بسم الله الرحمن الرحيم
افواج کے وہ ہیروز جن کا انتظار ہے
تحریر: مصعب عمیر، پاکستان
امت آج ان زخموں کی تکلیف سے کراہ رہی ہے جو اس کے جسم پر داغے گئے ہیں۔ مسلمان بے یارو مدد گار بنا کسی تحفظ یا ڈھال کے اپنے دشمنوں کے نشانے پر ہیں جبکہ ان کی افواج کی مجموعی تعداد کئی ملین بنتی ہے جو انہیں دنیا کی سب سے بڑی فوج بنا دیتے ہیں ۔ میانمار کے مسلمانوں کے دکھ ، درد اور تکالیف پر مسلمانوں کی آنکھیں رو رو کر سرخ ہو گئی ہیں جہاں چند ہفتوں میں مشرک میانمار کی فوج نے سیکڑوں مسلمانوں کو قتل کردیا جن میں عورتیں، بچے، نومولود بھی شامل تھے اور کئی درجن خواتین کی عزتوں کو لوٹ لیا۔ مسلمانوں کی آنکھیں مقبوضہ کشمیر میں ہندو ریاست کی جانب سے مسلمانوں پر ہونے والے وحشیانہ حملے پر آنکھیں رو رو کر آنسووں سے خشک ہو گئیں ہیں جہاں گذشتہ جولائی سے درجنوں مسلمان شہید اور پیلٹ گن کے استعمال کی وجہ سے سیکڑوں لوگوں کی آنکھیں زخمی ہوگئیں جن میں سے کئی اپنی بینائی تک کھو بیٹھے۔ اور مسلمان خون کے آنسو روتے ہیں جب وہ حلب، شام کے مسلمانوں کو دیکھتے ہیں جہاں جابر بشار کے افواج نے، جنہیں امریکہ و روس کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے ، زہریلی کلورین گیس استعمال کی جس کی وجہ سے انسان دم گھٹ کر مر جاتا ہے اور سفید فاسفورس استعمال کی جو انسانی گوشت کو اس طرح سے جلا دیتا ہے کہ صرف ہڈیاں ہی بچتی ہیں اور خون میں شامل ہو کر اہم انسانی اعضاء کو ناکارہ بنا دیتا ہے۔ اس خوفناک اور مشکل ترین صورتحال میں یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ امت اپنے بچاؤ کے لیے اپنی افواج کے علاوہ کس کو مدد کے لیے پکارے؟
یقیناً یہی وہ وقت ہے کہ افواج میں موجود ہیروز امت کی چیخوں کو سنیں ۔ جن ہیروز کا انتظار ہے وہ امت کو درپیش مشکل ترین وقت میں آگے آکر موجودہ حکمرانوں کو اکھاڑ پھینکیں جنہوں نے افواج کو بیرکوں میں بند کررکھا ہے اور صرف اسی وقت انہیں بیرکوں سے نکالتے ہیں جب مغربی استعماری طاقتیں اپنے استعماری مفادات کی تکمیل کے لیے انہیں باہر نکالنے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ جن ہیروز کا انتظار ہے وہ نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے لیے نصرۃ فراہم کریں تا کہ مظلوموں کو ظلم سے نجات دلانے اور مقبوضہ علاقوں کی آزادی کے لیے افواج کو حرکت میں لایا جاسکے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں،
(وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنْ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا)
"بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان ناتواں مردوں، عورتوں اور ننھے ننھے بچوں کے چھٹکارے کے لیے جہاد نہ کرو؟ جو یوں دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لیے خود اپنے پاس سے حمایتی مقرر کردے اور ہمارے لیے خاص اپنے پاس سے مددگاربنا"(النساء:75)۔
یہ وہ ہیروز ہیں جو خود کو غدار حکمرانوں کی جانب سے بنائے گئے کرپٹ ماحول سے بلند کریں گے ۔ یہ کرپٹ ماحول دنیاوی مال و متاع، رتبے اور گھٹیا قوم پرستی اور وطنیت کی بنیادوں پر کھڑا ہے ۔ لیکن وہ ہیروز جن کا انتظار ہے وہ اپنا منہ دنیا کے مال و متاع سے موڑ لیں گے، جو انہیں موجودہ کرپٹ حکمران پیش کرتے ہیں جو درحقیقت اس بات کی رشوت ہوتی ہے کہ وہ خاموش بیٹھے رہیں اور حکمرانوں کے گناہوں میں حصہ دار بن جائیں ،کیونکہ امت کی حقیقی ہیروز اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس فرمان سے واقف ہیں کہ،
(وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ)
"اور اپنی نگاہیں ہر گز ان چیزوں کی طرف نہ دوڑانا جو ہم نے ان میں سے مختلف لوگوں کو آرائش دنیا دے رکھی ہے تا کہ انہیں اس میں آزمالیں۔ تیرے رب کا دیا ہوا ہی (بہت) بہتر اور بہت باقی رہنے والا ہے"(طہ:131)۔
وہ ہیروز جن کا انتظار ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی صورتحال کا بغور جائزہ لیا ہوگا جن کے متعلق بخاری میں روایت ہے کہ جب عمر بن خطاب رسول اللہ کے حجرے میں داخل ہوئے تو انہیں چٹائی پر لیٹے دیکھا،
فَوَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ فِيهِ شَيْئًا يَرُدُّ الْبَصَرَ غَيْرَ أَهَبَةٍ ثَلاَثَةٍ. فَقُلْتُ ادْعُ اللَّهَ فَلْيُوَسِّعْ عَلَى أُمَّتِكَ، فَإِنَّ فَارِسَ وَالرُّومَ وُسِّعَ عَلَيْهِمْ وَأُعْطُوا الدُّنْيَا، وَهُمْ لاَ يَعْبُدُونَ اللَّهَ، وَكَانَ مُتَّكِئًا. فَقَالَ " أَوَفِي شَكٍّ أَنْتَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ أُولَئِكَ قَوْمٌ عُجِّلَتْ لَهُمْ طَيِّبَاتُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ". فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتَغْفِرْ لِي
"جب میں نے انہیں مسکراتے دیکھا تو میں بیٹھ گیا اور کمرے پر ایک نظر ڈالی اور اللہ کی قسم کوئی اہم چیز نہ دیکھ سکا سوائے تین چمڑے کی کھالوں کے۔ میں نے (رسول اللہ ﷺسے) کہا ، اللہ سے دعا کریں کہ آپ کے پیروکاروں کو مال و متاع عطا فرمائے کہ فارسیوں اور بازنطینیوں کو امیر بنایا گیا اور انہیں دنیا کی آسائشیں دیں گئی جبکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے۔ رسول اللہ ﷺ لیٹے ہوئے تھے( میری بات سن کر سیدھے بیٹھ گئے) اور کہا ، اے ابن خطاب! کیا تمہیں شک ہے(کہ آخرت دنیا سے بہتر ہے)؟ ان لوگوں کو ان کے اعمال کا صلہ صرف اس دنیا میں ہی دیا گیا ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا، برائے مہربانی اللہ سے میری معافی کے لیے کہیں"۔
ہاں یہ سچ ہے کہ وہ ہیروز جن کا انتظار ہے یہ جانتے ہیں جہاد کے فرض کی ادائیگی پر وہ دنیاوی مال ومتاع کا حق رکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
«لِلْغَازِي أَجْرُهُ، وَلِلْجَاعِلِ أَجْرُهُ وَأَجْرُ الْغَازِي»
"غازی کو تو اس کا اپنا اجر ہی ملے گا،(جبکہ) غازی بنانے والے کو اپنا بھی اور غازی کا بھی اجر ملے گا"(ابو داود)۔
لیکن دنیاوی اجر کاوعدہ حقیقی ہیروز نہیں بناتا جو مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر بے سکون ہوجاتے ہیں اور اس بات پر مجبور ہوتے ہیں کہ وہ اپنی بندوقوں، ٹینکوں، جنگی جہازوں اور میزائلوں سے مدد کے لیے پکارنے والوں کی پکار کا جواب دیں ۔ جو چیز ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا عظیم اجر ہے جس کا اللہ نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو اس کی راہ میں لڑتے ہیں۔ یقیناً جن ہیروز کا انتظار ہے وہ اپنی جان اور مال کا سودا جنت کے بدلے کرلیتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
(إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَلَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الّجَنَّةَ يُقَـتِلُونَ فِى سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالإِنجِيلِ وَالْقُرْءانِ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُواْ بِبَيْعِكُمُ الَّذِى بَايَعْتُمْ بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ)
"بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض میں خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی۔ وہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں جس میں قتل کرتے ہیں اور قتل کیے جاتے ہیں، اس پر سچا وعدہ کیا گیا ہے تورات میں اور انجیل میں اور قرآن میں اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو کون پورا کرنے والا ہے؟ تو تم لوگ اپنی اس بیع پر جس کا تم نے معاملہ ٹھرایا ہے خوشی مناؤ اور یہ بڑی کامیابی ہے "(التوبہ:111)۔
وہ ہیروز جن کا انتظار ہے وہ شہادت کو نقصان تصور نہیں کرتے بلکہ سب سے بڑا انعام سمجھتے ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
«تَكَفَّلَ اللَّهُ لِمَنْ جَاهَدَ فِي سَبِيلِهِ، لاَ يُخْرِجُهُ إِلاَّ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِهِ وَتَصْدِيقُ كَلِمَاتِهِ، بِأَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، أَوْ يَرْجِعَهُ إِلَى مَسْكَنِهِ الَّذِي خَرَجَ مِنْهُ {مَعَ مَا نَالَ} مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِيمَةٍ»
" اللہ نے وعدہ کیا ہے اس سے جو اس کی راہ میں جدوجہد کرتا ہے اور ایسا کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہوتی سوائے جہاد اور اس (اللہ) کے الفاظ پر یقین کہ وہ(اللہ) اسے جنت میں داخل کرے گا(اگر وہ شہید ہوا) یا اسے واپس اس کے گھر لائے گا ، جہاں سے وہ نکلے گا ان چیزوں کے ساتھ جو اس نے مال غنیمت میں حاصل کیا ہوگا"(بخاری)۔
وہ ہیروز جن کا انتظار ہے وہ یہ جانتے ہیں کہ جنت دنیا کی نعمتوں اور آسائشوں میں نہیں ملتی بلکہ اللہ کی راہ میں خون اور پسینہ بہانے سے ملتی ہے کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا،
«وَاعْلَمُوا أَنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ ظِلاَلِ السُّيُوفِ»
"جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے"(بخاری)۔
یقیناً وہ ہیروز جن کا انتظار ہے ان کے دل اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بہترین طریقے سے عبادت کرنے کی خواہش سے لبریز ہیں۔ ان کے دماغوں میں یہ احساس موجود ہے کہ افواج میں ان کی موجودگی ان کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لیے ایک سنہری موقع ہے۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی راہ میں لڑنا پوری زندگی عبادت میں گزاردینے سے بہتر ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
«مَقَامُ الرَّجُلِ فِي الصَّفِّ فِي سَبِيلِ اللهِ أَفْضَلُ مِنْ عِبَادَةِ الرَّجُلِ سِتِّينَ سَنَةً»
" اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے صفوں میں انسان کا مقام اللہ کے لیے اس کی ساٹھ سال کی عبادت سے بہترہے"(الحاکم)۔
وہ یہ جانتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں لڑنا، جبکہ انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آیا وہ واپس اپنے خاندان کی آسودگی میں آ بھی سکیں گے ، لیلۃ القدر کی رات کی عبادت سے بڑھ کر ہے جس میں کی گئی عبادت ہزار راتوں کی عبادت کے برابر ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ،
«أَلاَ أُنَبِّئُكُمْ بِلَيْلَةٍ أَفْضَلَ مِنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ- حَارِسٌ حَرَسَ فِي أَرْضِ خَوْفٍ لَعَلَّهُ لاَ يَرْجِعُ إِلَى أَهْلِهِ»
"کیا میں تمہیں اس رات کے متعلق نہ بتاؤ جو لیلۃالقدر کی رات سے بھی بہتر ہے؟ (جہاد کے دوران) ایک نگران کا جنگ کی زمین پر نگرانی کرنا اور وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ آیا وہ اپنے خاندان کے پاس واپس جاسکے گا"(الحاکم)۔
ان کے دل عظیم ترین اجر کے لیے بے قرار ہیں ، اور ان کی آنکھیں آنسووں سے بھر جاتی ہیں جب وہ رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان سنتے ہیں،
«إِنَّ فِي الْجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ أَعَدَّهَا اللَّهُ لِلْمُجَاهِدِينَ فِي سَبِيلِهِ، كُلُّ دَرَجَتَيْنِ مَا بَيْنَهُمَا كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ فَسَلُوهُ الْفِرْدَوْسَ، فَإِنَّهُ أَوْسَطُ الْجَنَّةِ وَأَعْلَى الْجَنَّةِ، وَفَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ، وَمِنْهُ تَفَجَّرُ أَنْهَارُ الْجَنَّةِ»
"جنت میں سو (100) درجات ہیں جو اللہ نے ان کے لیے بنائیں ہیں جو اس کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔ ہر دو درجے کے درمیان اس قدر فاصلہ ہے جیسے زمین اور آسمان کے درمیان، تو اگر تم اللہ سے کچھ مانگو تو اس سے فردوس مانگو کیونکہ وہ جنت کا آخری درجہ اور سب سے اونچا مقام ہے، اور اس کے اوپر الرحمن کا عرش ہے اس کے نیچے سے جنت کے دریا نکلتے ہیں"(بخاری)۔
اور وہ اس اجر کو حاصل کرنے کے لیے بے قرار ہیں کہ ان کے لیے چھوٹے سے چھوٹے کھانے کا دورانیہ بھی بہت طویل انتظار ہے جب وہ اپنے سے پہلے آنے والوں کا کردار دیکھتے ہیں یعنی عمیر ابن الحمام رضی اللہ عنہ۔ مسلم نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں،
وَجَاءَ الْمُشْرِكُونَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قُومُوا إِلَى جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَوَاتُ وَالأَرْضُ» قَالَ: يَقُولُ عُمَيْرُ بْنُ الْحَمَامِ الْأَنْصَارِيُّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَرْضُهَا السَّمَوَاتُ وَالأَرْضُ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قَالَ: بَخٍ بَخٍ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا يَحْمِلُكَ عَلَى قَوْلِكَ: بَخٍ بَخٍ؟» قَالَ: لا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِلا رَجَاءَ أَنْ أَكُونَ مِنْ أَهْلِهَا، قَالَ: «فَإِنَّكَ مِنْ أَهْلِهَا» فَأَخْرَجَ تَمَرَاتٍ مِنْ قَرْنِهِ فَجَعَلَ يَأْكُلُ مِنْهُنَّ، ثُمَّ قَالَ: أَئِنْ أَنَا حَيِيتُ حَتَّى آكُلَ تَمَرَاتِي هَذِهِ إِنَّهَا لَحَيَاةٌ طَوِيلَةٌ، قَالَ: فَرَمَى بِمَا كَانَ مَعَهُ مِنَ التَّمْرِ ثُمَّ قَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ
"جب مشرکین قریب آئے تو رسول اللہ ﷺ نے کہا، کھڑے ہوجاؤ اور جنت کی طرف بڑھو جو اس قدر وسیع ہے جس قدر زمین و آسمان۔ عمیر بن الحمام نے پوچھا: کیا جنت اس قدر وسیع ہے جتنی کی زمین و آسمان؟ رسول اللہ ﷺ نے اثابت میں جواب دیا۔ عمیر نے کہا، زبردست!۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے ایسا کیوں کہا۔ انہوں نے جواب دیا: کچھ نہیں رسول اللہ ﷺ ! لیکن میں امید کرتا ہوں کہ میں بھی جنتیوں میں شامل ہو جاؤ گا۔ رسول اللہ ﷺ نے کہا ، تم ضروران میں شامل ہوگے۔ عمیر نے کچھ کھجوریں نکالیں اور انہیں کھانے لگے لیکن کچھ دیر بعد انہوں نے کہا: اگر ان کھجوروں کے کھانے تک میں زندہ رہا تو یہ بہت طویل زندگی ہوگی۔ لہٰذا انہوں نے وہ تمام کھجوریں پھینک دیں جو ان کے پاس تھیں اور پھر وہ دشمن سے اس وقت تک لڑے جب تک قتل نہیں ہو گئے"۔
لہٰذا امت کے افواج کے افسران، حزب التحریرتم سے نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے لیے نصرۃ مانگتی ہے، جو امت کی ڈھال ہے، تو ان ہیروز کی طرح اٹھو اور امت کی پکار پر لبیک کہو۔