الثلاثاء، 03 جمادى الأولى 1446| 2024/11/05
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

نوید بٹ کے بارے میں عمر عبد العزيز گواہی

 

#KnowNaveedButt

#FreeNaveedButt

 

اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر دور میں اسلام کے عظیم ترین اور سچے دین کو ایسے قابل قدر ، متقی اور مضبوط مو منین سے نوازا جنہوں نے اس دین کی سر بلندی اور انسانیت کو کفروظلمت کے اندھیروں سے نکال کر اللہ کے نور (اسلام) کی طرف لانے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیں اور اپنی صلاحیتوں ، جان اور مال کو اس عظیم مقصد کے لیے ایسے صَرف کیا کہ اس کا حق ادا کردیا ۔ نوید بٹ کا شمار بِلا مبالغہ انہیں قابلِ قدر لوگوں میں ہوتاہے۔

 

نوید بھائی سے میری پہلی ملاقات 2010 میں لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں ہوئی جہاں انہوں نے کچھ لوگوں کو اسلام کے معاشی نظام پر مبنی Presentation  دینے کے لیے مدعو کیا تھا  میں خود چونکہ پچھلےچند سالوں سے ایک فکری تبدیلی سے گزر رہا تھا اور اسلام کے بارے میں اور ریاست خلافت کس انداز سے قرآن و سنت سے اخذ شدہ شرعی احکامات کو نافذ کرتی ہے کے بارے میں جاننا چاہتا تھا تو فوراً اس دعوت کو قبول کر لیا۔ اس ملاقات سے پہلے میں نہ تو حزب التحریر کے بارے میں کچھ جانتا تھا اور نہ ہی نوید بھائی کے بارے میں۔ لیکن اسلام کے معاشی نظام پر مبنی اس زبردست نشست نے میرے لیئے اسلام کے صحیح فہم اور نفاذ سے متعلق میرے ذہن کے کئی دروازے کھول دیے فِکر کو وسعت دی اور پہلی مرتبہ مجھے احساس ہوا کہ اسلام کتنی آسانی سے امت کی موجودہ دور کی مشکلات کو حل کرکے اسے دوبارہ وہ عروج دلا سکتا ہے جسکی یہ امت ماضی میں حامل تھی۔ اگر چہ اس سے پہلے بھی میں اسلام کو سمجھنے اور اسکے نفاذ کو موجودہ دور میں کس طرح یقینی بنایا جا سکتا ہے سے متعلق کئی لوگو ں کے ساتھ اور مختلف پلیٹ فارمز پر نشستیں کر چکا تھا لیکن جس انداز سے نوید بھائی نے ان معاملات  پر گفتگو کی اور اسلام کو جامع مگر سادہ طریقے سے آج کے دور میں قابلِ عمل بنا کر پیش کیا اس سے پہلے مجھے ایسا تجربہ نہیں ہوا تھا ۔ اس نشست میں میرےعلاوہ بھی جو لوگ موجود تھے انہوں نے بھی اپنے ذہنوں میں آنے والے سوالات سامنے رکھے جن کا جواب نوید بھائی نے اسلام کی زبردست سمجھ ، بصرت اور حکمت کے ساتھ دیا اور میں دیکھ سکتا تاھ کہ کوئی بھی شخص ایسا نہ تھا کہ جو اپنے سوالات کے جوابات  سے مطمئین نہ ہوا ہو۔ اس Presentation کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ اسلام کے دوسرے نظاموں سے متعلق بھی مزید نشستوں کاحصہ بنوں اور نوید بھائی نے بھی اسلام کے اجتماعی نظام، خارجہ پالیسی ، عدالتی نظام اور سیاسی نظام پر مبنی دوسری Presentations کا جب  بھی اہتمام کیا مجھے اس میں مدعو کیا۔ جتنا زیادہ میں ان نشستوں کا حصہ رہا اُتنا زیا دہ اسلام کے بارے میں میری آگاہی بڑھتی چلی گئی اور میں ساتھ ہی ساتھ نوید بھائی کے انداز گفتگو اور دلائل کی وسعت و گہرائی کا قائل ہوتا چلا گیا اُنکے جوابات ہمیشہ شرعی دلائل کی روشنی میں حقیقت کے صحیح تجزیہ کے ساتھ ذہنوں کو مطمئن کرتے تھے ۔ حا لاتِ حاضرہ پر مکمل عبور اور ملکی و غیر ملکی سیاست کی گہری سمجھ بھی اُنکے دلائل کو مزید وزنی کر دیتے تھے وہ سوال پوچھنے والے کو کوئی خیالی یا تصوراتی جواب دینے کی بھائے امت مسلمہ کی قابلیت اور اسکے پاس موجودہ وسیع قدرتی و سائل کی روشنی میں ہمیشہ ایک قابل عمل جواب دیتے اور اسے شرعی حکم کے ساتھ جوڑتے یہی وجہ ہے کہ وہ تمام افراد جن سے نوید بھائی کا تعلق اسلام کے نظامِ خلافت کی دعوت کے حوالے سے رہا وہ سب نوید بھائی کا بے حد احترام کرتے اِن لو گوں میں تاجر ، وکلاء، علما، صحافی اور سیاسی جماعتوں کے نمائندگان سمیت کئی  دوسرے شامل تھے۔ آج بھی میں جب نوید بھائی کے اسلام کو پیش کرنے اور سمجھانے کے انداز کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے سورۃ النحل کی وہ آیت مبارکہ یاد آتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:

  اُدۡعُ اِلٰى سَبِيۡلِ رَبِّكَ بِالۡحِكۡمَةِ وَالۡمَوۡعِظَةِ الۡحَسَنَةِ‌ وَجَادِلۡهُمۡ بِالَّتِىۡ هِىَ اَحۡسَنُ‌ؕ"

"اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اور اُن سے اُس طریقے پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو۔" (النحل :125)

 

 مجھے اُن کی صُحبت میں بہت زیادہ وقت گزار نے کی سعادت تو نہ ملی مگر جب بھی اُن سے ملا قات ہوئی ہمیشہ بہت کچھ سیکھا انہوں نے بہت وضاحت سے یہ تصور سمجھایا کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام محض عبادات، عقائد اور رسومات پر مبنی ایک مذہب نہیں بلکہ ایک روحانی اور سیاسی عقیدہ ہے تو اسکا کیا مطلب ہے۔ کسطرح اسلام سیاست کو لوگوں کے امور اسلامی احکامات کے ذیعے منظم کرنے کا سب سے اہم ذریعہ گردانتا ہے تاکہ انسانیت اللہ کے احکامات کے مطابق اپنی زندگی گزار سکے نوید بھائی پیشے کے اعتبار سے ایک انجینئر ہیں اور جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ انہوں نے مالی طور پر ایک شاندار مستقبل صرف اس لیے قربان کر دیا تا کہ اللہ کے اس دین اور نظام خلافت کے قیام کی کوششوں کے لیے اپنا زیادہ تر وقت اور صلاحیتیں صرف کر سکیں تو میری نظر میں اُن کی قدرو منزلت اور بھی بڑھ گئی۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ وہ جس عظیم راہ کے مسافر ہیں وہ راہ آزمائشوں اور قربانیوں سے بھری پڑی ہے مگر وہ ہر مضبوط مو من کیطرح اِن آزمائشوں کو اللہ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ حزب التحریر کے ترجمان ہونے کی حیثیت سے اُنہیں حکمرانوں اور استعماری ڈکٹیشن پر چلنے والی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے بہت عرصہ سے شدید خطرات لا حق تھے مگر اِس چیز نے اُنہیں کبھی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے سے نہ روکا اور اسکے باوجود وہ حکمرانوں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا شرعی فریضہ استقامت کے ساتھ ادا کرتے رہے۔ مجھے 12 مئی 2012 کا وہ دِن یاد ہے جب مجھے یہ افسوس ناک خبر ملی کہ اُنہیں اُن کے گھر کے باہر سے اُن کے بچوں کی موجودگی میں زبردستی اغواء کرلیاگیا اور اُن کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ پُر امن انداز سے قرآن و سنت پر مبنی نظامِ خلافت کے قیام کا مطالبہ کرتے تھے اور اِس استعماری نظام اور حکمرانوں کے خلاف کلمہ حق بلند کرتے تھے۔ میں آج بھی یہ سوچتا ہو ں کہ وہ لوگ یوم ِ آخرت کیسے اللہ اور اُسکے رسولؐ کا سامنا کریں گے جنہوں نے انہیں اغوا کیا یا اِس کے احکامات دیے یاجنہوں نے 8 سال بعد بھی انہیں زبردستی اپنی قید میں اور ان کے صابر اور انتہائی قابل احترام خاندان سے دور رکھا ہوا ہے کیا انہوں نے قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں پڑھا:

اِنَّ الَّذِینَ فَتَنُوالمُؤمِنِینَ وَالمُؤمِنَاتِ ثُّمَ لَم یَتُوبُوافَلَھُم عَذَابُ جَھَنَّمَ وَلَھُم عَذَابُ الحَرِیق

"بے شک جن لوگوں نے مومن مردوں اور عورتوں کو تکلیفیں دیں اور تو بہ نہ کی پس اُنکے لیے دوزخ کا عذاب ہے اور جلنے کا عذاب بھی ہے۔" (البروج:10)

 

لیکن یہ لوگ شایدیہ بات نہیں جانتے کہ جس نظام خلافت کو روکنے کے لیے یہ کفار کے ایجنٹس کا کردار ادا کر رہے ہیں اُس نظام کی واپسی کا وعدہ اللہ تعالیٰ اپنے قرآن کریم میں کرتے ہیں اور رسول اللہؐ اِسکی بشارتیں اپنی صحیح احادیث میں دیتے ہیں تو یہ ایجنٹس اُس کام کو کیسے روک سکتے ہیں کہ جو اللہ تبارک و تعالیٰ کیطرف سے ہو کر رہے گا اور یقیناً اللہ اپنے نور کو مکمل کر کے رہے گا جہاں تک نوید بھائی کی بات ہے تو یقیناً وہ اللہ کے مقرب لو گوں میں شمار ہوتے ہیں اور ایسے ہی مقرب لوگوں کے بارے میں رسول اللہؐ کا ارشاد ہے:

الْأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الصَّالِحُونَ ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ مِنْ النَّاسِ يُبْتَلَى الرَّجُلُ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ فَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ صَلَابَةٌ زِيدَ فِي بَلَائِهِ وَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ رِقَّةٌ خُفِّفَ عَنْهُ وَمَا يَزَالُ الْبَلَاءُ بِالْعَبْدِ حَتَّى يَمْشِيَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ لَيْسَ عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ )

"سب سے سخت مصیبتیں( انبیاء پر آتی ہیں پھر جو اُن کے بعد افضل ہیں پھر جو اُن کے بعد افضل ہیں۔ آدمی پر اُسکی دینداری کے مطابق آزمائش آتی ہے پس ایک بندے پر آزمائشیں آتی رہتی ہیں یہاں تک کہ اُسے ایسا کرکے چھوڑتی ہیں کہ وہ زمین پر چل پھر رہا ہوتا ہے اور اُسکے ذمہ کوئی گنا ہ باقی نہیں رہتا۔" (احمد)

 

یہ کہنا با لکل بجا ہے کہ پاکستان میں نظام خلافت کے قیام اور اسکی دعوت کے پودے کو نوید بھائی جیسے عظیم لوگوں نے اپنی اَن تھک محنت اور قربانیوں سے سینچا ہے اور اب یہ پودا الحمداللہ ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ میں آخر میں اللہ رب العزت سے یہ دعا کرتا ہو ں کہ نوید بھائی کو ظالموں کے چنگل سے رہائی عطافرمائیں اور اُن کی اور اُن کے اہلِ خانہ کی آنکھوں کو ٹھنڈک عطا فرمائیں اور جلد از جلد ۔

Last modified onبدھ, 23 دسمبر 2020 21:35

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک