الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

اسلام ہم جنس پرستی کے متعلق کیا حکم دیتا ہے؟

 

تحریر: خلیل مصعب

 

پاکستان کے مسلمان نوجوانوں کو گمراہ کرنے کی کوششوں میں سے ایک کوشش ہم جنس پرستی کی ترویج ہے۔ یہ دعویٰ کہ اسلام نے ہم جنس پرستی کو حرام قرار نہیں دیا ہے ایک کھلا جھوٹ ہے جس کا غلط ہونا  قرآن و سنت کے دلائل سے واضح طور پرثابت ہے۔ سورۃ الاعراف میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے پیغمبر لوط ؑ کے قوم کی مثال دے کر ہم جنس پرستی کی مذمت کی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّنْ دُونِ النِّسَاءِ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ

"عورتیں چھوڑ کر تم مردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو، بلکہ تم حد سے گزرگئے"(الاعراف، 7:81)۔

 

اس کے بعد آنے والی آیات میں قوم لوط کے مردوں کے متعلق بتایا گیا ہے جنہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ جنسی تعلق کو ختم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں عورتوں کی کوئی خواہش نہیں ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان لوگوں کو ایسے سزا دی کہ ان کی قوم کو تباہ کر دیا۔ اس کے علاوہ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،

مَنْ وَجَدْتُمُوهُ يَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ فَاقْتُلُوا الْفَاعِلَ وَالْمَفْعُولَ بِهِ

"جسے قومِ لوط کا عمل (ہم جنس پرستی) کرتے ہوئے پاؤ تو یہ فعل کرنے والے اور جس کے ساتھ کیا گیا ہے دونوں کو قتل کر دو" (ترمذی)۔

 

ان دلائل کی روشنی میں ہم یہ بات واضح طور پر کہہ سکتے ہیں کہ اسلام میں ہم جنس پرستی کی نہ صرف سختی سے ممانعت ہے بلکہ ریاست خلافت میں یہ ایک جرم ہے جس پر سزا دی جاتی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم جنس پرستی اختیار کرنے والوں کے متعلق فرمایا، *ارْجُمُوا الأَعْلَى وَالأَسْفَلَ ارْجُمُوهُمَا جَمِيعًا* ‏"اوپر والا ہو یا نیچے والا، دونوں کوسنگسار کر دو" (ابنِ ماجہ)۔ لہٰذا ایمان والوں پر واضح ہے کہ ہم جنس پرستی نہ صرف ایک بہت بڑا گناہ ہے جس پر آخرت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے غضب کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ اس دنیا میں بھی اس گناہ پر سزا ملے گی۔

 

جب ہم جنس پرستی پر اسلام کے مؤقف کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہاں پر یہ بھی لازمی ہے کہ ہم جنسی خواہشات کے حوالے سے اسلام کے نقطہ نظر کو سمجھیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں وضاحت کی گئی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسانوں میں کچھ مخصوص خواہشات رکھی ہیں لیکن اسی اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان خواہشات کو اپنے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق پورا کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ انسانوں میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ مزیدار خوراک کھانا اور مشروبات پینا چاہتے ہیں لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں ان خواہشات کو خاص انداز میں پورا کرنے کا حکم دیا ہے اور ان اشیاء کو کھانے اور پینے سے منع فرمایا ہے جن کی ممانعت ہے جیسا کہ سور کا گوشت اور شراب۔ انسانوں میں دولت جمع کرنے کی بھی خواہش ہوتی ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں اس خواہش کو اسلام کے احکامات کے مطابق ڈھالنے کا حکم دیا ہے اور غیر شرعی طریقوں سے دولت جمع کرنے سے منع فرمایا ہے جیسا کہ سود، دھوکہ دینا، ذخیرہ اندوزی کرنا۔ اسی طرح اللہ  سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی دولت میں سے کچھ حصہ غریبوں اور ضرورت مندوں پر خرچ کرنے کا حکم دیا ہے اور احکام شریعت کے مطابق تجارت کرنے کا حکم دیا ہے۔

 

جہاں تک جنسی خواہش کا تعلق ہے تو اس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ایمان والوں کو اپنی جنسی خواہش اس طرح پوری کرنی چاہیے جس طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اسے پورا کرنے کا حکم دیا ہے۔ ایک ایمان والا نکاح سے پہلے جنسی تعلق قائم نہیں کر سکتا۔ وہ ہم جنس پرستی اور جانوروں کے ساتھ جنسی فعل جیسے لعنتی عمل کو اختیار نہیں کر سکتا۔ ان قوانین کو نافذ کر کے اسلام نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ ایمان والے اپنی ذاتی خواہشات کے غلام نہ بن جائیں بلکہ اپنے اعمال کو اسلام کی فکر کے تابع رکھیں۔ یقیناً اس دنیا میں ہماری زندگی کا مقصد یہ نہیں کہ کسی بھی طریقے سے اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کریں بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عبادت اور اس کی رضا کا حصول ہی اس دنیا کے زندگی کااعلیٰ مقصد ہے۔

 

لیکن لبرل سیکولر نظریہ حیات (آئیڈیالوجی) دیگر تمام باتوں کو چھوڑ کر کسی بھی ذریعے سے انسان کی مادی خواہشات کی تکمیل کو ترجیح دیتی ہیں۔ اس کا پرچار کرنے والے یہ نقطہ نظر اختیار کرتے ہیں کہ انسان کو اس بات کی آزادی ہونی چاہئے کہ وہ کسی روک ٹوک کے بغیر جنسی خوشی کو حاصل کر سکے۔ ذاتی آزادی کے تصور کو انسانی تعلقات کے قیام میں بنیادی قرار دے کر انہوں نے ہر قسم کے غیر اخلاقی اور غیر شائستہ عمل کو جائز قرار دے دیا جیسا کہ ہم جنس پرستی، بغیر نکاح کے جنسی تعلق قائم کرنا اور ایسا وقتی تعلق قائم کرنا جس کا مقصد محض  فوری جنسی لذت کو حاصل کرنا ہو۔

 

ایمان والوں کو یہ بات اچھی طرح سے سمجھنی چاہیے کہ جنسی تعلق صرف مخالف جنس سے ہی  قائم ہوسکتا ہے اور وہ بھی نکاح کے معاہدے کے تحت۔ اس تعلق  کامقصد صرف جنسی لذت کا حصول ہی نہیں ہے بلکہ  ہم وہ ذمہ داریاں بھی ادا کرسکیں جو  اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہم پر عائد کی ہیں۔ قرآن ہمیں ان لوگوں کے حوالے سے خبردار کرتا ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہیں کرتے بلکہ اپنی خواہشات کے مطابق عمل اختیار کرتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،

أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَنْ يَهْدِيهِ مِنْ بَعْدِ اللَّهِ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ

"بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے اور باوجود جاننے بوجھنے کے (گمراہ ہو رہا ہے تو) اللہ نے (بھی) اس کو گمراہ کر دیا اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ اب اللہ کے سوا اس کو کون راہ پر لا سکتا ہے۔ بھلا تم کیوں نصیحت نہیں پکڑتے؟" (الجاثیہ 45:23)۔

 

اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ایمان والے اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیےغیر شرعی اعمال اختیار نہ کریں، رسول اللہﷺ نےمومنین کو نوجوانی میں ہی نکاح کرنے کا حکم دیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا،

مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَلْيَصُمْ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ

"اے نوجوانو! تم میں جو بھی شادی کی طاقت رکھتا ہو اسے نکاح کر لینا چاہئے کیونکہ یہ نظر کو نیچی رکھنے والا اور شرمگاہ کو محفوظ رکھنے والا عمل ہے اور جو اس کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھے کیونکہ یہ خواہش نفسانی کو توڑتا ہے" (النسائی)۔

 

شادی میں تاخیر نہ ہونے سے ایمان والا اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اس کی جنسی خواہشات طویل عرصے تک  پوری ہونے سے محروم نہ رہیں۔ جنسی خواہشات اگر طویل عرصے تک پوری نہ ہوں تو ایک انسان میں عدم اطمینان، بے سکونی اور بے چینی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور اس بات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں کہ وہ مایوسی کے عالم میں اپنی جنسی خواہشات کے تکمیل کے لیے غیرشرعی اور غیر مہذب طریقہ کار اختیار کر لے۔

 

ہم جنس پرستی کے موضوع کے طرف واپس آتے ہیں۔ کچھ لوگ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ بعض حالات و واقعات کی وجہ سے ایک شخص میں اپنے ہی ہم جنس مرد یا عورت کی طرف رغبت پیدا ہو جاتی ہے اور جنسِ مخالف کی طرف جنسی رجحان بالکل ختم ہو جاتا ہے تو یہ بات واضح رہے کہ اس حرام عمل کے حوالے سے جو بھی جذبات پیدا ہوں ان پر قابو پایا جانا ضروری ہے۔ اس عمل میں ایک بار بھی ملوث ہو جانے سے انسانی جسم ایک ایسے نئے طریقہ کار سے آگاہ ہو جاتا ہے جس کے ذریعے جنسی خواہش پوری کی جا سکتی ہے اور پھر خود کو اس عمل سے روکنا مشکل ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس اصول کا اطلاق ہر غیر مناسب جنسی رویے پر ہوتا ہے جیسا کہ عریاں تصاویر اور ویڈیوز دیکھنا، نکاح سے پہلے جنسی تعلق قائم کر لینا، وغیرہ وغیرہ۔ ایک ایمان والے کو اس حوالے سے خود کو نظم و ضبط کا پابند کرنا ہے اور خود کو گناہ سے بچانا ہے اور اللہ کے خوف کو دل میں اجاگر کرنا ہے تاکہ اس غلط میلان کی اصلاح ہو سکے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہم جنس پرستی کا کوئی بھی عمل ایک شخص کی اپنی مرضی و اختیار اور اس کے اپنے انتخاب سے ہوتا ہے۔ اور یہ اس وجہ سے ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں گناہ کرنے پر مجبور نہیں کرتے اور نہ ہی انہوں نے ہم میں ایسی کوئی خصلت ڈالی ہے جو ہمیں یہ گناہ والا عمل کرنے پر مجبور کرتی ہو۔ لہٰذا یہ دعویٰ جھوٹ پر مبنی ہے کہ کچھ افراد پیدائشی طور پر ہم جنس پرست  ہوتے ہیں۔

 

خلاصہ یہ ہے کہ ایک ایمان والا ہونے کے ناطے ہم پر یہ فرض ہے کہ ہم اپنی خواہشات کو اس طریقے سے پورا کریں جس کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جائز قرار دیا ہے۔ ہمیں خود کو قوانین اور  اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات سے بالاتر نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ ہم اس کی رعایا ہیں۔ یقیناً اللہ ہی ہر بات کا علم رکھتے ہیں اور وہی بہتر جانتے ہیں۔

 

#WhatDoesIslamSay

#MuslimYouth

Last modified onہفتہ, 11 جولائی 2020 05:43

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک