الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

ایمان کے سامنے خوف اور طاقت کے ہتھیار ناکام ہوجاتے ہیں

 

آج مسلمان جابر حکمرانوں کا سامان کررہے ہیں جو خوف اور طاقت کے ہتھیاروں سے مسلح ہیں۔ شام میں امریکہ نے ایک جنگ مسلط کررکھی ہے جو کہ  نام کی نہیں بلکہ حقیقت میں ایک عالمی جنگ ہے کیونکہ روس سے لے کر اپنے علاقائی ایجنٹوں تک جن میں ایران اور ترکی بھی شامل ہیں امریکہ ہر اس مسلح جتھے کو لے آیا ہے جسے وہ لاسکتا تھا۔  یہ ایک وحشیانہ جنگ ہے جس میں بیرل بم، محاصرے، زہریلی کلورین گیس اور سفید فاسفورس استعمال ہورہی ہے۔ اردن سے لے کر پاکستان تک مسلم دنیا بیدار  ہو رہی ہے اور دنیا میں اپنے مقصد سے آگاہی حاصل کررہی ہے جو کہ اسلام ہے۔  مسلمانوں میں اس بیداری  اور مقصد سے آگاہی کی وجہ  سے مسلم حکمران اسلام اور خلافت کے داعیوں کے خلاف اپنے غنڈوں کو بھر پور طریقے اور پوری شدت  سے حرکت میں لے آئیں ہیں   اور ایسی شدت پہلے نہیں دیکھی گئی۔ اسلام کی ایک ریاست کی شکل میں یقینی  واپسی کو روکنے کی اپنی آخری کوشش کے طور پر جابر حکمران نئے ظالمانہ قوانین لارہے ہیں جس کے تحت انٹر نیٹ پر بھی اسلامی اظہار خیال کو جرم بنادیا گیا ہے اور جاسوسی، گرفتاریاں، تفتیش اور تشدد کیا جارہا ہے۔

 

  خوف اور طاقت کے ہتھیار استعمال کرنے کے باوجود موجودہ حکمران اور کفار میں موجود ان کے آقا امت کی نشاۃ ثانیہ کو روکنے میں ناکام رہیں گے۔ جابر یہ سمجھتے ہیں کہ طاقت کا استعمال اور خوف کا ماحول  اسلام کے لئے مسلمانوں کی زبردست  جدوجہد کو سست بلکہ روک دے گا۔   لیکن وہ خود کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ جیسے وہ خود ہیں امت بھی ویسی ہی ہے یعنی جس طرح وہ اس  مختصر سی دنیاوی زندگی کو عزیز ترین سمجھتے ہیں ، اس سے چمٹے ہوئے ہیں اور زندگی کی آسائشوں اور آرام کی چھن جانے سے خوفزدہ رہتے ہیں، امت بھی  ایسی ہی ہے۔  یقیناً خوف اور طاقت کے ہتھیار مؤمن مرد  اور مؤمن عورت کے سامنے غیر موثر ہوجاتے ہیں جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کی محبت کی بدولت ان ہتھیاروں سے متاثر نہیں ہوتے۔

 

کفار یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ مسلمانوں کے خلاف جمع ہو جائیں، جیسے وہ شام میں  ہوئے ہیں ، تو وہ مسلمانوں پر غالب آسکتے ہیں اور انہیں  اسلام کی وفاداری سے دستبردار ہونے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ مسلم دنیا میں مغرب کے ایجنٹ  خوف کو پھیلاتے ہیں اور افواج میں اس بات  کو عام کرتے ہیں کہ خلافت کو پوری دنیا کی دشمنی اور جارحیت کا سامنا کرنا پڑے گا تا کہ افواج کوخلافت کے قیام کے لئے نصرۃ دینے  سے روکا جائے۔ لیکن دشمنوں کا مسلمانوں کے خلاف اکٹھا ہونا انہیں  خوفزدہ نہیں کرتا  بلکہ ان کے دلوں میں ایمان کو مزید پختہ کرتا ہے کہ ان کے لئے اللہ ہی کافی ہیں ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں،

 

﴿الَّذِينَقَالَلَهُمُالنَّاسُإِنَّالنَّاسَقَدْجَمَعُوالَكُمْفَاخْشَوْهُمْفَزَادَهُمْإِيمَانًاوَقَالُواحَسْبُنَااللَّهُوَنِعْمَالْوَكِيلُ

"(جب) ان سے لوگوں (منافقین)نے آکر بیان کیا کہ کفار نے تمہارے (مقابلےکے) لیے (لشکر کثیر) جمع کرلیا ہے تو ان سے ڈرو تو ان کا ایمان اور زیادہ ہوگیا اور کہنے لگے ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور بہت اچھا کارساز ہے"(آل عمران:173)۔

 

مسلم افواج نے تاریخ میں ہمیشہ اپنے سے کئی گنا بڑی  کفار کی افواج کا میدان جنگ میں سامنا کیا ہے  اور ان میں ایسا کرنے کی ہمت شہادت اور کامیابی کا  اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا وعدہ پیدا کرتا تھا۔

 

 

﴿قُلْ هَلْ تَتَربَّصُونَ بِنَا إِلاَّ إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ أَنْ يُصِيبَكُمُ اللَّهُ بِعَذَابٍ مِنْ عِنْدِهِ أَوْ بِأَيْدِينَا فَتَرَبَّصُوا إِنَّا مَعَكُمْ مُتَرَبِّصُونَ

"کہہ دو کہ تم ہمارے حق میں دو بھلائیوں میں سے ایک کے منتظر ہو اور ہم تمہارے حق میں اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ (یا تو) اپنے پاس سے تم پر کوئی عذاب نازل کرے یا ہمارے ہاتھوں سے (عذاب دلوائے) تو تم بھی انتظار کرو ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتے ہیں"(التوبۃ:52)۔

 

اور رسول اللہ ﷺ نے یہ وضاحت فرمائی  کہ اس شخص کے لئے پوری دنیا کی دولت بھی کچھ حیثیت نہیں رکھتی جو شہادت کا مزہ چکھ لیتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ایمان والوں کو کفار کے خلاف لڑنے پر ابھارا  اور اس بات پر زور دیا کہ،

 

 

﴿أَتَخْشَوْنَهُمْفَاللَّهُأَحَقُّأَنْتَخْشَوْهُإِنْكُنتُمْمُؤْمِنِينَ

"کیا تم ایسے لوگوں سے ڈرتے ہو  حالانکہ ڈرنے کے لائق اللہ ہے بشرطیہ ایمان رکھتے ہو"(التوبۃ:13)۔

 

آپ ﷺ نے فرمایا،

 

«مَا أَحَدٌ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ، يُحِبُّ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى الدُّنْيَا وَلَهُ مَا عَلَى الأَرْضِ مِنْ شَىْءٍ، إِلاَّ الشَّهِيدُ، يَتَمَنَّى أَنْ يَرْجِعَ إِلَى الدُّنْيَا فَيُقْتَلَ عَشْرَ مَرَّاتٍ، لِمَا يَرَى مِنَ الْكَرَامَةِ»

"کوئی بھی دنیا میں  واپس جانے کی خواہش نہیں رکھتا جو ایک بار جنت میں داخل ہوجائے چاہے اسے پوری دنیا کی دولت ہی کیوں نہ دے دی جائے لیکن سوائے اس مجاہد کے جو دنیا میں واپس جانا چاہتا ہے کہ وہ دس بار شہید کیا جائے  اور(اللہ کی جانب سے)   عزت پائے"(بخاری)۔

 

طاقت اور خوف مسلمانوں کی آوازوں کو خاموش کرنے میں غیر موثر ہیں کیونکہ اسلام یہ یقین کامل پیدا کرتا ہے کہ زندگی، رزق اور دولت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اختیار میں ہیں اور ان میں سے کسی بھی چیز کا نقصان  صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ، الرزاق  ، الحئی کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا حکومتوں کے غنڈوں کی   اسلام کے داعیوں کو دھمکیاں  کہ ان  کا رزق روک دیا جائے گا ، انہیں قید کردیا جائے گا یا یہاں تک کہ انہیں قتل کردیا جائے گا، کارگر ثابت نہیں ہوتیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

 

«أَلَالَايَمْنَعَنَّأَحَدَكُمْرَهْبَةُالنَّاسِأَنْيَقُولَبِحَقٍّإِذَارَآهُأَوْشَهِدَهُفَإِنَّهُلَايُقَرِّبُمِنْأَجَلٍوَلَايُبَاعِدُمِنْرِزْقٍ» 

"لوگوں کے خوف کی وجہ سے سچ بولنے نے سے نہ  ڈرو جب اسے دیکھو یا اس کا مشاہدہ کرو کیونکہ ایسا کرنے سے نہ تو تمہاری زندگی میں کوئی کمی آئے گہ اور نہ ہی رزق میں"(احمد)۔

 

طاقت کے سامنے ایسے بے خوف طرز عمل کے متعلق اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے  پچھلے پیغمبروں کی مثالیں دیں ہیں جب انہوں نے اپنے وقت کے جابروں کا سامنا کیا تھا۔  جہاں تک رسول اللہ ﷺ کا تعلق ہے تو انہیں پتھر مار مار کر زخمی کیا گیا ، گلا گھونٹا گیا یہاں تک کہ انہیں قتل کرنے کی کوشش کی گئی   لیکن وہ حق کے راستے پر چلتے رہے ۔  اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے صحابہ رضی اللہ عنھما نے بھی بہادری کے ساتھ یزید کے سامنے کھڑے ہوئے جب اس نے اسلام کی خلاف ورزی کی۔  یزید شرعی بیت کے ذریعے حکمران نہیں بنا تھا جس میں عوام بغیر کسی جبر وکرہ کے اپنا حکمران چنتے ہیں ، لہٰذا صحابہ  بغیر کسی خوف کے اس کے خلاف  حرکت میں آئے جس  نے اختیار کو غلط استعمال کیا تھا کیو نکہ حکمران کو چننے کا اختیار امت کا ہے جو اسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ نے دیا ہے۔  صحابہ رضی اللہ عنھما کا صحیح اور بہادارنہ عمل دیکھ کر لوگ ان کے گرد جمع ہوگئے ، مشکلات کا سامنا کیا، قربانیاں دیں  اور ایسی شہادت کو گلے لگایا  کہ جس کی تعریف ہر دور میں کی گئی۔  تو کیا ایک ایسے وقت میں ہم خاموش ہوجائیں جب موجودہ حکمرانوں نے صرف اختیار کو ہی غلط استعمال نہیں کیا بلکہ کفر کی بنیاد پر حکمرانی کرتے ہیں، ہمارے دشمنوں سے تعاون کرتے ہیں اور اسلام کے داعیوں سے لڑتے ہیں؟

خلافت کے داعی  طاقت اور خوف کے سامنے نہیں جھکتے کیونکہ وہ اُن میں سے ہیں  جو بزدلی اور فانی انسان کے ڈر سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

 

 

«اللَّهُمَّإِنِّيأَعُوذُبِكَمِنَالْهَمِّوَالْحَزَنِ،وَالْعَجْزِوَالْكَسَلِ،وَالْجُبْنِوَالْبُخْلِ،وَضَلَعِالدَّيْنِ،وَغَلَبَةِالرِّجَالِ»

"اے اللہ! میں پریشانی اور دکھ سے، صلاحیت کی محرومی اور کاہلی سے، بزدلی اور کنجوسی سے، بھاری قرضے اور   (کسی)آدمی کے خود پر حاوی ہونے سے آپ کی  پناہ مانگتا ہو،  "(بخاری)۔

     

وہ نہیں جھکتے کیونکہ وہ مرد و خواتین اس قابل ہیں کہ   کسی مقصد کے لئے عمل کرتے ہیں  اور خوف کی وجہ سے  پیچھے نہیں ہٹتے۔ وہ اس بات سے پوری طرح واقف ہیں کہ خوف ذہن پر حاوی ہوجاتا ہے اور اس کی صلاحیتوں کو مفلوج کردیتا ہے جیسا کہ ایک عربی کہاوت ہے کہ،  الذيتلدغهالأفعىيخشىمنالحبل "جو سانپ سے ڈسا جائے وہ رسی سے بھی خوف کھاتا ہے"۔ لہٰذا وہ خوف کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیتے کہ وہ  محتاط ہونے پر ابھارے جو پھر بے عملی کے لئے ایک  بہانہ بن جائے۔ وہ جانتے ہیں کہ محتاط ہونے کا مقصد یہ ہوتاہے کہ غیر ضروری نقصان سے بچا جائے  لیکن اس کا مقصد یہ قطعی نہیں ہوتا کہ انسان عمل سے ہی رک جائے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کبھی بھی محتاط ہونے کی وجہ سے  اپنی دعوت سے نہیں ہٹے   اور نہ ہی اس کی شدت کو کم کیا، اس بات کے باوجود کہ قریش نے رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنہما کے خلاف پوری طاقت استعمال کی۔    محتاط طرز عمل  صرف  وہاں استعمال کیا جاتا ہے جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے  اور اس کا عملی مظاہرہ مدینہ ہجرت کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ کے منصوبے   میں دیکھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے  انصار مدینہ کی جانب سے بیعت عقبہ ثانی کو خفیہ رکھنے کے لئے احتیاط اور خفیہ طرز عمل کو اختیار کیا تھا جس کے نتیجے میں  اسلام کے نفاذ کے لئے نصرۃ (مادی مدد) ملی جبکہ  یہ معاملہ قریش کی نظروں سے اوجھل رہا۔  نصرۃ مل جانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کی جانب ہجرت کی  تو انہوں نے احتیاط کا دامن تھامے رکھا تا کہ ان کی نقل و حرکت سے قریش بے خبر رہیں یہاں تک کہ اپنے بستر پر کسی اور کو سلایا، سفر کے دوران سمت تبدیل کرتے رہے اور  سفر کی نشانیوں  کو مٹا تے رہے۔  لہٰذا آج  حامل دعویٰ پر،  جو نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے لئے کام کررہا ہے ، لازم ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی مکمل پیروی کرے احتیاط کے دامن کو تھامتے ہوئے عقلمندی  اور  پوری استقامت کے ساتھ  آگے بڑھے  ناکہ اسے وجہ بنا کر پیچھے ہٹ جائے۔

 

طاقت  و خوف کے سامنے  بہادرانہ طرز عمل ہی ہے جس   نے مسلمانوں کے موجودہ حکمرانوں کو مایوس کردیا ہے۔  اس طرز عمل نے ان پر واضح کردیا  ہے کہ ان کی شکست یقینی ہے۔ وہ اس بات سے پہلے سے کہیں زیادہ باخبر ہیں کہ ان کے پاس حق کی ایک بھی بات نہیں  کہ جس کے ذریعے وہ حق کی پکار کو شکست دے سکیں۔  وہ اس بات سے مایوس ہیں کہ ان کے پاس کوئی ایسا وعدہ  اور اجر نہیں کہ جس کے ذریعے وہ اپنے غنڈوں کی حوصلہ افزائی کر سکیں جو پہلے ہی اپنے وسائل سے بڑھ کر  پاگل پن میں پوری امت پر پولیس کا پہرا بیٹھانے کی کوشش کررہے ہیں   اور وہ بھی اس وقت جب مسلمان ہر جگہ بیدار ہورہے ہیں۔ گزرے تمام جابروں نے  بھی طاقت اور خوف کے ہی ہتھیار استعمال کیے جب ان کا سامنا ان لوگوں سے ہوا جو ظلم کے سامنے جھکتے نہیں تھے تو انہیں یہ احساس ہوگیا کہ ان کا انجام قریب ہے۔  داعی کو بہادری اور بے خوفی سے پہلے کی طرح آگے بڑھتے رہنا چاہیے بلکہ اپنے عمل میں مزید تیزی لانی چاہیے کہ غنڈوں کو یہ سمجھ آجائے جیسا کہ اس سے قبل قریش کو آیا تھا کہ ان کی کوشش بے کار ہے۔

 

اے مسلمانو یقین رکھو کہ جو خوف کے ہتھیار کو استعمال کرتے ہیں ناکام رہتے ہیں کیونکہ ان کا سامنا ایک ایسی امت سے ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس وعدے پر ایمان رکھتی ہے کہ خوف کے بعد امن و  تحفظ ہے اگر وہ ایمان رکھیں اور نیک اعمال کرتے رہیں۔

 

﴿وَعَدَاللَّهُالَّذِينَآمَنُوامِنْكُمْوَعَمِلُواالصَّالِحَاتِلَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْفِيالْأَرْضِكَمَااسْتَخْلَفَالَّذِينَمِنْقَبْلِهِمْوَلَيُمَكِّنَنَّلَهُمْدِينَهُمُالَّذِيارْتَضَىٰلَهُمْوَلَيُبَدِّلَنَّهُمْمِنْبَعْدِخَوْفِهِمْأَمْنًا

" اللہ ان لوگوں سے وعدہ فرماچکے ہیں جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے کہ  زمین میں ویسے ہی حکمران بنائے گا جیسا کہ ان سے پہلے والوں  کو بنایا تھا  اور  ان کےاس دین کو محکم طریقے سے جما دے گا جسے وہ ان کے لیے پسند کرچکا ہے اور خوف کے بعد انہیں امن بخشے گا "(النور:55)۔

 

 ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں کہا کہ،

 

هذاوعدمناللهلرسولهصلىاللهعليهوسلم. بأنهسيجعلأمتهخلفاءالأرض،أي: أئمةالناسوالولاةعليهم،وبهمتصلحالبلاد،وتخضعلهم
العباد،وليبدلنبعدخوفهممنالناسأمناوحكمافيهموقدفعلتباركوتعالىذلك

"  یہ وعدہ ہے اللہ کی جانب سے، جو سب سے بلند ہے، اپنی نبی ﷺ سے کہ وہ ان کی امت کو زمین پر خلیفہ بنائے گا۔ یعنی وہ انسانیت کے رہنما ہونگے اور ان پر حکمرانی کریں گے اور اس طرح قوموں کی اصلح  ہوگی  اور ان کے سامنے انسانیت اطاعت اختیار کرے گی۔ اور وہ (اللہ سبحانہ و تعالیٰ) ان  کے خوف  کو، جس میں وہ رہ رہے ہیں، امن اور بالادستی سے بدل دے گا"۔

 

اے مسلمانو یقین رکھو کہ جو طاقت کے ہتھیار کو استعمال کرتے ہیں ناکام رہتے ہیں کیونکہ ان کا سامنا ایک ایسی امت سے ہے جو رسول اللہ کی اس بشارت کو حاصل کرنے کے لئے بھر پور جدوجہد  کررہی ہے، جنہوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ ظلم کی حکمرانی کے خاتمے کے بعد نبوت کے طریقے پر خلافت ہوگی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

 

 

«ثُمَّتَكُونُمُلْكًاجَبْرِيَّةًفَتَكُونُمَاشَاءَاللَّهُأَنْتَكُونَثُمَّيَرْفَعُهَاإِذَاشَاءَأَنْيَرْفَعَهَاثُمَّتَكُونُخِلَافَةًعَلَىمِنْهَاجِالنُّبُوَّةِثُمَّسَكَتَ»

"پھر ظلم کی حکمرانی ہو گی۔ اور اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہیں گے۔ پھر جب اللہ چاہیں گے اسے ختم کردیں گے۔ پھر نبوت کے طریقے پر خلافت ہو گی۔ پھر آپﷺ خاموش ہوگئے"(احمد)۔

 

اے مسلمانو یقین رکھو اور اپنے عمل میں تیزی لاؤ تا کہ  تمہارے اور کامیابی کے درمیان جو تھوڑا فاصلہ رہ گیا ہے اسے جلدی ختم کردیا جائے۔

 

حزب التحریرکے مرکزی میڈیا آفس کے لئے لکھا گیا

مصعب عمیر- پاکستان

Last modified onپیر, 17 اکتوبر 2016 02:36

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک