بسم الله الرحمن الرحيم
جمہوریت کا مقام صفر ہے
جنوری 2017 کو پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹیو ڈیولپمنٹ اینڈ اتھارٹی اینڈ ٹیکنالوجی (پلڈاٹ) کی رپورٹ "پاکستان میں جمہوریت کی خوبی کا اندازہ"میں پاکستان نے 2016 میں 46 پوائنٹ حاصل کیے جبکہ 2015 میں 50 پوائنٹ حاصل کیے تھے۔ اس پیمائش کے لیے رپورٹ کے مطابق گیارہ پیمانے لاگو کیے گئے جو یہ ہیں: پاکستان کی پارلیمنٹ اور صوبائی قانون سازی، قومی و صوبائی حکومتوں کی کارکردگی، غیر منتخب ایگزیکیٹو کی کارکردگی، عدلیہ کی کارکردگی اور انصاف تک رسائی، میڈیا کی کارکردگی، مقامی حکومتوں کا ادارہ، آئینی ڈھانچہ، سیکیورٹی اداروں پر جمہوری اداروں کی نگرانی اور قانون کی بالادستی، انتخابی طریقہ کار اور اس کا نظم، سیاسی جماعتوں کی جمہوریت اور اس سے باہر کارکردگی، سول سوسائٹی۔
اس رپورٹ میں لوگوں کی ضروریات کو مکمل نظر انداز کیا گیا ہے اور جانتے بوجھتے ان مسائل کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی جن کا لوگ ہر روز سامنا کرتے ہیں ۔ اس میں یہ بات نہیں کی گئی کہ ایک اوسط خاندان اپنی میز پر کس قدر کھانے پینے کی اشیاء رکھ پاتا ہے، یا یہ کہ ان کے فریج خالی ہیں یا بھرے ہوئے ہیں۔ اس میں یہ بات دیکھی ہی نہیں گئی لوگ کس طرح گرمیوں میں سخت گرمی یا سردیوں میں سخت سردی کا سامنا کرتے ہیں، وہ زندہ رہتے ہیں یا مرجاتے ہیں، یا یہ کہ وہ اپنی ضروریات کس طرح پوری کرتے ہیں جبکہ بے روزگاری کی اونچی شرح ان کے سروں پر لٹکتی تلوار کی طرح ہوتی ہے جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مایوسی سے خودکشیاں بڑھ رہی ہیں۔ اس رپورٹ میں اس حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی ہے کہ کس طرح والدین اپنی آدھی تنخواہ بچوں کی اُس تعلیم پر خرچ کرتے ہیں جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور پھر انہیں کسی قابل بنانے کے لیے انہیں ٹیوشن سینٹرز بھیج کر مزید پیسے خرچ کرتے ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی نہیں دیکھا گیا کس طرح چھ یا سات افراد کا خاندان "جمہوری" طریقے سے ایک چھوٹی موٹر سائیکل پر بیٹھتا ہے اور اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالتا ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی دوسرای متبادل سستی پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت میسر نہیں ہوتی۔ اس میں اس پر بھی کوئی بات نہیں کی گئی کہ کس طرح حکومت کی لبرلائزیشن پالیسی نے ہمارے اخلاق، عقائد اور عزتوں کو کچلا ہے۔
یقیناً اس رپورٹ میں لوگوں کی ضروریات کو سامنے نہیں رکھا گیا بلکہ اس سطحی رپورٹ نے صرف حکومتی اداروں اور سیاسی جماعتوں کی استعداد کو دیکھ کر جمہوریت کی "کامیابی" کا اندازہ لگایا ہے۔ کیا کسی بھی نظام کی خوبی کا اندازہ اس بات پر نہیں ہونا چاہیے کہ وہ کس قدر خوبی سے اپنے لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کرتا ہے؟ اس رپورٹ نے یہ دیکھا ہی نہیں کہ ہمارے معاملات کی دیکھ بھال کی صورتحال کس قدر خراب ہے تا کہ اس کرپٹ نظام کے خمیر میں موجود خرابیوں پر پردہ ڈلا جاسکے۔ موجودہ حکمران یہ دعوی کرتے ہیں کہ جمہوریت لوگوں کے لیے ، لوگوں کے ذریعے، لوگوں کی ہے۔ درحقیقت یہ سرمایہ داروں کے ذریعے اور سرمایہ داروں کے لیے ، سرمایہ داروں کی حکمرانی ہے، ۔ اور پاکستان کے حوالے سے یہ ایک مخصوص اشرافیہ کی حکمرانی ہے جو اپنے اور ساتھ ہی اپنے استعماری آقاوں کے مفادات کی نگہبانی کرتی ہے جبکہ اس وجہ سے پاکستان عدم تحفظ اور افراتفری کی آگ میں جل رہا ہے۔
اس کے علاوہ جمہوریت کی بنیاد یہ ہے کہ انسان کی محدود عقل صحیح اور غلط ، قانونی اور غیر قانونی کا فیصلہ کرتی ہے اور پوری قوم کی قسمت کا انحصار منتخب حکمرانوں کی خواہشات پر ہوتا ہے۔ یہ منتخب حکمران چنے جاتے ہیں، ان کی تربیت کی جاتی ہے اور ملک کے حقیقی حکمران یعنی استعماری طاقتیں انہیں آگے لاتی ہیں۔استعماری طاقتیں جمہوری اداروں کی مضبوطی چاہتی ہیں تاکہ لوگوں کو کفر قوانین اور منصوبوں کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا جائے۔ لہٰذا آج پاکستان کے مسلمان دین حق اور قرآن و سنت کی حکمرانی کا مطالبہ کرتے ہیں اور صرف یہی اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کیا قانونی ہے اور کیا غیر قانونی ہے۔ جبکہ جمہوری اداروں کا مقصد اسلام کو قوت کے ذریعے کچلنا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے اغوا، گرفتاریاں اور تشدد کے غیر انسانی حربے استعمال کرتے ہیں۔
اگر ہم ان پیمانوں کو قبول بھی کرلیں جو اس رپورٹ کی تیاری کے لیے استعمال کیے گئے ہیں تب بھی یہ بات سب پر واضح ہے کہ پاکستان کے مخلص مسلمان اپنے حکمرانوں سے نفرت کرتے ہیں اور انہیں ان اداروں پر کوئی اعتماد نہیں ہے۔ انہیں انصاف ملنے کی کوئی کرن تک نظر نہیں آرہی اور ہر ایک جانتا ہے قانون نافذ کرے والے ادارے اور عدلیہ ان کے مصائب کے بوجھ میں مزید اضافہ ہی کررہے ہیں۔ یہاں انصاف میسر نہیں کیونکہ عدلیہ اسلام کی بنیاد پر کام نہیں کرتی۔ لہٰذا جانے پہچانے مجرم جیسا کہ وزیر اعظم نواز شریف اس قابل ہوتے ہیں کہ پانامہ کرپشن کے مقدمات مہینوں لٹکے رہیں جبکہ خلافت کے داعی مقدمات چلائے بغیر ہی سالوں تک جیلوں میں پڑے رہیں۔ جمہوری نظام میں انصاف ایک سیراب ہے جو لوگوں کو اپنے حکمران چننے کا اختیار دے کر بےوقوف بناتا ہے تا کہ وہ اگلے پانچ سال تک ان کی خواہشات کی سامنے جھکے رہیں۔
وہ پیمانے جو اہمیت رکھتے ہیں اگر ان پر جمہوریت کو دیکھا جائے تو اس کی کارکردگی صفر ہے۔ پاکستان کے مسلمانوں نے جمہوریت کو مسترد کردیا ہے جو استعماری طاقتوں کا ایک آلہ ہے۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ اِس نظام کا اُن کے اِس دین سے کوئی مشابہت نہیں جو انہیں بہت عزیز ہے۔ عوامی سطح پر بات اس مقام تک پہنچ چکی ہے کہ حکمران اس کرپٹ نظام کو صحیح دیکھانے کے لیے اس قسم کی رپورٹس کو پیش کرتے ہیں ۔ وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ یہ ظالم نظام اپنی موت کے قریب پہنچ چکا ہے اور جلد خلافت کے واپسی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اِس کو اِس کی قبر میں اتار دے گی۔ احمد نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
«ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ»
"پھر ظلم کی حکمرانی ہوگی اور اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہیں گے۔ پھر اللہ اسے ختم کردیں گے جب اللہ چاہیں گے۔ پھر اس کے بعد نبوت کے طریقے پر خلافت ہوگی"۔ اور آپ ﷺ خاموش ہوگئے۔