الجمعة، 20 جمادى الأولى 1446| 2024/11/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

حزب التحریر کی جانب سے ترکی اور بلادِ شام میں زلزلے میں شہید ہوجانے والوں پراظہارِتعزیت

 

 

 

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

﴿الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ * أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ

"وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ہم تو الله کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے رحمت اور مہربانیاں ہیں اور یہی ہدایت پانے والے ہیں"(سورة البقرة، 156-157)

 

محترم بھائیواور بہنو، ترکی اور الشام میں موجود حاملین دعوت، اور عمومی طور پر تمام حاملین دعوت کی طرف ۔ ۔ ۔

ترکی اور بلاد شام میں ثابت قدم اور صابر خاندانوں کے نام اور بالعموم امت مسلمہ کے نام۔ ۔ ۔

 

حزب التحریر ترکی اور بلادِ شام میں آنے والے زلزلے میں کثیر تعداد میں شہید ہونے والے افراد کے لواحقین سے تعزیت کرتی ہے۔ ہم الله سبحانہ و تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ اپنے ہاں ان سب کو آخرت کے شہید کا درجہ عطا فرمائے، جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں بیان کیا گیا۔ آپﷺ نے فرمایا،

 

«الشُّهَدَاءُ خَمْسَةٌ الْمَطْعُونُ وَالْمَبْطُونُ وَالْغَرِقُ وَصَاحِبُ الْهَدْمِ وَالشَّهِيدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ»

"شہدا کی پانچ اقسام ہیں: وبازدہ شخص، پیٹ کے امراض میں مبتلا شخص ،پانی میں ڈوبنے والا شخص، ملبے تلے دب جانے والا شخص، اور وہ جو الله کی راہ میں قتال کرتے ہوئے مارا جائے" [بخاری و مسلم] ۔

 

ملبے تلے دب جانے کا مطلب ہے کہ کسی عمارت کے گرنے سے اس کے ملبے تلے دب کر مر جانے والا شخص۔

ہم دعا گو ہیں کہ الله سبحانہ و تعالیٰ، الشافی و الکریم، تمام زخمیوں کو جلد از جلد صحت و شفا عطا فرمائے اور اس آفت کا کوئی بھی زخم اور بیماری باقی نہ رہے۔

 

ہم الله سبحانہ و تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ اس آفت میں بچ جانے والوں کو بہترین زندگی گزارنے کا موقع عطا ہو اور وہ اپنی بقیہ زندگی الله سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت میں گزاریں۔

 

اس زلزلے نے ایک بار پھر اس امر کو ثابت کر دیا کہ مسلمانوں میں دین اسلام کی جڑیں مضبوط ہیں۔ جب وہ اپنے بھائیوں کو گری ہوئی عمارتوں کے ملبے سے نکال رہے تھے تو مسلمان تکبیر کے نعرے لگا رہے تھے۔ اور تکبیر کے نعرے اس وقت بھی ان کی زبانوں پر جاری تھے جب انہوں نے عفرين ضلع میں ایک نومولود بچی کو ملبے سے نکالا جس کی پیدائش زلزلے کے دوران ہوئی اور اس کی ماں ملبے تلے دب کر مر گئی۔ تکبیر کی صدا اس وقت بھی بلند تھی جب غازی عنتاب میں ایک عورت کو ملبے سے نکالا جا رہا تھا تو اس عورت نے باہر نکالے جانے سے پہلے سر ڈھانپنے کے مطالبہ کیا تاکہ نا محرم اس کو بے حجاب نہ دیکھ لیں۔ ۔ ۔ یا پھر اس وقت جب كهرمان کے شہر میں ایک شخص نے ملبے کے نیچے سے باہر نکالے جانے سے پہلے وضو کے لئے پانی مانگا گیا تاکہ اس کی نماز قضا نہ ہو جائے۔ ۔ ۔ ان تمام واقعات میں تکبیر کی صدا گونج رہی تھی، الله اکبر، الله اکبر، الله اکبر۔

 

ایمان والا شخص، دیگر افراد کی طرح نہیں ہوتا، کیونکہ اسے معلوم ہے کہ الله کی مرضی (قضا) حتمی اور آخر ہے۔ اسے معلوم ہے کہ الله کی قضا، الله کی لامحدود علم و حکمت کا نتیجہ ہے جسے صرف الله سبحانہ و تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ پس، ایمان والا شخص کسی بھی مصیبت پر صبر کرتا ہے اور اپنے پروردگار کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا،

 

«عَجَباً لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْراً لَهُ وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْراً لَهُ»

"مؤمن کی بھی کیا ہی صورتحال ہے۔ اس کے ہر معاملے میں خیر ہے۔ یہ معاملہ مؤمن کے سوا کسی کے ساتھ نہیں۔ اگر مؤمن کو خوشی ملے تو وہ الله سبحانہ و تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے، اور اس میں اس کے لئے خیر ہے۔ اگر مؤمن پر مصیبت آنپہنچے، تو وہ صبر کرتا ہے، اور اس میں اس کے لئے خیر ہے"[مسلم]۔

 

مسلم ممالک، مصائب میں گھرے ہوئے ہیں۔ ہماری کوئی بھی زمین مصائب سے خالی نہیں: زلزلے اور سیلاب، خشک سالی اور قحط، جنگیں، غربت، بھوک، افلاس۔ ۔ ۔ گو کہ قدرتی آفات الله کی طرف سے ہوتی ہیں مگر ضروری احتیاطی تدابیر اور مسلمانوں کی دیکھ بھال ریاست کی ذمہ داری ہے جس میں کسی بھی کوتاہی کی گنجائش نہیں۔ اگر مسلمانوں کی ریاست خلافت موجود ہوتی، تو وہ تمام علاقوں کو ایک ریاست میں ضم کر کے ان کے امور کی دیکھ بھال کرتی۔ خلافت کسی بھی مصیبت میں امت کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی اور ان کے بوجھ کو اپنے سر لے کر ان کے امور کی نگرانی کرتی۔ خلافت اپنی ذمہ داری بھرپور طریقے سے نبھاتی اور اسے مدد کے لئے مسلمانوں کے سوا کسی کی ضرورت نہ پڑتی۔

 

الله سبحانہ و تعالیٰ ہمارے شہدا پر رحم فرمائے اور ہمارے زخمیوں کو شفا کاملہ عطا فرمائے۔ اس آفت میں بچ جانے والوں کا والی الله سبحانہ و تعالیٰ ہو۔ ۔ ۔ ہم اس پیغام کا اختتام انہی الفاظ سے کرتے ہیں جن سے شروع کیا تھا۔ ۔ ۔ الله سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

 

﴿الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ * أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ

"وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ہم تو الله کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے رحمت اور مہربانیاں ہیں اور یہی ہدایت پانے والے ہیں"(سورة البقرة، 156-157

 

بے شک ہم تو الله کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔

 

آپ کا بھائی

 

عطاء بن خليل أبو الرَشتہ

امير حزب التحرير

18 رجب 1444ھ

9 فروری 2023ء

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک