الجمعة، 20 محرّم 1446| 2024/07/26
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستان اور جیو اکنامکس کا مغالطہ

وسطی ایشیا کے حصول کی دوڑ

 

شاہ رخ ہمدانی ، پاکستان

 

اپنے قیام سے ہی پاکستان مسلسل خطرات کی زد میں رہا ہے۔ مسخ شدہ پاکستان کا مشرقی حصہ، جس پر 1947 میں سمجھوتہ کیا گیا تھا ، اس کی سرحدیں مشرق میں بلا رکاوٹ ایک دشمن پڑوسی یعنی بھارت کے ساتھ ملتی تھیںتو دوسری طرف اس کے قیام نے جنوبی ایشیاء میں نسلی تعصبات کے خطرات سے متعلق پرانے سوالات کو بھی دوبارہ اٹھا دیا۔ مغربی سرحد کے پار ، افغانستان میں ، اسے پشتون قوم پرست حکومت کا سامنا کرنا پڑا جو برطانوی دَور کی ڈیورنڈ لائن کے اِس پار علاقوں پر دعویٰ کرنے اور پاکستان میں شامل ان تمام علاقوں کو ضم کرنے کے درپے تھی ، جہاں اس کے نسلی رشتہ داربستے تھے۔

 

ریاستِ پاکستان اس وعدے پر قائم کی گئی تھی کہ اسلام اس کی امتیازی خصوصیت ہو گا۔ تاہم ، اس کے قیام کے بعد ، اس کے حکمرانوں نے جلد ہی اپنا راستہ تبدیل کر دیا اور سیکولر گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کو نافذ کرنا جاری رکھا ، جس میں قراردادِ مقاصد کو،آئین و حکمرانی کوایک سطحی اسلامی رنگ دینے کے لیے منظور کر لیا گیا۔ یہ واضح سیکولر فریم ورک اسلام پسند عوام کو نہ بھایا اور بالآخر معاشرے کو ہم آہنگ کرنے میں ناکام رہا۔ اس نے ریاست کو اندرونی اور بیرونی طور پر کمزور کر دیا۔ یہ افسوسناک ہے ، کیونکہ اسلامی نظریات ، جو کہ برصغیر پاک و ہند کے اسلام پسند مسلم عوام کے متحد ہوجانے کی وجہ تھے، وہ ایک وطن حاصل کرنے میں تو کامیاب رہے، تاہم  جب ریاستی ڈھانچے کی تشکیل میں انہی نظریات کو ضائع کر دیا گیا تو  ریاست نے فوری طور پر اپنی ہم آہنگی کھونا شروع کر دی۔ اسلام کو ایک علامتی ریاستی مذہب تک محدود کر دیا گیا ، جس طرح عیسائیت کو مغربی سیکولر ریاستوں میں دیکھا جاسکتا ہے ، حالانکہ اسلام خلافت کے طور پر ایک مکمل ریاستی نظام کی حیثیت رکھتا ہے۔

 

اسلام کے نظریات سے علیحدگی کے بعد ،اس خود ساختہ کمزوری پر قابو پانے کے لیے پاکستان کے حکمرانوں نے ریاست کو عسکری اور معاشی طور پر برقرار رکھنے کے لیے غیر ملکی طاقتوں سے مدد مانگی۔ یہ ایک وجہ تھی کہ پاکستان نے جنرل ایوب کے دَور سے امریکہ کے رضامند اورکار آمد ایجنٹ کے طور پر کام کیا۔ اس کے نتیجے میں امریکہ نے پاکستانی حکمران اشرافیہ کو ،بالخصوص  فوج کو، فوجی اور معاشی انعامات سے نوازا تاکہ وہ اپنی نئی جیتی ہوئی غلام ریاست پر اپنا کنٹرول مضبوط کر سکے۔ اس سے قبل پچاس کی دہائی میں ، پاکستان کو CENTO کی رکنیت کی پیشکش کی گئی تھی ، جو پہلے سے موجود SEATOپر مشتمل ایک فوجی اتحاد تھا ، تا کہ پاکستان کو، جو کہ SETO کا سب سے مغربی رکن تھا،NATO کے سب سے مشرقی رکن یعنی ترکی سے جوڑا جا سکے۔ تقریباایک دہائی کے بعد ، 1964 میں ، امریکہ کی ہدایت پر ، CENTOکے علاقائی ممبران ، پاکستان ، ترکی اور ایران نے ایک الگ علاقائی اقتصادی تنظیم ، علاقائی تعاون برائے ترقی(RCD) تشکیل دی۔ آر سی ڈی کے تحت ، جیسا کہ یہ جانا جاتا تھا ، تین ممالک پر محیط ایک شاہراہ تیار کی گئی۔ وفات پا چکی اوراس وقت کی زندہ سیاسی شخصیات کی تصاویر پر مشتمل کچھ ڈاک ٹکٹ جاری کیے گئے ، نیز تاریخی ورثہ کے مقامات بھی بنائے گئے۔

 

مغربی استعمار کی اطاعت کے سوا کسی  بھی طرح کی مشترکہ سوچ کے فقدان کی وجہ سے یہ تینوں ریاستیں کچھ خاطرخواہ نتائج حاصل نہ کر سکیں۔ 12 غیر اطمینان بخش سالوں کے بعد ، تینوں علاقائی سربراہان نے اپریل 1976 میں ترکی کے شہر، ازمیر میں ایک سربراہی اجلاس منعقد کیا ، جس میں 1964 کے اعلامیے میں ترامیم کی گئیں۔ ازمیر کا معاہدہ 1977 میں آر سی ڈی کے قانونی فریم ورک کے طور پر دستخط کیا گیا تھا ، پھر بھی آر سی ڈی اپنی منزل کی جانب روانہ نہ ہو سکی۔ 1979 میں ، آر سی ڈی کو بالآخر ختم کردیا گیا۔ جسے پہلے گیم چینجر اور علاقائی ترقی کیلئے ایک ناگزیر کے طور پر دکھا یا گیا تھا ،اور جسے لوگوں کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کا ایک ذریعہ قرار دیا گیا ،اسے اب پاکستان اور ایران کی سیاسی اور عسکری اشرافیہ کی یورپ میں  چھٹیوں کے لیے ،اور ترکی کے راستے ایک شاہراہ کے ذریعے یورپ فرار کا راستہ بنا دیا گیا ۔ حال ہی میں آر سی ڈی کے حوالے سے روزنامہ 'دی نیوز' میں ایک خط میں اس کی نشاندہی کی گئی تھی ، "نصف صدی بعد آج ، (آر سی ڈی) شاہراہ سرکاری محفوظ شدہ دستاویزات میں دفن ہے اور آر سی ڈی (خود) ایک پرانے دور کی یاد بن چکی ہے"۔

 

1979 تک ، آر سی ڈی 1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد بالکل ناکارہ ہوچکی تھی۔ تاہم چھ سال بعد،1985 میں ، امریکہ نے ECO یعنی اقتصادی تعاون کی تنظیم کی آڑ میں اپنے علاقائی ایجنٹوں کے ذریعے اس منصوبے کو دوبارہ زندہ کرنے کٍی کوشش کی، جس میں وہی تین ممالک شامل تھے۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ پچھلے اتحاد کی ناکامی کے بعد بھی امریکہ اپنے علاقائی ایجنٹوں کو بار بار اس علاقائی اقتصادی اتحاد بنانے پر کیوں زور دے رہا تھا؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ آر سی ڈی اور اس کے بعد  ای سی او امریکہ کی نظر میں اہم معاشی اقدامات تھے ، تاکہ روس کی جنوب کی جانب مشرق وسطیٰ اور بحر ہند کے گرم پانیوں تک رسائی میں رکاوٹ پیدا ہو۔ امریکہ نے اپنے تین علاقائی ایجنٹوں ، پاکستان ، ایران اور ترکی کو استعمال کرتے ہوئے رکاوٹ ڈالنے والا ایک بلاک بنایا۔ تاہم اس سے پہلے RCD کی طرح ECO بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایجنٹ ایسی قومی ریاستوں پر حکمرانی کرتے ہیں جو باہمی طور پر جزویاختلافی مفادات رکھتی ہیں۔ صرف ایک بڑی طاقت کا حکم ایک وسیع علاقائی منصوبے کو کامیاب بنانے اور علاقائی ایجنٹوں کو مضبوطی سے یکجا کرنے کے لیے کافی نہیں تھا ، یہی وجہ ہے کہ RCD اور ECO مکمل طور پر ناکام رہے۔

جب سوویت یونین کے خلاف امریکہ کی اقتصادی قوت جوبن پر تھی ، امریکہ کی ایک مسابقتی فوجی حکمت عملی زور پکڑ رہی تھی۔ سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں امریکہ کی جنگ چھیڑنے کے لیے ، پاکستان کے حکمرانوں نے اسلامی شناخت پر مبنی قومی شناخت کو فروغ دینے میں کافی وقت صَرف کیا۔ جہاں سیکولر نظریات پہلے ناکام ہو چکے تھے ،وہاں اسلام نے ایک متحد کرنے والے عنصر کے طور پر پاکستان کے تجربے میں قابلِ ذکر کامیابی حاصل کی۔جیسے پہلے اسلامی نظریات برصغیر پاک و ہند کے مسلم عوام کو اسلام کے نام پر ایک وطن کیلئے متحرک کرنے میں کامیاب ہوئے تھے ،اسی طرح اسلامی جذبات نے 80 کی دہائی میں مسلمانوں کی اگلی نسل کو افغانستان میں سوویت یونین کو زبردست شکست دینے کے لیےمتحرک کر دیا۔ آج تک اس پورے منصوبے کو 'ضیاء کی اسلامائزیشن'سے منسوب کرتے ہوئے لبرل حلقے ماتم کرتے ہیں اور منصوبے پر تنقید کے نام پر اسلام کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔

 

پھر 1992 میں، افغان جنگ کے نتیجے میں، دو اہم واقعات رونما ہوئے۔ اندرونی تقسیم کا شکار ہوتے ہوئے ، سوویت یونین بالآخرٹوٹ گیااور وسطی ایشیائی ریاستیں، یعنی ازبکستان ، تاجکستان ، ترکمانستان ، کرغیزستان اور قازقستان، کیسپین سمندر کے مشرق میں آزاد ریاستوں کے طور پر ابھریں۔ ایک بار جب سوویت خطے سے نکل گئے،تو اشتراکی اثر و رسوخ کم ہو گیا تھا ، اور اس کے ساتھ ، اشتراکی نظریے کا غلبہ بھی ختم ہو گیا۔ جلد ہی ، طویل عرصے سے اسلام کے ساتھ منسلک محبت دبی ہوئی عوام میں پوری طاقت کے ساتھ دوبارہ نمودار ہوئی۔ در حقیقت سوویت قبضے سے پہلے،یہ تمام ریاستیں بشمول افغانستان، اسلامی دنیا کا ایک لازمی حصہ تھیں۔ انہیں اجتماعی طور پر خراسان کی ولایت کہا جاتا تھا۔ قومی شناخت اور قومی نظریے سے پاک اس خطے میں اسلام نے وسیع خلا کو آسانی سے پُر کیا۔ وسطی ایشیاء کے معاشروں نے اسلام کو ایک نظریے کے طور پر تیزی سے قبول کرنا شروع کر دیا ،جس سے ان کے جابر حکمران خوش نہیں تھے ، جو خود سوویت دور ہی کے باقیات تھے۔

 

1990 کی دہائی میں ان سماجی و سیاسی پیش رفتوں کے ساتھ ساتھ ، کیسپین سمندر کی تہہ کے ارضیاتی معائنے سے پتہ چلا کہ اس میں ہائیڈرو کاربن کے ذخائر موجود ہیں ، جو خلیج فارس کے ذخائر کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ جن ریاستوں کے پاس یہ وسائل تھے ، یعنی ترکمانستان ، ازبکستان اور قازقستان، وہ مکمل طور پر خشکی سے گھری ہوئی تھیں۔ ترکی ، پاکستان اور ایران کے سابق آر سی ڈی اور موجودہ ای سی او ممبران کو اُن کے استعماری آقاؤں نے ،وسطی ایشیاء میں موجود سیاسی عدم یقینی کیِ اس  صورت حال میں،حقیقی طاقت کے خلا کو پُر کرنے کیلئے استعمال کرنے کا کام سونپا ،تاکہ وہ توانائی کے وسائل کو ہڑپ سکیں۔ استعمار کے لیے ان ممالک کی افادیت یہ تھی کہ صنعتی دنیا کو ہائیڈرو کاربن پہنچانے کےلیے ممکنہ راستے یہی ECO ریاستیں  مہیا کرتی تھیں۔

اس کا ادراک کرتے ہوئے ، امریکہ نے 1992 میں ، سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ، ای سی او کی توسیع کے لیے حوصلہ افزائی کی  تاکہ افغانستان کے ساتھ ساتھ نئی ابھرتی ہوئی وسطی ایشیائی ریاستوں یعنی قازقستان ، کرغیزستان ، تاجکستان ، ترکمانستان اور ازبکستان کو بھی اس میں شامل کیا جا سکے ۔ اس کا مبینہ ہدف خطے میں ایک  نئی پائپ لائن اور پورے علاقے میں سامان اور خدمات کے لیے ایک مشترکہ منڈی متعارف کرانا تھا۔ تاہم ، دراصل یہ سب وسطی ایشیائی ریاستوں کو اسٹریٹجک مقاصد کے لیے دوبارہ منظم کرنے کے طویل مدتی امریکی ہدف کے تحت تھا۔ لہذا ، وسطی ایشیائی ریاستوں کی طرف دوڑ، ای سی او کے تین اصل ارکان کے درمیان کسی حد تک مقابلہ بن گئی۔ اسلام کی وجہ سے ، وسطی ایشیا کامشرق وسطیٰ اور برصغیر پاک و ہند کی تاریخ سے گہرا تعلق تھا۔ تاہم ، تینوں ریاستوں نے اپنے مختلف حالات کے مطابق مختلف نظریات کو ترجیح دی۔ ترکی نے ترک نظریات برآمد کرکے وسطی ایشیائی روابط کو مضبوط بنانے پر غور کیا ، کیونکہ وسطی ایشیا کی بیشتر ریاستیں ترک تھیں ، تاہم وسطی ایشیائی مرکز سے اس کا فاصلہ ایک رکاوٹ بن گیا۔ ایران نے وسطی ایشیا کے ساتھ اپنے گہرے تاریخی تعلقات کو فروغ دینے میں دلچسپی لی۔ تاہم ، وسطی ایشیائی آبادی کے سنی اسلام کے مقابلے میں ایرانیوں کی شیعہ مسلک سے وابستگی نے اس میں رکاوٹ ڈالی۔ اس سےپاکستان امریکہ کے لیے واحد قابلِ عمل آپشن کے طور پر بچ گیا، کیونکہ یہ سنی اسلام پر کاربند بھی تھا اور ساتھ ساتھ وسطی ایشیائی ریاستوں کے قریب بھی تھا۔ اس کے علاوہ ، افغانستان پر سوویت قبضے کے خاتمے کے بعد ، پاکستان کے پاس خطے میں وسیع نیٹ ورک موجود تھا ، جو جنگ کے دوران تیار ہوا تھا۔ چنانچہ ترکی اور ایران کے مقابلے میں ، پاکستان امریکی عزائم کو پورا کرنے کے لیے موزوں ترین ایجنٹ بن گیا۔

 

کسی بھی آزاد اسلامی سیاستدان کے لیے وسطی ایشیا میں طاقت کا خلا اور پاکستان کی اسٹریٹجک اہمیت ایک تاریخی موقع کی حیثیت رکھتی ہے۔ تاہم پاکستانی حکمرانوں کی تنگ نظری کی وجہ سے یہ موقع ضائع ہو گیا۔ خلافت کے قیام کے اعلان اور اس کے نتیجے میں پورے خطے کو اسلام کے جھنڈے تلے یکجا کر کے وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ افغانستان کے ضم ہونے سے جو کچھ حاصل کیا جا سکتا تھا ، اسے پاکستان کی قیادت نے منافع بخش تجارت کرنے اور کپاس ، دواسازی ، مواصلات ، زراعت ، شاہراہوں کے قیام اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ سیٹلائٹ مواصلات قائم کرنے کے مشترکہ منصوبوں تک محدود کر دیا ۔ یہ سب واشنگٹن کی رہنمائی میں ہوا۔ تجارت ، سائنس ، تعلیم اور سیاحت سے شروع ہونے والے ان منضوبوں کے بعد، ترکمان پائپ لائن کا منصوبہ آیا، جسے بعد میں TAPI پائپ لائن کہا گیا ۔ اس پائپ لائن کو محفوظ بنانا امریکہ کی 2001 میں افغانستان پر نائن الیون کے حملے کی ایک وجہ تھی۔ ترکمان پائپ لائن کے بعد پشاور سے شروع ہو کر جلال آباد ، کابل ، مزار شریف سے ہوتا ہوا تاشقند تک ایک تجارتی راستہ کھینچنے کا تصور بھی اسی کے ساتھ ساتھ پیش کیا گیا تھا۔

 

تاہم ، جیسا کہ اس سے پہلے آر سی ڈی میں بھی ، ایک یکجہتی وژن کا فقدان تھا ، اس مرتبہ بھی وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ پاکستان کا سہانا سفر بہت جلد ختم ہو گیا۔ افغان راستے کو محفوظ بنانے کے لیے پاکستان کی طرف سے طالبان کی پشت پناہی سے  وسطی ایشیائی ریاستوں نے خطرہ محسوس کیا اور روس کے ساتھ سوویت دور کے سلامتی اور معاشی تعلقات کو بحال کیا۔ یہاں تک کہ پاکستان پر افغانستان میں مجاہدین کی حمایت کرنے کا الزام لگانے کے بعد انہوں نے پاکستان کے ساتھ سیاسی اور معاشی تعلقات کو کم کردیا۔ پاکستانی، ترک اور ایرانی رہنما ایک بار پھر یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ اقتصادی اتحاد اور رابطے کے منصوبے کبھی بھی پھل نہیں دیں گے ، کیونکہ یہ سب استعماری منصوبے ہیں۔ ان کے پاس علاقائی منصوبے میں ایک بڑی استعماری طاقت کی حمایت کرنے کے علاوہ کسی بھی  طرح کے مشترکہ وژن کا فقدان تھا۔ معاشی منصوبے ایک مضبوط سٹریٹجی کے تحت ہی کام کرتے ہیں۔ پاکستان کے تمام علاقائی رابطے کے منصوبوں ، آر سی ڈی ، ای سی او ، اور وسطی ایشیا کی طرف توسیع کے موجودہ معاملے میں ، اسٹریٹیجک سوچ امریکہ سے آئی تھی۔ تو رہنما کیسے یہ امید لگا سکتے ہیں کہ استعماری علاقائی منصوبے استعماری طاقتوں کو فائدہ پہنچانے کے علاوہ کبھی پاکستان کے لیے بھی مفید ہوں گے؟

ماضی کی ناکامیوں سے عاجز آ کر اس کے بعد پاکستان کو امریکہ نے اجازت دی کہ وہ قدرے نرم پالیسی اپنائے۔ اس نے گوادر اور کراچی کی اپنی گہرے پانی کی بندرگاہوں کو چین کے لیے مثالی جہاز رانی کے مراکز کے طور پر فروخت کیا جو سنکیانگ کو جوڑتی ہیں اور جابر چینی ریاست کو بحیرہ عرب تک رسائی فراہم کرتی ہیں۔ جس طرح TAPI پائپ لائن کو نوے کی دہائی میں وسطی ایشیا کی جانب دوڑ کے لیے تاج میں جڑا ہیرا تصور کیا گیا تھا ، اسی طرح چین پاکستان اقتصادی راہداری کا منصوبہ 2015 میں پاکستان کے لیے ایک اور ’گیم چینجر‘ کے طور پر شروع کیا گیا تھا۔ یہ کھربوں ڈالر کے چینی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) کا مرکزی حصہ تھا۔

 

62 ارب امریکی ڈالر اور درجنوں توانائی کے منصوبوں کا وعدہ کرنے کے بعد ، سی پیک کو چین کی سب سے بڑی بیرونی سرمایہ کاری کے طور پر سراہا گیا۔ یہ 1970 سے پاکستان میں ہونے والی دیگر تمام غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری کی طرح تھی ، جو سڑکوں ، پلوں ، پائپ لائنوں اور ریلوے کے نیٹ ورک پر مشتمل ہے ، جو چین کے کاشغر سے ہوتے ہوئے پاکستان کے ہر بڑے شہر سے گزرتا ہے اور گوادر اور کراچی کی گہرے پانی کی بندرگاہوں سے منسلک ہوتا ہے ، اوراس کی کل لمبائی 2700 کلومیٹر ہے۔ سیاسی نعروں کے ساتھ پاکستان اور چین کو ہر موسم میں برقرار رہنے والے تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے ، ان کے’’ پہاڑوں سے اونچے ، سمندر سے گہرے اور شہد سے میٹھے‘‘ ہونے کی پزیرائی کی گئی جس سے دونوں ریاستوں نے اپنے اپنے مفادات کو محفوظ بنانے کی کوشش کی۔ چین کے لیے ، CPEC بحر ہند تک رسائی کا آسان راستہ ہے ، جس سےیہ جنوبی چین کے سمندر میں ممکنہ رکاوٹوں سے بچ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ، چین اپنے دور دراز مغربی شہروں ، کاشغر اور ارُمچی کو ترقی دینے کی امید کر رہا ہے۔ بی آر آئی کے دیگر منصوبوں کے کسی حد تک برخلاف ، سی پیک کو جنوبی اور وسطی ایشیائی خطے میں چینی اثر و رسوخ بڑھانے کے ذریعے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے لیے اس نے نام نہاد اورغیر درکار غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری فراہم کی۔ گوادر میں ، بحیرہ عرب کےدہانے پر ، حال ہی میں مکمل ہونے والے خود ستائشی منصوبوں جیسے گوادر اسٹیڈیم کے ساتھ ساتھ ایک نیا ہوائی اڈہ ، موٹر وے اور ریل پٹری تعمیر کیے جا رہے ہیں ۔ گوادر میں قدرتی گہرے سمندر کی بندرگاہ کو نئے مال بردار جہازوں کے لیے دوبارہ تعمیر کیا گیا ، جس سے بندرگاہ کی گنجائش دس لاکھ ٹن کی معمولی حدسے بڑھ کر 40 کروڑ ٹن تک پہنچ گئی۔

 

پاکستان کی قیادت نے دعویٰ کیا تھاکہ یہ منصوبہ معاشی ترقی کو جنم دے گا۔ منصوبے کے ذریعے ملک کے مغربی علاقوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ، قیادت نے دعوی کیا کہ اس سے نظر انداز شدہ اور پسماندہ بلوچستان میں مجموعی طور پر زندگی کے حالات کو بہتر بنانے میں اور بڑھتی  بغاوتوں کو قابو کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ نیز ، صرف توانائی کے شعبے میں 30 ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کے ذریعے ، پاکستان اپنی 7000 میگاواٹ توانائی کی کمی کو دور کرنے اور مجموعی طور پر 3 فیصد اضافی پیداوار حاصل کرنے کی امید کر رہا تھا۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ پچھلے پانچ سالوں سے ، CPECکو پاکستان کی تمام بیماریوں کے علاج کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا ، جس نے معیشت کو متحرک کر نا تھا ، توانائی کے شعبے میں اصلاحات پیدا کرنی تھی اور بیک وقت روزگار بھی پیدا کرنا تھا ۔ تاہم تمام سابقہ ​​جیو-علاقائی اقتصادی منصوبوں جیسے ، آر سی ڈی ، ای سی او کی طرح اب سی پیک نے بھی اپنا اثر کھونا شروع کر دیا ہے ، کیونکہ امریکہ نے چین کی طرف اپنی حکمت عملی کو تبدیل کر لیا ہے۔ برطانوی اخبار "دی ڈپلومیٹ" کے مطابق ، "اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستان میں CPEC منصوبوں کی رفتار سُست ہو رہی ہے ترقی میں سست رفتاری کے باعث کئی اطلاعات کے مطابق ملک میں  CPEC  تقریباً جمود کا شکار ہو چکا ہے"۔ بلومبرگ کی ایک ویڈیو رپورٹ کے مطابق یہ کہا گیا ہے کہ ، "چین کا نمایاں ترین بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ کیسے جمود کا شکار ہو گیا"۔ بنیادی وجہ یہ بتائی گئی کہ چینی حکام مبینہ طور پر پاکستان کے بڑھتے ہوئے قرض کو ادا کرنے کی صلاحیت پر تشویش میں ہیں ، جبکہ COVID-19 کی عالمی صورتحال کے پیشِ نظر ، چین بی آر آئی منصوبے میں اپنی عالمی سرمایہ کاری کو کم کرنا چاہتا ہے۔

CPEC کو اب ناکام علاقائی اقتصادی منصوبوں کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ پاکستانی حکام بار بار اصرار کرتے رہے ہیں کہ قرضوں کی صورتحال قابو میں ہے ، لیکن ایسا نہیں ہے ، کیونکہ سود پر ادائیگیاں غبارے کی طرح پھیل رہی ہیں۔ چینی حکام کو غصہ دلانے کے ڈر سے ، حکمرانوں نے سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کی حالتِ زار کو بھی نظر انداز کر دیا۔ انہوں نے ملک کے اہم انفراسٹرکچر کو چین کے حوالے کر کے ملکی خودمختاری کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ بلوچ شورش کو روکنے کے بجائے ، اس منصوبے نے درحقیقت چینی مداخلت کے خلاف ناراضگی پیدا کرکے اسے مزید بڑھا دیا ہے۔ اس منصوبے کی وجہ سے سات سال گزرنے کے بعد بھی ملک میں کوئی خاطرخواہ نوکریاں پیدا نہیں ہوئی ہیں۔ مجموعی طور پر ، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ CPEC کو اب علاقائی اقتصادی راہداری کے اُن منصوبوں کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے جو مایوس کرنے میں ناکام نہیں رہے ہیں۔ CPEC اپنی نوعیت کا ایک استعماری منصوبہ ہے۔ چین کے لیے اس کے اسٹریٹجک اور معاشی فوائد پاکستان کے لیے معمولی فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے ،تو یہ منصوبہ اس وقت اس کی چین کے لیے پالیسی کے بالکل مطابق ہے ، یعنی چین کو اقتصادی منصوبوں میں مصروف رکھنا تاکہ چین اسی خطے میں سرمایہ کاری کرتا رہے ، اور بحرالکاہل کنارے کے منظرنامے میں زیادہ جارحانہ انداز نہ اپنائے۔

 

شمال-جنوبی CPEC منصوبے کی واضح ناکامی اور چین کے حوالے سے امریکہ کی نئی حکمتِ عملی کے پیش نظر ، پاکستان کے حکمران اب مشرقی مغربی راہداری ،جو پاکستان اور افغانستان کے راستے بھارت کو وسطی ایشیا سے جوڑے گی،  کو دوبارہ بحال کرنے کے بارے میں بات چیت کے لیے کود پڑے ہیں ۔ درحقیقت پاکستان کی قیادت نے چین کے عمودی علاقائی رابطے کے برعکس اُفقیhorizontal علاقائی رابطے کے بارے میں بحث امریکی ضروریات کے مطابق شروع کی ہے۔ امریکہ نے چین کے بارے میں اپنے ردعمل کو دوبارہ ترتیب دیا ہے ، اور اسے خطے میں شراکت دار کے طور پر قبول کرنے سے آگے بڑھتے ہوئے ، اس پر قابو پانے کے لیے زیادہ جارحانہ موقف اختیار کیا ہے۔ عمران خان کا ازبکستان کا حالیہ دورہ ، نیز امریکی حکام کا یہ دعویٰ کہ امریکہ پاکستان ، افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے درمیان اقتصادی شراکت داری قائم کرنا چاہتا ہے ، دونوں اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکہ افغانستان سے فوجی انخلاء کے بعد بھی وہاں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ اور اس کے لیے وہ اپنے بے نقاب اثر و رسوخ کو مستحکم کرتے ہوئے ، مقامی مزاحمت پر فتح حاصل کرنے کے لیے معاشی داؤ استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ماضی کے تجربے کے مطابق ، یہ ایک مردہ گھوڑے کو چابک مارنے سے کچھ زیادہ نہیں۔ اس جغرافیائی معاشی  کوششوں سے ایجنٹ حکمرانوں کی طرف سے خطے کے لیےدوبارہ تشکیل شدہ استعماری منصوبے پر عملدرآمد کےسوا کچھ حاصل نہیں ہوگا  جو پاکستان کو مزید کمزور کر دےگا۔ سیاسی اور عسکری قیادت میں بدعنوان افراد معاشی فوائد اور سیاسی برتری حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں ، جب کہ عوام کو بہت زیادہ افراط و تفریط کے بعد تلخ مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔جغرافیائی اقتصادیات مجموعی طور پر ایک ناکام حکمت عملی رہی ہے، صرف مسلم دنیا کے لیے نہیں بلکہ یورپی یونین بھی ایک بہت بڑی ناکامی ہے ، جس نے یورپی ریاستوں کو عالمی سطح پر پسماندہ مقام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

 

پاکستان کے نقطہ نظر میں ایک بنیادی خرابییہ ہے کہ جب بھی یہ کسی بھی استعماری جغرافیائی اقتصادی علاقائی رابطہ منصوبے کا حصہ بنتا ہے ، چاہے وہ RCD ہو، ECO ہو ، CPEC ہو یا ابھی تک نام نہاد جغرافیائی اقتصادی مشرق مغرب راہداری منصوبہ ، پاکستان کی قیادت یہ سمجھنے میں ناکام رہی ہے کہ طاقت اور اثر و رسوخ اکیلے اقتصادی رابطے کے ذریعے حاصل نہیں کیا جاتا ، بلکہ ایک مربوط ، ہم آہنگ طاقت کے ذریعے حاصل کیے جاتا ہے ، جس میں معاشی طاقت صرف ایک جزو ہے۔ دوسرے الفاظ میں ، بنیادی خامی یہ ہے کہ پاکستان کی تمام کوششوں میں اس کی سرحدوں کے اندر اور باہر دونوں صورتوں میں ایک یکجہتی سوچ کا فقدان ہے۔ قومی ریاست کے ماڈل کی پابندی بذاتِ خود کئی محاذوں پر حکمرانوں کو معذور کر دیتی ہے۔ بہت سے خطوں میں ایک پیدائشی عدم استحکام ہے جس پر کوئی بھی قومی ریاست قابو نہیں پا سکتی ، جب وہ اپنے راستے پر چلنے کی کوشش کرتی ہے۔ ہر قومی ریاست وقت کے ساتھ اور بدلتے ہوئے حالات میں اپنے مفادات کو دوسروں کے مفادات کے خلاف کھڑا کرتے ہوئے اپنی سرحدوں کے اندر یا باہر کے حالات پر کبھی مکمل قابو نہیں رکھ پاتی ۔ پاکستان میں پالیسی سازوں نے جس چیز کو نظر انداز کیا وہ یہ ہے کہ اسلامی حکمرانی ہی وہ وجہ تھی جس کے باعث وسطی ایشیائی ریاستوں کے ماضی میں برصغیر پاک و ہند کے ساتھ اتنے مضبوط روابط تھے ، جو دورِ حاضر میں نہیں ملتے۔ اسلام کو مکمل طور پر نافذ کیا گیا تھا ، کوئی قومی ریاستی حدود نہیں تھیں کہ جو خراسان کے ولایت اور ہند کے ولایت کے مابین سامان اور خدمات کے تبادلے کو روک پاتیں۔ اسلام نے مسلم علاقوں کے اندر ایک استحکام پیدا کرنے والی قوت کے طور پر کام کیا ، تجارتی راستوں کی حفاظت اور اہمیت کو یقینی بنایا ، چاہے وہ خلافت کی ولایات میں ہو ، یا اس کے اثر و رسوخ کے باہر اسے دیگر علاقوں سے جوڑنے والے راستے ، جیسے قدیم شاہراہ ریشم۔ اسلام نے ماضی کے والیوں کو ان کے موجودہ معذور مغربی ایجنٹ ہم منصبوں کے مقابلے میں بہت زیادہ اختیارات دیے  جو ان کی کئی گنا زیادہ کامیابیوں کا باعث بنا۔

 

افغانستان سے سوویت افواج کے انخلا نے پاکستان کو ایک سنہری موقع پیش کیا ، جسے ایجنٹ حکمرانوں نے استعماری سوچ پر عمل درآمد کرتے ہوئے ضائع کر دیا۔ آج افغانستان سے امریکی فوجیوں کا حالیہ انخلا بھی اسی طرح کا موقع فراہم کرتا ہے۔ تاہم ، یہ موقع بھی آسانی سے ضائع ہو سکتا ہے ، کیونکہ اسلام علاقائی سوچ کی بنیاد نہیں ہے۔ لہٰذا اس خطے کی بے پناہ معاشی اور سیاسی صلاحیتوں سے مکمل طور پر فائدہ اٹھانے کے لیے ، اسلام کو دوبارہ حکمرانی کے طور پر اختیار کرنا ہوگا۔ اس خطے کے مسلمانوں کے ماضی کے تجربے کو دیکھتے ہوئے ، جب بھی اسلام کسی تحریک کی بنیاد بنا ، ہم اسلام کے نام پر ایک نیا وطن حاصل کرنے سے لے کر ایک سپر پاور کو شکست دینے تک بظاہر ناممکن سمجھنے جانے والے معرکے سرانجام دینے میں کامیاب رہے۔ تاہم  اسلام کو صرف ایک نعرے تک محدود رکھنے اور جغرافیائی اقتصادیات پر علاقائی منصوبوں کو چلانے کے بجائے ، اسے ایک آئیڈیالوجی کے طور پر زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی علاقائی منصوبے کے پیچھے محرک قوت اسلام کو ہونا چاہیے ، جو صرف اس وقت ہو سکتا ہے جب اسے خلافت کی شکل میں مکمل طور پر نافذ کیا جائے۔ اگر اللہ نے چاہا تو پاکستان خلافت کا نقطہ آغاز بنے گا، جس کے بعد خطے کے ملحقہ علاقوں کو نسبتاًآسانی سے ضم کیا جا سکتا ہے جو کہ افغانستان ، ازبکستان ، ترکمانستان ، تاجکستان اور کرغیزستان سے لے کر قازقستان تک  اور پھر سائبیریا کے میدانوں  سے بحیرہ عرب تک پھیلا ہوا ہے۔ اس وسیع و عریض ، براعظم کے حجم کی خلافت میں ، اسلام ایک وحدت بخشنے والی قوت کے ساتھ ساتھ استحکام دینے والی قوت کے طور پر بھی کام کرے گا۔ اسلام شکایات کی اصل وجہ کو دور کرتے ہوئے قدرتی طور پر کسی بھی شورش کو ختم کرے گا اور اس کی جگہ ایسے مقصد کو فروغ دے گا جو دنیا کی تنگ حدود سے باہر کبھی نہ ختم ہونے والی آخرت تک محیط ہو گا۔ مسلمانوں کے خلیفہ کو پالیسی سازی کے حوالے سے بے پناہ اختیار حاصل ہوگا۔ موجودہ تقسیم شدہ قومی ریاستوں کے مقابلے میں خلافت بہت زیادہ اسٹریٹجک بالادستی کے ساتھ ساتھ افرادی قوت ، وسائل ، سرمایہ کاری ​​اور رسد میں نمایاں فروغ حاصل کرے گی۔ یہ اپنے قریب موجود کسی بھی طاقت، چاہے چین ہو ، روس ہو یا بھارت، سب کے مقابلے میں براہ راست کھڑی ہو سکے گی۔ مزید یہ کہ اسلامی خلافت کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ آئیڈیالوجی کی بنیاد پر واحد طاقت ہونے کا سب سے زیادہ فائدہ ہوگا۔ پس جو لوگ اسلام کے غلبے کے نظریے سے مخلص  ہیں،انھیں چاہیے کہ وہ نبوت کےنقشِ قدم پر خلافت کے دوبارہ قیام کے لیے کام کریں۔

\

حوالہ جات:

1. جب پاکستان نے سپر پاور بننے کی کوشش کی۔

https://www.youtube.com/watch?v=xipS91mvXEE

 

2. چین پاکستان اقتصادی راہداری کی جغرافیائی اقتصادیات۔

https://www.youtube.com/watch?v=p3P3phdEibY

 

3. ۔ RCD کی یادیں

https://www.thenews.com.pk/print/90319-Memories-of-the-RCD

 

4. پاکستان ، افغانستان ، ازبکستان اور امریکہ علاقائی تعاون کے لیے پلیٹ فارم بنانے کے لیے شراکت دار ہیں

https://www.dawn.com/news/1635424

Last modified onپیر, 13 دسمبر 2021 21:34

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک