الإثنين، 23 محرّم 1446| 2024/07/29
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

بھارت سے آنے والے یورینیم ملے سیلابی پانی کی وجہ سے بنگلا دیش کی جھیلوں والی زمینوں کی تباہی ۔

بھارت کی ان ریشہ دوانیوں کو روکنے کے لیے بنگلا دیش کو خلافت کی بہادر قیادت کی ضرورت ہے

 

خبر:

ہندوستانی سرحد کی جانب سے آنے والے طوفانی سیلابی پانی نے  بنگلا دیش کےکچھ شمال مشرقی علاقوں او رضلع سونم گنج کے جھیلوں والے وسیع رقبے کو تباہ کر دیا ہے اور اس علاقےمیں ایک انتہائی سنگین ماحولیاتی تباہی پھیل چکی ہے ۔ کسانوں کے سالانہ فصل اٹھانے والے موسم سے چند ہی ہفتے قبل  ہونے والی لگاتار بارشوں اور سیلابی ریلوں کی وجہ سے دھان کی کئی ایکڑ زمین پر ہونے والے نقصان کے بعد، جھیلوں کا پانی آلودہ ہونے سے مچھلیوں، بطخوں، آبی جانوروں،  بھینسوں اور گائیوں کی اموات بھی شروع ہو گئیں ہیں۔  سیلابی ریلے وہاں کے لوگوں کے لیے نئے نہیں ہیں اور ہر سال وہ  جھیل کی مچھلیوں پر گزارہ کر کے  زندہ رہتے ہیں ۔ لیکن اس بے مثال آلودگی کی وجہ  ہندوستانی ریاست میگھالیہ میں یورینیم کارپوریشن آف انڈیا لمیٹڈ (UCIL) کی کھلے منہ والی یورینیم کی کانوں کو خیال کیا جاتا ہے  جو بنگلا دیش کی سرحد سے محض  تین  (3)  کلو میٹر دور ہیں۔

 

 

تبصرہ:

شدید بارشوں کے باعث سیلابی ریلوں اور ہندوستان میں میگھالیہ کے پہاڑوں سے آنے والےپانی کے بہاؤ کی وجہ سے تین لاکھ اکہتر ہزار تین سو اکیاسی(371,381) ہیکٹر زمین  پر فصل کو نقصان پہنچا۔  ان سات نشیبی اضلاع میں لگ بھگ تین لاکھ کسان متاثر ہوئے  جن کا ذریعہ معاش دھان اور مچھلی پالنے پر منحصر ہے، اس کی وجہ سے ان کو تقریباًپانچ ہزار اکیاسی (081,5)کروڑ ٹکہ مالیت کے چاول، مچھلی اور چارے کا نقصان ہوا ۔ فی الحال، متاثرہ علاقوں میں نو ملین سے زیادہ لوگ  خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ، مویشیوں کے لئے چارے کی شدید قلت کی وجہ سے غریب کسان اپنے جانوروں کو سستی قیمت پر فروخت کر رہے ہیں۔  یہ سانحہ اس قدر سنگین  ہے کہ اس سے نمٹنے اور نقصانات کے ازالےکے لیے کم از کم پانچ سال کا عرصہ درکار ہے۔  

اس سانحہ کے باوجود  حسینہ حکومت نے ابھی تک علاقے کو قومی آفت زدہ علاقہ قرار نہیں دیا۔  وہاں حکومتی امداد کاغذات پرتو بہت اچھی ہے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔   سرکاری حکام اور حکمران جماعت کے حمایت یافتہ سیاستدان  سرکاری امداد اور اعانت سے منافع کما رہے ہیں۔  لوگوں کے مصائب کی اخلاص کے ساتھ دیکھ بھال سے حکومتی بے رغبتی  سیلاب کے بعد کی صورتحال کو مزید بدتر بنا رہی ہے۔  یہ بات پہلے سے ہی خبروں میں گردش کر رہی ہے کہ دور دراز  دیہات  کے رہائشیوں کو کوئی امداد موصول نہیں ہو رہی  جبکہ مقامی دکاندار اور ریستوران  حکومت کی جانب سے سیلاب متاثرین میں تقسیم شدہ چاول بیچ رہے ہیں جو کہ کھلی مارکیٹ سے خرید کر لائے گئے تھے ۔  لوگوں کو مصائب سے نجات دلانے کےلیے حکومت کے سیاسی عزم کی   کمی ہمارے لیے  حیران  کن بات نہیں ، بلکہ  انسان کی تخلیق کردہ جمہوریت کے سرمایہ دار سیاستدانوں سے اسی بات کی توقع کی جا سکتی ہے۔  قومی بحران کے اوقات میں ہمارے ملک کی پچھلی تمام   بدعنوان حکومتوں نے بھی  غریب اور عام لوگوں کو قسمت کے ہاتھوں ناکام ہونے کے لیے چھوڑ دیا۔

 

 

بھارتی پہاڑوں سے آنے والے یورینیم ملے پانے کے بارے میں شیخ حسینہ کے ردعمل نے سب کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ہندوستان کی جانب سے یقیناً کچھ غلط ہوا ہے جسے وہ طاقت سے چھپانا چاہتی ہے۔  یہ بات سب کو معلوم ہے کہ  یورینیم کارپوریشن آف انڈیا لمیٹڈ (UCIL) نے بنگلا دیشی سرحد کے تین کلو میٹر دور مغربی کھاسی پہاڑوں میں بڑے پیمانے پر یورینیم کی دریافت اور آزمائشی کان کنی کا سلسلہ جاری کر رکھا ہے، جس کے خلاف انڈین کھاسی سٹوڈنٹ یونین اور مقامی باشندے احتجاج کرتے رہے ہیں  اور انہوں نے اپنے دریاؤں کی پراسرار رنگوں میں تبدیلی اور آبی حیات کی اموات کو بھی رپورٹ کیا ہے ۔   بنگلا دیشی جھیلوں کے پانی کی آلودگی کے بعد، بنگلا دیش میں اہم مرکزی دھارے  کے میڈیا نے بھی ہمارے دریائی نظام کے بھارت کی یورینیم کی کھلی اور غیر محفوظ کانوں کےساتھ تعلق کے امکان کے بارے میں رپورٹیں شائع کیں۔ لیکن حسینہ نے فوری طور پر بھارت کے بارے میں ایسی  خبروں کی اشاعت پر ان ذرائع ابلاغ  کی سرزنش کی کیونکہ   وہ نہیں چاہتی کہ اس کے آقا کے خلاف کسی بھی طرح کے منفی جذبات پروان چڑھیں۔   پہلے سے ہی اسےبھارت کے ساتھ اپنے ریاست مخالف معاہدوں کی وجہ سے  لوگوں میں بھارت مخالف جذبات سے نمٹنے میں شدید مشکل درپیش ہے۔  اب موجودہ تباہی کا بھارت کے یورینیم ملے پانی کے ساتھ مضبوط تعلق  اس کی سیاسی زندگی کو مزید مشکل بنا دے گا۔  اس ڈر کی وجہ سے حسینہ ایک قدم مزید آگے جا چکی ہے اور اب وہ جھیلوں والے اس علاقے میں تباہی کی شدت سے یہ کہتے ہوئےمکمل انکار کر رہی ہے کہ میڈیا نقصانات کو رائی کا پہاڑ بنا کر پیش کر  رہا ہے، اور اس نے میڈیا کے رد عمل کو ضرورت سے زیادہ اورناقابل بھروسہ خبروں  پرمشتمل کہہ کر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔  چناچہ اب مرکزی دھارے کے میڈیا پر  ملک کے جھیلوں والے علاقے میں تباہی کے بھارت کے ساتھ گہرے تعلق کے بارے میں مکمل بلیک آؤٹ دیکھا جا رہا ہے۔  قومی ریاستوں کے نظریہ پر یقین رکھنے والے کمزورسربراہوں،  کہ جنہیں خلافت کے خاتمے کے بعد ہماری مرضی کے برخلاف ہمیشہ ہم پر مسلط کیا گیا، کی وجہ سے ہی یہ ممکن ہوا ہے کہ بھارت جیسی بزدل جارح ریاست  بنگلا دیش کو اپنے تجرباتی اور کیمیائی فضلےکو تلف کرنے کی جگہ بنا سکے۔  فطرتی ماحول اور حیاتیات پر پڑنے والےناموافق اورناقابل تلافی اثر کو مدنظر رکھتے ہوئے   جب بھارت نے اپنی طرف کے سندربن میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر بنانے سے انکار کیا  تو اسی بھارتی کمپنی نے  ہماری طرف والے سندربن میں وہ پلانٹ قائم کر لیا تا کہ  ہمارے ماحول اور حیاتیات کو شدید نقصان پہنچایا جائے۔

 

 

بنگلا دیش  کوایک بار پھر اختیارالدین محمد بختیار خلجی جیسے ایک بہادر رہنما کی ضرورت  ہے جو  بنگال کے عوام کو بھارت کے  ان ساتھیوں سے آزاد کرے گا۔ مسلمانوں کی اس مبارک سرزمین کو ایک بار پھر  خلافت کی مخلص اور بہادر قیادت کے سائے تلے آنے کی ضرورت ہے جو  اس بات کو یقینی بنائے گی کہ بنگلا دیش کو  جلد ایک علاقائی فوجی طاقت میں بدل دیا جائے  کہ جہاں سے خلافت کی فوج  بھارت کی جانب مارچ کرے گی تا کہ اسے پڑوسی مسلم اور غیرمسلم ممالک  کے ساتھ جارحیت سے روکا جائے۔   

 

بنگلہ دیش میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے رکن انعام الدین کی جانب سے 

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا۔

 

﴿إِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ

”ان کے (عذاب کے) وعدے کا وقت صبح ہے۔ اور کیا صبح کچھ دور ہے؟" 

[ھود:81]

Last modified onمنگل, 30 مئی 2017 04:22

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک