بسم الله الرحمن الرحيم
ہفت روزہ بین الاقوامی خبروں پر تبصرے
13 فروری 2021
چین کے ساتھ ٹیلیفون کال کے دو گھنٹے بعد، بائیڈن نے کہا ،'چین ہمارا کھانا کھالے گا'
اس ہفتےجو بائیڈن نےامریکی صدر بننے کے بعد چین کے صدر زی جنپنگ کے ساتھ اپنی پہلی ٹیلیفون کال کے دوران طویل گفتگو کی جو دو گھنٹےتک جاری رہی جو کہ ایک امریکی صدرکے لیے خاصا طویل وقت ہوتا ہے۔بائیڈن یہ ذکر کر چکا ہے کہ وہ چینی صدر کواپنے نائب صدارت کے وقت سے جانتا ہےمگر تب سے اب تک بہت کچھ واقع ہو چکا ہے، چین پچھلی دہائی کے دوران امریکہ کے لیے سب سے اہم چیلنج رہ چکا ہے۔
ماؤ زی تنگ کے آخری سالوں سے چین نے دنیا کے ساتھ رابطہ بحال کرنا شروع کیامگر اس کو صحیح معنوں میں اس کے جانشین ڈینگ ذیاؤپنگ نے استوار کیا۔ امریکہ نے چین کے لیے ایک مستقل پالیسی اختیار کی ہوئی تھی بالکل ویسی ہی جیسی اُس نے جنگِ عظیم دوئم کے بعد اپنے جرمن اور جاپانی حریفوں کے حوالے سے اختیار کی تھی جو کہ چین کو معاشی طور پر امریکہ کے ساتھ جوڑنے کی پالیسی تھی۔ اس پالیسی کے نتیجے میں جرمنی اور جاپان معاشی طاقتیں بن کر ابھرےمگر یہ ایک برآمدی طاقت کا ماڈل تھانہ کہ اندرونی ضروریات کو پورا کرنے والی معیشت کا ماڈل ۔چین بھی پوری دنیا کی ضروریات پورا کرنے والی فیکٹری بن گیااور وہ کچھ بنانے لگا جو دوسروں کی ضرورت نہ کہ اپنی ضرورت تھی۔ بہرحال، جرمنی اور جاپان میں اقتصادی پروگرام کے ساتھ ساتھ بطورایک قابض قوت کےامریکہ کی براہ راست فوجی موجودگی بھی تھی اور حکومت کے اوپرسیاسی اثرورسوخ بھی ساتھ تھا جبکہ چین میں سیاسی قیادت امریکی یا بیرونی اثر سے پاک تھی اور فوج بھی مضبوط تھی۔ پس یہ کچھ ہی وقت کی بات تھی کہ چین کو اس جال کا اندازہ ہو گیا جو امریکہ نےاس کے لیےبچھایا تھااور اس نے اپنی توجہ اپنی اندرونی اقتصادی ضروریات کی طرف مبذول کر دی جس میں تزویراتی(اسٹریٹیجک) صنعتیں اور فوجی پیداوار شامل تھی اور ساتھ ہی اپنی فوج کو جدید اسلحے سے مسلح کرنے کے عمل کو تیز کردیا اور جنوبی چینی سمندر (ساؤتھ چائنہ سی) اور اس سے آگے تک اپنی طاقت پھیلانی شروع کردیا ۔ چین کے اس طرز عمل سے امریکہ کی قومی سلامتی کو خطرہ پہنچانا شروع ہو گیا جو بحرِاوقیانوس اور بحرالکاہل کواپنے ذاتی سمندر خیال کرتا ہے۔
اکیسویں صدی کے آغازہی سے امریکہ کو احساس ہو گیا کہ اس کو چین کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کرنی ہوگی مگر اس دوران امریکہ افغانستان اور عراق کی آفت زدہ جنگوں میں پھنس گیا، وہ جنگیں جن کے بارے میں امریکہ کا احمقانہ خیال تھا کہ وہ یہ آسانی سے جیت جائے گا۔ اس کے بعد عرب بہار کے انقلابات واقع ہوگئےجنہوں نے امریکی خارجہ پالیسی سازوں کی ساری توانیاں خرچ کر دیں، خاص طور پر شامی انقلاب جس کے بارے میں کسنجر نے بیان کیا کہ اس میں پورے ویسٹ فیلین قومی ریاستوں کے نظام کودرہم برہم کرنے کی طاقت تھی۔ اوبامہ نے چین کی امریکی پالیسی کی تبدیلی حوالے سےاہم اقدامات اٹھائے مگریہ ٹرمپ تھا جس نےبنیاد سے امریکہ چین تعلقات کا لب ولہجہ تبدیل کردیا، دہائیوں سے جاری اقتصادی تعاون کی ،ایک سخت تجارتی جنگ شروع کرکے، دھجیاں اڑا دیں۔ مگر ٹرمپ کے دور کے آخر تک یہ بات واضح ہو گئی کہ چین کی بڑھتی طاقت کو ایک تجارتی جنگ کے ذریعے قابو نہیں کیا جاسکتا، مزیدبرآں دہائیوں سے جاری چینی پیداوار پر امریکی معیشت کے انحصار نےاسے بنیاد سے کمزور کر دیا ہے اوراسی لیے بائیڈن ایک بھرپوراندرونی سرمایہ کاری(stimulus spending) کی بات کر رہا ہے جس کے ذریعے امریکی معیشت کو مضبوط کیا جاسکے۔چین کے ساتھ ٹیلی فونک کال کے ایک دن بعد امریکی سنیٹرز سے التجا کر تے ہوئے، بائیڈن نے کہا، "اگر ہم نے جلدی سے کچھ نہ کیا تو وہ ہمارا دن کا کھانا کھا جائیں گے۔"چین کے بارے میں بتاتے ہوئے مزید کہا، "وہ مختلف شعبوں میں اربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں جن کا تعلق ترانسپورٹیشن،ماحول اور دیگر کئی امور سے ہے۔ ہمیں بس اب اٹھنا ہوگا۔"
اس سب پیش رفت میں ایک باشعور مسلمان کے لیے جاننے کے لیے بہت کچھ ہے۔امریکہ ضرور ایک عالمی سپر طاقت ہے مگرسرمایہ دارانہ آئیڈیالوجی کی وجہ سےیہ گہری طرح متاثر ہو چکا ہے جسے اس نے اور باقی مغربی دنیا نے سینے سے لگایا ہوا ہے ۔ مغربی ترقی کی وجہ ایک کامیاب سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام نہیں جو کے درحقیقت ناکام ہو چکا ہے بلکہ اس کی وجہ ایک طاقتور سامراجانہ خارجہ پالیسی ہےجو کہ ذریعےمغرب باقی اقوام کے وسائل اور معیشتوں کا استحصال کر کے آگے بڑھتا ہے۔چین بھی ابھی سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام کے نفاذکے ابتدائی مراحل میں ہے، یہ ابتدائی مرحلہ اندرونی ورک فورس، جو کہ چین میں بہت بڑی ہے، کے استحصال کے نتیجے میں بھرپور معاشی ترقی لے کر آتا ہے ۔مگر چین اپنی سستی مزدوری کی مقامی سپلائی استعمال کر چکا ہے اور اب اُس نے خطے میں دوسروں کاا ستحصال شروع کر دیا ہے۔یہ سب اسلام سے بالکل ہٹ کر ہے۔ اسلام ایک توانا اندرونی معیشت کھڑی کرتا ہےجو کہ انصاف اور لوگوں کے مابین صحتمند معاشی تعلقات کی بدولت وجود میں آتی ہے اور اس طرح معاشرے میں دولت کی منصفانہ تقسیم جاری رہتی ہے۔مزیدبرآں، معاشی تعلقات مضبوط معاشرتی تعلقات ،جو ایک خاندان سے نکلتے ہیں، پر قائم ہوتے ہیں جو کہ کاروبار کے فروغ اور خطرہ مول لینے کے لیے ایک ٹھوس بنیاد فراہم کرتے ہیں اور اس سب کو ایک ریاست کے تحفظ کی ضمانت بھی حاصل ہوتی ہے۔یہ اسلامی ریاستِ خلافت کی جانب سے ہزار سال سے زیادہ تک اسلام کا نفاذ ہی تھاجس نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ چین اور مغرب کو بھی امن، سکون اور ترقی فراہم کی جنہوں نےعالم اسلام کے ساتھ آمدورفت کا بھرپور فائدہ اٹھایا ،جس کی ایک مثال شاہراہ ریشم ہے جو کہ مسلم علاقوں سے گزرتی تھی۔سرمایہ داریت نے یہ سب تباہ کر دیا مگر اللہ کے اذن سے مسلمان امت اب دوبارہ کھڑی ہورہی ہےاور جلدنبوت ﷺکے نقشِ قدم پر اسلامی دولتِ خلافت قائم کرنے والی ہے جو تمام اسلامی زمینوں کو یکجا کرے گی اور اپنے قیام کے آغاز سے ہی اپنے ہجم، طاقت، آبادی، وسائل ،جغرافیائی محل و وقوع اور اسلامی آئیڈیالوجی کی بدولت بڑی طاقتوں کی صفوں میں جگہ بنا لے گی۔
مشرقِ وسطیٰ میں امریکی فوج، لیبیا، ناجائز یہودی وجود
نئے امریکی سیکریٹری دفاع للوایڈ آسٹن (Lloyd Austin) کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی فوجی موجودگی سے خوش ہیں، یہ دعویٰ (Al-Moniter) میں چھپنے والے مکالے میں ان کے پریس سیکریٹری کے حوالے سے کیا گیا۔للوایڈ آسٹن ایک ریٹائرڈ فوجی افسر ہیں جنہوں نے اوبامہ کے دور میں امریکی سینٹرل کمانڈ کی قیادت کی جو کہ عالمِ اسلام میں ہونے والے امریکی فوجی آپریشنز کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ بطور سیکریٹری دفاع ان کاانتخاب ، بائیڈن انتظامیہ کی مسلم ممالک کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کی تنظیم میں درپیش خاطر خواہ چیلنجزکی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ امریکہ کے پاس دنیا کی سب سے طاقتورفوج ہےمگر امریکہ کی طاقت مسلمان ممالک میں ڈرامائی حد تک محدود ہو جاتی ہے جس کی وجہ امریکہ کا سمندر پار ،زمین کے دوسرے کونے سے طاقت کو منتقل کرنا ہے۔ اس کے علاوہ ، ایک کافر امریکی فوجی کا درحقیقت ایک مخلص مجاہدسے کوئی مقابلہ نہیں۔اس وجہ سےامریکہ نے مسلم سر زمین میں اپنی فوج کی تعیناتی کا خیال ترک کر دیا ہےاور اب اس کے بجائےمسلمان ممالک کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرکے ایک مقامی توازن (Balance)پیدا کرنے پر انحصار کرنا شروع کر دیا ہے۔اسی اثناء میں، مسلم امت اب تک اپنی مکمل طاقت سے نا واقف ہے اور اس بات کا ادراک نہیں کر رہی کہ مسلمان حکومتوں کی کمزوری صرف اس وجہ سے ہے کہ ان کی قیادت ایجنٹ حکمرانوں کے ہاتھوں میں ہےجنہوں نے اپنے آپ کو مغرب کے ہاتھوں فروخت کر دیا ہے۔
امریکہ کی لیبیا میں کامیابیاں جاری ہیں جو کہ ترکی اور روس کو یہاں داخل کرنے کے بعد سے شروع ہوئیں۔یہ وہی دو ملک ہیں جنہوں نے خفیہ طریقے سے شامی انقلاب کے خلاف امریکی منصوبہ نافذ کرنےمیں مدد کی تھی۔ لیبیا کی نئی قومی حکومت کی ٹیم کے وزیرِاعظم عبدالحمید دبیباح ہیں جن کے ترکی کے ساتھ خاندانی تجارتی مراسم ہیں، گزشتہ ہفتے کے دن انہوں نے کہا، "ہماری ترک ریاست اور لوگوں کے ساتھ بہترین ہم آہنگی ہے۔ ترکی ہمارا حلیف، دوست اور بھائی ہے۔ اور ترکی کے پاس بڑی صلاحیتیں ہیں جو لیبیا کے لوگوں کو اپنے حقیقی اہداف حاصل کرنے میں مدد دے سکتی ہیں۔ ترکی ہمارے لیے ایک حقیقی پارٹنر ہے۔" امریکہ تقریباً ایک دہائی سے لیبیا کو برطانیہ کے کنٹرول سے باہر نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ عرب بہارایک اسلامی انقلاب کا مخلصانہ اظہار تھی مگرایک مقامی، مخلص اور قابل قیادت جو اسلام کے ساتھ مخلص ہو، کے بغیرعر ب بہارمغربی طاقتوں کے لیے ایک دوسرے کے ایجنٹوں کو اکھاڑنےاور اپنے ایجنٹ بیٹھانے کے لیے ایک اور موقع ہی ثابت ہوئی۔مسلم امت کبھی بھی کافرمغربی سامراجی قوتوں کی ریشہ دوانیوں سے چھٹکارا حاصل نہ کر سکے گی جب تک وہ اس کے ایجنٹ حکمرانوں کو اکھاڑ نہ دیں اور اپنے معاملات کی ذمہ داری خود نہ اٹھا لیں اور ایک دفعہ پھر ایک خلیفہ کو بیعت دے دیں جو مؤمنین کا مخلص نمائندہ ہو گااور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے علاوہ کسی اور سے وفاداری نہیں کرے گا۔
جو بائیڈن کی صدارت کو تین ہفتے ہو چکے ہیں مگر ابھی تک اس نےناجائزیہودی وجود کے وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہوسے ٹیلیفون کے ذریعے رابطہ نہیں کیاجبکہ اوبامہ اور ٹرمپ نے اپنی صدارت کے پہلے دوہی دنوں میں اس سے رابطہ کر لیا تھا۔مگرمسلمانوں کو ہرگز اس سے یہ دھوکہ نہیں کھانا چاہیے کہ بائیڈن صیہونی ایجنڈے کے کسی بھی طرح خلاف ہے۔ بائیڈن نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی بھی طریقے سے ٹرمپ کی طرف سے اختیار کی جانے والی ان پالیسیوں کو تبدیل نہیں کرے گا جو یہودی وجود کے فائدے کے لیے استعمال کی گئی تھیں۔ بائیڈن صرف نیتن یاہو سے اسی موقع پر اس کی شخصیت کے حوالے سے امریکی ناراضگی کا اظہار کر رہا ہے کیونکہ وہ ٹرمپ کے داماد، جیراڈ کشنرکے خاندان سے اپنے ذاتی مراسم کو استعمال کرکےناجائز وجودکے لیےاضافی فوائد حاصل کرتا تھا۔نیتن یاہو، ناجائز وجود کے اندریہودی قائدین کی بچگانہ ذہنیت کا ایک نمونہ ہےجس کو امریکہ ایک لمبے عرصے تک برداشت کرتا رہا۔ بائیڈن بطورامریکی اسٹیبلشمنٹ کے ایک پختہ رکن کے، اس غیر ملکی ناجائز وجود کوپوری طور پر سپورٹ کرنے کے لیے ہردم تیار ہے جو کہ مسلم دنیا کے قلب میں دوسری صلیبی ریاست کی نشانی ہےجبکہ پہلی صلیبی ریاست کو ہزار سال پہلے صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں مسلم افواج نے شکست دی تھی۔ مگر اس وقت اسلامی دولتِ خلافت موجودہ تھی اور فلسطین کی آزادی کی مکمل حمایت کر رہی تھی جبکہ آج مسلمان ممالک ایجنٹ حکمرانوں کے ہاتھوں میں ہیں جو مسلم سرزمین میں خارجی موجودگی کو مکمل تحفظ فراہم کر رہے ہیں چاہے فلسطین ہو یا کشمیر یا افغانستان یا کوئی اور جگہ۔اللہ کے اذن سے، مسلمان جلدان ایجنٹوں کے تخت الٹ دیں گے اور نبوتﷺ کے نقشِ قدم پر دوبارہ اسلامی دولتِ خلافت کو قائم کریں گےجو مسلمان علاقوں کو ایک قیادت تلے جمع کرے گی، تمام مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرائے گی، اسلامی طرزِ حیات کا احیاء کرے گی اور اسلام کے نور کو پوری دنیا میں پھیلائے گی۔