بسم الله الرحمن الرحيم
کشمیر کو آزاد کروانے کی غیرموجود خواہش
خالد صلاح الدین، پاکستان
بھارت کی جانب سے یکطرفہ طور پر آرٹیکل 370 کو کالعدم قرار دینے کے بعد بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم نے مزید شدت اختیار کرلی ہے۔ شمالی کشمیر کے علاقے سوپور میں ایک اور افسوسناک واقعہ میں انسانیت سوز ظلم کا مظاہرہ کیا گیا ، جہاں ایک شہری کو اس کے تین سالہ پوتے کے سامنے ہی قتل کر دیا گیا۔ سوشل میڈیا پر منظرعام پر آنے والی دل دہلا دینے والی تصاویر میں 3 سالہ لڑکے کو اپنے دادا کی لاش پر بیٹھے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ قابض یہودی افواج کی طرف سے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کی طرح، ہندو مشرکین کی جانب سے مسلمانوں پر وحشیانہ نوعیت کے حملے عدم متوقع نہیں، کیونکہ قرآن مجید میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے:
لَـتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّـلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا الۡيَهُوۡدَ وَالَّذِيۡنَ اَشۡرَكُوۡاۚ
"بے شک ، تم مردوں میں مومنوں کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی کرنے والے یہودی اور مشرک ہیں۔"(سور ۃالمائدۃ 5:82)
مسئلہ کشمیر کاحل بلاشک و شبہ جہاد ہے۔ کشمیر میں سیاسی ، اخلاقی اورمسلح حمایت کے ذریعے ایک مسلح بغاوت ،کہ جس کے ساتھ ساتھ پاک فوج کشمیر میں جنگ کا اعلان کر ے، عملی طور پر بالکل قابل عمل ہے۔ ایک کروڑ بیس لاکھ کشمیری آبادی میں سےنوے لاکھ مسلمان ہیں ، جن میں سے بیشتر اب مکمل طور پر بھارت مخالف ہیں اور وہ مسلح شورش میں مختلف درجوں میں سرگرم ہوجائیں گے۔ پاکستانی فوجی قیادت کو1971 کی جنگ کی وجہ سے اس بات سے آگاہ ہونا چاہئے کہ کسی ریاست کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لئے مسلح شورش کو کس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے۔ وہ ذلت ان کے ذہنوں میں زندہ ہو گی ، جہاں انہوں نے مشرقی پاکستان میں مسلمان آبادی کو پہلے ہی اپنے آپ سے دور کردیا تھا ، جس نے بعد میں بھارتی فوج کی مدد سے بنگلہ دیشی قوم پرستوں کے آزادی کے اعلان، کی حمایت کی یا وہ خاموشی سے دیکھتے رہے۔ لہٰذا کشمیر کی صورتحال اس کے برعکس ہے جہاں ایک مسلح مسلم بغاوت جسے پاکستانی فوج کی حمایت حاصل ہو ،وہ کشمیر کو مسلمانوں کو واپس دِلانے کے لئے استعمال ہوسکتی ہے۔ یہ منظرنامہ بھارتی فوج کے لئے ایک ڈراؤنے خواب کی طرح ہے۔اور یہ ان اندرونی علیحدگی پسند تحریکوں کے علاوہ ہے جو بھارت کے ٹکڑے کرنا چاہتی ہیں ، یا چین کے ساتھ سرحدی تنازعات جو پہلے ہی بھارتی افواج پر اس کی صلاحیت سے زیادہ بوجھ ڈال رہے ہیں ۔ مزید یہ کہ اگر امریکہ عراق ، شام اور افغانستان میں ان شورشوں پر قابو نہیں پا سکا جو گھروں سے اٹھی تھیں تو بھارت کشمیر میں کس طرح اِس کو روک سکے گا؟
تاہم ، متعدد مواقع پر ، پاکستانی فوجی قیادت یہ پیغام دے چکی ہے کہ موجودہ معاشی صورتحال اور آئی ایم ایف پر انحصار کی وجہ سے کشمیر میں جنگ ممکن نہیں۔ تاہم اس بیان کی منافقت عیاں ہے۔ گذشتہ کم و بیش 20 سالوں میں آئی ایم ایف نے پاکستان کو جب بھی قرضے دیئے ، دلچسپ طور پر مسلمانوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کا آغاز بھی اسی وقت کیا گیا۔ 2001 میں پرویز مشرف نے آئی ایم ایف سے تقریبا 1 ارب ڈالر کی رقم حاصل کی ، اسی دور میں پاکستان نے افغانستان میں امریکی کارروائیوں کے لئے غیر متزلزل مدد کی یقین دہانی کرائی ۔ 2008 میں مشرف کے جانے کے بعد ، پی پی پی کی حکومت نے آپریشن زلزلہ (2008) ، آپریشن شیر دل ، آپریشن راہِ حق ، اور راہِ راست (2007–2009) کے ساتھ 7.2 ارب ڈالر حاصل کیے۔ 2013 میں مسلم لیگ (ن) کی آنے والی حکومت نے آپریشن ضرب ِعضب کے ساتھ 4 4.4 ارب ڈالر حاصل کیے۔ اور آخر کار 2018 میں پی ٹی آئی کی آنے والی حکومت نے آپریشن ردّالفساد کے ساتھ 6 ارب ڈالر قرض لیا۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ ان کارروائیوں کے دوران پی پی پی ، مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی مختلف حکومتیں رہیں، لیکن مسلمانوں کے خلاف فوجی کاروائیاں مستقل طور پر قائم رہیں ، جو معیشت پر ان کارروائیوں کی ترجیح کی نشاندہی کرتی ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں منصوبہ بندی کرنے ، ان منصوبوں پر عمل درآمد کرنے ، نئی صف بندی کرکے دوبارا مہم جوئی کرنے کی اہلیت اور خواہش کی کوئی حد نہیں ہے۔ لیکن کیوں وہی صلاحیت اور خواہش ہندوستانی مشرکوں سے لڑنے کے لئے ظاہر نہیں ہوتی؟ کسی بھی پاکستانی کو کوئی شک نہیں کہ فوج مخلص ہے اور اسے ہندوؤں اور کشمیر پر بھارت کے قبضے سے نفرت ہے ۔ منگلا کور کے سابق کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل طارق خان (ر) ، اور فوجی انٹیلی جنس کے سابق چیف میجر جنرل ندیم اعجاز (ر) کی تحریروں میں گلوان وادی میں چین - بھارت کے ٹکراؤپر تفصیل سے بات کی گئی ہے۔ اِن مضامین میں بھارت کے ساتھ تنازعہ میں چین کی کامیابی پر خوشی کا ایک خاص احساس پایا جاتاہے ، جو بنیادی طور پر ہندوستان سے گہری نفرت کی وجہ سےہے۔ پھر بھی یہ بات عجیب ہے کہ یہ سنیئر افسران ملحدوں کے ذریعہ مشرکین کی شکست پر خوش ہیں ، جبکہ مسلم دنیا کی سب سے بڑی ، پیشہ ور ، ایٹمی اسلحہ سے لیس مسلمان فوج کے اللہ سبحانہ وتعالی پر ایمان رکھنے والے افسران کشمیر پر بھارتی قبضے کے خلاف ہاتھ پر ہاتھ رکھے خاموشی سےدیکھ رہے ہیں۔
یہاں کچھ بنیادی سوالات جنم لیتےہیں ۔ کیا فوجی قیادت کشمیر کے لیے جنگ کرنے کی اپنی صلاحیت پر یقین رکھتی ہے جیسا کہ وہ قبائلی علاقوں میں جنگ پر یقین رکھتی ہے؟ کیا فوجی قیادت کشمیر کی خاطر لڑنے اور جنگ کرنے کے لئے پاکستانی فوج کی قابلیت پراسی طرح یقین رکھتی ہےجیسا کہ وہ قبائلی علاقوں میں لڑتی اورجنگ کرتی ہے ؟ شاید ہاں۔
تاہم اگر سوال یہ ہے کہ کیا فوجی قیادت اپنے آپ کو اس قابل سمجھتی ہےکہ وہ کشمیر کی جنگ کے سیاسی نتیجہ کو سنبھال سکے گی اور سیاسی صورتِ حال کو قابو میں رکھ سکے گی ، جیسا کہ وہ قبائلی علاقوں میں ہونے والی جنگ کے سیاسی نتیجہ کو سنبھالتی رہی ہے تو اس کا جواب یقینا "نہیں "ہے۔ مسلمانوں پر مسلط کردہ جنگ کے نتیجے میں بننے والے بین الاقوامی سیاسی دباؤکو سنبھالنا آسان ہے ، کیوں کہ اگر مسلمان مارے جاتے ہیں توپوری دنیا میں کفار زیادہ سے زیادہ اس پر خوش ہوتے ہیں اور کم سے کم وہ اس بات کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں کرتے۔ اور جب مقامی مسلمان اس اقدام پر فوجی قیادت کا محاسبہ کرتے ہیں ، تو ایسے مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دےدیا جاتا ہے اور وہ گمشدہ افراد کے زمرے میں شامل ہوجاتے ہیں۔ لیکن بین الاقوامی خودمختاری کی خلاف ورزی اور مسلح اقدامات سے بین الاقوامی برادری میں ردِ عمل پیدا ہوتا ہے اور اس ردِ عمل کا تناسب فریقین کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات اور سیاسی جھکاؤ کے مطابق ہوتا ہے ، جس سے نمٹنا پڑتا ہے۔ لہٰذا اگر پاکستانی فوج کشمیر میں جاتی ہے تو امریکہ کی طرف سے کارگل کی طرز پر دباؤ بہت شدید ہو گا ۔ کیا فوجی قیادت ، آنے والے امریکی دباؤ کو سنبھال سکتی ہے ، یا اس سے بھی آگے بڑھ کر افغان امن عمل کے لئے اپنی حمایت سے دستبردار ہوکر خود امریکا پر دباؤ ڈال سکتی ہے؟کیا افغانستان کے سیاسی حل پر امریکی کی پھنسی ہوئی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے پاکستان کی فوجی قیادت امریکہ کو کشمیر کے خلاف کسی بھی جنگ میں غیر جانبدار رکھنے کے لئے عالمی سطح پر جوڑ توڑ کی سیاسی سوچ رکھتی ہے؟ کیا عسکری قیادت اس طرح کی سیاسی سوچ رکھتی ہے کہ وہ چین پر اثر انداز ہو کہ چین کوبھارت کے ساتھ اپنی طویل سرحد پر بھارت کے لیے مسئلے کھڑے کرنے پر آمادہ کرے ،تا کہ کشمیر کو بھارت سے چھین لینے کو آسان بنایا جاسکے؟
مسئلہ فوجی صلاحیت کا نہیں ہے ، بلکہ ایسی سیاسی قیادت کی عدم موجودگی کا ہے جو امریکہ یا کسی بھی دوسری طاقت سے آزادانہ طور پر کھڑے ہونے کا اعتماد رکھتی ہو۔ کمزور محکوم سیاسی قیادت کے ہوتے ہوئے ہماری طاقت اور وسائل کو ہمیشہ غیر ملکی ایجنڈے کی خدمت کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اب وقت آ چْکا ہےکہ پاکستانی فوجی قیادت ایک کور کمانڈر میٹنگ کا انعقاد کرے جس میں اسلام اور خلافت کو کچلنے کی بجائےاسے اپنانا اوراس کی پاسداری کرناایجنڈے پر موجود ہوں۔ یہ اسلام کا نظام ہی تھا جس نے بدر ، اْحد اور احزاب کی لڑائی کے باوجود ، مدینہ کی نوخیز ریاست کو اِس قابل بنادیا کہ ترقی کرتے ہوئے اْس نےجزیرہ نما عرب پر غلبہ حاصل کیا اور اْس وقت کی دنیا کی دو بڑی طاقتوں کو چیلنج کر دیا۔ یہ اسلام کا وہی نظام ہے کہ جسے اگر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کے طور پرپاکستان میں قائم کیا جائے توپاکستان نہ صرف ترقی حاصل کرتے ہوئے خطے پر غلبہ حاصل کرلے گا بلکہ آج کی سپر پاور کو چیلنج کرنے کے قابل بھی ہو سکے گا۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے ارشاد فرمایا:
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ
"وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس (دین) کو (دنیا کے) تمام ادیان پر غالب کردے،اگرچہ کافر ناخوش ہی ہوں"(سور ۃالتوبۃ 9:33 )