الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

جب سول و فوجی سپریمیسی دونوں میں نافذ ہونے والا نظام، قوانین، پالیسیاں اوراستعماری غلامی ایک ہی ہیں، توان طاقتور ٹولوں کی اس لڑائی سے عوام کا کیا فائدہ؟!

 

خبر15 اکتوبر2020،بروز جمعہ، پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے متحدہ حزب اختلاف کے زیر اہتمام جلسے سے خطاب کرتے ہوئے  "ووٹ کو عزت دو" کا مطالبہ کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ پر یہ الزام لگایا کہ اُس نے اُن کی کامیاب حکومت کو گرایا اور اپنی پسند، نااہل عمران خان،کو ملک پر مسلط کردیا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ جنرل باجوہ کی اس پسند نے نہ صرف ان کے دور حکومت میں ہونے والی ترقی پر پانی پھیر دیا ہے بلکہ پاکستان کے مسلمانوں کو بدترین معاشی مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ فوجی قیادت اپنی مرضی مسلط کرنے کے بجائے لوگوں کے فیصلے کے سامنے سرنگوں ہوں۔

  

تبصرہ:

نواز شریف کی حالیہ تقاریر سے ملک میں یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ ملک کے لیے کیا بہتر ہے؛ سول یا فوجی بالادستی۔ سول بالادستی  کے حامی دعویٰ کرتے ہیں کہ جمہوریت میں عوام خودمختار ہوتے ہیں ، لہٰذا ملک و عوام کے امور کی دیکھ بھال پر عوام کے نمائندوں کی بالادستی ہونی چاہیے۔  جبکہ فوجی بالادستی کے حامی سول قیادت کو کرپٹ سمجھتے ہوئے ان دعووں کو مسترد کر دیتے ہیں۔  تاہم اس ذرائع ابلاغ کی اس سطحی  بحث اور شور و غلغلے سے ہٹ کر تھوڑی سی گہری نظر سے واضح ہوتا ہے کہ قیام پاکستان سے آج تک پاکستان  نے فوجی اور سیاسی دونوں طرح کی حکومتوں کا بار بار تجربہ کیا ہے  لیکن ہمیشہ انہیں سیاسی و فوجی دونوں حکومتوں نے شدید مایوس ہی کیا ہے اور اس کی وجہ انتہائی سادہ ہے۔ جمہوریت اور آمریت دونوں ہی سرمایہ دارانہ معاشی پالیسیاں نافذ کرتی ہیں جس کے نتیجے میں دولت چند لوگوں کے درمیان ہی گردش کرتی رہتی ہے۔ دونوں نے ہمیشہ آئی ایم ایف کے ظالمانہ پروگرام نافذ کیے جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ہمارا ملک کبھی بھی معاشی طور پر مستحکم اور اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہوسکے۔ ان دونوں نے ایسی خارجہ پالیسی نافذ کی جس کا مقصد خطے میں امریکی اہداف کے حصول کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔  ان دونوں نے اسلام کے مکمل نفاذ سے انکار کیا اور برطانوی راج کے چھوڑے عدالتی قوانین کو ہی نافذ کیا۔ پس سول اور فوجی بالادستی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، اور وہ سکہ ہے؛ انسان کا قانون۔

 

سیاسی بالادستی اور فوجی بالادستی کے حمایتیوں کے درمیان موجودہ کشمکش محض پاکستان کے حکمران طبقے کے درمیان مزید طاقت کے حصول کی گھٹیا جنگ ہے۔  اس  کشمکش سے پاکستان کے مسلمانوں کے لیے کوئی خیر برآمد نہیں ہوگا بالکل ویسے ہی جیسے اس سے پہلے ہونے والی اس قسم کی کشمکش سے کبھی کوئی خیر برآمد نہیں ہوا تھا۔ یہ دونوں گروہ مزید طاقت کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں کیونکہ انسان کا قانون ان کویہ اختیار دیتا ہے کہ وہ اپنے اپنے گروہوں کے فائدے کے لیے قوانین کو تبدیل کرسکیں۔  اسلام میں اس قسم کی کوئی کشمکش نہیں ہوتی کیونکہ اس کی بنیاد  انسان کا قانون نہیں بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا قانون ہے۔ خلافت کی سیاسی قیادت اور فوجی کمانڈرز صرف اورصرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قانون کے بالادستی کے لیے کام کرتے ہیں۔ خلافت کی سیاسی قیادت زندگی کے تمام میدانوں میں اسلام کو مکمل طور پر نافذ کرتی ہے جبکہ فوجی کمانڈرز جہاد کے ذریعے نئے نئے علاقے فتح کرتے ہیں تا کہ وہاں بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قانون کی بالادستی قائم کی جائے۔ پاکستان کے مسلمانوں کو اس وقت سیاسی و فوجی قیادت کی بالادستی کی کوشش کرنے والے گروہوں کی اس بے کار کشمکش کو نظر انداز کردینا چاہیے۔ پاکستان کے مسلمانوں کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قانون کی بالادستی کے لیے زبردست جدوجہد کرنی چاہیے اور افواج میں موجود اپنے رشتہ داروں سے اس بات کا مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ خلافت کے داعیوں کو نبوت کے نقش قدم پر خلافت کے قیام کے لیے فوری نصرۃ فراہم کریں۔ صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قانون کی بالادستی ہمارے بدترین مصائب کا خاتمہ کرے گا اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے غضب کو ختم فرمائے گا۔  

     

حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے انجینئر شہزاد شیخ نے یہ مضمون لکھا۔

Last modified onپیر, 26 اکتوبر 2020 20:09

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک