بسم الله الرحمن الرحيم
نبوت، جہاد، خلافت اور نُصرہ
برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کی دو صدیوں تک کفار کے قبضے
کے خلاف مزاحمت(1757-1947)
تحریر: مصعب عمیر، پاکستان
قابض امریکہ کی طرح، ماضی میں برطانوی کفار برصغیریر پاک وہند پر دو صدیوں تک قابض رہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو زیر تسلط رکھنے کے لیے تین اہم تصورات کو نشانہ بنایا۔ پہلا نبوت، جو مسلمانوں کی روحانی طاقت کا باعث ہے، دوسرا جہادجو مسلمانوں کی مادی قوت کا باعث ہے اور تیسرا خلافت کا تصورجومسلمانوں کی وحدت اور سیاسی قوت کا باعث تھی کہ جس نے صدیوں مسلمانوں کو ناقابلِ شکست بنائے رکھاتھا۔ ان تصورات کے ساتھ ساتھ وہ چوتھا تصورکہ جسے مسلمانوں نے اپنے دلوں میں بسا لیناہے وہ نُصرہ کا تصور ہے کیونکہ اسی کے ذریعے آج وہ عملی طور پر نظام کی تبدیلی حاصل کر سکتے ہیں۔
نبوت:
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے،
وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيۡرًا وَّنَذِيۡرًا وَّلٰـكِنَّ اَكۡثَرَ النَّاسِ لَا يَعۡلَمُوۡنَ
''اور (اے محمد) ہم نے تم کو تمام لوگوں کے لیے خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے''(سبا،34:28)
وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰكَ اِلَّا رَحۡمَةً لِّـلۡعٰلَمِيۡنَ
''اور ہم نے آپ(ﷺ) کو سارے جہان اور ہر دورکے لیے رحمت بناکربھیجا ہے ''( الانبیاء، 21:107)
ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم خاتم النّبین اور آخری پیغمبراور رسول محمدﷺ کی امت میں سے ہیں۔ وہ معززہستی کہ جن کو یہ حکم تھا کہ اس دینِ اسلام کو تمام ادیان پر غالب کریں چاہے یہ مشرکین کو برا ہی لگے۔ وہ محبوب ذات ﷺ، جن کو یہ حکم تھا کہ اسلام کی حکمرانی کو قائم کریں اور جہاد کے ذریعے اسے پھیلائیں۔ وہ فاتح ﷺجنہوں نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا کہ آپ ﷺکے بعد ضرور خلافت ہونی چاہیے جو اسلام کے مطابق حکمرانی کرے ۔ وہ نبیٔ مبشرﷺجنہوں نے مسلمانوں کو موروثی حکومت اور ظلم واستحصال کی حکمرانی کے بعد خلافت کے لوٹنے کی خوشخبری دی، جو کہ پہلی خلافت کی طرح ہوگی اور نبوت ﷺکے نقشِ قدم پر قائم ہوگی۔
نبوت، جہاد، اور خلافت کے تصورات پوری امت میں اور ہر دور میں مسلمانوں کے اذہان اور دلوں میں موجود رہے جو انہوں نے اپنی ایمان والی ماؤں کی گود سے ہی سیکھے تھے۔ ان تصورات کی بناء پر برصغیر کے مسلما ن بھی دوسرے مسلمانوں سے پیچھے نہیں رہے، پس انہوں نے قابض برطانیہ کا سامنا کیا جس نے مسلمانوں کی حکمرانی کو ختم کیا تھا اورپھراسلامی سرزمین کو دو ریاستوں یعنی ہندوستان اور پاکستان میں تقسیم کرکے اس سرزمین کا بڑا حصہ ہندوؤں کے حوالے کر دیا اورآج وہ امریکہ کے مدِمقابل ہیں جو اس خطے میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کررہا ہے۔
جہاد:
برصغیر پر مسلمانوں کی صدیوں پر محیط حکمرانی کو پہلا بڑاچیلنج، غدّار میر جعفر کی سازش کی وجہ سے، 23جون1757کوبرٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجوں کے ساتھ جنگ ِپلاسی کی صورت میں درپیش ہوا۔ یہ کمپنی برطانوی سامراج کی طرف سے برصغیر پر قبضہ کرنے کا ایک منصوبہ تھا جو کہ 1600عیسوی میں قائم کی گئی تھی۔ اسے مسلمانوں کی حکمرانی کو چیلنج کرنے کے لیے 150سال لگے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے آج کے استعماری امریکہ جیسے اسالیب کو ہی استعمال کیا۔ 1693ءکے آغاز میں حکمرانی میں موجود لوگوں کو تحائف کی صورت میں سیاسی رشوت دینے کا خرچہ90000پاؤنڈز تک پہنچ چکا تھا جیسا کہ آج پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت کی وفاداریاں خریدنے کے لیے امریکہ انہیں نام نہاد امداد اور فوجی ٹھیکوںمیں اپنا حصہ بٹورنے کی اجازت دیتا ہے۔ برطانوی سامراج یہ کہہ کر اپنی افواج اس خطے میں لے کر آیا کہ وہ اپنے مفادات کو محفوظ کرنا چاہتا ہے جبکہ وہ اپنے قبضے کو مضبوط بنانا چاہتا تھا، جیسا کہ آج امریکہ نے پاکستان میں اپنے فوجی اور جاسوسی کے جال کو قائم کیا ہے۔
مسلمانوں نے برطانیہ کے خلاف اپنی مزاحمت جاری رکھی جن میں سب سے مضبوط مزاحمت میسور کے حکمران ٹیپوسلطان کی طرف سے تھی۔ ٹیپوسلطان نے اپنے تقویٰ اور مہارت کے ذریعے کفار کے دلوں میں خوف پیدا کردیا جیسا کہ اُس نے بلیڈ لگے میزائل استعمال کئے جس نے جنگ کے دوران دشمن کی صفوں کو کا ٹ ڈالاتھا۔ اس نے سب پہلے 16سال کی عمر میں 1767عیسوی میں دشمن کا مقابلہ کیا پھر 1775-1779،1779-1784اور 1789-1792اور 1798-1799تک دشمن کے خلاف لڑتا رہا اور آخری مقابلے میں اُس نے شہادت پائی۔ اس کی شہادت کے بعد اس کی بہادری نے مسلمانوں کواور اس کے بیٹوں کو متحرک کیا جنہوں نے 1806میں ویلور بغاوت کا آغاز کیاجس کو بڑے ظالمانہ انداز میں کچل دیا گیا اور باغی رہنماؤں کو توپوں کے منہ سے باندھ کر اڑا دیا گیا۔
تاہم برطانیہ برصغیر پر نہ تو مستقل طور پر اپنا قبضہ جماسکا،نہ اسے اسٹریٹیجک لحاظ سے اہم افغانستان کی سرزمین تک پھیلا سکا۔1839-1842 کے دوران برطانیہ کی افواج کو پشتون مسلمانوں کے ہاتھوں بدترین شکستوں کا سامنا کرناپڑا جس کی وجہ سے افغانستان سے برطانوی فوجوں کا انخلاء ہوا۔ مسلمانوں کی اس فتح نے برطانوی قوت اور طاقت کی ساکھ کو نقصان پہنچایا کیونکہ بہترین ٹیکنالوجی اور اسلحے کے باوجود برطانوی فوج مسلمانوں کے عظیم ہتھیار، شہادت کی خواہش ،پر قابو نہ پاسکی۔
اِس فتح سے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور یہ بات پھیل گئی کہ کمپنی کی حکمرانی 1857میں سوسال بعد ختم ہوسکتی ہے۔ مسلم عوام حرکت میں آنا شروع ہوگئے۔ مزاحمت کی علامت کے طور پر چپاتی اور گلِ نیلوفر کے پھول برصغیر کے زیادہ تر حصوں میں ایک مشہور جملے کے ساتھ تقسیم ہونا شروع ہوگئے " سب لال ہوگیا"۔ اس ابھرتے ہوئے جذبات کے ماحول میں برطانوی فوج میں موجود مسلمانوں نے سور کی چربی سے بنے کارتوس، جن کوچلانے کے لیے پہلے دانت سے کاٹنا پڑتا تھا، کے استعمال پربغاوت کردی ۔ یہ سپاہی مغل مسلم حکمرا ن بہادر شاہ ظفرسے 11مئی1857 کوملے اور کہا کہ" ہم اپنا ایمان اور دین بچانے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں"۔ سپاہی بعد میں مرکزی چاندنی چوک میں کھڑے ہوگئے اوروہاں اکٹھے لوگوں سے پوچھا کہ" بھائیو کیا تم ایمان والوں کے ساتھ ہو؟" مسلمانوں نے کفار اور عیسائیوں کے خلاف جہاد کا نعرہ بلند کیا۔ اس جہاد کا مرکز اترپردیش، بہار، شمالی مدھیہ پردیش اور دہلی تھا،یہ وہ علاقے ہیں جہاں سے 1947میں برصغیر کی تقسیم کے وقت بہت سے مسلمانوں نے پاکستان کی طرف ہجرت کی۔ اگرچہ اِس بغاوت پر 20جون 1858ءمیں قابوپالیا گیا تھا لیکن یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکمرانی کے خاتمے کا باعث بنی جس کے بعد اس خطے پر برطانوی شاہی راج نے براہِ راست حکمرانی شروع کر دی جو کہ "نئے برطانوی راج " کے نام سے جاناجانے لگا۔
خلافت:
اِس کے بعد برطانیہ نے اپنے قبضے کو قائم رکھنے کے لیے کچھ اور ذرائع کو استعمال کیا۔ 1857کے جہاد نے برطانیہ کو برصغیر میں اپنے انتظامی اور معاشی نظام اور فوج کو دوبارہ سے منظم کرنے اور مسلم سپاہیوں کو منتشر کرنے پر مجبور کیا۔ وہ اپنے ذرائع کے انتخاب میں زیادہ شدت اور زہریلے انداز سے کام کرنے لگ گئے۔
بالکل اِسی طرح جیسا آج امریکہ مسلم علاقوں میں تعلیمی نصاب کو تباہ کرنے میں مصروف ہے اسی طرح برطانیہ نے لوگوں کے دلوں اور اذہان سے نبوت، جہاد، اورخلافت کے تصورات کو ختم کرنے کے لیے ایک جھوٹے مذہب 'قادیانیت' کو تخلیق کیا۔ 23مارچ1889ءکو مرزا غلام احمد قادیان(اس پر اللہ کی لعنت ہو)نے یہ جھوٹا مذہب متعارف کرایا۔ اُس نے ختم ِنبوت کا انکار کرتے ہوئے نبوت کا دعوی کیا اور اس بات پر اصرار کرتے ہوئے کہ اس دور میں کوئی قتال نہیں، جہاد کا انکار کردیا اورخلافت کے ساتھ وفاداری کو قابض برطانیہ کے ساتھ وفاداری سے بدل دیا۔ برطانیہ نے اس بات کا اہتمام کیا کہ اس تحریک کو ان علاقوں میں بڑھایا جائے جہاں اسے 1857میں سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
1901کی برطانوی سرکاری رپورٹ جو کہ انڈیا کی مردم شماری کے حوالے سے تھی کے صفحہ 373پر بیان ہے ''یہ دلچسپ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ اِس وقت شمالی ہندوستان میں ایک مذہبی استاد غلام احمد (اللہ کی لعنت ہواُس پر)کے نام سے ہے ۔۔۔وہ تلوارکے ذریعے جہاد کا انکار کرتا ہے اور مذہب کے پھیلاؤ کے مقصد کے لیے کی جانے والی جنگوں کو بالکل غیر قانونی قرار دیتا ہے'' اگر چہ کچھ مسلمان ضرور مرتد ہوگئے لیکن یہ تحریک امت میں اس طرح زور نہیں پکڑسکی جیسا کہ کفار چاہتے تھے۔
مسلمانوں نے 20ویں صدی کی دوسری دہائی میں پھر سے برطانوی راج کے خلاف ایک تحریک کے ذریعے جہادکی تیاریاں شروع کیں۔ اس تحریک نے خلافت کے ساتھ رابطوں کی ضرورت کو بڑھادیاجو فرانس اوربرطانیہ کے حملوں کی زد میں ہونے کے باوجود مسلمانوں کی قوت کا مرکز تھی۔ اس جہاد کی تیاریوں میں علماء مولانا محمودالحسن، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا شاہ رحیم رائے پوری، مولانا عبیداللہ سندھی، کھڈا کے مولانا محمد صادق اور مولانا محمد میاں منصور انصاری پیش پیش رہے۔ یہ تحریک 'ریشمی رومال تحریک' کے نام سے جانی جاتی ہے کیونکہ شیخ الہند اور ان کے ساتھیوں کے بیچ منصوبہ بندی کے خطوط کا تبادلہ ہوا جن میں فوج میں بھرتی کے لیے منصوبے کی تفصیل ریشمی رومال پر درج تھی۔ اس فوج کو منظم کرنے کے لیے مولانا عبیداللہ سندھی افغانستان کی طرف ،مولانا انصاری سرحدی علاقوں کے قبائل کی طرف اور مولانا حسین احمد مدنی عثمانی خلافت کی مدد حاصل کرنے کے لیے 1915میں حجاز روانہ ہوئے۔ لیکن یہ منصوبہ بے نقاب ہوگیا اوراس تحریک کے رہنماؤں کو مالٹا میں قید کردیا گیا۔
مسلمان کی توجہ کا مرکز خلافت ہی تھی اور وہ پہلی جنگ ِعظیم کے بعد خلافت کے خاتمے کے خطرے کے حوالے سے غصے میں تھے ۔ چنانچہ مسلمانوں نے مولاناشوکت علی جوہر اور اُن کے بھائی مولانا محمد علی جوہر کی قیادت میں لکھنؤ ،جوآج کا اترپردیش ہے، میں تحریک خلافت کا آغاز کیا تاکہ خلافت کو بچایا جاسکے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے خلافت کو بچانے کے لیے مالی مدد کے لیے رقوم بھجوائیں جوکہ اتنی زیادہ تھیں کہ اُن رقوم کو رکھنے کے لیے ایک بینک قائم کرنا پڑا۔ 1924میں خلافت کے خاتمے پر برصغیر کے مسلمان بہت مایوس ہوئے۔ مخلص شاعر اور مفکر علامہ محمد اقبال نے اپنی تحریروں میں خلافت کے خاتمے پر مصطفی ٰکمال کی مذمت کی اور مسلمانوں کی وحدت کی اہمیت پر زور دیا ۔
یہ مسلمانوں کی وحدت کی خواہش ہی تھی جس نے مسلمانوں کو اپنے لیے ایک مرکزی حکومت کی خواہش کی طرف مائل کیا جو کہ تحریک پاکستان کی شکل اختیار کر گئی۔ اس تحریک میں 1947میں برصغیر کی تقسیم کے بعد لاکھوں مسلمان ہجرت کرتے ہوئے بے گھر ہوئے جبکہ ہزاروں شہید کر دیے گئے،یہ مسلمان اس امید پر ہجرت کر رہے تھے کہ انہیں پاکستان میں اسلامی حکمرانی کے تحت رہنا نصیب ہو گا۔ آج بھی کراچی میں ایک خلافت چوک موجو دہے۔ یہ نام ان ہجرت کرنے والوں نے رکھا تھا جو اسلامی قوانین کے تحت رہنے کی خواہش لے کریہاں آئے تھے۔
اگرچہ مسلمانوں نے کفار کے تسلط سے تو 1947میں آزادی حاصل کرلی مگر کفریہ حکمرانی موجود رہی۔ کفر کی حکمرانی کا یہ تسلسل غدار حکمرانوں کی وجہ ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ مسلمانوں کی جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی ۔ آج صرف خلافت کا قیام ہی پاکستان ، بنگلہ دیش اور کشمیر بلکہ پورے برصغیر کو تحفظ اور امن فراہم کر سکتا ہے ۔ محمد بن قاسم کے دور سے لے کر ایک ہزار سال تک اسلام کی حکمرانی برصغیر کے لیے خوشحالی اور امن لے کر آئی ۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے برصغیر کو معاشی لحاظ سے پوری دنیا کے لیے قابلِ رشک بنا دیا جس نے برطانوی راج کو اپنی معاشی طور پر ناکام ہوتی ہوئی سلطنت کو مضبوط کرنے کے لیے اس پرحملہ کرنے پر مجبور کیا اورجس نے برصغیر پر قبضہ کر کے اسے اپنے ماندپڑتے اور مدھم ہوتے ہوئے تاج کا ہیرا بنا لیا۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے صدیوں تک اس خطے کے بے شمار اور مختلف لوگوں کے درمیان بے مثال اتفاق اورشہریت قائم کی۔ یہ حقیقت کہ مسلمانوں کی ایک ہزار سال کی حکمرانی کے باوجوداس خطے میں ہندو اکثریت میں ہیں اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام کی حکمرانی کفر کے ظالمانہ قوانین کے بالکل برعکس ہے جیسا کہ اسپین پر عیسائیوں کی وحشیانہ حکومت یا ایشیاء کے ظالم ہلاکو کی حکومت جنہوں نے مخالف مذہب کے لوگوں کو ذبح کر کے ان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی۔
خلافت اور نُصرہ:
برصغیر پاک وہند پر حکمرانی کے لیے مسلمان ہی حقدار ہیں جو یہ قابلیت رکھتے ہیں کہ اس مشکل میں پھنسے ہوئے، کمزور اور ناپا ئیدار حالات میں گھرے خطے کی حالت کو بدلنے کے لیے تبدیلی کا آغاز کرسکیں۔ آج مسلمانوں کا سامنا برطانوی فوج سے نہیں بلکہ آج کی حالت خوش کن ہے کہ ان کے بھائی ،بیٹے ، باپ اور چچا دنیا کی سب بڑی مسلم فوج کا حصہ ہیں جو کہ امریکہ کی فوج سے بھی بڑی فوج ہے اور یقیناً اس سے زیادہ بہادر ہے جو کہ اللہ کے راستے میں اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ مزید یہ کہ پاکستان کو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے زرخیززرعی زمین، دریاؤں، توانائی کے ذخائر اور معدنیات سمیت بہت سے وسائل سے نوازا ہے جو کہ دنیا کی کئی بڑی طاقتوں سے زیادہ ہیں۔ اورپاکستان میں زندہ دل اور توانا لوگ رہتے ہیں جو ہر آزمائش اور مصیبت میں مضبوطی اور کامیابی کے لیے اللہ کی طرف لوٹتے ہیں۔ آج یہ پاکستان کی فوج میں موجود مخلص افسران پر منحصر ہے کہ وہ سیاسی اور فوجی قیادت میں موجود غداروں کو اُکھاڑ پھینکیں اور خلافت کو قائم کرنے کے لیے حزب التحریر کو نُصرہ دیں جو کہ اس امت کے وسائل کو اکٹھا کرکے پورے برصغیر کو اسلام کے سائے اور عدل کے تحت لائے گی۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((عصابتان من امتی احرزھما اللہ من النار عصابة تغزو الھند وعصابة تکون مع عیسی ابن مریم علیھما لسلام))
''میری امت کے دو گروہوں کو اللہ نے جہنم کی آگ سے بچا لیا ہے ایک وہ گروہ جو ہندوستان کو فتح کرے گااور دوسرا گروہ جو عیسیٰ ابن مریم کے ساتھ ہوگا''(احمد ، النسائی)
اور ابوہریرہؓ سے روایت ہے:
((وعدنا رسول اللہ ۖ غزوة الھند فان ادرکتھا انفق فیھانفسی ومالی فان اقتل کنت من افضل الشھداء وان ارجع فانا ابو ھریرہ المحرر))
''رسول اللہ ﷺ نے ہم سے ہند کی فتح کا وعدہ فرمایا اگر میں اس وقت موجود ہواتو میں اپنی جان ومال اس کے لیے خرچ کروں گا اور اگر میں مارا گیا تو میں بہترین شہداء میں سے ہوؤں گا اور اگر میں واپس آگیاتو میں گناہوں سے پاک ابوہریرہ ہوؤں گا'' (احمد، النسائی، حاکم)
٭٭٭