بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان کے حکمران کشمیر کی آزادی کے لیے جنگ کے آپشن کو مسترد کرنے کے لیے غلط بیانیہ استعمال کررہے ہیں
تحریر: خالد صلاح الدین
کشمیر کے مسلمانوں پر بڑھتے مظالم کے خلاف اوربھارت کی جانب سے آئین کی دفعات 370 اور 35اے کو ختم کرنے کے ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت نے معمول کے جذباتی بیانات جاری کیے۔ اسلام آباد میں واقع کشمیر ہائی وے کا نام سرینگر ہائی وے کردینا اور 5 اگست 2019 کے بھارتی اقدام کو "یوم استحصال" کے دن کے طور پر منانا اور اس کی مناسبت سے جاری ہونا والا نغمہ حکمرانوں کے بے معنی جذباتی اقدامات کی چند مثالیں ہیں۔
اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات آرمی جنرل ہیڈکواٹر (جی ایچ کیو) کی جانب سے آنے والا وہ مسلسل بیانیہ ہے جس میں بھارتی اقدام کے جواب میں خاموشی اختیار کرنے کو جوازدیا جارہا ہے جبکہ امت کی جانب سے عملی اقدامات اٹھانے کے لیے بہت دباؤ موجود ہے۔ کیونکہ امت نے اس بیانیہ کو مکمل طور پر مسترد کیا ہے لہٰذا پچھلے ایک سال کے دوران اس بیانیے میں امت کے اعتراضات کے مطابق ردوبدل بھی کیا گیا ہے۔
اس بیانیہ کی ابتداء اس بات سے ہوئی کہ کسی بھی قسم کی روایتی جنگ پھیل کر ایٹمی جنگ میں تبدیل ہوجائے گی جس کے نتیجے میں دونوں جانب کی یقینی تباہی(Mutually Assured Destruction) ہے، اور اس لیے کسی بھی صورت میں جنگ کی جانب نہیں جانا چاہیے۔ اس طرح کے دلائل سن کر نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (این ڈی یو) میں پڑھائے جانے والے جنگی کورسز میں پڑھائے جانے والے نظریات پر سوالات اٹھتے ہیں۔ جو فوجی نظریات این ڈی یو میں پڑھائے جاتے ہے اس کی بنیاد مغربی فوجی ڈاکٹرائن ہے جس کے مطابق ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ جنگ روایتی میدان تک محدود رہے گی۔ 1945 کے بعد کی فوجی تاریخ اس بات کی شاہد ہے، اور اس حوالے سے ہمیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ حال ہی میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے لداخ میں واقع وادی گلوان میں چین اور بھارت کے درمیان تنازعہ پیدا ہوگیا ۔ دونوں ممالک ثابت شدہ ایٹمی طاقتیں ہیں ، جو ایک دوسرے کے خلاف روایتی جنگ کے میدان میں اتریں لیکن جنگ بڑھ کر ایٹمی جنگ میں تبدیل نہیں ہوئی۔
پاکستان کی فوجی قیادت کے موقف میں موجود تضاد اس وقت آشکار ہوگیا جب انہوں نے واضح طور پر کہا کہ اگر بھارتی فوج آزاد کشمیر میں داخل ہوئی تو پاکستان آرمی اس کا منہ توڑ جواب دے گی۔ کیا منہ توڑ جواب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کے نتیجے میں جنگ شروع ہوجائے گی اور پھر وہ جنگ بڑھ کر ایٹمی جنگ میں تبدیل ہوجائے گی، یا یہ کہ کوئی ایسی خاص بات ہے جس سے صرف اعلیٰ قیادت ہی واقف ہے کہ ایسا نہیں ہوگا؟
جب امت نے اس بیانیہ کو مسترد کردیا تو پھر ایک دوسرا بیانیہ پیش کیا گیا کہ ہماری معیشت کمزور ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ جس وقت بھارت نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم کیا تھا تو اس کے اگلے ہی دن 6 اگست 2019 کو آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کی ٹیمیں پاکستان کے دورے پر پہنچ گئی تھیں۔ یہ اتفاق حیران کن ہے لیکن معیشت کے بیانیہ میں موجود تضاد اس سے بھی بڑھ کر حیران کن ہے۔ مشرف کے بعد سے پاکستان کی حکومت تسلسل سے آئی ایم ایف کے پروگرام لیتی آرہی ہے اور اسی دوران پاکستان آرمی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں مسلسل جنگ لڑ رہی تھی۔ اگر پاکستان کی فوجی قیادت نے امریکی مطالبات پرکمزور معیشت کے باوجود قبائلی علاقوں میں اپنے ہی بھائیوں کے خلاف ایک خوفناک جنگ لڑی ہے تو پھر وہ کمزور معیشت کے ساتھ بھارت کے ساتھ جنگ کیوں لڑ نہیں سکتے؟
جب یہ بیانیہ بھی نہیں چل سکا تو یہ کہا جانے لگا کہ بھارت کی معیشت پاکستان کی معیشت سے کئی گنا زیادہ بڑی ہے اور وہ جنگ کے اخراجات کو برداشت کرسکتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب بھارت میں 40 لاکھ سے زائد کورونا وائرس کی کیسز موجود ہوں، اس کی معیشت 2021-2020 کی پہلی سہہ ماہی میں 24 فیصد سکڑ گئی ہو(1)، اس کے مشرق میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہوں اور ساتھ ہی ساتھ چین کے ساتھ اس کا فوجی تنازعہ بھی شروع ہوگیا ہو، تو عملاً تو اس کے برعکس دلائل دئیے جا سکتے ہیں کہ بھارت کی معیشت اس وقت شدید مشکل صورتحال کا شکار ہے اور اگر ابھی کشمیر پر بھی جنگ شروع ہوجائے تو اس کی معیشت گر سکتی ہے۔ لیکن اس کے باوجودفوجی قیادت کو ایسی وجوہات نظر آتی ہیں جس کی بنیاد پر وہ اس موقف پر قائم ہے کہ جنگ نہیں لڑنی! آخر کیوں؟
کیا این ڈی یو کمپرمائز پر مبنی ایسی سوچ پیدا کرتی ہے جس کی وجہ سے یہ کہا جاتا ہے کہ اگر دشمن طاقتور ہے تو اس سے جنگ نہیں لڑنی؟ جبکہ وہاں سے ایسی سوچ کے حامل افسران نکلنے چاہیے جو ہر صورت اپنی ذمہ داری ادا کرنے کا موقع ڈھونڈھتے ہوں۔ ایک سینئر بھارتی دفاعی تجزیہ نگار نے کہا تھا کہ، "۔۔۔۔چین اور پاکستان کھلے دشمن ہیں، کشمیری ہمارے ساتھ نہیں ہیں، ہماری فوج مضبوط نہیں ہے، ہمارے کئی پڑوسی ہمارے خلاف ہیں، ہماری معیشت کمزور ہے، ہماری پاس ٹیکنالوجی کی کمی ہے، اندرونی اختلافات ختم نہیں ہوتے۔۔۔۔کیا میں نے کوئی بات چھوڑ تو نہیں دی!"(2)۔ آخر کیا وجہ ہے کہ این ڈی یو کے تربیت یافتہ قیادت کو اس قسم کے بیانات نظر نہیں آتے؟ جبکہ اس قسم کے بیانات کی ایک پوری تفصیل موجود ہے۔
بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ اگلا بیانیہ یہ ہے کہ کشمیر کے لوگ غیر فعال اور کمزور ہیں اور اگر پاکستان آرمی نے جنگ شروع کردی تو شاید وہ اس کی مدد نہ کرسکیں۔ اس قسم کا بیانیہ صرف وہی لوگ بڑھاتے ہیں جو مخلص نہیں اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کشمیر کو سرنڈر کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کشمیر کے مسلمان غیر فعال اور کمزور ہیں تو پھر بھارت کو وہاں 7 لاکھ سے زیادہ فوج رکھنے کی ضرورت ہی کیوں ہے جو 5 اگست 2019 کے اقدام کےبعد بڑھ کر 8 لاکھ ہوچکی ہے؟ اس کے علاوہ 5 اگست 2019 کے اقدام کے بعد سے بھارتی افواج میں کمی نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی ظالمانہ کرفیو ختم کیا گیا ہے۔ اگر کشمیر میں پاکستان کی کوئی حمایت موجود نہیں تھی تو پھر 1985 سے 1999 تک پاکستان آرمی نے کشمیریوں کی مسلح جدوجہد میں ان کی مدد کیوں کی تھی؟ ان تمام ٹاک شوز میں جہاں نام نہاد دفاعی تجزیہ نگار آکر پاس سرکاری بیانیئے کی تائید کرتے ہیں، یہ پوچھا جانا چاہیے کہ 1985 سے 1999 تک لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسے گروپوں کو کشمیر میں جاری مزاحمت کی مدد کے لیے کیوں استعمال کیا گیا تھا؟
جب ان بیانیوں پر عقلی دلائل کی بنیاد پر بات چیت کی جاتی ہے تو اس ذہنیت پر حیرانگی ہوتی ہے جہاں سے یہ بیانیے پھوٹتے ہیں۔ ایک طرف تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ درحقیقت نااہل ہیں۔ اگر آرمی چیف کی بات کی جائے توانہوں نے اکنامک ہٹ مین آف پاکستان ڈاکٹر رضا باقر اور ڈاکٹر حفیظ شیخ کو تما م تر حمایت فراہم کی تاکہ وہ آئی ایم ایف کے پروگراموں کو نافذ کرسکیں، اور پھر صرف ایک سال گزرنے کے بعد یہ صورتحال سامنے آئی کہ آئی ایم ایف سے متعلق قرضوں کی واپسی اور دفاعی اخراجات کے بعد وفاقی حکومت کے پاس اپنے ملازمین کی تنخواوں کی ادائیگی کے لیے پیسے نہیں رہے(3)۔
تو کیا ہم بھارت سے جنگ کرنے کیلئے ایک ایسے شخص کی ذہانت پر بھروسہ کرسکتے ہیں جو اس قابل بھی نہیں کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے نفاذ سے پیدا ہونے والے بھیانک نتائج کو سمجھ سکے؟ دوسری جانب ان کی پاکستان کے مسلمانوں سے اخلاص پر بھی سوال پیدا ہوتا ہے جن کے ٹیکس سے ان کی تنخواہیں جاتی ہیں۔ اگر پاکستان کی فوجی قیادت میں بیٹھے ہوئے مغربی ایجنٹ لڑنا ہی نہیں چاہتے، تو ان میں اتنی ہمت ہونی چاہیے کہ وہ اس کا برملا اظہار کرے، بجائے اس کے کہ غیر منطقی بیانیوں کی ترویج پر وقت برباد کرے۔ ان کے بیانیوں کو سن کر دماغ میں ان یہودیوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جن کے متعلق سورۃ البقرہ میں یہ بتایا گیا کہ ان سے کہا گیا کہ گائے قربان کرو، تو چونکہ ان کا گائے قربان کرنے کا ارادہ ہی نہیں تھا لہٰذا وہ اپنےبرے ارادوں کو فضول سوالات سے چھپانے کی کوشش کرنے لگے۔ بالکل ویسے ہی اس قیادت کا بھی کشمیر یا کسی بھی دوسرے مسلم کازکے لیے لڑنے کا کوئی ارادہ نہیں اورغیر منطقی بیانیوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسلام کے نقطہ نگاہ سے ایسے عمل کا مظاہرہ ان لوگوں کی جانب سے کیا جاتا ہے جو کھلم کھلا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں واضح طور پر خبردار کیا ہے کہ کفار کو اپنا دوست اور راز دار مت بناؤ،
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا بِطَانَةً مِّنۡ دُوۡنِكُمۡ لَا يَاۡلُوۡنَكُمۡ خَبَالًا ؕ وَدُّوۡا مَا عَنِتُّمۡۚ
"مومنو! کسی غیر (مذہب کے آدمی) کو اپنا رازداں نہ بنانا یہ لوگ تمہاری خرابی اور (فتنہ انگیزی کرنے) میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ (جس طرح ہو) تمہیں تکلیف پہنچے"(آل عمران، 3:118)۔
جنہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات کی خلاف ورزی کر کے کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی تو انہیں امریکا اور اس کے دوست بھارت کے ساتھ بھی دوستی کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہو گی، وہ اقوام متحدہ سے رہنمائی مانگیں گے، معیشت کو آئی ایم ایف کے حوالے کردیں گے اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کشمیر کو بیچ ڈالیں گے۔ لہٰذا، ہمیں ان کے شیطانی بیانیوں کو مسترد کرنا چاہیے، وہ بھی صرف کشمیر سے متعلق ہی نہیں بلکہ ان کے تمام بیانیوں کو مسترد کرنا ہے کیونکہ یہ بیانیے ان کی جانب سے پیش کیے جارہے ہیں جومسلسل بخوشی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں، تو ان کی سوچ میں کوئی خیر ہو ہی نہیں سکتی۔
[1] https://www.npr.org/sections/coronavirus-live-updates/2020/08/31/907877845/indian-economy-shrinks-by-24-as-the-country-sees-highest-ever-coronavirus-number
[2] https://twitter.com/PravinSawhney/with_replies?ref_src=twsrc%5Egoogle%7Ctwcamp%5Eserp%7Ctwgr%5Eauthor Tweet on Sept 1st 2020, site visited on 9th Auguts 2020.
[3] https://tribune.com.pk/story/2109592/debt-servicing-eats-rs571-6-billion-q1