھتے ہوئے ظلم کی ساتھ رکاوٹیں کھڑی کیں۔ اُنہوں نے آپ ﷺ اور صحابہ کا شعب ابی طالب کی گھاٹی  میں قید کر کے قطع تعلق (بائیکاٹ) کیا، اُن پر بے تحاشہ تشدد کیا یہاں تک کہ آپ ﷺ کے پاؤں مبارک سے خون جاری ہوگیا۔ قریش نے آپ ﷺ کے خلاف جھوٹا  پروپیگنڈہ کیا اور معاذ الله آپ ﷺ پر جادو، دیوانگی اور جھوٹ بولنے کا  الزام لگایا۔

 

﴿كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِن يَقُولُونَ إِلاَّ كَذِبًا

"کتنا بڑا بول ہے جو ان کے منہ سے نکل رہا ہے، وہ (سراسر) جھوٹ کے سوا کچھ کہتے ہی نہیں"(سورة الکھف:5)۔

 

 

پھر بحران مزید شدت اختیار کر گیا اور انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کو قتل کرنے پر اتفاق کیا(معاذ الله)۔ انہوں نے آپ ﷺ کا غارِ ثور تک پیچھا کیا، جہاں آپ ﷺ اور حضرت ابو بکرنے پناہ لی ہوئی تھی، اور کفار غارِ ثور کے منہ پر صرف ایک گز کے فاصلے پرکھڑے تھے۔ جس شام یہ واقع ہوا، اُس کے ٹھیک ایک یا دو دن بعد آپ ﷺ نے مدینہ میں  اسلامی ریاست قائم کی کہ جس کی روشنیوں نے حق کو چار وں طرف پھیلا دیا۔

 

﴿إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لأُوْلِي الأَلْبَابِ

"بے شک اس میں عقل والوں کے لئے نصیحت ہے"(سورة الزمر:21)۔

 

اور یقیناً اس ہی دعوت کے ہم بھی علمبردار اور الله کے رسول ﷺ کے نقشِ قدم پر رواں دواں ہیں۔ حزب التحریر جو کہ اس دعوت کی رہنما ہے، اس کے شباب اور قیادت مختلف طریقوں سے ہراساں کیے جانے کا شکار ہیں یہاں تک کہسازشیوں کی سازشوں ، ظالموں کے جاسوسوں اور نفرت کرنے والوں کے ہاتھوں ظلم اور تشدد سے شہیدکر دیے گئے۔

 

جہاں تک حزب کی بات ہے تو تقریباً تمام مسلم ممالک میں اس پر پابندی لگا دی گئی ہے اور اسے کام کرنے سے روکا گیا ہے۔ یہاں تک کہ ایسے ممالک کہ جس میں مختلف نقطہ نظر رکھنے والی جماعتوں کو کام کرنے کی آزادی ہے وہاں بھی حزب التحریر پر پابندی لگادی گئی ہے جیسے کہ انڈونیشیا۔ جبکہ ایسے ممالک کہ جہاں ہر قسم یہاں تک کے فساد پھیلانے والی جماعتوں کو بھی کام کرنے کی آزادی ہے وہاں پر بھی حزب التحریر پر پابندی ہے جیسے کہ تیونس۔ یہ سب اس لیے ہورہاہے کیونکہ حزب کلمہ حق بلند کرتی ہے۔ جہاں تک حزب کے شباب کی بات ہے تو ظالموں کی جیلیں اِن کی حالتِ زار کو بیان کرتی ہیں کہ لوہے کی تنگ و تاریک جیلوں میں اِن پر تشدد کیا جاتا ہے اور معاشرے  میں، جو کہ ایک کھلی جیل کی طرح ہے، اِن کا پیچھا کیا جاتا ہے، مگر یاد رہے  کہ ہم الله کی ملکیت ہیں اور اُس ہی کی طرف لوٹ کے ہمیں جانا ہے۔

 

جہاں تک حزب کی قیادت کی بات ہے تو حزب کے پہلے امیر کو نفرت کرنے والوں اور جاسوسوں نے بے شمار جھوٹے الزامات کا نشانہ بنایا، وہ لوگ اِن کے متعلق کھلم کھلا جھوٹ بولتے رہے اور بولتے رہے۔۔۔ دوسرے امیر کو انہوں نے صرف بدنام ہی نہیں کیا  بلکہ اُن پر یہ بھی الزام لگادیا کہ اُنہوں نے الله کے رسول ﷺ کے فکر اور طریقہ کار کی خلاف ورزی کی ہے۔۔۔ الله کے غلام حزب کے تیسرے امیر کے متعلق انہوں نے صرف جھوٹ ہی نہیں گڑھا اور الله کے رسول ﷺ کے فکر اور طریقہ کار کی خلاف ورزی کا الزام ہی نہیں لگایا بلکہ اُن کی وفات کی جھوٹی خبر بھی پھیلائی۔ یہ لوگ حقیقت میں بے وقوف ہیں کہ اِن کو سمجھ ہی نہیں، کیونکہ اگر انہیں سمجھ ہوتی تو یہ جان لیتے کہ حزب کے امیر کی وفات کا مطلب حزب کی وفات ہرگز نہیں ۔بلکہ ایسی صورت میں عطاء بن خلیل ایک دوسرے عطاء بن خلیل سے بدل دیا جائے گا جو کہ زیادہ طاقتور، زیادہ  مضبوط ہوگا اور جو اِن لوگوں سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق  معاملات کرے گا:

 

﴿وَإِذَا خَلَوْاْ عَضُّواْ عَلَيْكُمُ الأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ قُلْ مُوتُواْ بِغَيْظِكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ

"اور جب یہ اکیلے ہوتے ہیں تو تم پر غصے سے انگلیاں چباتے ہیں، فرما دیں: مر جاؤ اپنی گھٹن میں، بیشک اللہ دلوں کی (پوشیدہ) باتوں کو خوب جاننے والا ہے"(سورة آل عمران: 119)۔

 

یہ دعوت الله کی ملکیت ہے اور اسے سازش کرنے والوں کی سازشوں، ظالموں کے جاسوسوں، نفرت کرنے والوں کے دہن سے اور اور بدنام کرنے والوں کے جھوٹ سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، بلکہ یہ دعوت بلند سے بلند تر ہوتی جائےگی اور الله کے حکم سے اپنی روشنی آسمانوں تک پہنچادے گی۔ اور الله عز و جل کا وعدہ اور رسول الله ﷺ کی بشارت و خوش خبری تین مرحلوں  میں پوری ہوں گی:

 

یہ جبر کی حکومتیں ایک گڑھے میں گر جائیں گی اور نبوت کے طریقے پر خلافت کا  قیام ہوگا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

« ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلاَفَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةٍ ثُمَّ سَكَتَ»

"پھر ظلم کی حکمرانی ہو گی اور اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر جب اللہ چاہے گا اسے ختم کردے گا۔ پھر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت ہو گی۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ خاموش ہوگئے"

( امام احمد نے حذیفہ بن الیمان سے روایت کیا

 

 

یہ دنیا پھر سے روشن ہوگی اور الله اپنے حکم کے مطابق حق کو قائم کرے گا اور کفار کی کمین گاہوں کا خاتمہ ہوگا۔۔۔۔۔

اور ہم غاصب یہودی وجود کا خاتمہ کریں گے ۔مسلم نے اپنی صحیح میں ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

«لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقَاتِلَ الْمُسْلِمُونَ الْيَهُودَ، فَيَقْتُلُهُمُ الْمُسْلِمُونَ...»

"قیامت کی گھڑی اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک مسلمان یہودیوں سے نہ لڑیں اور انہیں قتل کریں گے۔۔۔۔"

 

ایک اور روایت میں فرمایا:

 

«تُقَاتِلُكُمُ يَهُودُ، فَتُسَلَّطُونَ عَلَيْهِمْ»

"یہودی تم سے لڑیں گے اور تم ان پر غالب رہو گے"۔

 

اور ہم مقدس سر زمین میں فاتحین کے طور پر داخل ہوں گے اور مسجد الاقصیٰ میں اپنے بھائیوں کی عراق میں دی ہوئی اذان پر نماز پڑھیں گے جو کہ پیغام ہوگا کہ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عبادت ہے مسجد الاقصیٰ کی آزادی کے بعد اس  پہلے موذن کی امامت میں۔

 

اور اللہ کے حکم سے ہم مملکت روم کو کھولیں گے۔ احمد نے اپنی مسند اور الحاکم اور الذھبی نے ابو قبیل سے روایت کی کہ انہوں نے کہا:

 

كُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، وَسُئِلَ: أَيُّ الْمَدِينَتَيْنِ تُفْتَحُ أَوَّلًا: الْقُسْطَنْطِينِيَّةُ أَوْ رُومِيَّةُ؟ قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللهِ: بَيْنَمَا نَحْنُ حَوْلَ رَسُولِ اللهِrنَكْتُبُ، إِذْ سُئِلَ رَسُولُ اللهِr: أَيُّ الْمَدِينَتَيْنِ تُفْتَحُ أَوَّلًا: قُسْطَنْطِينِيَّةُ أَوْ رُومِيَّةُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ« مَدِينَةُ هِرَقْلَ تُفْتَحُ أَوَّلًا، يَعْنِي قُسْطَنْطِينِيَّةَ»

ہم عبد الله ابن امر ابن  العاص کے ساتھ تھے اور اُن سے پوچھا گیا کہ کون سا  شہر پہلے فتح ہوگا قسطنطنیہ یا روم؟ پھر   عبدالله نے کہا: کہ ہم رسول الله ﷺ کے پاس موجود کچھ لکھ رہے تھے کہ آپ ﷺ سے سوال کیا گیا "کون سا شہر پہلے فتح ہوگا قسطنطنیہ یا روم؟" آپ ﷺ نے فرمایا: "ہرکیولس کا شہر پہلے فتح ہوگا یعنی قسطنطنیہ"(احمد)

 

قسطنطنیہ فتح ہوچکا اور اب روم فتح ہوگا، انشاءالله، اور فلسطین میں ہمارے ایک ساتھی کی خواہش پوری ہوگی جس نے ایک خط بھیجا تھا جس میں اُس نے اللہ سے دعا کی تھی کہ ارض روم میں اسے تميم الداري کی طرح زمین کا ایک ٹکڑا ملے۔

 

لہٰذا ایسا کوئی گھر نہ ہوگا چاہے مٹی سے بنا ہو یا بال سے کہ جس میں  اسلام نہ پہنچے طاقتور کی عظمت کے ساتھ یا ذلیل کی تذلیل  کے ساتھ۔ عظمت جو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اسلام کو عطا کریں گے اور ذلت جو کہ اللہ کفر کو دیں گے۔احمد نے اپنی مسند میں تميم الداري سے روایت کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

 

«لَيَبْلُغَنَّ هَذَا الْأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَلَا يَتْرُكُ اللَّهُ بَيْتَ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَهُ اللَّهُ هَذَا الدِّينَ بِعِزِّ عَزِيزٍ أَوْ بِذُلِّ ذَلِيلٍ عِزًّا يُعِزُّ اللَّهُ بِهِ الْإِسْلَامَ وَذُلًّا يُذِلُّ اللَّهُ بِهِ الْكُفْرَ..»

"یہ معاملہ  ہر جگہ پہنچےگا کہ جہاں  دن اور رات  پہنچتے ہیں ؛ الله کوئی  گھر چاہے مٹی سے بنا ہو یا بال سے   نہیں چھوڑیں گے کہ جس میں یہ دین نہ پہنچے ،عظمت یا ذلت کے ساتھ۔ عظمت جو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اسلام کو عطا کریں گے اور ذلت جو کہ اللہ کفر کو دیں گے۔۔۔۔"البیھقی نے اسی قسم کی ایک حدیث  السنن الکبری اور الحاکم کی مستدرک سے لی ہے۔

 

    سازشی اور تہمت  لگانے والے، کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے یازمین پر فساد پھیلانے والے، کہتے ہیں کہ ہم     احمقوں کی دنیا میں رہتے ہیں یا ہم خواب دیکھنے والوں میں سے ہیں۔۔۔ اور اِن ہی جیسے  لوگوں نے پہلے بھی ایسی ہی باتیں کی ہیں۔ اِن جیسے لوگوں نے آپ ﷺ اور  اُن کے صحابہ کے متعلق ایسا ہی کہا تھا: اُن کے مذہب نے ان کو دھوکہ دیا، یہ اب قیصر اور کسری کے خزانے کو کس طرح دیکھتے ہیں؟! اور پھرذلیل ہونے والوں کی گمراہی کے باوجود الله کا وعدہ پورا ہوا۔ یوں قیصر اورکسری کا وقار اور ریاستیں خاک میں مل گئیں اور اسلام کا وقار اور اُس کی ریاست بلند ہوئی اور یہ الله کے حکم  سے پھر ہوگا ، اور نفرت کرنے والے اپنے غضب میں ہی ہلاک ہوں گے اور اِن کے پیچھے ظالموں کے جاسوسوں کا اور سازش کرنے والوں کا اور اُن تمام کا کہ جو حق کے مقابلے میں باطل کا کلمہ بلند کرتے ہیں یہی حال ہوگا۔

 

﴿وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ

"اور وہ لوگ کہ جنہوں نے ظلم کیا عنقریب جان لیں گے کہ وہ (مرنے کے بعد) کونسی پلٹنے کی جگہ پلٹ کر جائینگے"

(سورة الشعراء: 227 )۔

 پیارے بھائیوں اور بہنوں:

ہم خیالوں کی دنیا میں کام نہیں کرتے، بلکہ ہم کام کرتے ہیں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے وعدے پرمکمل یقین رکھتے ہیں کہ جوکہ صرف انبیاء کے لئے نہیں ہے اور نہ ہی صرف آخرت کے لئے ہے بلکہ اس دنیا میں موجود ایمان والوں اور     آخرت دونوں کے لئے ہے۔

 

﴿إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الأَشْهَادُ

"بے شک ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان لانے والوں کی دنیوی زندگی میں (بھی) مدد کرتے ہیں اور اس دن (بھی کریں گے) جب گواہ کھڑے ہوں گے"(سورة الغافر :51 )۔

 

میں آپ  کو یقین دلاتا ہوں میرے عزیز بھائیوں اور بہنوں کہ حزب اپنے قیام سے لے کر آج تک کافی بارتقریباً اپنے ہدف تک پہنچ گئی تھی، مگر،

 

﴿لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ

"ہر وعدے کا ایک وقت لکھ  دیا گیا ہے"(سورة الرعد: 38)۔

 

اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی عظیم جاننے والے ہیں۔۔۔ جب الله قوی والعزیز کسی معاملے کا فیصلہ فرماتے ہیں، تو وہ اُس  سے متعلق وجوہات کو آسان فرما دیتے ہیں اور پھر اُس معاملے میں دیر نہیں لگتی۔

 

﴿إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا

"بیشک اللہ اپنا کام پورا کرلینے والا ہے، بیشک اللہ نے ہر شے کے لئے اندازہ مقرر فرما رکھا ہے"(سورة الطلاق:3)۔

 

خلاصہ یہ ہے کہ میں وہاں سے شروع کرتا ہوں کہ میں نے آپ سے ذی الحج کے دس افضل دنوں میں سے پہلے دن کا ذکر کیا کہ جس کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے اور جن کے متعلق آپ ﷺ نے فرمایا:

 

«مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهَا أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ يَعْنِي أَيَّامَ الْعَشْرِ...»

"جس کسی نے بھی ان دنوں میں( یعنی ذی الحج کے پہلے دس دنوں میں) نیک اعمال کیے وہاللہ سبحانہ و تعالیٰ کے    نزدیک دوسرے دنوں میں کیے گئے اعمال سے افضل ہیں"۔

یہ عظیم دن ذی الحج کے مقدس مہینے کے ساتھ  ہی شروع ہوتے ہیں اور عید قربان پر ختم ہوتے ہیں، اور یہ کہ میں الله عز و جل سے دعا کرتا ہوں کہ ان دنوں کو اسلام اور مسلمانوں کے لئے خیر وبرکت کا ذریعہ بنائے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہماری عبادات قبول فرمائے، اور یہ کہ یہ دس راتیں اُن تمام لوگوں کے لئے خیر کا باعث ہوں کہ جو ان دنوں کا ٹھیک طریقے سے حق ادا کریں، کیونکہ یہ دن سچائی، خلوص، اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے کے دن ہیں ،جن میں اچھے اعمال اور دعائیں الله کی اجازت سے قبول ہوتی ہیں۔۔۔

 

میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے اچھے دن لوٹادے کہ آج ہم مصیبتوں تلے زندگی گزار رہے ہیں، اور یہ کہ ہم خالص بنیاد پر اپنے ہاتھوں میں خیر لئے کھڑے ہیں، اور اپنی زبانوں سے حق کا کلمہ بلند کیےہوئے ہیں  ،   کہ دلوں  کو یقین ہے اور سینے اس کے لئے کھل گئے ہیں:

 

﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ*بِنَصْرِ اللَّهِ يَنصُرُ مَن يَشَاء وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ

"اور اس روز اہلِ ایمان خوش ہوں گے، اﷲ کی مدد سے، وہ جس کی چاہتا ہے مدد فرماتا ہے، اور وہ غالب ہے مہربان ہے"

(سورة الروم:5- 4)۔

 

آخر میں، میں اس بات کو دہراوں گا  کہ یہ دعوت الله کی ملکیت ہے اور اسے سازش کرنے والوں کی سازشوں، ظالموں کے جاسوسوں، نفرت کرنے والوں کے دہن سے اور بدنام کرنے والوں کے جھوٹ سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، بلکہ  الله کے دین کی یہ دعوت بلند سے بلند تر ہوتی جائےگی اور اپنی روشنیوں سے دیکھنے والے مخلص لوگوں کو منور کرے گی، اور اپنی چمک سے نفرت  کرنے والے سازشیوں کے دلوں کو پھیر دے گی۔  

 

﴿وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُ بَعْدَ حِينٍ

"اور تمہیں تھوڑے ہی وقت کے بعد خود اِس کا حال معلوم ہو جائے گا"(سورة ص:88)

 

والسلام عليكم ورحمہ الله وبركاتہ

آپ کا بھائی عطاء بن خليل ابو الرشتہ

یکم ذی الحج 1438 ہجری

23 اگست 2017 

Last modified onپیر, 18 ستمبر 2017 00:02

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک