بسم الله الرحمن الرحيم
سینٹ اور ایوان بالا اس بات کو یقینی بناتے ہیں
کہ حکمران اشرافیہ کے مفادات کبھی متاثر نہ ہوں
خبر: 17 فروری2021، بروز بدھ، سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ اگر 3 مارچ 2021 کو سینٹ کے انتخابات کے نتائج اسمبلیوں میں موجود سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کے تناسب نہ آئے تو پورا نظام ڈھیر ہوسکتا ہے۔
تبصرہ: جب سے خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی کے اراکین کی وہ ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں وہ سینٹ انتخابات میں اپنی جماعت کے امیدوار کی جگہ کسی اور امیدوار کو ووٹ دینے کے عوض رشوت کے پیسے وصول کررہے ہیں، پاکستان میں اس بات کی اہمیت پربحث شروع ہو گئی ہے کہ انتخابات کا انعقاد غلطیوں اور بدعنوانیوں سے پاک ہونا چاہیے۔ یہ بحث اس وجہ سے بھی اس وقت بہت شدت اختیار کرگئی ہے کیونکہ 3 مارچ 2021 کو سینٹ کی خالی ہونے والی 50 فیصد نشستوں پر انتخابات ہورہے ہیں۔ ان انتخابات کے نتائج سینٹ میں اس وقت موجود سیاسی جماعتوں کی نشتوں کی تعداد کو تبدیل کرسکتا ہے اور عام خیال یہی ہے کہ نتائج حکومت کے فائدے میں رہیں گے جبکہ اپوزیشن سینٹ پر اپنا کنٹرول کھو دے گی۔ اس وقت تک اپوزیشن جماعتیں سینٹ میں حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے قوانین اور آئینی ترامیم کو منظور ہونے نہیں دیتی کیونکہ وہاں اُن کی عددی اکثریت ہے۔
قومی اسمبلی اور سینٹ انتخابات میں ایک بنیادی فرق ہے۔ قومی اسمبلی، جسے ایوان زیریں بھی کہا جاتا ہے، کی نشتوں پر عوام اپنے نمائندگان براہ راست خود چنتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں ہر صوبے کو اس کی آبادی کے تناسب سے سیٹیں دی جاتی ہیں۔ چونکہ پنجاب آبادی کے لحاط سے سب سے بڑا صوبہ ہے تو اس کی قومی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد 183 ہے جو کہ کُل نشتوں کا 50 فیصد سے کچھ زائد بنتی ہیں۔ لہٰذا اس صورتحال کی وجہ سے ہر سیاسی جماعت سب سے زیادہ توجہ صوبہ پنجاب کو دیتی ہے کیونکہ اس کی کشتوں کی تعداد باقی تینوں صوبوں کی کُل نشتوں کی تعداد سے زائد ہوتی ہیں۔ اس عدم توازن کو متوازن کرنے کے لیے سینٹ ، ایوان بالا، بنائی گئی جس میں ہر صوبے کی برابر نشستیں رکھی گئیں۔ لیکن اس عمل کے باوجود اکثر چھوٹے صوبوں کے افراد کو یہ شکایت رہتی ہے کہ پنجاب کو ہمیشہ دوسرے صوبوں سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ لہٰذا یہ متوازن کرنے کا عمل یعنی سینٹ کا قیام ناکام ثابت ہوا ہے۔
لیکن ایوان بالا بنانے کے پیچھے ایک اور مقصد بھی کارفرما ہے۔ سینٹ کے اراکین کوعوام براہ راست منتخب نہیں کرتے بلکہ انہیں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین منتخب کرتے ہیں۔ سینٹ کے پچاس فیصد اراکین کی مدت عموماً قومی و صوبائی اسمبلیوں کی مدت کے ساتھ ختم نہیں ہوتی، لہٰذا سینٹ انتخابات عموماً عام انتخابات کے ساتھ نہیں ہورہے ہوتے اور اس طرح یہ انتخابات ملک میں موجود کسی خاص سیاسی جماعت کے حق میں موجود عمومی سیاسی فضا سے متاثر بھی نہیں ہوتے۔ اس طرح حکمران اشرافیہ کے لیے حکومت کو اپنے کنٹرول میں رکھنے میں آسانی رہتی ہے جسے قومی اسمبلی میں تو اکثریت حاصل ہوتی ہے لیکن سینٹ میں اکثریت حاصل نہیں ہوتی۔ اکثر حکومتوں کو سینٹ میں اکثریت حاصل نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ اپوزیشن کے دباؤ کا شکار اور اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔
سینٹ کی تخلیق ان لوگوں کو بھی منتخب کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے جو عام انتخابات میں براہ راست لوگوں کے ووٹوں سے منتخب نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے سابق ملازمین، بینکرز، بڑے بڑے کاروباری حضرات اور صنعتکار، ریٹائرڈ فوجی افسران اور ریٹائرڈ ججز سینٹر بن جاتے ہیں۔ اس طرح سینٹ کے ذریعے ان لوگوں کو نظام کا حصہ بننے کا موقع فراہم ہوتا ہے اور پھر وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ نظام حکمران اشرافیہ کی مرضی و منشا کے مطابق ہی چلتا رہے، اس سے باہر نہ جائے۔ لہٰذا ایوان بالا، سینٹ، ایک طرح کا سیفٹی والو ہے کہ اگر کبھی عام انتخابات میں ایسے لوگ یا حکومت آجائے جو حکمران اشرافیہ کی مرضی و منشا کے مطابق نہ چلتے ہوں تو حکمران اشرافیہ اس سیفٹی والو کو استعمال کر کے اپنے مفادات کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ سینٹ کی یہ صورتحال صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے بلکہ دنیا بھر کے ایوان بالا چاہے وہ امریکی سینٹ ہو یا برطانوی ہاوس آف لارڈز یا بھارتی راجیہ سبھا، سب کی یہی صورتحال ہے۔
اگرچہ جمہوریت عوام کی حکمرانی کادعوی کرتی ہے، لیکن اس کو اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ عوام کا نام استعمال کرکےحکمران اشرافیہ کے مفادات کی نگہبانی یقینی بنائی جاتی ہے۔ پاکستان کے مسلمانوں اور دنیا بھر کے انسانوں کی نجات صرف اور صرف خلافت کے نظام سے وابستہ ہے کیونکہ یہ وہ نظام ِ حکمرانی ہے جس میں چاہے کوئی بھی حکمران بن جائے ، وہ صرف اور صرف قرآن و سنت کے مطابق ہی حکمرانی کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن کے متعلق فرمایا،
هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الۡهُدٰى وَالۡفُرۡقَانِۚ
"(قرآن) جو لوگوں کا رہنما ہے اور (جس میں) ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں"(البقرۃ، 2:185)۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے انجینئر شہزاد شیخ نے یہ مضمون لکھا۔