الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

مغرب کے زوال میں امریکہ آگے آگے ہے،ایک ایسا موقع جس کا مسلمانوں کو ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے

عبدالمجید بھٹی

 

گزشتہ برسوں میں مغرب کے زوال پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے مگر اس موضوع کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا ،حتیٰ کہ کچھ مواقع پر تو مشہور مغربی مفکرین کی جانب سے اس کو مسترد کیا گیا جیسا کہ رابرٹ کاگن (Robert Kagan ) کی کتاب " امریکہ کی بنائی دنیا (The Workd America Made)" [1]۔تا ہم  کورونا  وبا ءکے حالیہ بحران نے اس بحث  میں نئی جان ڈال دی ہے۔ کورونا وائرس نے نہ صرف مغربی تہذیب کے دل پر وار کر کے  مغربی  معاشروں   اور ان کے تحت چلنے والے بین الاقوامی نظام،   دونوں کی ساخت میں موجودخامیوں کو عیاں کر دیا ہے بلکہ وائرس نے مغربی بالادستی کی بنیادی روح کو ہی خطرے میں ڈال دیا۔ OBSERVER         میگزین میں لکھتے ہوئے مشہور کالم نگار سائمن ٹسڈال (Simon Tisdall)نے موجودہ  کرونا بحران  سے متعلق یہ سوال اٹھایا، " کیا  یہ ان تاریخی لمحات میں سے ایک ہے جب دنیا مستقل طور پر تبدیل ہو جائے گی،  جب  سیاسی اور معاشی طاقت کا توازن  فیصلہ کن طور پر منتقل ہو جائے گا ؟ " [2]

 

مغربی تہذیب ایک اہم اور نازک موڑ پر پہنچ چکی ہے

ٹسڈال (Tisdall)  کے اس سوال کو اٹھائے آج جب تقریباً ایک سال ہو چلا ہے ، کہ آیا  (COVID-19)        مغربی برتری کیلئے ایک نازک موڑ ہے ، فارن پالیسی میگزین نے دنیا کے  چند نامور مفکرین سے اس بارے میں ان کے خیالات کے اظہارکے لئے  انٹرویو کیا ۔ آراء کسی حد تک منقسم نظر آئیں۔  پرنسٹن کے پروفیسر جان  اکن بری ( John Ikenberry) کو یقین ہے کہ یہ وبا ء مغرب کے عدمِ استحکام کو مزید بڑھائے گی اور " جمہوری اداروں کی کمزوریوں "  اور " روشن خیال تہذیب کی غیر یقینی "  میں سرایت کر جائے گی  [3] ۔ Chatham House کے رابن (Robin Niblett) کا خیال ہے کہ   مغرب اپنی معاشی بالا دستی کھو رہا ہے۔ Niblett کے مطابق، چین کی اقتصادی ترقی  " دنیا کی سب سے بڑی معیشت " بننے کے لئے" زوروں" پر ہے اور وہ    فوراً قبول  کرتا ہے کہ  "مشرقی ایشیاء عالمی اقتصادی  ترقی کا مرکز بن گیا ہے"  [4]۔ سنگاپور کے ایشیاء ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں نیشنل یونیورسٹی کے کشور محبوبانی اپنے تجزیے میں زیادہ واضح ہیں کہ اس بحران نے طاقت کو مغرب سے مشرق کی طرف منتقل کردیا ہے۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ " اعداد (  COVID-19  سے اموات) جھوٹ نہیں بولتے۔دراصل ا   ن کے پسِ پردہ مغرب سے مشرق کی طرف،قابلیت کی منتقلی کی بہت بڑی کہانی ہے۔ ایک دور تھا جب مغربی معاشرے سائنس اور عقلی شعور کے احترام کے لئے جانے  جاتے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے حقیقت میں  اس فریب  کا پردہ  فاش کر دیا  ہے[5]

 

Harvard Kennedy Schoolکے بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر،سٹیفن والٹ(Stephen Walt) تسلیم کرتے ہیں کہCOVID-19 نے " مغرب سے مشرق  کی طرف طاقت کی منتقلی کو تیز کر دیا ہے" لیکن انہیں یہ یقین نہیں ہے کہ یہ مکمل طور پر مغربی بالادستی کو تبدیل کر دے گا[6]۔ فارن ریلیشن کونسل کے صدر، رچرڈ ہاس ( Richard Haass )اسی انداز میں دلیل دیتے ہیں کہ " وبائی مرض بنیاد سے بین الاقوامی تعلقات کو یکسر تبدیل نہیں کرے گا"   [7]۔ ہارورڈ کینیڈی سکول   (Harvard Kennedy School) کے  پروفیسر ، جوزف نائے  Joseph Nyeبھی  کچھ ایسے ہیاندازوں کی بازگشت کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عالمگیریت،جو مغرب خصوصاً امریکہ کا ہی مرتب کردہ اور اسی کے زیرِانتظام ہے ، وہ جاری رہے گا، البتہ اس کے اسلوب قدرے تبدیل ہو جائیں گے[8]۔ 

اگرچہ ان مفکرین میں سے کوئی بھی مغربی تہذیب کے انہدام کی پیش گوئی  نہیں کر رہا  ، مگر ایک کثیر اتفاق رائے موجود ہے کہ حالیہ صورتحال مغربی بالادستی کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے اور کچھ طاقت تو پہلے ہی مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہوچکی ہے۔ بہر حال ، اداروں کے مفادات کو ایک طرف رکھتے ہوئے، جس کی وجہ سے ہی یہ مفکرین اپنی رائے کے  آزادانہ اظہار کرنے میں  ہچکچاہٹ کا شکار ہیں،  تہذیبوں کے زوال کی پیش گوئی کا معاملہ مشکلات سے دوچار ہے۔ اس طرح کے چیلنجوںکو کم کرنے کے لئے ،  سب سے بہتر نقطہ آغاز   یہ ہے کہ وبائی مرض سے پہلے  کے مغربی بالادستی کے دور میں پائے جانے والے  ان بنیادی رجحانات کا جائزہ لیا جائے جن کی وجہ سے مغرب اپنا اعتماد کھورہا ہے ۔ اور مغرب کے زوال کا جائزہ لینے کے لئے  بہترین طرز یہ  ہے کہ  ان رجحانات پر مغرب کی سربراہ ریاست ،امریکہ کے ردِعمل کا جائزہ لیا جائے ۔   اسی سے ہی یہ ثابت ہو جائے گا کہ امریکہ ، اور پورا مغرب ہی ، زوال کا شکار ہے۔

 

قوموں کے زوال کو سمجھنے کے لئے  تاریخ ایک رہنمائی فراہم کرتی ہے

ایک دلچسپ  امر یہ ہے کہ چند مغربی مفکرین نے جدید مفروضات مرتب کیے ہیں جو امریکہ کے زوال کے ذریعہ مغربی بالادستی کے خاتمے کی پیش گوئی کرتے ہیں۔ پال کینیڈی Paul Kennedyنے یہ نظریہ پیش کیا کہ امریکہ کی  سمندر پار  فوجی  وابستگی سے ہونے والے اخراجات  کاخسارہ ، امریکہ کے آنے والے زوال کا اشارہ ہے [9]۔دوسرے مفکرین اپنے اندازوں کی بنیاد ، تاریخ کے خود کو دہرانے کی فطرت پر رکھتے ہیں۔ 1997 میں نوآموزتاریخ دانوں ، ولیم  سٹراس اورنیل ہوو (  William Strauss and Neil Howe ) نے اپنی کتاب  "چوتھا موڑ: ایک امریکی پیشن گوئیThe Fourth Turning: An American prophecy" میں دعوٰی کیا کہ تقریباً 2008 میں امریکہ ایک بحران کے دور میں داخل ہو گا ، جس کا عروج 2020 میں ہو گا [10]۔  یونیورسٹی آف کنیکٹیکٹ، University of Connecticutکے ایک ماہر ارتقائی بشریاتevolutionary anthropologist،پیٹر ٹرچن Peter Turchinکے مطابق دنیا ہر دو یا تین سو سال بعد ایک سیکولر چکر کے دورانیہ سے گزرتی ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب  کام کرنے والوں کی رسد ان کی طلب سے کہیں زیادہ ہو جاتی ہے ، مصنوعات سستی ہوجاتی ہیں ، اور انتہائی  امیر اور عوام کے مابین دولت کی عدم مساوات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد اشرافیہ کے مابین کشمکش ہوتی ہے ، اور غریبوں کی پریشانی کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ معاشرہ ایک تباہ کن مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے اور آخر کار تباہ ہوجاتا ہے۔ ٹرچن Peter Turchin نے 50 سال کے ایک قدرے مختصر دورانیے کا بھی تذکرہ کیا ہے،جو کہ اتنا ہی تباہ کن ہوتا ہے۔ٹرچن کے  امریکی تاریخ کے مطالعے  کے مطابق،اس نے پیشن گوئی کی کہ اگلا مختصردورانیہ 2020 میں وقوع پذیر ہو سکتا ہے   لیکن  اسی دوران اتفاق سےطویل دورانیہ بھی وقوع پذیر ہو گا جس کے باعث غیرمعمولی انتشارپیدا ہو گا [11]۔ 

 

hedge fund کے مالک،ارب پتیRay Dalioنے بھی ٹرچن ( Peter Turchin)سے ملتا جلتا ایک نظریہ تیار کیا ہے، جسے وہ طویلقرض   کا دورانیہ کہنے کو ترجیح دیتا ہے۔ڈالیو،   Dalioکا مؤقف ہے کہ یہ دورانیہ  ہر 50 سے 75 سال بعدوقوع پذیر ہوتا ہے اور اس  کی  چار نمایاں خصوصیات  ہوتی ہیں :  ایجادات میں اضافہ ،اندرونی طور پرایک  گہری تقسیم شدہ سیاسی اشرافیہ ، اقوام کے مابین بہت ہی کم تعاون اور ایک ابھرتا ہوا مدِ مقابل۔  آخری طویل   قرض   کا  دورانیہ 1945 میں اختتام پذیر ہوا جب Great Depression نے جرمنی کو برطانیہ کے ورلڈ آرڈر کو چیلنج کرنے پر اُکسایا۔برطانیہ جنگ تو جیت گیا مگر امریکہ کے مقابلے میں اپنی عالمی حیثیت کھو بیٹھا،  جس نے بریٹن ووڈ، Bretton Woods، معاہدے کی بنا پرایک نیا سیاسی اور اقتصادی انتظام تشکیل دیا۔ڈالیو،   Dalioکے مطابق  2020 ، طویل   قرض   کےدورانیے کا آخری سال ہے اور  اس میں عالمی معیشت کی ایک انقلابی  تنظیم نو پیدا ہو گی جس میں چین سرفہرست ہو گا [12,13]۔ Turchin اورDalioسے دہائیوں قبل، 1922 میں Oswald Spenglerنے جرأتمندانہ طور پر مغربی تہذیب کی موت کی پیش گوئی کی اور وہ اس پر قائم تھا کہ مغرب اپنے آخری موسم، موسمِ سرما میں داخل ہو چکا ہے۔

 

مغربی مفکرین کے، شاہی خاندانوں اور تہذیبوں کے آغاز اوراختتام کی وضاحتوں پراپنے اختیار کردہ نظریات سے صدیوں قبل ہی، ابنِ خلدون نے چودھویں صدی میں اپنے "مقدمہ" میں چہاردورانی مرحلوں (four cyclical stages) کا تذکرہ کردیا تھا جو کہ قیام، ترقی، زوال اور خاتمہ ہیں،اور انہوں نے خاندانوں اور تہذیبوں کے عروج و زوال کے پیچھے موجود قوتوں پر روشنی ڈالی۔خلدون کا خیال تھا کہ یہ چکرہر 120 سال کے بعد اپنے آپ کودہراتا ہے۔ تاریخ دان، آرنلڈ ٹونیبی، Arnold Tonybee، خلدون کے مقدمہ سے اس حد تک متأثر ہوا کہ اس نے اسے " بلاشبہ اپنی نوعیت کا سب سے عظیم کام " کہا [14]۔ مذکورہ  بالا نظریات کی ایک جامع  اورمکمل تشریح  اور ان کا اطلاق اس مضمون  کے  موضوع سے ہٹ کر ہے  ، تاہم ، کچھ عوامل ، جیسے  سیاسی بے عملی ، دولت کی عدم مساوات ، اور اٹھنے والے مدِ مقابل کا ناگزیر طور پر ریاست میں ڈھلنا،ان عوامل  کو عالمی امور سے امریکہ کی بے دخلی کے امکان کے جائزے میں استعمال کیا جائے گا۔

 

امریکہ زوال میں مغرب کی سربراہی کررہا ہے

مغرب کے زوال کااندازہ لگانے کے لئے مطالعہ کے طور پر یورپ کے مقابلے میں امریکہ کا  انتخاب  کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔

 

اول: 1945 سے امریکہ دنیا کی اولین ریاست ہے اور 1991 میں سوویت یونین کے انہدام کے بعدیہ عصرِ حاضر کی واحد سپر پاور ہے۔ دو بڑی طاقتوں کے دور میں ، امریکہ-سوویت  مخالفت (سرد جنگ) میں یورپ فقط ایک  تماشائی ہی تھا۔ مزید براں، امریکہ اورسوویت یونین کے مابین کشیدہ تعلقات میں کمی اور امریکی دباؤ کے نتیجے میں قدیم یورپ ( برطانیہ، فرانس،بیلجئم اور دیگر)  اپنی بہت سی نوآبادیات پر براہ راست کنٹرول کھو بیٹھا۔

 

دوم : براعظم میں امریکی دستوں کی تعیناتی، مارشل پلان اور نیٹو NATOکی تشکیل کے ذریعے، امریکہ نے  یورپ کی اقتصادی طاقت اور سلامتی کو مکمل طور پر اپنےسانچے میں ڈھال لیا۔ دوسرے الفاظ میں، امریکہ کی فوجی اور معاشی طاقت نے، برِاعظم میں جنگ کو اپنے تابع کرلیا ، یورپ میں روس کو کسی قسم کی جرأت کرنے سے روک دیا،  اور یورپ کو ایک امن واستحکام کے گڑھ میں بدل دیا۔ نیچے دیے گئے اعداد و شمار 2019 میں مختلف طاقتوں کے مابین مجموعی داخلی پیداوار اور فوجی اخراجات کے موازنے کو ظاہر کرتے ہیں ۔ واضح طور پر آج تک، امریکہ یورپ سے دونوں  میدانوں میں کافی آگے ہے۔بریگزٹ Brexitکے وقوع پذیر ہونے اور برطانیہ اور یورپ کے مابین مقابلے کی دوڑ کے نتیجے میں ان اعدادوشمار کے گرنے کا امکان یورپی یونین کی کمزور پڑتی صورتحال کو مزید عیاں کرے گا۔

 

امریکہ چین روس یورپی یونین جرمنی برطانیہ فرانس
214 کھرب 141 کھرب 17 کھرب 156 کھرب 38 کھرب 28 کھرب 27 کھرب مجموعی داخلی پیداوار GDP – ڈالر
732 ارب 261 ارب 65.1 ارب 225ارب 49.3 ارب 48.7ارب 50.1ارب فوجی اخراجات- ڈالر

2019 میں مختلف طاقتوں کے مابین مجموعی داخلی پیداوار اور فوجی اخراجات [15,16,17 ]

 

سوم: مشترکہ یورپی خارجہ پالیسی اور  عالمی سطح پر فوجی طاقت کی نمائش کرنے کی صلاحیت کی عدم موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ یورپ امریکہ کے ساتھ عالمی سطح پر مقابلہ نہیں کرسکتا۔ حتیٰ کہ جب بھی یورپ نے مجموعی طور پر یا  کچھ  یورپی ممالک  جیسے برطانیہ اور فرانس نے اپنے طور پرکوئی قدم اٹھایا تو پھر بھی وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے مکمل طور پر امریکی فوجی قوت اور سیاسی تعاون پر انحصار کرتے ہیں ۔مثال کے طور پر، 1999 میں سربیا   سے کوسووو کی آزادی اور 2011 میں لیبیا میں مداخلت، امریکی تعاون کے بغیر ممکن نہ ہوسکتی تھی۔

 

چہارم: عالمی سیاسی مسائل کے حل کے لئے دنیا امریکی قیادت کی طرف ہی رجوع کرتی ہے نہ کہ یورپ کی طرف۔

 

پنجم :  دنیا بھر میں امریکہ کی مشہور ثقافت کا پھیلاؤ، یورپ کی ہر پیشکش کو بہت ہی  معمولی کردیتا ہے، اور اس نے لاکھوں لوگوں کے ذوق اور میلانات کو نئی شکل دے دی ہے۔

 

لہذا ،  مغربی بالادستی کے  زوال  کے تجزیے کے لئے   امریکی پیشرفت کی  کمزوریوں کی مثالیں دینا کافی ہو گا۔

امریکہ کے زوال کی تحقیق کرنا اب کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ ایک مانا ہوا موضوع ہے جوکہ امریکہ کی کمزور پڑتی معیشت ، فوجی طاقت ، اندرونی معاملات جیسے سیاست ، تعلیم ، صحت کی دیکھ بھال ، ماحولیات ، وغیرہ اور جغرافیائی سیاسی برتری میں آتی کمزوری کی جانچ پڑتال کرتا ہے۔ اس شعبہ سے وابستہ لوگ  عام طور پر انحطاطی تجزیہ نگار کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔چومسکی،Chomsky کو یقین ہے کہ امریکہ 1945 کے بعد سے مسلسل زوال پذیرہے[18]۔ دوسرے تجزیہ نگار، جیسے تھامس فرائیڈمین اورمائیکل مینڈل بام (Thomas Friedman and Michael Mandelbaum)کو یقین ہے کہ امریکہ اپنے زوال کے پانچویں دور سے گزر رہا ہے۔ان کا دعوٰی ہے کہ اس کی پہلی لہر 1957 کے Sputnik Shock کے ساتھ آئی، دوسری لہر ویتنام کی جنگ کے دوران ، تیسری لہر صدر جمی کارٹر کی پالیسیوں اور جاپان کے اٹھ کھڑے ہونے سے آئی، چوتھی لہر چین کے عروج سے اور پانچویں لہر 2008 کے عالمی مالیاتی بحران سے  پیداہوئی تھی [19]۔انحطاطی تجزیہ نگاروں سے اختلاف کرنے والوں کا خیال ہے کہ ہرلہر کے بعد امریکہ اپنی عالمی اجارہ داری کو جاری رکھنے کے لئے پھر صحت مند ہو گیا۔

 

اس مضمون میں ان موضوعات پر تحقیق کی گئی ہے: وہ بنیادی رجحانات جنہوں نے   Covid-19سے پہلے ہی امریکہ کی برتری کو  معدوم کر دیا  تھا ، Covid-19کے بعد کی دنیا سے کیا امید کی جا سکتی ہے، اور کیوں مسلم دنیا کو اس موقع سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے۔

 

داخلی طور پر غیر فعال سیاست

سب سے زیادہ سمجھ میں آنے والی بات جو امریکہ کی برتری کی صلاحیت، طاقت کی نمائش اور عالمی ورلڈ آرڈر پر اثرانداز ہونے کے تأثر کو کمزور کرتی ہے ، وہ ملک کی  اندرونی غیر فعال سیاست ہے۔ زیادہ  پرانی بات نہیں کہ امریکہ کی جمہوریت ، دنیا کے لئے قابلِ رشک تھی۔ دنیا بھر میں بہت سے لوگ، امریکی نظامِ حکمرانی ، اختیارات کی تقسیم اور قانون کی بالا دستی کی تمنا کرتے تھے۔یہ سب خُمار اب ختم ہو چکا ہے۔ ڈیموکریٹس اور ریپبلکن ، لبرلز اور کنزرویٹوز،  سفید فام اور سیاہ فام  اور امیروغریب کے مابین سیاسی رسہ کشی نے امریکی سیاست کے ناقابلِ عبور تفرقات کو عیاں کر دیا ہے۔اس صدی کے آغاز سے ہی،ان گہرے رخنوں نے ایک ٹوٹے پھوٹے سیاسی نظام کو وہ کچھ مہیا کیا جوکہ آخرکارصدر ٹرمپ کے دور میں، امریکیوں کے ہاتھوں ، امریکی جمہوریت  پر ایک حملے کی صورت میں اختتام پذیر ہوا۔

بائیڈن کے اس اعلان کہ" امریکہ واپس آ گیا" کے باوجود، ایسے دلائل بہت ہی کم ہیں جو یہ اشارہ دیتے ہوں  کہ یہ رِستے ہوئے زخم جلد ہی بھر سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کے حالیہ الیکشن میں ، ٹرمپ کے حق میں 740 لاکھ ووٹ ڈالے گئے، جو تعداد کے اعتبار سےامریکی  صدارتی الیکشن کی تاریخ میں دوسرے نمبر پر شمار ہوتے ہیں،  اور صرف بائیڈن نے ہی اس سے زیادہ یعنی 810 لاکھ ووٹ حاصل کئے ۔    ریپبلیکنز کے درمیان ٹرمپ کی حمایت کی شرح 87% اور ڈیموکریٹس کے درمیان6% پر برقراررہی[20]۔ مزید یہ کہ85% ریپبلکنر کا ماننا ہے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی اور بائیڈن کی صدارت غیر قانونی ہے [21]۔  تقریباً50%ووٹر اپنے نئے صدر کے خلاف ہیں، اور یہ سب غیر معمولی واقعات ہیں۔ ریپبلکن پارٹی اب سرکاری طور پر ٹرمپ کی پارٹی ہے۔ وہ اور اس کے حامی امریکی سیاست  کے مستقبل پر طویل عرصے تک اثرات ڈالیں گے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ریپبلکن سیاستدانوں کوپارٹی کی نامزدگی میں کھڑا ہونے اور کامیابی حاصل کرنے کیلئے درکار سرمایہ حاصل کرنے کے لئے،  ٹرمپ کے انداز اور پالیسیوں کوزیادہ سے زیادہ  اختیار کرنا پڑے گا ۔ اس سےریپبلیکنز اور ڈیموکریٹس کے درمیان ،  سیاسی ماحول  مزید تلخ  ہونے کا امکان ہے۔

 

ایک اور عنصر جوامریکی سیاست کو  مفلوج کر سکتا  ہے، وہ سینیٹ کا ووٹنگ کا طریقہ کار ہے۔ بایئڈن کے لئے مشکل ہو گا کہ وہ اپنے کلیدی اصلاحی ایجنڈے کو قانونی منظوری دلوا سکے۔قانونی اصولوں کے تحت، کانگریس میں بیشتر قانون سازی کے مؤثر  ہونے کے لئے سینیٹ میں  60 ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مفاہمتی بلوں کا ایک پیچیدہ عمل سے گزرناضروری ہوتا ہے جو " Byrd Rule "کے نام سے جانا جاتا ہے [22]۔بائیڈن کے لئے،الیکشن میں کئے گئے صحت ، تعلیم اور دیگر وعدوں سے متعلق  بنیادی  اصلاحات کو عملی جامہ پہنانا مشکل ہوگا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ،  بپھرے ریپبلیکنز کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھانے کا نتیجہ پرتشدد احتجاج ، یا سپریم کورٹ میں چیلنج کی  صورت میں نکل سکتا ہے، جہاں  کنزرویٹو جج، پروگریسو ججوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں، یعنی 6 کے مقابلے میں 3 ۔ امریکی داخلی   سیاست کا سب سے تباہ کن پہلو یہ ہے کہ حریفوں اورحلیفوں کی طرف سے مفاہمت کا کوئی امکان نہیں ، یہ جانتے ہوئے کہ بائیڈن کے ساتھ کی گئی کسی بھی مفاہمت کو مستقبل میں آنے والی ٹرمپ جیسی شخصیت الٹ سکتی ہے۔اور یہ دوسری اقوام کو امریکی قیادت کی پیروی کرنے پر رضامند کرنے کی امریکی صلاحیت کو روک دے گا ۔ خود کو آئیڈیالوجی اور عوامی مفاد ات سے بالاتررکھنے والی  سیاسی اشرافیہ  کے ہوتے ہوئے ، امریکہ کی یہ گہری سیاسی تقسیم ایک دیر پا بحران پیدا کردے گی جیسے کہ ڈالیو Dalio نے پیش گوئی کی تھی۔

 

معاشی تنگی کا سامنا

امریکہ کی معیشت اس کے سیاسی نظام کی نسبت بہت بہتر ہے۔ امریکہ 214 کھرب ڈالر کی مجموعی داخلی پیداوار کے ساتھ،دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے اور 25% کے ساتھ عالمی معیشت میں  سب سے بڑے حصے کا مالک ہے [23]۔  ڈالر دنیا کی غیر متنازعہ ریزرو کرنسی ہے اور کسی بھی دوسری کرنسی کے مقابلے میں لین دین کو طے کرنے کے لئے وسیع پیمانے پراستعمال ہوتا ہے۔ Fortune Global list میں پہلی بیس کمپنیوں میں زیادہ ترامریکی کمپنیاں ہی ہیں [24]۔  او ای سی ڈی (OECD )ممالک میں  محصولات کی فی کس آمدنی کے اعتبار سے بھی امریکہ ہی سب سے آگے ہے [25]۔ اس تمام معاشی بالادستی کے باوجود، امریکہ کی معاشی قوت، گزشتہ برسوں میں سمٹ کررہ گئی ہے۔

 

1960 میں عالمی معیشت میں امریکہ کا حصہ 40%پر  پہنچ چکا تھا اور گزشتہ سالوں میں ، جیسے جیسے مزید  اقوام دنیا کی  معیشت میں حصہ لیتی گئیں، یہ شرح گر کرتقریباً  نصف رہ گئی [26]۔  ڈالر سسٹم کی وجہ سے ڈالر آج بھی مضبوط ہے ، لیکن افراطِ زر کے مجموعی اثرات کی وجہ سے اپنی قوت خرید میں نمایاں کمزوریوں کا سامنا کررہا ہے۔ 1960 میں ایک ڈالر کی قوت ِخرید آج  کےتقریباً 8.84 ڈالر کے برابر ہے، جو 61 سالوں میں 7.84 ڈالر کا اضافہ ہے۔ بیورو آف لیبر(Bureau of Labor Statistics )کے اعدادوشمار کے مطابق ، آج کی قیمتیں 1960 کی اوسط قیمتوں سے 884% زیادہ ہیں [27]۔ یہ توقع کی جا رہی ہے کہ بائیڈن کے 19 کھرب ڈالر کے معاشی ٹیکے کے منصوبے کے آغاز کے ساتھ ہی ڈالر کی قوتِ خریدمیں مزید کمی واقع ہوگی۔( The Fortune Global 500)فارچون گلوبل 500 اب  پہلے کی طرح امریکی کمپنیوں کی بالادستی کی عکاسی نہیں کرتا ۔ 2020 میں فارچون گلوبل نے فخریہ طور پر133 چینی کمپنیوں اور 121 امریکی کمپنیوں کا ذکر کیا جن میں صرف 2 امریکی کمپنیاں ہی پہلے 10 میں پہنچ پائیں[28]۔  اورآخر میں،وہ امریکہ میں چند  لوگوں کے ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز ،امریکہ کے گھریلو آمدنی کی پیمائش کرنے والے اشاریوں کی درستگی پر تازہ شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔پہلی مرتبہ،2019 میں امریکہ کی  اوسط گھریلو آمدنی63000 ڈالر تک پہنچی، لیکن افراط زر کے اثر کو شامل کرنے کے بعد یہ صرف 1999 کی سطح پرہی پہنچ پائی [29]۔ اسی اثنا میں امریکہ کےامیر ترین 1%فیصد لوگوں نے نچلے90% سے 500 کھرب ڈالر لے کر خود کوبے انتہا حد تک امیر کر لیا [30]۔ اگر یہی حالات جاری رہے، خصوصاً، امریکہ کے انتہائی مالدار سرمایہ دار وں کا دولت کو غصب کرنا، تو امریکہ کی معاشی قوت  مزید بےاثر اورغیر معتبر ہوتی جائے گی اور اندرونی بدحالی پیدا کردے گی، جس کا ابنِ خلدون اور ٹرچن نے ذکر کیاہے۔

 

کثیر فوج برقرار رکھنے کے اخراجات بڑھ رہے ہیں

70 ممالک اور علاقوں میں 800 فوجی اڈوں اور  سالانہ 734 ارب ڈالر کے فوجی اخراجات کے ساتھ ، جو کہ اپنے قریب ترین ہم پلہ حریف چین سے تقریباً تین گنا ہے،اس کے باوجود امریکہ کی فوجی قوت ماند پڑ رہی ہے [31, 32]۔ 2010 میں پینٹاگون نےاپنے فوجی ضوابط (ڈاکٹرائن) میں  باضابطہ طور پر بیک وقت دو محاذوں پر جنگ لڑنے  کی اہمیت کو ختم کردیا تھا۔ 2010 میں ، Quadrennial Defense Reviewنے" طاقت کی تشکیل کو طے کرنے میں (بیک وقت) دو جنگوں کی ضرورت کے بنیادی عنصر ہونے " کی نظرِ ثانی کو نظر انداز کر دیا[33]۔ دوسری ریاستوں کے مقابلے میں امریکہ کی کئی دہائیوں پر محیط فوجی برتری میں  بھی کمی ہوئی ہے ، اور ساتھ ہی ساتھ دشمن  کو پسپا کرنے  اور اسے شکست دینے کی صلاحیت بھی کم ہوگئی ہے۔ 2018 میں امریکہ کی دفاعی حکمت عملی سے متعلق ایک خودمختار دوطرفہ کمیشن نے مشاہدہ کیا کہ"امریکہ کی دیرینہ فوجی برتری کم ہو چکی ہے" اور "امریکہ کی مخالفین کو روکنے،اور بوقتِ ضرورت شکست دینے کی صلاحیت ، اور اپنی عالمی ذمہ داریوں  کا احترام کرنے کے بارے میں شکوک و شبہات کافی حد تک پھیل چکے ہیں" [34]۔ ایک مزید پیچیدگی امریکہ کا  نئی بھرتیوں کو پرکشش بنانے کی قابلیت ہے، امریکی فوج میں خدمات انجام دینے کے لئے نوجوانوں کے مابین دلچسپی اپنے وقت کی کم ترین سطح پر گر گئی ہے۔ صورتحال اتنی ابترہوگئی ہے کہ محض امریکی زمینی فوج کو برقرار رکھنے کے لئے، جس میں فوج اور میرین کورشامل ہیں، دونوں اداروں کو نوجوانوں کی کشش کے لئے تنخواہوں میں غیر معمولی اضافے اور بونس سکیم کا سہارا لینا پڑ رہا ہے [35]۔   اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان اور عراق میں ، امریکہ کی بُری فوجی کارکردگی نے امریکی فوجی طاقت کے زوال میں حصہ ڈالا ہے۔ اگر حالات  اسی طرح رہے، تو کسی بڑی طاقت جیسے چین یا روس کے ساتھ جنگ میں امریکہ کی فوجی قوت کا سخت امتحان ہو گا جس میں جیت کا امکان  مزید کم ہو جائے گا۔تاہم ، فوری خطرہ بیرونِ ملک فوجی مصروفیات کو برقرار رکھنے کے لئے درکار معاشی اور سیاسی اخراجات سے پیدا ہوا ہے جس کی طرف پال کینیڈی نے توجہ دلائی ہے۔ گرتی ہوئی معاشی قوت کے ساتھ داخلی طور پر سیاسی غیر فعالی کی وجہ سے امکان ہے کہ  امریکہ کی بیرون ملک فوجی ذمہ داریوں کو نقصان پہنچے گا۔

 

امریکہ کی ناکامیاں  کچھ عظیم طاقتوں کی حوصلہ افزائی اور دوسروں کے اٹھ کھڑے ہونے کا سبب بنی ہیں

یہ ظاہر ہے کہ امریکہ معاشی اور فوجی قوت میں نسبتاًزوال کا سامنا کر رہا ہے اور ایک ٹوٹے پھوٹے سیاسی نظام کی وجہ سے یہ شدید تر ہو گیا ہے۔  اس سے اہم معاملات پر یورپ کو راضی کرنے اور روس اور چین جیسی ٹکرانے والی ریاستوں کی حوصلہ شکنی کرنے کی امریکی  صلاحیت پر بھی اثر پڑا ہے۔ جنگ کے بعد کے برسوں سے ہی سمندر پار  تعلقات امریکہ کے سیاسی منظرنامے  کا سنگ بنیاد رہے ہیں۔  یورپ نے بہت سے مسائل پر بخوشی  امریکی نکتہ نظر کو آگے بڑھایا ہے ، اور ضرورت پڑنے پر امریکی اقدامات کی حمایت کی ہے۔ تاہم ، سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے ہی ان سمندرپار شراکت داروں میں بہت سے اہم معاملات پر فاصلے بڑھنے شروع ہو گئے ، جیسا کہ یورپی یونین کی توسیع کی سمت  ، نیٹو کے نئے مشن ، بین الاقوامی امور میں امریکی یکطرفہ پن میں اضافہ ، عالمی سطح پر جنوب کی جانب پالیسیوں وغیرہ جیسے متعدد اہم امور ۔افغانستان اور عراق کے خلاف مرضی کی جنگوں نے سلگتے یورپ کے امریکہ کے ساتھ تعلقات مزید خراب کر دیے۔ 2003 میں، پیرس میں قائم فرانسیسی انسٹیٹیوٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ، ڈومینیک موسی Dominique Moisiنےاظہار کیا کہ " ہم جس چیز کا مشاہدہ کر رہے ہیں وہ مختلف احساسات اور جذبات کے ساتھ، دو مغارب (Wests) کا ظہور ہے، ایک امریکی مغرب اور ایک یورپی مغرب، "[36]۔ عالمی مالیاتی بحران جس کے بعد یورو زون کا بحران، یونانی قرضوں کا بحرانوں، کرنسیوں کی جنگ اور کفایت شعاری بمقابلہ اقتصادی ٹیکوں پر اختلافات نے دونوں کے مابین تعلقات کو مزید کشیدہ کردیا۔ عرب  بہار اور شامی مہاجرین کے بحران نے سمندر پار تعلقات پر اعتماد کو مزید زنگ آلود کردیا ۔

 

لیکن ٹرمپ کے آنے کے بعد ہی ایسا ہوا کہ تعلقات تاریخ کی نچلی ترین سطح پر پہنچ گئے ۔یورپ کے بارے میں ٹرمپ کا عزم کہ وہ نیٹو کی مالی ذمہ داریوں میں اپنا حصہ بڑھائے گا اور ادارے کے آرٹیکل 5 پر اس کے عدم اعتماد پر اتحادیوں کی جانب سے کڑی تنقید ہوئی۔ یورپی تحفظ کے امریکی وعدے کی دوبارہ تجدید سے  ٹرمپ کے انکار کے متعلق بات کرتے ہوئے چانسلر، انجیلا مرکل نے کہا، "وہ دَور ختم ہونے کو ہے  جب ہم دوسروں پر مکمل انحصار کرسکیں… ہم یورپیوں کو اپنی تقدیر اپنے ہاتھ میں لینی ہوگی" [37] ۔ ٹرمپ نے ڈھٹائی سے یورپ کے خلاف اپنے بیانات جاری رکھے۔ اس نے کھلم کھلا یورپ کی تقسیم اور بریگزٹ کی حمایت کی، میکرون کے اس مشورے پر اس کی سرزنش کی کہ یورپ کو اپنے آپ کو امریکہ سے بچانے کے لئے ایک فوج کی ضرورت ہے،اورایک تجارتی جنگ کی آگ بھڑکا دی [38]۔یورپ نے امریکی خدشات کو نظرانداز کرتے ہوئے رد عمل کا اظہار کیا اور اچھی طرح جانتے ہوئے کہ ٹرمپ وائٹ ہاؤس سےجا رہا ہے ، چین کے ساتھ ایک جامع تجارتی معاہدے پر دستخط کرنے کا عہد کیا۔ بری طرح بگڑ جانے والے سمندر پار تعلقات نے باہمی تعاون کو کئی مسائل سے دوچار کر دیا ہے، اسی نکتہ پر Dalio ڈالیو نے زور دیا تھا۔اپنی پہلی عوامی ملاقات میں، میکرون اور مرکل نے بائیڈن کو یاد دہانی کرائی کہ جرمن-فرانس اتحاد یورپ کے مفادات اور خودمختاری کی حفاظت کرے گا۔ ملاقات میں میکرو ن نے امریکہ سے  "اسٹریٹجک خود مختاری" پر زور دیا ، جبکہ مرکل نے چین کے ساتھ طے پانے والے تجارتی معاہدے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ "ہمارے مفادات ہمیشہ  اکھٹے  نہیں ہوں گے" [39]۔ بہت ہی کم امید ہے کہ براعظم یورپ اور امریکہ کے مابین تعلقات میں اب  آئندہ خاطر خواہ بہتری آسکے گی۔

 

گزشتہ برسوں کے دوران متعدد ٹھوکروں کا سامنا کرنے کے بعد امریکہ کے روس کے ساتھ تعلقات بھی ایک نئی نچلی سطح تک پہنچ چکے ہیں، جو کہ سرد جنگ کے ابتدائی ایام کے بعد سے کبھی دیکھنے میں نہ آئے تھے۔ طا قت میں ہم پلہ روس نے امریکہ کی بالا دستی کو چیلنج کیا اور قفقاز ، یوکرین اور وسطی ایشیاء میں امریکہ کے اثر و رسوخ کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ 2008 میں ، روس نے جارجیا پر حملہ کیا اور جنوبی اوسیٹیا(South Ossetia) پر قبضہ کر لیا ، 2014 میں کریمیا کو ضم کرلیا اور خطے کے مشرقی حصے میں اپنا اثر و رسوخ پیدا کرنے کے لئے یوکرین میں جنگ لڑی۔ روس مغرب کی طرف سے سخت پابندیوں اور جرمانوں کے باوجود یہ سب کام کرنے میں کامیاب رہا۔ وسطی ایشیاء میں، ازبکستان اورکرگزستان میں روس نے امریکی اثرورسوخ کو کامیابی سے پیچھے دھکیل دیا۔ سابق امریکی سیکرٹری دفاع، رابرٹ گیٹس Robert Gates کو وال سٹریٹ جنرل میں لکھتے ہوئے روس کے نوآموزعروج کے بارے میں یہ کہنا پڑا کہ" ہم روس کو ایک ساتھی بنانا چاہتے ہیں، لیکن اب یہ مسٹرپیوٹن کی قیادت تلے واضح طور پر ممکن نہیں ہے۔ اس نے ایک ایسا آہنی پنجہ مارا ہے جو صرف کریمیا یا یوکرائن تک ہی محدود نہیں ہے۔ اس کے اقدامات نے سرد جنگ کے بعد کے تمام انتظام کو چیلنج کر دیا ہے" [40]۔روس نے سخت سردیوں کے مہینوں کے دوران یورپ کی گیس کی سپلائی کو کاٹ کر ، غیر ملکی سرزمین پر ڈھٹائی سے قتل و غارت گری اور امریکی اور یورپی انتخابات میں مداخلت کرکے مغرب کو مزید خبردار کردیا۔ روس کی شام کے تنازعہ اوردیگر جگہوں پر جدید ترین سائبر ہتھیاروں اور جدید فوجی سازوسامان کی نمائش نے امریکی پالیسی سازوں پر یہ انکشاف کردیا کہ روس مخصوص علاقوں میں امریکی اجارہ داری کو چیلنج کرنے کی سکت رکھتا ہے۔

 

امریکہ نے یہ سب کیسے ہونے دیا ؟   90 کی دہائی میں امریکہ اپنی معاشی اور فوجی طاقت کے نکتہ ٔعروج پر تھا اور دنیا کی واحد سپر پاور کے طور پر عالمی بالادستی رکھتا تھا۔ روس ایک گہرے معاشی اور سیاسی بحران کا شکار تھا۔ آئی ایم ایف کے قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہونے کی وجہ سے ، روس ،سابقہ ​​یورپ میں یورپی یونین اور نیٹو کی توسیع کو روکنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ نہ ہی کریملن امریکہ کو بلقان میں روسی اثر و رسوخ کو روکنے کے خلاف  کچھ کر سکا۔  2000 میں بحیرہ بارینٹس  Barents Seaمیں کرسک (K-141) آبدوز کا نقصان اور عملے کو بچانے میں کریملن کی نااہلی ،  ان باتوں کا اظہار تھا کہ روس اپنی سپر پاور کی حیثیت سے کتنا دورجا   چکا ہے [41]۔ پھر بھی ، دو دہائیوں کے عرصے میں ، عمر رسیدہ آبادی اور کمزور معیشت کے حامل روس نے خود کو دوبارہ کھڑا کر لیا اور امریکہ کو چیلنج کرنے کے قابل ہو گیا۔ روس کی محدود استعداد (صرف فوجی طاقت) یہ ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ کے  پہلے ہی افغانستان اور عراق کی تباہ کن جنگوں میں گھِرا ہونے ، اور اس کے ساتھ ہی  عالمی مالیاتی بحران کی وجہ سےبھی امریکہ روس کی مخصوص علاقوں میں جارحیت کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یقیناً،  روس امریکہ کی عالمی قیادت کو بے دخل نہیں کرسکتا ، لیکن وہ امریکی منصوبوں  میں یقینی طور پر خلل ڈال سکتا ہے اور یوریشیا میں امریکہ کی بالادستی کوکمزور کرسکتا ہے۔

 

ایشیاء میں چین کے عروج پر قابو پانے کی امریکی کوششوں کے متعلق بھی کافی سوال اٹھتے ہیں۔ نوے کی دہائی کے وسط سے ہی، واشنگٹن چین کو امریکہ کا سب سے بڑا دشمن سمجھتا تھا۔ بعد میں آنے والی امریکی حکومتوں نے بھی بہت احتیاط سے کوشش کی کہ مختلف اقدامات کے ذریعہ چین کو اپنی حدود میں رکھا جائے۔ امریکہ نے شمالی کوریا کے جوہری مذاکرات پر طویل عرصے تک چین کوالجھائے رکھا، اور دانستہ طور پرایک مستقل حل سے گریز کیا۔ اسی اثنا میں ، امریکہ نے تبت ، سنکیانگ میں چین کی انسانی حقوق کی پامالی اور مذہبی فالون گونگ گروپ  Falun Gong group سے ہونے والے سلوک سے فائدہ اٹھایا تا کہ چینی قیادت کو بدنام کیا  جاسکے  اور اسے اپنے اندرونی معاملات پر ہی توجہ مرکوزکرنے پر  رکھاجائے۔ چین کی مغرب  کی طرف توسیع کی مخالفت کرنے کے لئے امریکہ نے بھارت کو فصیل کی طرح کھڑا کر دیا ۔ واشنگٹن نے بھارت کو اپنی فوجی اور جوہری صلاحیتوں کو بہتر بنانے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان مستقبل کی جنگ کی بنیاد رکھی۔ چین کی بحری توسیع کو ختم کرنے کی کوشش میں ، امریکہ نے بھارت کوQuadrilateral Security Dialogue (QSD) میں شامل کیا۔ پچھلی دہائی میں ،(QSD)یعنی امریکہ ، بھارت ، آسٹریلیا اور جاپان نے متعدد بحری مشقیں کی ہیں تا کہ بیجنگ کوحوصلہ شکن پیغام دیے جائیں کہ وہ پہلے اور دوسرے جزیرے کی لڑیوں سے باہر جانے کی جرأت نہ کرے، ان کا مقصد چین کی بحری جڑوں کی افزائش سے پہلے ہی انہیں کاٹ دینا ہے۔ واشنگٹن نے ویتنام ، فلپائن اور جاپان کو بھی چین کے مشرقی اور جنوبی سمندروں میں بے مقصد  علاقائی تنازعات میں الجھانے کی ترغیب دی۔ تاہم ، چین پر امریکہ کی برتری کا سب سے بڑا ستون تائیوان ہے، امریکی منصوبہ ساز اس جزیرے کو ایک ناقابلِ غرق طیارہ بردار بحری جہاز کے طور پر دیکھتے ہیں، جسے امریکہ نے فوجی سازوسامان سے مضبوط کیا ہے تا کہ زمین سے اس تک رسائی کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنایا جائے۔ دوسری طرف ، چین تائیوان کو "وَن چائنا" کااٹوٹ حصہ سمجھتا ہے ، اوراس کے امریکی دائرہ کار میں ہونے کو ایک انتہائی ذلت کا سبب سمجھتا ہے۔

 

امریکہ کی جانب سے چین کی حد بندی کو سہارا دینے کے سخت اقدامات کے باوجود ، بیجنگ ملک کو خطے میں بالادستی کی طرف ایک ہموارراستہ پرگامزن کرنے میں کامیاب رہا۔ چین2010 میں،  جاپان سے آگے نکلتے ہوئے، تیزی سے دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گیا ، اور آج عالمی جی ڈی پیکے 17% کا مالک ہے، جو امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے [42,43]۔  تین دہائیوں کے عرصے میں، چین کی معیشت، امریکی مجموعی داخلی پیداوار (جی ڈی پی) کے تناسب کی فیصد سے 1990 میں6% سے بڑھ کر 2019 میں67% ہوگئی[44,45]۔ سوویت یونین کے عروج کے وقت اس کا (جی ڈی پی) تناسب،  امریکہ کا صرف50% تھا،  اور اس نے علاقائی بالادستی کے لئے امریکہ کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کیا۔

 

چین کی شاندار اقتصادی ترقی کے علاوہ ، چین کی تکنیکی صلاحیت میں نمایاں حد تک اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر 5G اورartificial intelligence کے شعبوں میں۔ Alphabetکا چیئرمین ایرک شمٹ( Eric Schmidt) چین کےمتعلق مسلسل خبردار کرتا رہا کہ چینartificial intelligenceمیں امریکہ سے آگے نکل جائے گا [46]۔ فوجی محاذ پر، چین نے امریکہ سے اپنے فرق کو کم کرنے میں غیرمعمولی پیشرفت کی۔ 2000 میں ، امریکی محکمہ دفاع (DoD) نے نوٹ کیا کہ "پی ایل اے People's Liberation Army (PLA) کی زمینی ، فضائی ، اور بحری افواج حجم میں کافی تھیں لیکن زیادہ تر فرسودہ تھیں" [47]۔ بیس سال بعد ، امریکی محکمہ دفاع(DoD) نے مشاہدہ کیا کہ " چین نے پی ایل اے(PLA) کو مستحکم اور جدید بنانے کے لئے،  گذشتہ دو دہائیوں کے دوران وسائل ، ٹیکنالوجی ، اور سیاسی عزم کو تقریبا ہر لحاظ سے صف آرا کر لیا ہے۔ چین مخصوص میدانوں میں پہلے ہی امریکہ سے آگے ہے" [48]۔ چین کی فوجی صلاحیتوں میں وسیع پیمانے پر بہتری واقعی امریکی فوجی حکمت عملی کے پالیسی سازوں کے لئے باعث تشویش ہے۔

امریکہ کی چین پر قابو پانے کی حکمت عملی میں جو غلطی تھی وہ یہ خام خیالی تھی کہ چین کے خطے میں عزائم کو محدود کرنے اور بیک وقت چین کی معیشت کو مغربی تسلط والے عالمی معاشی نظام میں ضم کرنے سے امریکہ چین کو جمہوری بنا سکتا ہے  اور چین کے ابھرنے کے خلاف  بندوبست کرسکتا ہے۔ 2000 میں ، صدر کلنٹن نے WTO میں چین کی شمولیت کی حمایت کرتے ہوئے معاشی ترقی اور جمہوریت کے فروغ کے درمیان واضح ربط قائم کیا۔ اس نے کہا ، "W.T.O میں شامل ہوکر… [چین] جمہوریت کی ایک نہایت انمول قدر: اقتصادی آزادی، کو درآمد کرنے پر راضی ہے۔ چین اپنی معیشت کو جتنا آزاد کرے گا ، اتنا ہی مکمل طور پر وہ اپنے عوام کی صلاحیتوں کو آزاد کرے گا [49]۔  چین نے اپنی معیشت اپنے کھیل کے مطابق انتہائی شاطر انداز میں کھولی ہے، یعنی بغیر کسی سی سی پی CCPکے کنٹرول کے حیرت انگیز معاشی ترقی - امریکہ کو تقریباً ایک دہائی یا کچھ عرصہ لگ گیا کہ وہ چین کو اپنی حدود میں رکھنے کی پالیسی کی غلطیوں کا ازالہ کر سکے۔ 2012 میں، صدراوبامہ نے امریکہ-ایشیاء اہم حکمت عملی کا اعلان کیا جس کا شدت سے انتظار کیا جا رہا تھا ، جس میں بنیادی طور پر60%امریکی بحری بیڑے کی یورپ سے ایشیاء منتقلی شامل تھی۔ صدر ٹرمپ نے اپنے پیش رو کی پیروی کی اور خاص طور پر چین کی Hi-techصنعت کو نشانہ بنانے کےلئے چین کے ساتھ تجارتی جنگ کا آغاز کیا۔ اب تک ، ان میں سے کسی بھی قدم نے چین کی ترقی کے سفر میں خاطر خواہ رکاوٹ نہیں ڈالی۔

 

کچھ مبصرین، جیسے ڈالیو Dalio، چین پر قابو پانے میں امریکہ کی ناکامی کوایسے ثبوت کے طور پر دیکھتے ہیں کہ چین مستقبل قریب میں دنیا کی سربراہی میں امریکہ کو ہٹا کر اس کی جگہ لے لے گا۔ CNN کے فرید زکریا جیسے دوسرے افراد کو یہ توقع ہے کہ امریکہ اور چین یکساں طورپر امریکہ اور سوویت جیسے دو طرفہ سمجھوتے پرآ پہنچیں گے [50]۔  یہ آراء امریکی طاقت کے دوبارہ جائزے اور اس کے ظاہری زوال پر مبنیہیں۔ درحقیقت ، امریکہ کے کچھ نامور خارجہ پالیسی مفکرین نے دو دہائی قبل ہی امریکہ کے زوال کی پیش گوئی کی تھی ، لیکن اسے حتمی کی بجائے نسبتاً پیرائے بیان کیا تھا۔ 1997 میں ، امریکی طاقت کے عروج کے وقت ، برزینسکی Brzezinskiنے امریکہ کے اٹل زوال کی پیش گوئی کی۔ انہوں نے  “The Grand Chessboard”میں لکھا ہے " جب امریکہ کی قیادت  ماند پڑنا شروع ہوجائے گی … امریکہ دنیا کو کیا دے کر جائے گا…" [51]۔ 1999 میں Foreign Affairs میں لکھتے ہوئے ، رچرڈہاس نے پیشن گوئی کی کہ "امریکی فوقیت برقرار نہیں رہے گی" جیسا کہ "دوسروں کے مقابلے میں امریکہ کا مقام لامحالہ کم ہوجائے گا" [52]۔

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ (Covid-19) سے پہلے ہی امریکہ کے سیاسی نظام کی تقسیم اور اس کی قومی طاقت، خاص طور پر معاشی اور فوجی طاقت، کی کمزوریوں نے دنیا کی اولین ریاست کے زوال کا باعث بننا شروع کردیا تھا۔ امریکہ کے یورپ کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی ، اور روس اور چین کی طرف سے دباؤ نے امریکہ کی برتری مزید کم کردی۔ مزید یہ کہ ، ایک کمزورشدہ امریکہ کا مطلب ایک کمزورشدہ مغرب ہے۔ مغرب میں کورونا وائرس سے نمٹنے کی ناقص حکمتِ عملی نے امریکی اور یورپی قیادت پر اعتماد کو سخت مجروح کیا ہے۔ ویکسین کی قوم پرستی نے مغرب کی قیادت کرنے کی قابلیت پر ایک اور بدنما داغ ڈالا ہے۔ یہ اس ویکسین کی سفارتکاری کے بالکل برعکس ہے جو روس اور چین نے دنیا کے غریب  ممالک میں اپناتاثر بہتر بنانے کے لئےکی ہے۔

 

مسلمانوں کے لئے  بڑی طاقتوں کو بے دخل کر دینے کا موقع

جیسے ہی دنیا اس وبا سے باہر نکلے گی، یہ بہت ہی واضح ہے کہ مغرب کی عالمی بالادستی کبھی بھی پہلے جیسی نہ ہو گی۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں

؛وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ۬‌ۖ فَإِذَا جَآءَ أَجَلُهُمۡ لَا يَسۡتَأۡخِرُونَ سَاعَةً۬‌ۖ وَلَا يَسۡتَقۡدِمُونَ

"اور ہر قوم کے لئے ایک وقت مقرر ہے، اور جب ان کا وقت آ جاتا ہے وہ اس سے ایک ساعت بھی نہ دیر کرسکتے ہیں نہ جلدی"(الاعراف:34)۔

 

پس مسلمانوں کے لئے یہ ایک موقع ہے کہ مغربی تسلط سے اپنے آپ کو آزاد کروا لیں۔

 

رسول اللہ ﷺ کی زندگی مثالوں سے بھری پڑی کہ کیسے انہوںؐ نے اس وقت کے بین الاقوامی حالات کا تندہی سے مشاہدہ کیا، روم اور فارس کے درمیان طاقت کی رسہ کشی کا جائزہ لیا اور وہ انتہائی باریک بینی سے ان کی صلاحیتوں سے آگاہ تھے۔ان کی مثالوں میں بہت کچھ موجود ہے جس سے مسلمان سیکھیں اور آج کے حالات کے مطابق استعمال کریں۔ 

 

رسول اللہ ﷺ نے ایک مضبوط سیاسی ماحول میں پرورش پائی، جہاں قریش،  روم اور فارس کی اقتدار کی سیاست کا مشاہدہ کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قریش کے دونوں کے ساتھ تجارتی تعلقات تھے اور دو عظیم طاقتوں کے مابین کسی بھی تنازعہ کی صورت میں وہ  غیر جانبدار  رہنے کے مواقع ڈھونڈتے تھے تا کہ اس کا اثر ان کی تجارت پر نہ پڑے۔ ایک واقعہ میں ، ابو بکرؓ  نے  روم کی  مستقبل میں فارس پر فتح حاصل کر لینے پر  قریش کے ساتھ شرط لگائی۔ رسول اللہ ﷺ  فارسیوں کے مقابلے میں رومیوں کی گرتی صورتحال سے مکمل آگاہ تھے اور جانتے تھے کہ رومی آگے کسی موقع پر فارس کو شکست دے کر اس زوال کو بدل دیں گے۔ اسی لئے آپؐ نے ابو بکرؓ کو ہدایت دی کہ وہ قریش کے ساتھ شرط میں اونٹوں کی تعداد اور وقت کا دورانیہ بڑھا دیں۔ دوسرے مواقع پر رسول اللہﷺ چھوٹی سے چھوٹی تفصیلات  معلوم کرتے تا کہ  جائزہ لے سکیں کہ کیا نصرۃ دینے والوں کے پاس اتنی طاقت ہے جو نہ صرف اسلامی ریاست کو قائم کر سکے بلکہ اس کو پھیلا کر روم و فارس کے تسلط کو ختم کرسکے؟   حتیٰ کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست کی تشکیل کے مراحل میں تھے،  آپ ﷺ اسلامی ریاست کے قیام پر کسی قسم کے اثرات کو کم کرنے کے لئے روم اور فارس کا گہرا مشاہدہ رکھتے تھے۔

 

رسول اللہﷺ نے بین الاقوامی حالات، یا روم اور فارس کے منصوبوں   کو  کبھی نظر انداز  نہیں کیا ۔ 629 میں ، رسول اللہﷺ نے جانچ لیا کہ مدینہ کے  تحفظ کو جنوب کی جانب سے  دشمن قریش   اور شمال کی جانب سے خیبر کے جنگجو یہودیوں سے خطرہ ہے۔ نوزائیدہ اسلامی ریاست کے لئے صورتحال کو مزید خطرناک بنانے کے لئے ، رومی، عرب میں کسی اڈے کی تلاش میں تھے   اور خیبر اس کے لئے ایک بہترین  جگہ تھی۔ تا ہم ، حدیبیہ کے معاہدے کے انعقاد سے رسول اللہﷺ نے یہودی خطرےکو بے اثر کر دیا  اور رومیوں کو اپنا اثرورسوخ داخل کرنے سے روک دیا۔ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام ؓ نے آپ ﷺ کے وصال کے بعد یہ روایت برقرار رکھی۔ جب ابو بکرؓاورعمربن خطابؓ نے روم اور فارس سے بیک وقت جنگ کی،  وہ بخوبی جانتے تھے کہ 26 سال کی جنگ کے بعد دونوں  طاقتیں زوال کے دَور میں داخل ہو چکی ہیں اور انہوں نے دونوں طاقتوں کو ایک تباہ کن دھچکا لگانے کے لئے ان کمزوریوں کو استعمال کیا۔

 

لہٰذا یہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ بین الاقوامی صورتحال کا باضابطہ طور پر جائزہ لیں ، عظیم طاقتوں کے عروج و زوال کی جانچ کریں ،  اور اسلامی ریاست کے دوبارہ قیام اور پھر اس کے پھیلاؤ کے لئے مسلسل مواقع ڈھونڈتے رہیں۔ کیا کوئی اتنا بہادر اور مخلص ہے جو آج یہ کام سرانجام دے سکے؟  اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں :

يَـٰٓأَيُّھَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِن تَنصُرُواْ ٱللَّهَ يَنصُرۡكُمۡ وَيُثَبِّتۡ أَقۡدَامَكُمۡ

"اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے  تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا "(محمد:7)۔

 

حوالہ جات :

 

[1] Kagan, R. (2013). The world America made. New York: Vintage Books, a division of Random House.

[2] Tisdall, S. (2020). Power, equality, nationalism: how the pandemic will reshape the world. The Guardian. Available at: https://www.theguardian.com/world/2020/mar/28/power-equality-nationalism-how-the-pandemic-will-reshape-the-world.

[3, 4, 5, 6, 7, 8] Foreign Policy, (2021) The World after the Coronavirus: We asked 12 leading thinkers to predict what happens in 2021 and beyond. Foreign Policy. Available at: https://foreignpolicy.com/2021/01/02/2021-coronavirus-predictions-global-thinkers-after-vaccine/

[9] Kennedy, P. (1988). The Rise and Fall of Empires. New Ed edition, Publisher: William Collins.

[10, 11] New Scientist (2016). End of days: Is Western civilisation on the brink of collapse?. New Scientist. Available at: https://www.newscientist.com/article/mg23731610-300-end-of-days-is-western-civilisation-on-the-brink-of-collapse/

[12] Deal Street Asia (2020). Billionaire investor Ray Dalio says pandemic to usher in new world order with China on top. Deal Street Asia. Available at: https://www.dealstreetasia.com/stories/pandemic-china-ray-dalio-187533/

[13] Wall Street Journal (2018). Why history goes in circles. Wall Street Journal. Available at: https://www.dealstreetasia.com/stories/pandemic-china-ray-dalio-187533/

[14] Rodenbeck, M. (2012). The cycle of history. Economist. Available at: https://www.economist.com/news/2012/11/21/the-cycle-of-history

[15] Amdad, K. (2020). Largest Economies in the World: Why China Is the Largest, Even Though Some Say It’s the U.S. the balance. Available at: https://www.thebalance.com/world-s-largest-economy-3306044

[16] Statista, (2020). The 15 countries with the highest military spending worldwide in 2019. Statista. Available at: https://www.statista.com/statistics/262742/countries-with-the-highest-military-spending/

[17] World Bank (2020). GDP (current US$) - Russian Federation. World Bank. Available at: https://data.worldbank.org/indicator/NY.GDP.MKTP.CD?locations=RU

[18] Chomsky, N. (2011). American Decline: Causes and Consequences, al-Akhbar. Available at: https://chomsky.info/20110824/

[19] Joffe, J. (2011). Declinism’s Fifth Wave, The American Interest. Available at: https://www.the-american-interest.com/2011/12/09/declinisms-fifth-wave/

[20] Gallup, (2020). “Presidential Approval Ratings -- Donald Trump” [online] Gallup. Available at: https://news.gallup.com/poll/203198/presidential-approval-ratings-donald-trump.aspx

[21] Eurasia Group, (2021). “Top Risks 2021” [online] Eurasia Group. Available at: https://www.eurasiagroup.net/issues/top-risks-2021].

[22] New York Times, (2021). “With New Majority, Here’s What Democrats Can (and Can’t) Do on Health Care” [online] New York Times. Available at: https://www.nytimes.com/2021/01/07/upshot/biden-democrats-heath-plans.html

[23] Amdad, K. (2020). Largest Economies in the World: Why China Is the Largest, Even Though Some Say It’s the U.S. the balance. Available at: https://www.thebalance.com/world-s-largest-economy-3306044

[24] Fortune. (n.d.) Fortune: Global 500, Fortune. Available at: https://fortune.com/global500/2019/search/

[25] OECD, (2021). Household disposable income (indicator). doi: 10.1787/dd50eddd-en

[26] Visual Capitalist, (2021) The U.S. Share of the Global Economy Over Time. Available at: https://www.visualcapitalist.com/u-s-share-of-global-economy-over-time/

[27] CPI Inflation Calculator, (2021) Value of $1 from 1960 to 2021. Available at: https://www.in2013dollars.com/us/inflation/1960?amount=1

[28] Fortune Media. (2020 FORTUNE Releases Annual FORTUNE Global 500 List. Available at: https://www.prnewswire.com/news-releases/fortune-releases-annual-fortune-global-500-list-301119164.html

[29] Telford, T. (2019), Income inequality in America is the highest it’s been since Census Bureau started tracking it, data shows. Washington Post, Available at: https://www.washingtonpost.com/business/2019/09/26/income-inequality-america-highest-its-been-since-census-started-tracking-it-data-show/

[30] Time, (2020). The Top 1% of Americans Have Taken $50 Trillion From the Bottom 90%—And That's Made the U.S. Less Secure. Time, Available at: https://time.com/5888024/50-trillion-income-inequality-america/

[31] Vine, D. (2015). Where in the World Is the U.S. Military? Politico. Available at: https://www.politico.com/magazine/story/2015/06/us-military-bases-around-the-world-119321

[32] Statista, (2020). The 15 countries with the highest military spending worldwide in 2019. Statista. Available at: https://www.statista.com/statistics/262742/countries-with-the-highest-military-spending/

[33] Daggett S. (2010). Quadrennial Defense Review 2010: Overview and Implications for National Security Planning, Congressional Research Service. Available at: https://fas.org/sgp/crs/natsec/R41250.pdf

[34] New York Times, (2018). U.S. Military’s Global Edge Has Diminished, Strategy Review Finds. New York Times. Available at: https://www.nytimes.com/2018/11/14/us/politics/defense-strategy-china-russia-.html

[35] Arkin, W. (2019). Fewer Americans want to serve in the military. Cue Pentagon panic, The Guardian. Available at: https://www.theguardian.com/commentisfree/2019/apr/10/fewer-americans-serve-military-pentagon-panic

[36] Synovitz, R. (2003). U.S.: Two Years After 9/11, 'Two Wests' Emerging With Fundamental Differences. Radio Free Europe. Available at: https://www.rferl.org/a/1104302.html

[37] BBC, (2017). Merkel: Europe 'can no longer rely on allies' after Trump and Brexit. BBC. Available at: https://www.bbc.com/news/world-europe-40078183

[38] Sky News, (2018). Donald Trump ridicules Emmanuel Macron with jibe over First and Second World Wars. Sky News. Available at: https://news.sky.com/story/donald-trump-ridicules-emmanuel-macron-with-jibe-over-first-and-second-world-wars-11553193

[39] New York Times, (2021). Biden Tells Allies 'America Is Back,' but Macron and Merkel Push Back. The New York Times. Available at: https://www.nytimes.com/2021/02/19/us/politics/biden-munich-conference.html

[40] Gates, R. (2014). Putin's Challenge to the West. Wall Street Journal. Available at: https://www.wsj.com/articles/SB10001424052702303725404579460183854574284

[41] Kitap Sun, (2000). RUSSIAN NAVY: Feelings of shame, disgrace. Kitap Sun. Available at: https://products.kitsapsun.com/archive/2000/08-22/0006_russian_navy__feelings_of_shame__.html

[42] ibid. 15

[43] Council of Foreign relations, (2020).Timeline: US Relations with China. Council of Foreign Relations. Available at: https://www.cfr.org/timeline/us-relations-china

[44] ibid. 15

[45] The World Bank, (n.d.). World Development Indicators. The World Bank. Available at: https://datatopics.worldbank.org/world-development-indicators/

[46] James, V. (2017). Eric Schmidt says America needs to ‘get its act together’ in AI competition with China. The Verge. Available at: https://www.theverge.com/2017/11/1/16592338/eric-schmidt-google-ai-competition-us-china

[47] Department of Defense, (2020). Military and Security Developments Involving the People’s Republic of China 2020. Department of Defense, Available at: https://media.defense.gov/2020/Sep/01/2002488689/-1/-1/1/2020-DOD-CHINA-MILITARY-POWER-REPORT-FINAL.PDF

[48] ibid. 47

[48] ibid. 47

[49] Johns Hopkins University, (2000). Full Text of Clinton's Speech on China Trade Bill.  Available at: https://www.iatp.org/sites/default/files/Full_Text_of_Clintons_Speech_on_China_Trade_Bi.htm

[50] Zakaria, F. (2020).China-US rivalry poses world's greatest challenge, but we can prosper. The Sunday Morning Herald. Available at: https://www.smh.com.au/national/china-us-rivalry-poses-world-s-greatest-challenge-but-we-can-prosper-20201125-p56hwe.html

[51] Brzezinsky, Z. (1997). The Grand Chessboard. New York: Basic Books. Pp. 210

[52] Haass, R. (1999). What to Do With American Primacy. Foreign Affairs. Available at: https://www.foreignaffairs.com/articles/1999-09-01/what-do-american-primacy

Last modified onبدھ, 30 جون 2021 04:09

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک