بسم الله الرحمن الرحيم
- 25 رمضان
- صبر یہ ہے کہ جابر کے ظلم کے باوجود اس کے سامنے حق بات کی جائے-
- صبر کا مطلب قطعاً نہیں ہیں کے لوگوں سے خود کو الگ کر لینا اور ان کے امور سے لاپرواہ ہوجانا اور ظالموں کو کھلا چھوڑ دینا کہ وہ ظلم کرتے رہیں چاہے امت کے علاقوں کی حرمت پامال کریں، اس کے وسائل کو لوٹیں اور ان کے دین کا مذاق اڑائیں۔ ہمیں حق و سچ بات کرنی ہے اور صبر کے ساتھ اس کے نتائج کا سامنا بھی کرنا ہے یہ جانتے ہوئے کہ یہ امتحان سچے اور جھوٹے کے فرق کو واضح کردیتا ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں،
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجَـهِدِينَ مِنكُمْ وَالصَّـبِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَـرَكُمْ
"ہم ضرور تم لوگوں کو آزمائش میں ڈالیں گے تا کہ تمہارے حالات کی جانچ کریں اور دیکھ لیں کہ تم میں مجاہد اور صابر کون ہیں"(محمد:31)۔
ہمیں اس طویل اور شدید مصائب کا صبر سے مقابلہ کرنا ہے کہ یہی اس دنیا کے بعد کی زندگی میں کامیابی کا راستہ ہے، اور وہ جنت کی زندگی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں،
يَـأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ اصْبِرُواْ وَصَابِرُواْ وَرَابِطُواْ وَاتَّقُواْ اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو، باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردی دکھاؤ، حق کی خدمت کے لئے کمر بستہ رہو، امید ہے کہ فلاح پاؤ گے"(آل عمران:200)
Last modified onاتوار, 10 جون 2018 20:55