سوال و جواب : مصر میں جاری واقعات
بسم الله الرحمن الرحيم
سوال:مصر میں جاری واقعات کو دیکھ کر میں پریشان ہو گیا ہوں اور معاملات میرے سامنے غیر واضح ہیں:
1 ۔ یہ بات ہمارے علم میں ہے کہ مصر میں عملی بالادستی امریکہ کو حاصل ہے،پھر سعودی عرب،امارات اور کویت کیوں مصر کی نئی حکومت کی مالی مدد کررہے ہیں کیونکہ یہ ممالک برطانیہ کے زیر اثرہیں؟
2 ۔ امارات نے مالی میں بھی فرانس کی حمایت کی اور مالی کو بھی معاشی امداد دی ،حالانکہ مالی میں بالادستی برطانیہ کو حاصل نہیں؟
3 ۔ اسی طرح ہم نے امارات کے ٹی وی چینل العربیہ اور قظر کے ٹی وی چینل الجزیرہ کے موقف میں تضاد کا مشاہدہ کیا باوجود اس کے کہ قطر اور امارات دونوں انگریز ہی کے ایجنٹ ہیں،کیا یہ کہنا مناسب ہے کہ قطر میں حالیہ تبدیلی نے یہاں برطانوی پالیسی کو متاثر کیا؟
4 ۔ پھر ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ شامی اتحاد میں موجود سعودی نواز مثال کے طور پر الجربا کا قطر نواز افراد کے مقابلے میں فعال کردار ہے ،کیا شام میں رونما ہونے والے واقعات میں قطرنواز افراد کمزور ہوگئے اور سعودی نواز مضبوط ہوگئے؟
5 ۔ آ خر میں کیا امریکہ نے مرسی کی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچ کر نام نہاد ''اعتدال پسند"اسلام کو اقتدار تک پہنچانے کے لیے راہ ہموار کرنے کے نظرئیے سے دستبردار ہو گیاہے؟مجھے امید ہے کہ اس سوال کی طوالت پر آپ تحمل کا مظاہرہ کریں گے اللہ آپ کو جزائے خیر دے،اس کی طولت اور کثرت پر میں پہلے ہی معذرت خواہ ہوں،لیکن ہمیں اپنے امیر کی وسعت علمی کے ساتھ ان کے فراخ دلی کا بھی ادراک ہے،ممکن ہے کہ ان کے جواب سے ہماری تشنگی دور ہو اور ہمارے دل ٹھنڈے ہوں۔
جواب:میرے بھائی یہ سوال نہیں بلکہ سوالات کی ایک ''گھٹڑی" ہے!!بہر حال مختصر جواب پیش خدمت ہے جو ان شاء اللہ آپ کو پریشان نہیں کرے گا:
برطانوی پالیسی کے کچھ خطوط(ھیڈ لائینز)ہیں جن کو جان کر جو کچھ ہو رہا ہے آپ اس کو سمجھ سکتے ہیں:
1 ۔ موجودہ وقت میں برطانیہ اعلانیہ طور پر امریکہ کے مد مقابل آنے کی جرات نہیں کر سکتا ، بلکہ ایسا ظاہر کر رہا ہے کہ وہ بھی امریکہ ہی کے صف میں ہے،لیکن پس پردہ اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سے ایسا لائحہ عمل مرتب کر کے جو بظاہر کچھ اور نظر آتا ہے امریکی پالیسیوں کو ناکام بنانے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔۔۔۔
2 ۔ برطانیہ اپنے ایجنٹوں کو اکثر ایسا کردار دیتا ہے جس سے بظاہر ایسا نظر آئے کے وہ بھی اسی سمت جارہے ہیں جس طرف امریکہ گامزن ہے تاکہ اس کے ساتھ کوئی تصادم نہ ہو،چنانچہ سیاسی بیداری سے محروم شخص کے لیے اردن کا امریکہ کے ساتھ تعلقات ایسے ہیں کہ وہ بھی امریکہ ہی کے صف میں ہے،حالانکہ اردن برطانوی سیاست کا بنیادی رکن ہے،یہی حال امارات اور دوسرے ایجنٹوں کا ہے۔۔۔۔۔۔۔ مگر برطانیہ اپنے بعض ایجنٹوں کو بعض دفعہ امریکہ کے سامنے ڈٹ جانے کی اجازت دیتا ہے ،یہ دوسرے ایجنٹوں سے مختفج کردار ہو تا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کے مختلف ایجنٹوں کا مختلف کردار ہو تا ہے:ان میں سے اکثر بظاہر امریکہ کے سامنے مسکراتے ہیں اور پیار کا اظہار کرتے ہیں اور پس پردہ اپنے آقا برطانیہ کے طرز پر اس کو تنگ کرتے رہتے ہیں،ان میں سے بہت کم کا کردار واضح طور پر امریکہ کو تشویش میں مبتلا کرتا ہے۔۔۔۔۔۔
3 ۔ برطانیہ امریکہ کی پالیسیوں کا سامنا کر نے کے لیے فرانس کا سہارا لیتا ہے جو کہ یورپی خصوصا برطانیہ اور فرانس کی پالیسی کے ضمن میں ہو تا ہے،فرق صرف اتنا ہے کہ برطانیہ انتہائی خباثت سے نرم ونازک انداز سے امریکہ کو دھوکہ دیتا ہے جبکہ فرانس چلاتا اور چنگاڑ تا ہے۔۔۔۔۔اکثر وبیشتر برطانیہ فرانس کے پشت پر اپنی پالیسی کو عملی جامہ پہنا تا ہے !مشہور مثل ہے کہ ''برطانیہ آخری فرانسیسی سپاہی تک لڑے گا"اگر چہ یہ پرانے زمانے کی بات ہے لیکن اس کا اثر اب بھی کسی حد تک ہے۔
4 ۔ سعودیہ میں حکومت کے سربراہ اگرچہ عبداللہ ہے جو کہ برطانیہ پیروکار ہے لیکن بعض شہزادوں پر امریکہ کا اثر ہے اسی اثر کی وجہ سے اس کی پالیسوں کے لیے راہ ہموار ہو تی ہے۔۔۔۔۔۔۔
اس کی روشنی آپ کے سوالات کے جوابات کی وضاحت ممکن ہے:
ا۔ جہاں تک قطر کا تعلق ہے اس کے سابق امیر نے وزیر خارجہ سے مل کر قطرکو خلیج میں برطانیہ کی توجہ کا مرکز بنانے میں کا میاب ہوگیا،یہی سے اس نے مختلف ملکوں میں دو موثر وسیلوں سے مداخلت شروع کردی:میڈیا''الجزیرہ" اورمال''پٹرول"سے۔۔۔۔۔۔یوں اس کی سرگرمیاں شام اور فلسطین حتی کہ مصر وغیرہ میں امریکی پالیسی کو ڈسٹرب کرنے میں موثر ثابت ہوئیں۔۔۔۔امریکہ کا پریشان ہونا برطانیہ سے پوشیدہ نہیں تھا،چونکہ برطانیہ یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ وہ امریکہ کو تنگ نہیں کر رہا اسی لیے اس نے امیر کو تبدیل کرنے کی حامی بھر لی،لیکن اس کا متبادل کسی اور کو نہیں اس کے بیٹے کو لایا گیا ،یعنی برطانوی پالیسی تبدیل نہیں ہوئی،لیکن اس بیٹے کو امریکہ کو تنگ کرنے میں اپنے والد کی طرح موثر ثابت ہو نے کے لیے وقت درکار ہے،اس تبدیلی کے ذریعے برطانیہ نے امریکہ کی پریشانی کو کم کردیا ۔۔۔۔۔یعنی جو کچھ ہوا یہ امریکہ کو راضی کرنے کا برطانوی اسلوب تھا جو کہ صرف ظاہری ہے جس میں امریکہ کو کچھ حاصل بھی نہیں ہوا!
ب ۔ اس تبدیلی کے ساتھ قطر کا کردار تھوڑا پوشیدہ ہو گیا کیونکہ نئی حکو مت کے کارندے سیاسی داوپیچ میں پرانی حکومت کے کارندوں سے کم تجربہ کار ہیں،تاہم قطر بدستور برطانوی سیاست کے زیر اثر ہے اس لیے خفیہ اور خبیث انداز سے کام کرتا ہے،اس کا اعلانیہ کردار گزشتہ دور سےکم فعال ہے،یہی وجہ ہے کہ شام میں بھی اس کے کارندوں کی چستی پرانوں کے مقابلے میں کم ہے۔
ج ۔ جہاں تک سعودی نوازوں کا تعلق ہے تو وہ زیادہ فعال ہیں اور امریکہ اور برطانیہ سے زیادہ مقبول ہیں کیونکہ سعودی بادشاہ کی وفاداری برطانیہ کے لیے ہے اور امریکہ بھی شاہی خاندان میں بعض شہزادوں کو استعمال کرتے ہوئے جانفشانی سے تگ ودو کر رہا ہے۔
رہی بات الجربا کی تو اگر چہ یہ سعودیہ کا مقرب ہے لیکن یہ امریکی پالیسی کا حصہ ہے،سعودیہ چاہے اس کی کتنی ہی حمایت کرے یہ امریکہ کی اطاعت سے منہ نہیں موڑ سکتا،یہ اتحا د مکمل طور پر امریکہ کا بنا یا ہوا ہے،اس لیے یہ اسی شخص کی سربراہی میں ہی آگے بڑے گا جو امریکہ کی کٹ پتلی ہو۔
د ۔ جہاں تک مالی اور امارات کی معاشی امداد کا تعلق ہے ۔۔۔۔۔آپ کو معلوم ہے کہ امریکہ ہی مالی میں رونما ہونے والی پہلی تبدیلی کا پشت بان تھا جو 22/03/2012 کو واقع ہوئی،یہ فرانس کے لیے کاری ضرب تھی،اسی لیے فرانس نے انتہائی جانفشانی اور محنت سے اپنے اثرورسوخ کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش شروع کردی۔برطانیہ کو اس بات کا ادراک ہے کہ مالی میں اس کا کوئی اثرورسوخ نہیں بلکہ یہا ںفرانس کو بالادستی حاصل ہے اور امریکہ مزاحمت کر رہا ہے۔رسہ کشی امریکہ اور فرانس کے درمیان ہو تو برطانیہ فطری طور پر فرانس کا معاون ہوتا ہے۔امارات کی جانب سے مالی کی معاشی مدد بھی برطانیہ کی جانب سے فرانس کی مدد کے تناظر میں ہے۔
ھ ۔ رہی بات مصر میں جو کچھ ہوا اس حوالے سے امارات کے وفد اور اردن کے بادشاہ کی جانب سے مصرکا دورہ کرنے کی شکل میں برطانوی موقف کی تفسیر کی اور برطانوی ایجنٹوں کی جانب سے مصر کی مالی امداد کی تو یہ بھی مذکورہ بالا خطوط (ھیڈلائنز)سے باہر نہیں۔۔۔۔۔جہاں تک امارات اور قطر کے کردار کے تضاد سے پیدا ہونے والے التباس کا تعلق ہے تو یہ برطانوی پالیسی کے مطابق کرداروں کی تقسیم ہے،مصر کے واقعات کے نتائج کے انتظار میں ایک قریب ہوتا ہے تو دوسرا دور جاتا ہے۔۔۔۔۔امارات کی جانب سے مبارک حکومت کے عناصر کی میزبانی بھی ان خطوط سے ہٹ کر نہیں۔مبارک کے آدمیوں کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کی توقع بھی امارات کے ذریعے برطانوی پالیسی کاایک راستہ ہو گا اگر چہ یہ راستہ تنگ ہوگالیکن یہ بھی اچھا جواب دینے کے ضمن میں ہوگا!
و ۔ رہی یہ بات کہ کیا امریکہ کی جانب سے مرسی کے سر سے دست شفقت ہٹانے کا مطلب نام نہاد ''اعتدال پسندوں"کو اقتدار تک پہنچانے کے لیے راہ ہموار کرنے سے دستبرداری ہے۔تو بات دستبردار ہونے یا نہ ہونے کی نہیں بلکہ مسئلہ مصر میں امریکی اثرو رسوخ کو برقرار رکھنے کا ہے،کیونکہ امریکہ کا اثر ورسوخ مصرکے غالب سیاسی طبقے میں گزشتہ کئی دہائیوں سے راسخ ہے۔امریکہ چاہتا ہے کہ مصر میں امریکی بالادستی مستحکم مرکز رہے۔ وہ یہاں استحکام مصر کے باشندوں کی خاطر نہیں چاہتا،بلکہ امریکہ کو اپنی بالادستی اور منصوبوں کے لیے ایک محفوظ اور مستحکم پلیٹ فارم چاہیے۔۔۔۔۔ جس وقت 25/01/2011 کی عوامی تحریک نے امریکہ کو پریشان کردیا اور مبارک اس تحریک کو دبانے اور مصرکو دبارہ امریکی مفادات کے حصول کے لیے ایک مستحکم ماحول مہیا کرنے میں ناکام ہو گیا توامریکہ نے اس کو ایک طرف کردیا اور عوامی تحریک کی موجوں پر سوار ہوگیا ۔اس کے بعد مرسی کو اس وقت لایا جب اس نے امریکی منصوبوں کو نافذ کرنے کی ضمانت دی خاص کریہودی وجود کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی تب امریکہ نے اس کی حمایت کردی۔۔۔،اس سے یہ توقع بھی کی کہ استحکام کو حاصل کرے گا کیونکہ اس کی جماعت الاخوان ہی نیشنل پارٹی کو کالعدم قرار دینے کے بعد سب سے بڑی اور منظم پارٹی ہے۔امریکہ یہ توقع کرتا تھا کہ یہ حالات کو قابو کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جیسا کہ نیشنل پارٹی نے معزول صدر کے ساتھ کیا تھا۔۔۔۔لیکن مرسی ایسا نہ کر سکا تو اس سے بھی دستبردار ہو گیا۔۔۔۔۔اور03/07/2013 کو نئی حکومت کا حمایتی اورپشت بان بن گیا ۔۔۔۔
اس بنا پر امریکہ کا مصر میں ''اعتدال پسند اسلام "والوں سے دستبردار ہونا حالیہ سالوں میں ''اعتدال پسند اسلام"والوں کو اقتدار تک پہنچانے کے لیے راہ ہموار کرنے کی پالیسی سے باہر ہے،امریکہ نے اس پالیسی کو ایک تیر سے دوشکار والی کہاوت کی طرح استعمال کیا:
پہلا:ان عام مسلمانوں کو دھوکہ دینا جو اسلام کی حکمران چاہتے ہیں۔۔۔۔اگر چہ ''اعتدال پسند اسلام"والے اعلانیہ طورپر جمہوریت کی بات کرتے ہیں اوراسی کو قائم دائم رکھنے کا حلف اٹھاتے ہیں!لیکن ان کا نام کے لحاظ سے بھی ''اسلامی" ہونا مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکاتا ہے اور وہ یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ ان اسلام پسندوں کے اقتدار تک پہنچنے سے اسلام کی حکمرانی آئے گی اور یوں وہ اسلام کی حکمرانی یعنی خلافت کے نظام کے لیے صحیح معنوں کام کرنے کے عزم سے پیچھے ہٹتے ہیں ۔۔۔۔۔اور امریکہ یہی چاہتا ہے کہ مسلمان خلافت کے قیام کے لیے کام کرنے کا عزم نہ کریں، کیونکہ خلافت ہی نے اس کی نیند حرام کر رہی ہے۔۔۔۔۔
دوسرا:اسلام پسندوں کے ذریعے لوگوں کے جذبات سے کھیل کر اپنی بالادستی کو برقرار رکھنا۔۔۔۔اگر وہ امریکی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے استحکام قائم نہ کرسکیں تو ان سے دستبردار ہونا،جیسا کہ مرسی کے ساتھ کیا،پھر دوسروں کی حمایت شروع کردی،خاص کر اس صورتحال میں کہ اس کے پاس ایجنٹ سیاست دانوں کی کوئی کمی نہیں جو اس نے مصر میں گزشتہ کئی سالوں کے دوران تیارکیے ہیں!
ز ۔ اہل کنانہ(اہل مصر)کو چاہیے کہ اس بات کو سمجھیں کہ امریکہ کو معزول صدر مبارک کے دور میں جو بالادستی حاصل تھی وہی معزول صدر مرسی کے دور میں بھی حاصل تھی اور اسےہی اب بھی موجودہ حکومت کے دور میں حاصل ہے۔امریکہ ہی مصر کی بیماری اور مصیبت کی وجہ ہے ۔یہ ہر مسلمان پر واجب ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺپر ایمان رکھتا ہے کہ وہ امریکی بالادستی کا قلعہ قمع کرنے ،اس کے ایجنٹوں کو ہٹانے اور اسلام کی حکمرانی خلافت راشدہ کو دوبارہ کنانہ کی سرزمین میں لانے کے لیےزبردست جدوجہد کرے تاکہ یہ اسلامی دنیا کا مرکز بن جائے اور اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کا صفایا کرے،یہودی وجود کو مٹادے ارض مقدس کو اسلام اور مسلمانوں کو واپس کرے جیسا کہ انہوں نے صلیبیوں اور تاتاریوں کا قلع قمع کرنے میں کیا اور یہ اللہ کے لیے کوئی مشکل بھی نہیں۔