بسم الله الرحمن الرحيم
ہفت روزہ عالمی خبروں پر تبصرے
19 جون 2021
بائیڈن مغرب کو چین کے خلاف ابھار رہا ہے جبکہ روس کے ساتھ روابط کو دوبارہ جوڑ رہا ہے
امریکی صدر نے اس ہفتے یورپ کی جانب اپنے پہلے غیر ملکی دورے کومکمل کیاجس میں G-7 ممالک کی سمٹ ملاقات، نیٹو کی سمٹ ملاقات اور امریکہ-روس سمٹ شامل تھیں۔ ان تمام ملاقاتوں سے امریکی خارجہ پالیسی کے تسلسل کی تصدیق ہوئی جنکہ بائیڈن کی اپنے پیشرو صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مختلف لائحہ عمل اپنانے کا تاثر دینے کی کوشش کے گئی۔ بائیڈن نے چین کو مغرب کے لیے شدید خطرہ قرار دیا۔واشنگٹن پوسٹ میں بائیڈن کے نام سے چھپنے والے ایک مضمون میں، جس میں اس کے دورے کا ایجنڈہ طے کیا گیا تھا، کہا گیا ہے ، "امریکہ پر لازم ہے کہ وہ ایک طاقتور پوزیشن سے دنیا کی قیادت کرے جس میں روس اور چین کی حکومتوں کی ضرر رساں (نقصاندہ)سرگرمیوں کا مقابلہ کرنا شامل ہے"۔ بہرحال، کلیدی یورپی ممالک اس امریکی مہم کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں، جیسا کہ جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے کہا، "G-7 ممالک کا یہ دعویٰ ہے کہ بہت سے ایسے ممالک، جو پیچھے رہ گئے ہیں، کے لیے ایک مثبت ایجنڈا بنائے" اور فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا، "G-7 ایک ایسا گروپ نہیں جو چین کے خلاف ہو"۔ اسی دوران، بائیڈن کی پوٹن کے ساتھ سمٹ ملاقات واضح طور پر امریکہ کے روس کےساتھ عملی تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش تھی۔ روس ایک ایسا ملک ہے جس پر امریکہ اپنے بہت سے تنازعات میں انحصار کرتا ہے۔ امریکہ روس پر عوامی سطح پر حملہ آور ہوتا ہےجس کا مقصد مغربی ممالک کو اس سے دور کرنا ہوتا ہے جو کہ آپسی چپقلش کی وجہ سے روس سے بہتر تعلقات بنانے کے خواہاں ہوتے ہیں۔پوٹن سے ملاقات کے دوران ، بائیڈن نے دونوں ممالک کو " دو عظیم طاقتیں " قرار دے کر اس کی خوشامد کرنے کی کوشش کی جو کہ صدر اوبامہ کے مقابلہ میں ایک واضح فرق ہے جس نے روس کو محض ایک علاقائی طاقت کے طور پر پیش کیا۔
روس اور چین کی جانب یہ دونوں مؤقف ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی بنیاد کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں۔یہ ٹرمپ سے بھی پہلے کے صدورکی خارجہ پالیسیوں کا ہی تسلسل ہے۔ سب سے پہلے یہ صدر اوبامہ تھے جنہوں نے ایشیاء کے حصارPivot to Asia کے بارے میں بات کی جو کہ چین کی طرف ایک واضح اشارہ تھا۔ حتیٰ کہ اوبامہ کی جانب سے روس کی تضحیک آمیز تعریف دراصل روس کے کریمیہ پر قبضے اور یوکرائن میں مداخلت کے بعد مغربی رائے عامہ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے تھی۔ در حقیقت امریکی صدور کے پاس خارجہ پالیسی میں آز ادانہ فکر کی بہت کم گنجائش ہوتی ہے خاص طور پر اپنی میعاد کی شروعات میں۔ خارجہ پالیسی اپنی فکر اور طریقے میں آئیڈیالوجی کے مطابق چلتی ہے جبکہ ذرائع اور اسالیب زیادہ تر امریکی اسٹیبلشمنٹ طے کرتی ہے جو کہ طویل المیعاد رجحانات کے مطابق ہوتے ہیں جن میں ایک انتظامیہ سے دوسری انتظامیہ کی تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انفرادی صدور ایک دوسرے سے صرف خارجہ پالیسی کے نفاذ میں اختلاف کرتے ہیں جو ان کو دی جاتی ہے۔اسی اثناء میں، یورپی طاقتیں امریکہ کے چین کے ساتھ تنازعے میں آلہ کار نہیں بننا چاہتیں جن میں سے ہر ایک اپنےمحدود مفادات کے ساتھ منسلک ہےنہ کہ بحثیتِ مجموعی مغرب کے مفادات کے ساتھ۔
مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں پیش رفت کوباریکی سےسمجھیں، یہ مغربی طاقتوں کے درمیان گہری دراڑیں ہی ہیں جو اسلامی خلافتِ راشدہ کے ابھرنے کے لیے سیاسی خلاء مہیا کرتی ہیں جو نبوتﷺ کے نقشِ قدم پر قائم ہونے والی ہےجو مسلم سرزمینوں کو اکٹھا کرے گی، مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرائے گی، اسلامی شریعت اور طرزِ زندگی کو بحال کرے گی اور اسلام کی دعوت کو پوری دنیا کے سامنے پیش کرے گی، ایک ایسی ریاست جو اپنے وجود میں آتے ہی عظیم طاقتوں کی صفوں میں جگہ بنا لے گی جس کی وجہ اس کا بے پناہ رقبہ،آبادی، وسائل، پوزیشن اور آئیڈیالوجی ہے۔
ترکی افغانستان میں، امریکی فوجی انخلاء، لبنانی فوج
نیٹو سمٹ کی سائیڈ لائن پر بائیڈن نے ترک صدر رجب طیب اردگان سے الگ ملاقات بھی کی جس نے نئے صدر سےامریکہ کے ساتھ اپنی وفاداری کی تجدید کی۔ ملاقات سے قبل استنبول ائیر پورٹ پر برسلز کے لیے روانہ ہونے سے پہلے، صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اردگان نے کہا، "امریکہ جلد افغانستان سے نکلنے کی تیاری کر رہا ہے اور ان کے نکلتے ہی اگر کوئی قابلِ بھروسہ ملک جو کہ وہاں پر معاملات کو سنبھال سکے، وہ بلاشبہ ترکی ہی ہے"۔ امریکی قومی سلامتی کے مشیر Jake Sullivan نے ملاقات کے بعد صحافیوں کو بتایا، "رہنماؤں سے یہ واضح عہد لیا گیا ہے کہ ترکی حامد کرزئی بین الاقوامی ائیر پورٹ کو تحفظ دینے کے لیےبنیادی کردار ادا کرے گااور اب ہم اس پر کام کر رہے ہیں کہ اس کے نفاذ تک کیسے پہنچنا ہے۔یہ مسلم ممالک میں ایجنٹ حکمران طبقہ ہی ہے جو ہماری زمینوں میں مغربی مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ مغرب ہمارے علاقوں میں صرف ہمارے اپنے حکمرانوں کی حمایت اور مدد کے بل بوتے پر داخل ہونے میں کامیاب ہوا ہے جو مغرب سے اپنی وفاداری کا بھرم بھرتے ہیں۔مگر اللہ کے اذن سے، مسلم امت جلد اٹھ کھڑی ہوگی اور ان حکمرانوں کو اکھاڑ دے گی، اور ان کے بدلے میں تمام مسلمانوں کے لیے ایک عمومی قیادت کو لے کر آئے گی جس کی وفاداری صرف مسلمانوں اور اسلام کے ساتھ ہو گی۔
اس ہفتےکی وا ل سٹریٹ جرنل کی رپورٹنگ کے مطابق، امریکی پینٹاگون سعودی عرب اور مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک سے میزائل ڈیفنس سسٹم اور دیگر فوجی تنصیبات اور فوجیو ں کو نکال رہا ہے۔ ہم مغربی ممالک کو بڑی طاقت یا مضبوط فوجی حریف کے طور پردیکھتے ہیں مگراس کے ساتھ ہی ہمیں مسلم امت کے قلب میں اُن کے لیے طاقت پہنچانےکی انتہائی محدود صلاحیت کی حقیقت سے بھی واقف ہونا چاہیے خاص طور پر اُس وقت جب امریکہ چین کی جانب سے زیادہ خطر ہ محسوس کرتا ہے اور خاص کر بحر الکاہل میں چین کی دراندازی، جسے امریکہ اپنا ذاتی سمندر سمجھتا ہےاور اپنےسٹریٹیجک مفادات کا مرکز سمجھتا ہے جو کہ ٹیکنالوجی اور خلاء میں چینی مسابقت کے علاوہ ہے۔CNN نے پینٹاگون کے ترجمان کا گذشتہ ہفتے یہ بیان جاری کیا تھا ، "ان اقدامات، جن میں سے کچھ خفیہ ہی رہیں گے، کا مقصدڈیپارٹمنٹ کے کاموں اور طریقہ کار میں توجہ پیدا کرنا ہےاور ڈیپارٹمنٹ کے قائیدین کی مدد کے لیے ہے تاکہ وہ حکومت کی چین کے خطرے سے نمٹنے کی کوششوںمیں مکمل طور پرشامل ہو سکیں"۔
لبنان کا اقتصادی بحران جاری ہے، آرمی چیف Joseph Aoun نےاس ہفتے فرانس کی جانب سے منعقد کردہ عالمی طاقتوں کی آن لائن ملاقات سے خطاب کیا اور اپنے فوجیوں کے لیے چندے کی اپیل کی اور آرمی کے ٹویٹر اکاؤنٹ پر جاری ہونے والی ویڈیو میں کہا، "ایک سپاہی جس کی تنخواہ 90 ڈالر سے زیادہ نہیں وہ کیسے اپنے خاندان کا سہارا بن سکتا ہے"۔ الجزیرہ نے اسے مزید رپورٹ کیا ، "حالات بہت سنگین ہیں ، اگر ان پر قابو نہ پایا گیا تو اقتصادی اور مالیاتی بحران ریاست کے اداروں کی یقینی تباہی پر منتج ہو گا جس میں لبنان کی مسلح افواج شامل ہیں"۔مسلم امت وسائل او ر آبادی کے لحاظ سے دنیا میں امیر ترین ہے مگر اس کی دولت کو استعماری مغربی طاقتوں نے نچوڑ لیا ہےجن کے اپنے کمزور ذرائع اور ناکام ہوتی ہوئی معیشتیں ان کو مجبور کرتی ہیں کہ باقی دنیا کا استحصال کریں۔ہماری اقتصادی مشکلات کا حقیقی حل مغرب سے بھیک مانگنا نہیں بلکہ مغرب کو مسترد کرنا ہےاور اپنے بے پناہ وسائل اور آبادی کو بروکار لاتے ہوئے اپنی معیشتوں اور مالیات کو دوبارہ تعمیر کرنا ہے۔ ایک ہزار سال سے زائد تک مسلم سرزمینیں دنیا میں سب سے زیادہ خوشحال تھیں اور واقعی اپنی خوشحالی کو باقی دنیا تک بھی پہنچاتی تھیں۔ یہ اسلام کی کھلی معاشی پالیسی اور منصفانہ تجارت کی وجہ سے تھا۔اسلام نے خوشحالی کو پیدا کیا اور اسے برآمد کیا جبکہ مغرب نے غربت کو ہی پیدا کیااور اسی کو آگے پھیلایا۔