الخميس، 26 جمادى الأولى 1446| 2024/11/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 24 نومبر 2017 

 

 - پاکستان میں سرمایہ دارانہ جمہوریت لاہور میں خوفناک آلودگی کی ذمہ دار ہے

- پاکستان کی زبردست معاشی استعداد کے باوجود  درآمدات پر انحصار حیرت انگیز رفتار سے بڑھ رہا ہے

سی پیک کی وجہ سے مقامی کاروبار بری طرح سے متاثر ہوں گے

 

 

تفصیلات: 

 

پاکستان میں سرمایہ دارانہ جمہوریت لاہور میں خوفناک آلودگی کی ذمہ دار ہے

10نومبر 2017 کو نیویارک ٹائمز نے ایک رپورٹ "سموگ پانچواں موسم بن چکا ہے" کے عنوان سے شائع کی۔ اس رپورٹ میں یہ بتایا گیا کہ "  یہ کہا جاتا ہے  کہ خطرناک ذرات جنہیں پی ایم 2.5 کہاجاتا ہے ، جو کہ اس قدر چھوٹے ہوتے ہیں کہ پھیپڑوں میں داخل ہو کر دوران خون میں شامل ہوجاتے ہیں، کی سطح 1077 مائیکرو گرام فئ میٹر تک پہنچ گئی ہے جو حکومت پاکستان کی محفوظ حد سے 30 گنا بلند ہے"۔ سموگ  (گندی دھند)  اب ایک سالانہ  مظہر  بن چکی ہے  جو ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔ اگرچہ بارشوں کی وجہ سے سموگ کم ہوگئی ہے لیکن مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔  مختلف تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ لمبے عرصے تک سموگ میں سانس لینے سے ان لوگوں کی موت واقع ہوسکتی ہے جو دل اور پھیپڑوں کے امراض کا پہلے سے شکار ہیں۔ 

 

بڑھتی آلودگی کی وجہ  جمہوریت ہے کیونکہ یہ سرمایہ داریت کا حکومتی نظام ہے جو آزادی ملکیت اور معاشی سرگرمیوں کو دوسرے تمام معاملات پر فوقیت دیتی ہے جس میں لوگوں کی صحت کے امور بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کیونکہ جمہوریت میں بڑے بڑے سرمایہ داروں کا زبردست عمل دخل ہوتا ہے جن کی بڑی بڑی فیکٹریاں ہوتی ہیں جو اپنے مفاد کے لیے قوانین میں تبدیلیاں کرواتے ہیں اور اس طرح آلودگی میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔  اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آلودگی میں اس قدر اضافے کی وجہ سے انسانی آبادیوں کو شدید نقصان پہنچا رہے۔  اگر ڈاکٹر مریض سے یہ کہتا ہے کہ وہ پھیپھڑوں کے مرض کا شکار ہوچکا ہے اور  اسے سیکریٹ نوشی ترک کرنا ہوگی ورنہ اس کے صحت مزید تباہ ہوسکتی ہے، تو لاہور میں رہنے والا مریض کیا کرے جہاں سموگ میں سانس لینا دن میں دو پیکٹ سیکریٹ پینے کے مترادف ہے؟ وہ لوگ بھی جو اس سموگ کی وجہ سے بیمار ہو کر اسپتال تونہیں پہنچتے  لیکن سموگ میں مسلسل سانس لینے کہ وجہ سے تھک جاتے ہیں کیونکہ سموگ میں سانس لینا ایک مشکل اور تکلیف دہ عمل ہے۔  سرمایہ داریت میں آلودگی بڑھتی ہی رہے گی،  بڑے صنعتی  اداروں کے نفع میں اضافہ ہوتا رہے گا  اور اس بات کی کوئی پروا نہیں کی جائے گی کہ لوگوں کو اس سے کیا تکلیف پہنچ رہی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ نجی میڈیکل اداروں کے آمدن بھی بڑھتی رہے گی کیونکہ ہزاروں افراد اسموگ سے بیمار ہوتے رہیں گے۔  وہ لوگ جو قانون سازی کرتے ہیں ان کی نظروں میں درختوں کی افزائش اور ان کی آبادی میں اضافہ ایک غیر نفع بخش کام ہے جبکہ  درخت انسانوں کے لیے پھیپھڑوں کا کام کرتے ہیں۔ 

 

اسلام انسان کو محض معاشی نقطہ نظر سے نہیں دیکھتا اور خلافت میں قانون سازی معاشرے کے امیر ترین اور طاقتور افراد کی ضروریات اور خواہشات کو مدنظر رکھ کر نہیں کی جاتی۔ عبادہ  بن الصامت سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا،

 

لاَ ضَرَرَ وَلاَ ضِرَارَ

"نہ نقصان  اٹھانا ہے اور نہ  نقصان پہنچانا ہے "(ابو داود)۔ 

جہاں تک درختوں کی افزائش کا تعلق ہے تو اسلام اسے معاشی بوجھ تصور نہیں کرتا بلکہ یہ باعث اجر ہے۔ انس نے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا،

مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا فَيَأْكُلُ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةٌ إِلاَّ كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ

"جومسلمان  کوئی پودا لگائے یا زمین کاشت کرے اور اس سے پرندےیا انسان یا جانور کھائے تو یہ اس لگانے والے کے لیے صدقہ ہوگا“(مسلم)۔

 

نبوت کے طریقے پر آنے والی خلافت  میں لاہور کے عامل کی یہ ذمہ داری ہو گی کہ ہر وہ قدم اٹھائے جس سے اس تکلیف کو ختم کیا جاسکے۔  جہاں تک اسکول جانے والی گاڑیوں کی وجہ سے ٹریفک میں اضافے کا مسئلہ ہے ، تو عامل اس بات کو یقینی بنائے گا کہ ہر علاقے میں تعلیم کی بہترین اور  قابل استطاعت سہولیات، آرام دہ اور قابل بھروسہ سفری سہولیات  میسر ہوں تا کہ ایسی گاڑیوں کی تعداد کم سے کم ہوجائے جہاں ایک گاڑی ایک بچے کو اسکول لے جانے کے لیے آدھے شہر کا سفر کرے۔  بھاری صنعتیں  آبادیوں سے دور  اور ملک کے مختلف حصوں میں قائم کی جائیں گی تا کہ ایک ہی جگہ آبادی  کا بوجھ نہ پڑ جائے۔  شجرکاری عامل کی نگرانی  میں کی جائے گی اور افراد کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ وہ بھی اس عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں یہاں تک کہ انہیں امداد بھی فراہم کی جائے گی۔    

 

پاکستان کی زبردست معاشی استعداد کے باوجود درآمدات پر انحصار حیرت انگیز رفتار سے بڑھ رہا ہے 

پاکستان کے شماریات کے بیورو نے 13 نومبر 2017 کو بتایا کہ تجارتی خسارے کے بڑھنے کی رفتار میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے اور پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال اکتوبر میں 36 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ یہ دعوی کیا گیا کہ درآمدات میں اضافے کی اہم وجہ پیٹرولیم کی مصنوعات، غذائی اجناس، مشینری، گاڑیوں اور آلات کی درآمدات میں اضافہ ہے۔ اسی عرصے میں موبائل فون کی درآمدات میں بھی کافی اضافہ دیکھا گیا ہے۔

 

یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ زرخیز زمین اور زبردست زرعی ڈھانچے کے باوجود پاکستان کو لازمی بہت بڑی تعداد میں غذائی اجناس درآمد کرنی پڑتی ہیں۔  اسی طرح بہت بڑی تعداد میں  محنتی مزدورں کے باوجود پاکستان کو اہم چیزیں جیسا کہ مشینری اور گاڑیاں  درآمد کرنی پڑتی ہیں۔  جہاں تک چھوٹی اور درمیانی سطح  کی صنعتوں کا تعلق ہے تو حکومت انہیں توانائی کی فراہمی میں غفلت کی مرتکب ہورہی ہے جبکہ ان پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال کر انہیں بند ہونے پر مجبور کررہی ہے۔  جہاں تک توانائی کا تعلق ہے تو ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے پاس 9 ارب بیرل تیل اور 105 کیوبک فٹ شیل اور قدرتی گیس کے ذخائر ہیں، جبکہ  2014 تک پاکستان کی ایک دن کی تیل کی ضرورت 450 ہزار بیرل تھی۔ اگر ضرورت کے مطابق ریفائنریز لگائیں جائیں تو پاکستان  کم از کم اگلے پچاس سالوں تک بہت کم توانائی کی درآمدات کے ساتھ  تیل و گیس کی ضروریات صرف اپنے ذخائر سے پوری کرسکتا ہے۔  زبردست اور مختلف قسم کے وسائل کی وجہ سے پاکستان مینوفیکچرنگ کا مرکز بن سکتا ہے۔ لیکن نظریاتی (آئیڈیالوجیکل) قیادت کی عدم موجودگی کی وجہ سے پاکستان کی معیشت خدمات (سروسز) فراہم کرنے والی معیشت کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔  اس کے علاوہ سی پیک منصوبے کے تحت  مینوفیکچرنگ کا شعبہ مزید  تباہی  کا شکار ہوگا اور اس کی جگہ خدمات کا شعبہ لیتا جائے گا۔ پچھلی سات دہائیوں میں چاہے جمہوری حکومت رہی ہویا فوجی آمریت، سیاسی و فوجی حکمرانوں نے امریکہ اور اس کے استعماری اداروں جیسا کہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے احکامات کی پیروی کی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کو اس کی صلاحیت کے مطابق ترقی کرنے سے محروم کردیا گیا۔ 

 

صرف اسلام کے ذریعے ہی پاکستان اپنی صلاحیت و استعداد کا صحیح استعمال کرسکے گا۔ خلیفہ نہ صرف استعماری طاقتوں کے اثرورسوخ سے آزاد ہوگا بلکہ  اس کی حکمرانی کی کوئی مخصوص معین مدت بھی نہیں ہوگی۔ تو خلیفہ نہ صرف اسلام کو نافذ کرے گا بلکہ وہ اس قابل بھی ہوگا کہ طویل مدتی معاشی ترقی کے منصوبے بنائے اور ان پر عمل درآمد بھی اپنی نگرانی میں کرائے۔  ہر شعبے میں خودانحصاری کے ہدف کی وجہ سے خلیفہ کو ان  درآمدی اشیاء  کی ضرورت نہیں ہو گی جو کہ صنعتی اور زرعی شعبے کے لیے انتہائی ضروری ہوتی ہیں جیسا کہ مشینری۔  اور آخری بات یہ کہ مسلمانوں کے امور کی دیکھ بھال کے لیے  ایک حقیقی نگہبان موجود ہوگا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،

 

كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فَالْإِمَامُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى أَهْلِ بَيْتِ زَوْجِهَا وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ وَعَبْدُ الرَّجُلِ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ أَلَا فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ

"تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور تم سب سے ان کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا،پس وہ حکمران جو لوگوں کا ذمہ دار ہے اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائےگا اور جو آدمی اپنے گھر والوں پر ذمہ دار ہے اس سے ان کے بارے میں سوال کیا جائے گا اور عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد کی ذمہ دار ہے، اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا اور غلام اپنے آقا کے مال کا ذمہ دار ہے، اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا، آگاہ رہو تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا  "(مسلم)۔        

 

سی پیک کی وجہ سے مقامی کاروبار بری طرح سے متاثر ہوں گے

21 نومبر 2017 کو چین-پاکستان اقتصادی راہداری  کی جوائنٹ کورڈینیشن کمیٹی نے باقاعدہ طور پر طویل مدتی منصوبہ(ایل ٹی پی) کی منظوری  ساتویں جے سی سی اجلاس کے بعد  دے دی۔ اس سے پہلے 7 نومبر 2017 کو پنجاب کے وزیر  اعلیٰ شہباز شریف نے لاہور میں پاک-چین فرینڈشپ پولین کا افتتاح  کرتے ہوئے کہا تھا کہ، "چین-پاکستان اقتصادی راہداری خطے کے لیے گیم چینجر ہے"۔ سی پیک کے تحت چین نے پاکستان کے توانائی اور دیگر منصوبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے دعوی کیا کہ سی پیک غربت اور بے روزگاری کے خاتمے میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔

 

چین کی سرمایہ کاری کوئی خیرات نہیں ہے بلکہ اس کامقصد مقامی مارکیٹ میں چین کی بالادستی میں اضافہ کرنا ہے۔ سی پیک توانائی اور دیگر انفرااسٹریکچر کے منصوبوں پر 62 ارب ڈالر  کا پروگرام ہے جس کے حوالے سے کئی مقامی منیوفیکچرر، چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور تجارت کی تنظیموں نے شدید خدشات کا اظہار کیا ہے۔  چینی کمپنیوں کو ٹیکس کی چھوٹ حاصل ہے، منیوفیکچرنگ کے لیے  درکاراشیاء چین سے لائیں جائیں گی اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کے کاروباریوں پر ان کا انحصار کم سے کم ہوگا۔  اس بات نے کئی مقامی کمپنیوں کے خوابوں کو چکنا چور کردیا ہے جو اس امید پر اپنی پیداواری استعداد میں اضافے کے منصوبے بنا رہی تھیں کہ انہیں چینی کمپنیوں سے آرڈر ملیں گے۔ 

 

ڈان اخبار سے بات کرتے ہوئے بجلی کی کیبل بنانے والی ایک کمپنی  کے صنعتکار نے کہا، "حکومت نے ایک جیسا میدان فراہم کرنے کی جگہ چینیوں کو بہت زیادہ فائدہ پہنچایا ہے۔ ایک طرف انہیں ان کی درآمدات پر چھوٹ فراہم کی ہے تو دوسری جانب ہم پر ٹیکسوں میں اضافہ اور ریکولیٹری ڈیوٹی لگا  کر پیداوار کے لیے درکار اشیاء کی قیمت میں اضافہ کردیا ہے۔ پچھلے تین سالوں میں ہم پر وفاقی اور صوبائی ٹیکسوں کے بوجھ میں 45 فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے "۔  ایک طرف ٹیکس لگا کر پاکستان کی مقامی پیداوار کو مفلوج کیا جارہا ہے تو دوسری جانب چین کو وسیع مواقع فراہم کیے جارہے ہیں۔ چین مغربی علاقے کے خطے سنکیانگ میں اربوں ڈالر لگا کر ایک بہت بڑا ٹیکسٹائل پارک قائم کررہا ہے جس کا انحصار سی پیک کے تحت بننے والی سڑکوں اور ریل نیٹ ورک پر ہوگا اور وہ اپنی اشیاء پاکستان کے بحیرہ عرب کی بندر گاہ گوادر سے برآمد کریں گے۔  ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ اور ایف پی سی سی آئی سے منسلک ایک صنعتکار نے کہا کہ، " سنکیانگ کے ٹیکسٹائل پارک سے آنے والی ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کا سیلاب اور اس کے ساتھ پاکستان کی مقامی پیداوار پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت کے لیے شدید خطرہ ہے جو پہلے ہی خود کو کھڑا رکھنے کی شدید جدوجہد کررہی ہے۔ سنکیانگ میں ٹیکسٹائل پارک پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات کے لیے بہت بڑے دھچکے کا باعث بنے گا"۔ اس کے علاوہ قرضے اور براہ راست بیرونی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) لازمی ملک پر اثر انداز ہوں گی کیونکہ قرضوں پر ادا ہونے والا سود اور چینی کمپنیوں کا منافع ملک سے باہر جائے گا۔ اس طرح سے اگر ہم دیکھیں تو بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ چین کی سرمایہ کاری پاکستان کے فائدے کے لیے نہیں بلکہ چین کے اپنے فائدے کے لیےہے۔

 

اہم استعماری طاقتوں کے ساتھ اتحاد ،جیسا کہ امریکہ، روس یا چین،  کا نتیجہ ہمیشہ کم طاقتور کے استحصال کی صورت میں نکلتا ہے۔ خلافت اہم اور بڑی طاقتوں کے ساتھ اتحاد نہیں کرے گی بلکہ اس کی جگہ اپنی تمام توانائی مقامی صنعتوں کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنے پر لگائے گی۔ حزب التحریر نے آنے والی نبوت کے طریقے پر خلافت کے مجوزہ دستور کی شق165 میں لکھا ہے کہ، "غیر ملکی سرمائے کا استعمال اور ملک  کے اندر اس کی سرمایہ کاری کرنا ممنوع ہو گی،  اورنہ کسی غیر ملکی شخص کو کوئی امتیازی رعایت دی جائے گی"۔ اسلام میں معیشت نے صدیوں تک خلافت کو دنیا کی صف اول کی ریاست کا مقام برقرار رکھنے میں اہم کردار دا کیا ہے۔ مسلمانوں کو حقیقی خوشحالی کا تجربہ صرف اور صرف نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے بعد ہی ہوگا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ  نے فرمایا، 

 

فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّى هُدًى فَمَنِ ٱتَّبَعَ هُدَاىَ فَلاَ يَضِلُّ وَلاَ يَشْقَىٰ ط وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِى فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكاً

"اب تمہارے پاس جب کبھی میری طرف سے ہدایت پہنچے تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے نہ تو بہکے گا نہ تکلیف میں پڑے گا۔ اور (ہاں) جو میرے ذکر (قرآن) سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی"(طہ:124-123)۔    

Last modified onپیر, 27 نومبر 2017 03:16

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک