الأحد، 22 محرّم 1446| 2024/07/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

ٹرمپ دومشکلوں کے درمیان پھنسا ہوا ہے

اور کسی نہ کسی کو اُس کے فیصلوں کی  قیمت ادا کرنا پڑے گی!

 

امریکی نیوز چینل سی این این کےگریگوری کریگ (Gregory Krieg) (آخری اپ ڈیٹ ورژن: 13جنوری،2017، 12:53 GMT) نے امریکہ کی سیاست میں ہنگامہ خیز واقعات کواس شہ سرخی کےتحت رپورٹ کیا : " گزشتہ 48 گھنٹوں نے ٹرمپ کے ا گلے 4 سال کے بارے میں ہمیں کیا  بتا یا ہے "۔ 5 ماہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی پریس کانفرنس اُ س وقت ہوئی جب ٹرمپ کی کابینہ کے انتخاب کے متعلق امریکی سینٹ میں ایک طویل سماعت کے سلسلے کا آغاز ہوا  جس میں عوامی سطح پر سینٹ کی نگران کمیٹیوں کی طرف سے سوال اٹھائے جا رہےتھے۔ ان کمیٹیوں  کے پاس صدر کے منتخب کردہ  امیدواروں کو مسترد کرنے کی آئینی طاقت ہے۔ سی این این کی شہ سرخی نے  وہ سوال اُٹھایا  جو ہر کوئی اُٹھا رہا ہے : ڈونلڈ ٹرمپ  کے اگلے ہفتے صدر بن جانے  کے بعد کیا ہوگا؟ کیا وہ میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کرے گا اور دعوے کے مطابق میکسیکو سے اس کی قیمت وصول کرےگا؟ کیا روس اور چین کے ساتھ ایک نیا تعلق قائمکرسکےگا؟اس طرح کے سوالات کے جواب دینا صرف ٹرمپ کے بیانات کا مطالعہ کرکےممکن نہ ہوگا ،بلکہ اس کے لیے امریکی سیاست کی نوعیت اور کس طرح وہاں پالیسیاں بنتی ہیں، کے بارے میں آگاہی کی بھی ضرورت ہے۔اس کی ایک مثال یہ ہےکہ میڈیا  کے مطابق  کم از کم 10 معاملات ایسےہیں جہاں ٹرمپ کی کابینہ کے نامزدگان نے سینٹ کی سماعتوں کے دوران ایسی رائے کا اظہار کیاجو ٹرمپ  کے بیانات سے مختلف تھیں۔

 

یہ یاد رکھنا ضروری ہےکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی عوام کی حمایت حاصل کرنے سے پہلے ریپبلکن پارٹی کی حمایت حاصل کی تھی، اور یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ  اپنی پارٹی کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے،اور ان کی پارٹی مراعات یافتہ ارب پتی  چندہ دینے والوں اور لابی گروپوں کے بغیر کچھ بھی نہیں، جو امریکہ میں سیاسی جماعتوں کو  پیسے فراہم کرتے ہیں۔ٹرمپ کے  بلند  بانگ دعووں کے باوجود کہ  اُس نے اپنی مہم کے لیے سرمایہ  کاری ( فنڈنگ) خود کی ہے ، زیادہ تر  مالی امداد مراعات یافتہ چندہ دینے والوں (ڈونرز) ہی کی طرف سے آئی اور وہ ٹرمپ  کی نہیں بلکہ اپنی پالیسیوں کی حمایت کے حصول کے لیے اُ س کی پارٹی کو سرمایہ فراہم  کرتے رہیں گے۔ یہی ڈونرز بہت سارے تھنک ٹینکس کو بھی فنڈ  فراہم کرتے ہیں تا کہ پالیسی تجزیہ کاروں اور ماہرین  کی ٹیم فراہم  کی جاسکے جو سیاستدانوں کے ساتھ  مل  کے میڈیا کو  اپنی خواہش کے مطابق پالیسیوں کی حمایت میں ابھاریں ۔ ان ڈونرز کی  بدستور حمایت ٹرمپ کے آگے  کے سیاسی چیلنجوں اور ان کی اپنی ریپبلکن پارٹی کی حمایت برقرار رکھنے کے لئے کام آئے گی، جو اس وقت امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں کو  کنٹرول کرتی  ہے۔تاہم،یہ جماعت یکساں سوچ  رکھنے والے افراد پر مشتمل نہیں ہے بلکہ اس میں مختلف دھڑے ہیں۔


بش انتظامیہ کے دوسرے  دور میں، ریپبلکن پارٹی کو قدامت پسند (neoconservative) دھڑے نے چلایا ،اور انہوں نےمشورہ دیا کہ دنیا بھر اور خاص طور پر مشرق وسطی میں امریکہ کو اپنی عسکری قوت کا استعمال براہ راست ، طاقتور طریقے سے، بلکہ احتیاطی اقدام(pre-emptive projection) کے طور پر بھی کرنا چاہیے۔ قدامت پسندنظریے کے حامل گروہ کے اعتبار  کھودینے اور غیر موثر ہوجانے کے ساتھ ہی  ڈیموکریٹس نے امریکی پالیسی کو سنبھالا لیکن اوباما  کی دوحکومتوں کے دوران ریپبلکن پارٹی کے اندر ایک چھوٹا سا  دھڑا"ٹی پارٹی" کے نام سے مشہور ہوا ۔ کچھ تنظیمیں جیسے ‘Citizens for a Sound Economy’ اور بعد میں ‘Americans for Prosperity کے نام سے نمودار ہوئیں اور اندونوں تنظیموں کوامریکی  سیاست کی دو اہم شخصیات ،جو کہKoch brothers کے نام سے مشہور ہیں، نے فنڈ فراہم کیا ، اورپھر ان دو پارٹیوں نے "ٹی پارٹی" کی حمایت کی جس نے سے اوباما کی اقتصادی پالیسیوں کی شدیدمخالفت شروع کردی۔

 

"ٹی پارٹی"  کم ٹیکس، کم سرکاری اخراجات اور وفاقی حکومت کی مداخلت میں کمی کی وکالت کرتی ہے۔یہ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے مرکزی اصول تھے۔خارجہ پالیسی کے معاملات میں"ٹی پارٹی"اس بات حمایت کرتی ہے کہ  'امریکی خصوصیت'(American exceptionalism) کے نظریے کو  ایک  حد تک   نافذ کیا  جانا  چاہیے  کیونکہ خود امریکہ  بھی انقلاب کے ذریعے وجود میں آیا تھا ،اس لئے یہ دیگر تمام ممالک سے بنیادی  طور پر مختلف  اور اُن سے بہتر ہے۔تاہم، بش دور کے سابق قدامت پسند(neoconservative)  کے برعکس" ٹی پارٹی" اپنی اس صلاحیت کے بارے میں مشکوک تھی کہ وہ ایک آزاد اور لبرل دنیا تخلیق کرسکے گی۔اسی طرح  ٹرمپ دنیا میں امریکہ کی انفرادیت اور برتری پر زور  دے رہا ہے لیکن اخلاقی قیادت یا کسی ذمہ داری کوقبول نہیں کررہا ہے ۔یہ بات سیکریٹری خارجہ  کے لئے ٹرمپ کے امیدوار ریکس ٹیلرسن Rex Tillerson  کےانتخاب کےلیے امریکی سینٹ کی سماعت کے دوران بھی واضح تھی،جنہوں نے شدید پوچھ گچھ کے خلاف مزاحمت کی جب  سینیٹرمارکو روبیو Marco Rubio نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں ان سے پوچھا : " کیا ویلادمیر پوٹن  ایک جنگی مجرم ہے؟"، تو ٹیلرسن نے  کہا  کہ یہ فیصلہ کرنے کے لئے اس کے پاس درکار معلومات نہیں ہیں اور جب دیگر ممالک کے متعلق پوچھا گیا تو اس نے وہاں بھی  انسانی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے کوئی یقین دہانی کرانے سے انکار کیا۔

 

"ٹی پارٹی" کا  خیال ہے کہ امریکہ کو ایک عالمی پولیس مین (global policeman) نہیں ہونا چاہئے، لیکن ٹرمپ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہاس سے کہیں  زیادہ ہیں اور اسی وجہ سے ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں بہت دیر بعد ریپبلکن پارٹی کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ مزید یہ کہ Koch brothers ، جو کہ فوربس لیسٹز(Forbes lists) کےمطابق امریکہ میں دوسرے سب سے امیر خاندان کے طور پر جانے جاتے ہیں، انہوں  نے"ٹی پارٹی" تحریک کی حمایت میں لاکھوں ڈالر دیے۔ اس کے باوجود Charles Koch ،  جودنیا میں نویں امیر ترین شخص  ہے،نے11 جولائی 2016 کو  Fortune Brainstorm Tech Conference میں ٹرمپ اور کلنٹن دونوں کی  شکایت کرتے  ہوئے کہا: " کیا تم  میرے سر پر بندوق رکھو گے؟ اگر مجھے کینسر یا ہارٹ اٹیک میں  سے کسی ایک کو ووٹ دینا ہو تو  میں کیوں ووٹ ڈالو ؟" Kochکی ٹرمپ کے ساتھ دشواری یہ ہے کہ اگرچہ ٹرمپ ٹیکس میں کمی کی حمایت کرتا ہے،مگر ٹرمپ  نے   کچھ ایسا کرنے کا وعدہ بھی  کیا ہے جسے Koch نے"ایک خوفناک حیوانیت"سے تعبیر کیا ہے ۔ ٹرمپ نے  آزادانہ تجارت کے معاہدوں جیسے' نافٹا ' (NAFTA) کے خاتمے اور درآمدات پر محصولات عائد کرنے کا وعدہ کیا ہے، اور یہ کوچ انڈسٹریز(Koch Industries) کے لئے بہت نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

 

ٹرمپ نے اپنے تجارتی ایجنڈے کی وجہ سے امریکہ میں کچھ طاقتورسرمایہ داروں کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے، تاکہ امریکہ کی دائیں بازو کی ایک اور شاخ کی حمایت حاصل کرسکے  جو  ریپبلکن پارٹی کے دھڑے "ٹی پارٹی" کے مقابلے میں بہت زیادہ بنیاد پرست ہیں،مگر اس کی وجہ  سے تجارتی جنگیں  ہونے کے خطرات  ہیں۔یہ انتہا  پسند تحریکalternative right ہے، جسے alt right’'بھی کہا جاتا ہے، یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور اس کے پرانے  سیاستدان کرپٹ ہوگئے ہیں، اور امریکہ اپنی نسلی شناخت کھو چکا ہے کیونکہ امریکہ  میں امریکی مصنوعات کی بجائے سستی غیر ملکی مصنوعات کی درآمد کی  وجہ سے امریکی عوام ملازمتیں کھو رہے  ہیں۔ اس رویےکی ایک مثال ٹرمپ کی ایک ریلی  کی تقریر میں ملتی ہے جو9 دسمبر کو  لوزیانا میں ہوئی جس میں ٹرمپ نے کہا کہ:"ہم اپنے تجارتی سودے دوبارہ گفت و شنید سے طے کریں گے، مصنوعات کی ڈمپنگ اور کرنسی کی ہیرا پھیری کو روکیں گے  جو ہمارے ملک کے لئے تباہ کن ہیں۔۔۔ ہر بار جب ہم آگے بڑھنے لگتے  ہیں تو چین اور دوسرے ،اپنی کرنسی کی قدر اتنی  زیادہ گرا دیتے  ہیں کہ ہمیں بار  بار  واپس پلٹنا  پڑتا  ہے، اور یوں کام نہیں چل سکتا"۔8دسمبر کو ٹرمپ نے فتح کی تقریرمیں کہا کہ: "امیگریشن سیکیورٹی اب قومی سلامتی ہے ۔۔۔، ہم دیگر ممالک کے لوگوں کو نہیں بلکہ اپنے لوگوں کو کام پر لگائیں گے"۔اور ٹرمپ اب بھی ایک دیوار تعمیر کرنے کا وعدہ کرتا ہے تاکہ  میکسیکو  کے  لوگوں کو امریکہ سے باہر رکھ  سکے۔

 

alternative right  تحریک نے نظریاتی شناخت پر توجہ دی ہے ، اور انہو ں نے اسلام کو نشانہ بنایا ہے۔ ٹرمپ نے عوامی حمایت مسلمان تارکین وطن کے خلاف دھمکیوں کو استعمال کر کے حاصل کی، اور وہ alternative rightکی پالیسیوں کی حمایت جاری  رکھے  ہوئے ہے اور اس طرح کے خیالات رکھنے والے لوگوں کو اپنے اردگرد اکٹھا کیا ہوا ہے۔ٹرمپ کی مہم کے مینیجرسٹیفن بینن، alternative rightکی ویب سائٹ بریٹ بارٹ نیوز (Breitbart News) کے ایڈیٹر تھے،اور انہیں فوری طور پر ٹرمپ کی نئی انتظامیہ کے لئے چیف اسٹریٹا جسٹ  (chief strategist)  منتخب کیا گیا تھا۔ جنرل مائیکل فلن Michael Flynn  کو قومی سلامتی کا مشیر (national security adviser) بنایا گیا(اب ا نہوں نے استعفیٰ دے دیا ہے)۔ فلن  Flynnنے ایک نئی کتابThe Field of Fight ’'شائع کی جس میں وہ لکھتا ہے کہ اوباما انتظامیہ امریکہ کے حقیقی دشمن کی شناخت کرنے میں  ناکام رہی ہے  جو  اس  کے خیال میں بنیاد پرست اسلام ہے۔ یہ نقطہ نظربینن ، اور اس کے ساتھ ساتھ فاکس نیوز کی کیتھلین میکفارلینڈKathleen McFarland بھی  رکھتی  ہیں جو کہ مستقبل  کی ڈپٹی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ہونگی۔ جنرل "میڈ ڈوگ" میٹس"  General “Mad Dog” Mattisکو وزیر  دفاع بننے کے لئے منتخب کیا گیا ۔ وہ 2011 ء میں ٹیلی ویژن پر  یہ  کہنے کے  لیے مشہور  ہے: "آپ افغانستان میں جائیں، آپ کو اردگرد  ایسے   مرد  ملیں  گے  جو  خواتین کو لگ بھگ پانچ سال سے تھپڑ مار رہے  ہیں کیونکہ انہوں نے نقاب نہیں  پہنا۔ آپ جانتے ہیں کہ ایسے ہی لوگ ہیں جن میں کوئی مردانگی نہیں رہی۔لہذا ان کو گولی مار نے  کا مزہ  ہی کچھ  اور ہے"۔  

 

ٹرمپ کی شدید بیان بازی اور  alternative right سے وابستہ لوگوں کی تقرریوں کے باوجود ، ان کی نئی کابینہ کے دیگر ارکان ٹی پارٹی تحریک اور ریپبلکن پارٹی کے زیادہ قدامت پسند ارکان بھی منتخب کیے  گئے  ہیں ،جس سے یہ   پتہ  چلتا ہے  کہ پارٹی کو ایک ساتھ رکھنے کے لئے ایک صلح اور مصلحت پسندی  کی پالیسی اپنائی   گئی  ہے۔  ٹرمپ نے کچھ عہدوں  پر ایسے لوگوں کو بھی مقرر کیا ہے جنہوں نے ٹرمپ کو  کھلے عام تنقید کا نشانہ بنایا تھا جیسے کہ نکی ہیلیNikki Haley ،جو  اقوام متحدہ میں امریکی نمائندہ ہیں،جنہوں  نے مہم کے دوران کہا تھا:"مسٹر ٹرمپ نے یقینی طور سے غیر ذمہ دارانہ  بات  کرنے  میں اہم کردار ادا  کیا ہے"۔ ٹرمپ نے بیٹسی ڈیووس Betsy DeVos  کوبھی سیکریٹری تعلیم نامزد کیا ہے ، جنہوں  نے مارچ میں اس کے بارے میں کہا تھا  :"مجھے نہیں لگتا ڈونلڈ ٹرمپ ریپبلکن پارٹی کی نمائندگی کرتا ہے"۔

 

جتنا اُن مختلف طاقتوں کو سمجھا جائے جو ٹرمپ  کی حمایت کرتی  ہیں ،اتنا ہی  زیادہ اگلے 4 برسوں کے لیے  امریکی پالیسی کو سمجھا جا سکتا ہے۔ جب تک ٹی پارٹی ایجنڈے اور alternative right ایجنڈے مل کے ساتھ ساتھ چلتے رہیں گے، تو  ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی جو امریکی کانگریس میں اکژیت رکھتی ہے،نئی قانون سازی کے ساتھ امریکہ کو تیزی اور طاقت کے ساتھ آگے  بڑھاتی  رہے گی،جبکہ ٹرمپ کے بے سروپا الزامات اور حقیقت کو توڑ مڑوڑ کے پیش کرنے کے ذریعہ میڈیا کومشغول رکھا جائے گا۔ اب کانگریس میں ریپبلکن ارکان اور ٹرمپ خوشی سے اوباما کی سب سے بڑی کہی جانے والی   کامیابی ‘Affordable Care Act’ جو'Obamacare 'کے نام سے بھی جانی جاتی ہے، کو ختم کرنے میں مصروف ہیں،یہ اور اس طرح  کے دوسرے منصوبے جن پر اتفاق ہوگیا ہے نئے صدراور ریپبلکن پارٹی  کو ایک دوسرے کے ساتھ ٹرمپ کی صدارت کے ابتدائی دور میں خوش اصلوبی  سے مل کے کام کرنے میں مصروف رکھیں  گے۔ تاہم، جہاں ایجنڈا، مل  کے نہیں چل سکتا ،جیسے کے آزادانہ تجارت، تو وہاں تنازعات رہیں گے ،اور اس وجہ  سے آنے والے مہینوں میں ٹرمپ مشکل فیصلے کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔

 

از طرف

ڈاکٹر عبداللہ رابن

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لئے

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک