بسم الله الرحمن الرحيم
تفسیر سورۃ بقرۃ (211-212)
جلیل قدر عالم دین شیخ عطاء بن خلیل ابو الرشتہ کی کتاب"التیسیر فی اصول التفسیر"سے اقتباس
﴿سَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَمْ آتَيْنَاهُم مِّنْ آيَةٍ بَيِّنَةٍ وَمَن يُبَدِّلْ نِعْمَةَ اللّهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءتْهُ فَإِنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ * زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُواْ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَيَسْخَرُونَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُواْ وَالَّذِينَ اتَّقَواْ فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَاللّهُ يَرْزُقُ مَن يَشَاء بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾
"بنی اسرائیل سے پوچھئے کہ ہم نے ان کو کتنی واضح نشانیاں دیں جو اللہ کی نعمت کو اس کے آنے کے بعد تبدیل کرے تو اللہ اس کو شدید عذاب دے گا، کافروں کے لیے دنیاوی زندگی کو مزین کیا گیا ہے اسی وجہ سے وہ مو منوں سے تمسخر کرتے ہیں حالانکہ قیامت کے دن متقی ان سے بہت اعلیٰ درجے والے ہوں گے اور اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے"۔
مندرجہ بالا دو آیتوں سے یہ واضح ہوتا ہے:
1۔سابقہ آیات میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اسلام میں مکمل طور پر داخل ہونے کو لازم قرار دیا ہے، یہ اس شخص کیلئے ہے جو یہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کے ایمان کو قبول کرلے۔ لہٰذا اسے چاہیے کہ وحی کے کچھ حصے پر ایمان لاکر کچھ کا انکار نہ کرے، نہ ہی کسی ایسی چیز کی نسبت اسلام کی طرف جوڑے جو اسلام میں سے نہیں، خاص کرجب پورے اسلام پر ایمان لانے کے واضح دلائل اور قطعی حجتیں اس کے پاس آ چکی ہیں۔اس کے بعد اللہ نے یہ واضح کر دیا کہ واضح نشانیوں کے آنے کے بعدبھی جو اسلام میں پورا داخل نہیں ہوتا اس کے لیے شدید ترین عذاب ہے۔پھر ان آیاتِ کریمہ میں اللہ نے ان لوگوں کے سوال کا جواب دیا جو حیرانگی سے یہ پوچھتے ہیں کہ اس قدر واضح نشانیوں کے بعد کوئی کیسے پورے اسلام میں داخل نہیں ہوسکتا؟
اس کا جواب بنی اسرائیل کی صورت حال پر نظرڈالنا ہے۔ ان کے پاس قطعی حجت اور دلیل پہنچی جس نے ان پر لازم کیا کہ موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائیں، ان پر نازل ہونے والی کتاب پر ایمان لائیں، جس میں رسول اللہ ﷺ کی صفات اور آپﷺ پر ایمان کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام یہ سب واضح نشانیاں لائے تھے، اس کے باوجود انھوں نے محمدﷺ کا انکار کیا، اپنی کتاب میں تحریف کی اور اپنی خواہشات کے مطابق اس میں تبدیلیاں کیں ۔انھوں نے ان واضح نشانیوں میں تحریف کی جو ان کے لیے نعمت کے طور پر اتاری گئی تھیں، جو ایمان اور ہدایت کا ذریعہ تھیں۔ انہی کوانھوں نے اپنے کفر اور گمراہی کا راستہ بنالیا جبکہ وہ یہ جانتے تھےکہ جو اللہ کی نعمت کا کفر کرتا ہے اس کے لیے سخت اور دردناک عذاب ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمایا، ﴿فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ﴾،"بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے"۔
﴿سَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ﴾،"بنی اسرائیل سے پوچھو"۔یہ سوالیہ انداز واضح نشانیاں آنے کے بعد ان کی سرکشی، ہٹ دھرمی اور حق کو ترک کرنے پر جھنجوڑنے اور ڈانٹنے کےلیےہے۔یہ صرف سوال نہیں کہ وہ جواب دیں تو ان کی حقیقت واضح ہوگی،یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ آپ اپنے مخاطب سے کہتے ہیں: 'فلاں سے پوچھو اس پر میرے کتنے احسانات ہیں'، جس میں اس شخص کی سرزنش مقصود ہے، سوال کے جواب کا انتظار نہیں۔
﴿كَمْ آتَيْنَاهُم مِّنْ آيَةٍ﴾،"ہم نے ان کو کتنی ہی نشانیاں دیں"،( کم)یہاں پر کم خبریہ ہے۔اس کا ممیز(آية) فعل متعدی کی وجہ سے اس سے جدا ہے۔"من" کو لانا اس لیے لازمی ہوا کہ ممیز اور مفعول میں التباس نہ ہو جیسے کہ اللہ تعالی کے اس ارشاد میں ہے ﴿كَمْ تَرَكُوا مِن جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ﴾ ،"کتنے ہی باغات اور چشمے چھوڑ گئے"(الدخان:25) ۔اسی طرح ﴿وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَرْيَةٍ﴾ ،"کتنے ہی بستیوں کو ہم نے ہلاک کردیا"(القصص:58)۔اگر"من" نہ ہوتا تو آیت صرف(كم آتيناهم آية )ہوتی،یعنی تب "آية "کے بارے میں یہ حتمی طور پر معلوم نہ ہوتا کہ یہ)کم( کی تمیز ہے یا )آتيناهم( کا مفعول۔
2۔دوسری آیت میں اللہ نے کفار کی جانب سے ان کے پاس آنے والی واضح نشانیوں کی پیروی نہ کرنے کی وجہ بیان کی ہے کہ دنیا کی زیب وزینت نے ان کو گھیر لیا ہے جو ان کو اللہ کی نشانیوں میں غور کرنے اور پھر ایمان لانے سے روک رہی ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ وہ ان مومنوں کو جو آخرت کو پیش نظر رکھتے ہیں اور دنیا میں مشغول نہیں ہوتے، وہ ان کی غریبی کا مذاق اڑاتے ہیں۔
پھر اللہ تعالی نے یہ بتایا کہ جن فقیر مومنوں کا یہ کفار مذاق اڑاتے ہیں جن کے پاس دنیا کی زیب وزینت ہے وہ قیامت کے دن اللہ کے ہاں ان سے بڑے مرتبے اور درجے والے ہوں گے۔ وہ نعمتوں والے باغات میں ہوں گے جبکہ یہ کفار جہنم میں ہوں گے جو کہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔ اس لیے مومنین ان سے بالاتر ہوں گے کیونکہ وہ جنت کے اعلیٰ درجات میں ہوں گے اور یہ کفار دھکتی ہوئی آگ میں ہوں گے۔
جہاں تک دنیا میں رزق کی بات ہے، اللہ جس کو چاہتاہے دیتا ہے چاہے کافر ہو یا مومن ،اس حوالے سے کوئی اس سے پوچھ نہیں سکتا بلکہ یہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے کہ کفار کو بعض دفعہ وسیع رزق دے کر مہلت دیتا ہے کہ مزید گناہ کریں اور بعض دفعہ کسی مومن کو رزق کی تنگی کے ذریعے آزماکر اس کے اجر میں اضافہ کرتا ہے۔ اللہ سبحان وتعالی نے فرمایا، ﴿وَاللّهُ يَرْزُقُ مَن يَشَاء بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾،"اللہ ہی جس کو چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے"(النور:38)۔
﴿زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُواْ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا﴾،"کافروں کے لیے دنیا کی زندگی کو مزین کیا گیا ہے"، مزین کا مطلب یعنی اس کو ان کافروں کے لیے کے لیے میٹھا اور محبوب بنایا گیا ہے جس میں وہ مگن ہوتے ہیں اور اس سے لذت محسوس کرتے ہیں ، یہ دو طرح سے ممکن ہے، یہ یا تو اللہ کی طرف سے رزق میں وسعت سے یا پھر شیطانی وسوسوں کی وجہ سے اس کی شہوتوں اور لذتوں میں ڈوب جاتے ہیں۔
پہلی صورت میں ان کےلیے مزین کرنے والا اللہ ہے جو ان کو ڈھیل دیتا ہے جیسا کہ اللہ کا یہ ارشاد،
﴿وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُواْ إِثْمًا وَلَهْمُ عَذَابٌ مُّهِينٌ﴾،
"تم یہ گمان مت کرو کہ ہمارا کافروں کو مہلت دینا ان کے حق میں بہتر ہے ہم صرف اس لیے ان کو ڈھیل دیتے ہیں کہ وہ گناہوں کو اور زیادہ کریں اور ان کے لیے توہین آمیز عذاب ہے"(آلِ عمران: 178)۔
دوسری صورت میں مزین کرنے والا شیطان (لعنۃ اللہ علیہ) ہے جو وسوسے ڈالتا ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا اللہ تعالی فرماتاہے،
﴿لأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الأَرْضِ وَلأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ﴾،
"میں زمین میں ان کے لیے مزین کروں گا اور ان کو بہکاؤں گا"،(الحجر:39) ۔
یہاں راجح یہ ہے کہ کفار کیلئے دنیا کی زینت سے مراد یہ ہے کہ رزق کی وسعت کے ذریعے دنیا میں کفار کو ڈھیل دی جاتی ہے۔ لہٰذا یہ امر رزق سے متعلق ہے جیسا کہ آیت کے آخر میں قرینہ ہے جہاں اللہ نے فرمایا، ﴿وَاللّهُ يَرْزُقُ مَن يَشَاء بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾،"جس کو چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے"۔
﴿وَيَسْخَرُونَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُواْ﴾, "اور ایمان والوں کا تمسخر کرتے ہیں,"یعنی فقیری اور دنیا سے منہ موڑ کر آخرت کو پیش نظر رکھنے پر ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔
﴿وَالَّذِينَ اتَّقَواْ فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾,"اور جن لوگوں نے تقویٰ اختیار کیا ہے وہ قیامت کے دن ان سے اعلیٰ مقام والے ہوں گے،کیونکہ وہ (جنت کی اعلیٰ ترین جگہ) علیین میں جبکہ کفار جہنم کی بری ترین جگہ (اسفل السافلین) میں ہوں گے۔
مذاق اڑانے والوں کے بارے میں روایات موجود ہیں چاہے وہ مکہ میں کفار کے سرغنہ ہوں جو مسلمانوں کا مذاق اڑاتے تھے یا مدینہ میں یہودی ہوں جو غریب مہاجرین کا مذاق اڑاتے تھے ۔اگر چہ راجح یہی ہے کہ یہ یہودکے بارے میں ہے جو غریب مہاجرین کا مذاق اڑتےتھےکیونکہ سابقہ آیت میں موضوع وہی ہیں مگر اعتبار سبب کے خاص ہونے کا نہیں لفظ کے عام ہونے کا ہوتا ہے، اس لیے اس میں وہ تمام کفار شامل ہیں جن کے اندر یہ خصوصیات موجود ہیں اور وہ ایسا کرتے ہیں۔
Latest from
- عالمی قانون کا انہدام ...اور ان دنیا والوں کی ناامیدی...
- بچوں کو اغوا کرنے اور ان پر تجربات کرنے کی”اسرائیلی“ قبضے کی ایک لمبی داستان موجود ہے
- امریکی قیادت اور نگرانی میں: ایران کی صفوی حکومت اور یہودی وجود...
- شنگھائی تعاون تنظیم امریکن ورلڈ آرڈر کا حصہ ہے
- استعماری طاقتوں کی تنظیمیں ہماری سلامتی اور خوشحالی کی ضامن نہیں ہو سکتیں