بسم الله الرحمن الرحيم
سلطان اورنگزیب عالمگیر ؒ کی زندگی کے چند لمحات
بلال المہاجر
دورِ حاضر کے مسلمانوں میں سے کم لوگ ہی قدآور اسلامی شخصیات کے بارے میں شناسائی رکھتے ہیں، جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو بام ِعروج تک پہنچانے کے لیے ناقابل فراموش کوششیں کیں۔ موجودہ دور میں ان عبقری شخصیات کی تاریخ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوکر رہ گئی ہے اور ان کے عظیم کارناموں کے نقوش مٹادیے گئے ہیں،تعلیمی نصاب اور تعلیمی وسائل میں سے ان کے تذکروں کو غائب کرکےان کی جگہ مغرب کے جرائم پیشہ قیادتوں اور گمراہ مفکرین کی تاریخیں داخل کی گئی ہیں۔ چنانچہ آہستہ آہستہ مسلمانوں کی نئی نسل کے قلوب و اذہان سے اپنے آباؤ اجداد میں سے نابغۂ روزگارہستیوں کے کارنامے کھرچے جارہے ہیں ، جنہوں نے پے در پے عظیم فتوحات کی تاریخیں رقم کیں اورچار دانگِ عالم توحید کا جھنڈا بلند کیا اور عدل و انصاف کی حکمرانی کی، جس کی مثال انسانی تاریخ میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔ مسلم حکمرانوں کی عدل گستری اور امن و آشتی کی شاندار تاریخ کو عام لوگ ایک افسانے کی نظر سے دیکھتے ہیں ، دورِ زوال کے انسانوں کے لیےاس کو حقیقت ماننا اس لیے معمہ بنا ہوا ہےکہ یہ دور انسانیت کے زوال کا دور ہے ۔ ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ جب سے خلافت کے زیر ِسایہ انسانوں کی حکومتی ، اجتماعی اور معاشی زندگی سےاسلام کوبے دخل کیا گیا اور سیکولر نظاموں کومسلط کیا گیا، تب سے ہی انسانوں کا زوال شروع ہوا۔ ان سیکولر نظاموں کے زیر سایہ انسانیت اجتماعی انحطاط کا شکار ہوئی اور اقتصادی طور پر بد حالی سے دوچار ہوئی جبکہ سیاسی طور پر ان نظاموں نے قوموں کو کچل ڈالنے کا کام کیا،اسی طرح کاپی رائٹس کے اس زمانے میں قومیں سائنسی وٹیکنالوجیکل پس ماندگی میں رہیں۔
انہی نابغۂ روزگار ہستیوں اور اسلامی تاریخ کے درخشندہ ستاروں میں سے ایک مغل سلطان اورنگزیب ؒ ہیں۔ ان کی ولادت با سعادت بھارتی ریاست گجرات کے علاقہ دو حد میں 15 ذی قعدہ 1028ہجری مطابق 24 اکتوبر 1619عیسوی کو ہوئی۔ یہ وہ عظیم سلطان ہیں جن کی عظمت کا شاید ہر ایک کو علم نہیں۔ نڈر ،بہادر، شیر دل شخصیت کے مالک، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے کفر کو رُسوا کیا ، جس نے سرکشی و بغاوت اور ظلم و طغیان کی کمر توڑ کر رکھ دی ، جس نے اپنی قلمرو میں اہل الحاد کا تاروپود بکھیر دیااور شر و فساد کا ہر جگہ قلع قمع کیا ، ظلم اور ظالموں کو بیخ و بُن سے اکھاڑ پھینکا اوربغاوت و فساد کا صفایا کیا۔ مغرور وسرکش افراد کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی پیروی کرنے پر مجبور کیا،ہر اس آدمی پرحجت قائم کرکے ذلت مسلط کی جس نے حق سے منہ پھیرا،مسلمانوں کو درست منہج پر چلایا ، وہ خاص و عام کا خیر خواہ اور امین تھا، اور اپنے دور میں دین کی تجدید کی ، یہی وجہ ہے کہ ان کو بقیۃ الخلفاء الراشدین کا لقب ملا۔
عظیم مسلمان قائدین کی پرورش منفرد طور پر ہوتی ہے۔ ان کے اندر حقیقی قیادت کی نشانیاں ان کی زندگی کے اولین ایام سے ہی جھلکتی نظر آتی ہیں۔ اورنگزیب کے اندر بھی کامیابی ، دینداری اور فضول خرچی اور لذت کیشی سے اجتناب کی علامات دیکھی گئیں۔ وہ ایک بہادر شہسوار تھا، ان کی تربیت امام ابوحنیفہ ؒ کے مذہب کے مطابق ہوئی ، چنانچہ کسی بھی قسم کی آمیزش سے پاک خالص اسلامی تربیت میں پلے بڑھے۔ ان کو شیخ محمد معصوم بن شیخ احمدسرہندی مجدد الف ثانی کی صحبت ملی۔ انہوں نے سلطان اورنگ زیب کی مکمل نگہداشت کی اور ان کی تربیت دینی خطوط پرکی ، سلطان اورنگزیب نے قرآن کو تجوید کے ساتھ پڑھا، حنفی فقہ پڑھی،اور اس میں ایک مقام حاصل کیا ، خوش خطی سیکھی اور اس میں کمال تک پہنچے، اس کے ساتھ گھوڑ سواری اور جنگی تربیت حاصل کی۔ اورنگزیب شعرگوئی پسند کرتے تھے بلکہ شاعر تھے، عربی، فارسی اور ترکی زبانوں میں مہارت حاصل کی۔ ان کے برعکس آج کے مسلم حکمرانوں کی تربیت گاہیں وہ محلات ہیں جہاں قرآن کی تلاوت نہیں ہوتی ، وہ فقط مغربی ثقافت اور اجنبی زبانوں سے آشناہوتے ہیں،اور ان کی تربیت کا کام اجنبی مرد و خواتین اساتذہ کے سپرد ہوتا ہے ، جوان کی تربیت مغربی خطوط پرکرتےہیں،اور پھر یہ حکمران مغرب ہی کے کام آتے ہیں، بلکہ بسا اوقات یہ مغربی تربیت یافتہ اشخاص تو اپنی مادری زبان بھی پوری طرح نہیں بول پاتے۔ جب وہ سن بلوغ کو پہنچ جاتے ہیں تو انہیں مغربی یونیورسٹیوں اور مغربی دانشگاہوں میں بھیج دیا جاتا ہے ۔ برطانوی مذہبی و فوجی یونیورسٹی "سینٹ ہرسٹ " تو مسلم حکمرانوں کے بیٹوں کا قبلہ بن چکا ہے، جنہیں وہاں بھیجا جاتا ہے،یا وہ اس طرز کی مغرب کی دیگر یونیورسٹیوں میں داخلہ لیتے ہیں ،جہاں مغربی عناصرِشخصیت سے ان کی شخصیتیں پروان چڑھتی ہیں، اورپھر کفر اور آتش و آہن کے وسائل سے لیس ہو کرمسلمانوں کی گردنوں پر حکمرانی کے لیے وہاں سے نکل کر واپسی کی راہ لیتے ہیں۔ یہ استعماری ریاستوں کے نمائندہ بن کر مغربی آفیسرز کی طرح استعماری کفار کی حکومتوں کی حفاظت کا کام کرتے ہیں جنہیں انہوں نے مسلم ممالک پر مسلط کر رکھا ہے اور ان کا کام مغرب کے مفادات کا تحفظ اوراسلامی ممالک کے وسائل کو لوٹنا ہوتا ہے۔
بلاشبہ جس کی تربیت اسلام پر ہوئی ہو اور وہ یہ صلاحیت بھی رکھتا ہو کہ کج روحکمران کو سیدھے راستے پر لائے،یا بد ترصورتحال کو بدل سکتا ہو، ایسی شخصیت کبھی بھی حق کے معاملے میں نرمی برتنے ، باطل کے ساتھ سمجھوتہ کرنے ،اور درمیانی حل یا پیوندکاری کو قبول نہیں کرتا۔ مسلمان حق اور باطل کی عینک سے معاملات کو دیکھتا ہے،حق وباطل آپس میں مکمل طور پر متضاد ہیں،اور وہ یہ تضاد واضح محسوس کرتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جب اورنگزیبؒ نے اپنے والد شاہ جہاں کے اندر اسلامی حکمرانی کے حوالے سے سستی دیکھی اور اسے یہ اندازہ تھا کہ والد کی سلطنت میں پیدا شدہ ٹیڑھےامور کی اصلاح کی جاسکتی ہے،تو اس نے اپنے والد اور بھائیوں کو حکومت سے ہٹا دیا اور اپنے حکمران ہونے کا اعلان کردیا،اس وقت ان کی عمر 40 سال تھی۔ حکمران بننے کے بعد اورنگزیب نے آرام و راحت کو بالائے طاق رکھا اور 52سال تک جہاد میں مشغول رہے،یہاں تک کہ برصغیر ِہند کے شمال میں ہمالیہ کی بلندیوں سے لے کرجنوب میں بحر ہندکی وسعتوں تک اور موجودہ بنگلا دیش سے لے کرایران کی سرحدوں تک کا سارا علاقہ اسلامی حکمرانی کے آگے سرنگوں ہوگیا۔ اورنگزیب کے دور میں ہندوستان کی اسلامی مغلیہ سلطنت کو انتہائی وسعت حاصل ہوئی۔ اس کی وجہ وہ فوجی و عسکری جد و جہد تھی جو سلطان نے جاری رکھی ،بالآخر ہندوستان کے چپے چپے پر سلطان کو تسلط حاصل ہوا۔ اور نگزیب نے بر صغیر ہند کو مغل اسلامی ولایہ میں بدل دیا اور اس کے مشرق و مغرب اور جنوب و شمال کو ایک ہی قیادت کے تحت مربوط کردیا۔ اورنگزیب کے عہد سلطنت میں مسلمانوں نے 30 سے زیادہ معرکے سر کیے،جن میں 11 معرکوں میں خود قیادت کی اور باقی میں اپنے کمانڈروں کو قیادت سپرد کی۔
سلطان مرحوم کی حکمرانی میں اچھی حکمرانی واضح نظر آتی ہے ،انہوں نے عملی کاموں پر توجہ دی ،آج کی طرح صرف کھوکھلے نعروں سے کام نہیں لیا۔ ریاست مدینہ صرف دعوؤں سے قائم نہیں کی جاسکتی، جو لوگ ریاست مدینہ کے قیام کے دعویدار ہیں ،انہیں چاہیے کہ جو شریعت مدینے میں نافذ کی گئی تھی وہی نافذ کریں،خالی نعروں سے کچھ نہیں ہوتا۔ سلطان اورنگزیب نے جب حکمرانی کا منصب سنبھالا تو 80 ٹیکس فی الفور ختم کردیے، اور غیر مسلموں پر جزیہ عائد کیا، جس کو اورنگزیب کے آبا ؤ اجداد نے معطل کردیا تھا۔ مساجد ، حمام ،خانقاہیں ، مدارس اور ہسپتال قائم کیے ،راستوں کی مرمت کی ، باغ بنائے،ان کے عہد سلطنت میں دہلی دنیا کا متمدن شہر بن گیا تھا، انہوں نے قاضی مقرر کیے اور ہر صوبے میں اپنے نائب متعین کیے،لوگوں میں یہ اعلان کروایا کہ " جس کا سلطان پر کوئی حق ہو تو وہ سلطان کے نائب کے پاس مقدمہ لے کر جائے "۔ نوروز وغیرہ جیسی کفریہ تہواروں پر پابندی لگائی،حکمرانوں کو دیے جانے والے لمبے چوڑے خطابات اورسلاموں کو بند کردیا ، حکم دیا کہ صرف اسلامی سلام کو کافی سمجھا جائے۔ اپنے ملک میں شراب کے داخلے پر پابندی لگائی اور قاضیوں کے لیے ایک کتاب متعین کی جس سے رجوع کرکے وہ حنفی مذہب کے مطابق فتوی ٰ دیا کریں۔ سلطان نے یہ کتاب اپنی نگرانی میں تصنیف کروائی جو " الفتاویٰ الہندیہ"( فتاویٰ عالمگیری) کے نام سے مشہور ہے۔ حکمرانی کے کاموں میں مصروفیت انہیں اللہ کی کتاب لکھنے سے روک نہیں سکی، چنانچہ سلطان نے حکمرانی کی کرسی پر بیٹھ کر قرآن کریم کے حفظ کو مکمل کیا۔
اچھی حکمرانی کا ایک مظہر یہ تھا کہ سلطان نے و ہ کام کیے جو اس کے زمانے میں رائج نہیں تھے، مثلاً کسی عالم کو عطیہ یا تنخواہ دیتے تو اس سے کوئی کام ضرور لیتے اور کوئی کتاب لکھنے یا طالبعلموں کو پڑھانے کا مطالبہ کرتے، تاکہ مفت خور بن کر سستی کا شکار نہ ہوجائیں، ایسا عالم دو گنی برائی کا شکار ہوجاتا ہے، ناحق مال لینا اور علم چھپانا۔ مشائخ کے ساتھ عاجزی سے پیش آتے اور ان کو قریب کرتے،ان کے مشورے سنتے اور ان کی قدردانی کرتے،اپنے کمانڈروں کو حکم دیا تھا کہ وہ مشائخ کے مشوروں کو انتہائی انکساری سےسنا کریں۔ بڑا پن اختیار کرنے سے سخت نفرت تھی، ایک دفعہ بنگال میں اپنے کسی نائب کے بارے میں سنا کہ اس نے اپنے لیے مسند بنائی ہے اور اس پر بیٹھتا ہے، تو اسے ڈانٹا اور حکم دیا کہ جیسے عام لوگ بیٹھتے ہیں اسی طرح لوگوں میں گھل مل کر بیٹھا کرو۔ آج کے ظالم حکمرانوں کے برعکس جو علماء کی وفاداریاں خریدنے کے لیے ان پر مال نچھاور کرتے ہیں، جس سے خاص قسم کے علماء پیدا ہوئے جنہیں درباری علما کہا جاتا ہے، در حقیقت یہ علماء نہیں ہوتے ، بلکہ جاہل ہوتے ہیں ،یہ پاکباز اور متقی علماء کی مانند نہیں ہوتے جو حکمرانوں کی غلطی پر ان کا محاسبہ کرتے ہیں اور ان کی کجی درست کرتے ہیں ،اور اس کا م میں کسی کی ملامت کی پرواہ بھی نہیں کرتے۔
خلیفہ راشد کی حکمرانی کے اثرات اس کی موت کے بعد بھی باقی رہتے ہیں۔ سلطان اورنگزیب کی تعمیر کردہ "بادشاہی مسجد" لاہور آج بھی اپنی آب و تاب کے ساتھ دعوت نظارہ دیتی کھڑی ہے،جو مسلمانوں کی عظمت و عزت اور شوکت و سطوت کی نشانی ہے۔ سلطان نے 28 ذی قعدہ 1118 ہجری مطابق 20 فروری 1707 عیسوی کو 90 سال کی عمر میں اس دارِ فانی سے رحلت فرمائی۔ سلطان نے 52 سال حکومت کی ۔تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ جب موت کا وقت قریب ہوا تو وصیت کی کہ مجھے مسلمانوں کے نزدیک ترین قبرستان میں دفنا دیا جائے اور کفن کے اخراجات پانچ روپے سے زیادہ نہیں ہونے چاہیے۔ مسلم حکمران طویل عرصہ تک حکمران رہ سکتا ہےکوئی یہ اعتراض نہیں کرسکتا کہ حکومت کا دورانیہ اتنا طویل کیوں ہوا یا یہ کہ اس کے لیے مخصوص مدت مقرر ہونی چاہیے، جیسا کہ موجودہ زمانے کی حکومتوں میں ہوتا ہے،کیونکہ اسلامی حکمران کتاب الہی ٰاور سنت نبویﷺ کے مطابق حکمرانی کرتا ہے، اس لیے ان کا دور حکومت کتنے ہی طویل دورانیے کی ہو،وہ اچھی حکمرانی ( گڈ گورنس) کی مثال ہوا کرتی ہے۔ جبکہ ایک حکمران جو اسلام کے احکامات کی بجائے اپنی خواہشات و رجحانات کے مطابق حکمرانی کرتا ہے اورحکمران ٹولے اور اپنے حمایتیوں کے مفاد کے لیے حکمرانی کرتا ہے، اس کا کام بس یہ رہ جاتا ہے کہ وہ ان کے مفادات کی حفاظت و تکمیل میں جتا رہے، جس کے نتیجے میں کرپشن اور ظلم راج کرتا ہے۔ ایسے حکمران کو ہٹانا لازم ہے خواہ اس کی حکمرانی کو ایک سال ہی ہوا ہو۔