الثلاثاء، 06 شوال 1445| 2024/04/16
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

ترقی اور ثقافتی تجدید (حصہ دوئم)

 

 لطفی ابو محمد۔ الجزائر


 

نشاۃ ثانیہ کے تناظر میں سر بستہ راز کی تلاش میں یورپی مکتبۂ فکر کے فلسفیوں اور مفکرین نے ترقی یافتہ ریاستوں کی خوشحالی کا سبب آزادی کو قرار دیا ہے جس سے انسان اس کے جامع مفہوم کے ساتھ مستفید ہو رہا ہے۔ان کے خیال میں یہی وہ مرہم ہے جو فرد کی پوشیدہ تخلیقی صلاحیتیں اُجاگر کرتاہےاور اس کو ترقی و خوشحالی سے ہمکنار کردیتا ہے۔ وہ غلامی ،استبداد اور مختلف قسم کی بندشوں کو تخلیق و ایجاد کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں جو انسانوں کو حتمی طور پر زوال، پسماندگی اور تنزلی کی طرف لے جاتی ہیں۔ اسی بنیاد پر انہیں یہ یقین ہوگیا کہ رہبانیت اور پاپائیت اور روحانی دنیا کہلائے جانے والے غیرمحسوس اُمور کے ساتھ تعلق کی وجہ سے قوموں کی تنزلی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ ان کی رائے میں روحانی خیالات و رُجحانات حرکت سے بھر پور زندگی، ترقی اور حقیقت سے دوری کا باعث بنتے ہیں ۔اپنی اس فکر کے ثبوت کے طور پر انھوں نے وہی کچھ پیش کیا جو قرونِ وسطیٰ کے دوران یورپ میں رونما ہوا ، جب یورپ مسیحیت کو اپنائے ہوئے تھا،جہاں یورپی مذہبی لوگ یہ سوچتے تھے کہ مذہب اور ترقی میں ٹکراؤ ہے ۔بالفاظ دیگر روح اور مادہ کے درمیان مکمل تضاد ہے۔

 

یورپی مفکر وِل ڈیورانٹ یورپ کے مذہب پسند لوگوں کے اسی رجحان پر بحث کرتے ہوئے "تہذیب کا قصہ" کی جلد 3 میں "قیصر اور مسیح" کے حوالے سے کہتا ہے: "یہ سوچ کہ تمام انسانیت آدم کے (دنیا میں) گر جانے سے داغ دار ہو گئی اور جلد ہی اس دنیا کا اختتام دائمی سزا و جزا کے فیصلے پر ہو گا۔ اس سوچ نے گناہوں کے احساس کو ایک نئے درجے پر پہنچا دیا۔بہت سے مسیحیوں نے اپنی پوری توجہ اس پر لگا رکھی ہے کہ وہ حساب وکتاب کے بھیانک دن کا استقبال گناہوں کے میل کچیل سے پاک صاف ہوکر کریں۔ چنانچہ انہیں اپنے حواس کی ہر لذت میں شیطانی بہکاوا نظر آتا ہے اور اسی لیے وہ جسمانی دنیا سے نفرت کرنے لگے اور روزہ اور جسمانی ایذا ئیں جھیل کر شہوتوں کو توڑنے کی کوشش کرنے لگے، موسیقی ، میدے کی روٹی ، اجنبی شراب، گرم حمام اور داڑھی منڈوانے کو شک کی نظر سے دیکھتے تھے، ان تمام اعمال میں اللہ تعالیٰ کے واضح اور کھلے ارادے کی اہانت سمجھتے تھے"[1]۔ 

 


مذہبی اصلاح پسند لیڈر" مارٹن لوتھر"جسے پروٹسٹنٹ فرقے کا روحانی باپ سمجھا جاتا ہے،اس نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ سیکولرازم عمل کے معیار کیلئے وحی پر انسانی عقل کوترجیح دیتا ہے۔ چنانچہ وہ اس بنیاد پر عقل پر شدید تنقید کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ اس محدود حقیقت میں عقل محض حقیقت پسند ہے اور روحانی معاملات میں عقل "اندھی اور تاریک" ہے۔ وہ کہتا ہے،"عقل شیطان کی سب سے بڑی بازاری عورت ہے؛ اپنی فطرت اور طریقے کے اعتبار سے وہ ایک بازاری عورت ہے، وہ ایک طوائف ہے، شیطان کی تعینات کی گئی طوائف، جسے خارش اور جزام کھا چکے ہیں اور جسے پیروں تلے روند کر تباہ کر دینا چاہیے، اسے اور اس کی دانائی کو۔۔۔اس کے چہرے پر گوبر پھینک کر اسے بدنما کر دو۔ اسے روحانی غسل (baptism) میں ڈوبا دینا چاہیے۔۔۔اس کے ساتھ برا سے برا ہونا چاہیے، گھر کی گندی ترین جگہ پر بند کر دینا چاہیے"[2]۔اس نے خبردار کیا کہ کیسے عقل خدا کے احکامات کو پسِ پشت ڈال دیتی ہے، اس نے کہا،"سود، شراب خوری، زنا ۔۔۔یہ جرائم واضح ہیں اور دنیا جانتی ہے کہ یہ گناہ کے کام ہیں، لیکن شیطان کی یہ دلہن،'عقل'،ایک تابعدار باندی کی طرح اس سے انکار کرتی ہے اور اپنے آپ کو عقلمند سمجھتی ہے اور سمجھتی ہے کہ وہ جو بھی کہتی ہے وہ روح القدس سے آ رہا ہے"۔

 

یورپی تاریخ کے فلسفیوں نے نتیجہ نکالاکہ قرونِ وسطیٰ کے زوال کا سبب مذہب کا دنیاوی معاملات پر حاوی ہو جانا تھا۔ اس کے علاوہ یورپ کی پسماندگی پر ان کے پاس نمایاں شواہد میں سے جاگیردارانہ نظام بھی تھا ، جس نے ظلم وجبر کی انتہاء کردی تھی،جس کے آگے یورپی لوگ سر خم کیے ہوئے تھے اور اس سوچ پر قانع ہوکر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تھے کہ بادشاہ کو اللہ کی طرف سے سب کچھ سپرد کیا جاتا ہے ۔ مثلاً ڈیورانٹ نے اشارہ دیا کہ اُس زمانے کے لوگوں کی نظر میں بادشاہ اللہ کا نائب ہوا کرتا تھا، اور اپنے اسی خدائی حق کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں پر حکومت کرتا تھا، بایں معنی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے حکومت کرنے کا حق دیا ہے، اس کام کے لیے اسے چن لیا ہے،اور اسی وجہ سے اسے حکومت سپرد کی ہے، اس نے کہا،"سخت ظلم کے باوجود عیسائیوں نے شاید ہی کبھی ریاست کے خلاف بغاوت کی ہو، ان کے اساتذہ عوامی طاقتوں کے آگے جھکنے کی ترغیب دیتے اور بادشاہ کے الہامی حقوق سکھایا کرتے تھے"[3]۔ اسی طرح یہ فلسفی یورپی تاریخ کو دلیل بناتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور اپنی دانست میں اسی کو پوری دنیا کی تاریخ سمجھتے ہیں،لہٰذا وہ نشاۃ ثانیہ کے تجزیے کا آغاز انہی واقعات سے کرتے ہیں جو کیتھولک کلیسا اور اصلاح پسند انقلابیوں کے درمیان بر پا ہونے والی کشمکش کا سبب بنے تھے، کیتھولک کلیسا نےمعاشرے پر تسلط حاصل کیا تھا اور اپنے رنگ میں اس کو رنگنے کی کوشش میں جتا ہواتھا ، جبکہ اصلاح پسند انقلابی اس تسلط کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔ ان کا بنیادی مقصد کلیسائی آسیب سے چھٹکارا حاصل کرنا تھا۔ اس فکر کے نمایا ں ترین داعی ہلڈرچ زونگلی تھا جو پروٹسٹنٹ اصلاح پسندوں کا ایک لیڈر تھا، جس نے اعلان کیا تھا کہ مذہبی اتھارٹی کی، جس کو کلیسا کہا جاتا ہے ،مقدس کتابوں اور مسیحی تعلیمات میں کوئی اساس ہی نہیں۔اس نے کہا،"پادریوں کی پشت پناہی پر موجود حکومتی اقتدار عوامی حکومت کا ہے جس کی اطاعت تمام عیسائیوں پر لازم ہے،اگر وہ خدا کے خلاف کوئی عمل نہیں کرتے"[4]۔ 

 

معاملے میں شدت لانے کا بڑا سبب وہ مطالبات تھے جو پیشوائی سوچ کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنے والے فلسفیوں نے اُٹھائے ، انہوں نے اس فکر کو یورپ کے لیے وبا قرار دیا ۔ ان کی دعوت کا محور دین کی زندگی ، معاشرے اور ریاست سے جدائی قرار پایا ۔ پس مشہور اطالوی دانشور میکاولی (وفات 1527 ء) کے خیال میں مسیحیت نے اپنے بہترین حالات میں غلط اخلاق سکھائے۔ اس کی رائے کے مطابق مسیحیت نے جھکاؤ ، ذلت ، جسم کے حقوق کا انکاراورایک کے بعد دوسرے تھپڑ کے لیے اپنا دوسرا گال آگے کرنے کی تعلیم دی،اس طرح انسان کی خوشیوں اور کامیابیوں کی اُمنگوں کو موت کے بعد والی زندگی میں قید کردیا۔ میکاولی کے اخلاق سے متعلق خیالات کلی طور پر عیسائیت کے ذاتی کردارسے ٹکراتے ہیں۔ وہ انسانوں کی بلند نظری اور زمین میں با عزت زندگی گزارنے سے متاثر تھا۔ اس کے خیال میں انسان کی بلند نظری انسانی جان کی اہانت سے نہیں بلکہ اس کی عزت و فخر میں ہے"[5]۔

 

اسی طرح والٹایئر (متوفی1778ء) ، جس نے اپنی تاریخی کتابوں میں معاشرے کی ترقی سے متعلق انجیل اور مسیح کے نظریات کو آڑے ہاتھوں لیا ، اور انسانی تاریخ کے لیے رہنما اصول دیے۔ اس کی نظر میں فلسفۂ تاریخ ایک بنیادی فکر پر قائم ہے۔ وہ بنیادی فکر معاشرے کی ترقی کی فکر ہے جو خدا کی مرضی سے آزادی کے حصول میں مضمر ہے۔ اس نے پاپائیت یا جس کو وہ خیالی دینی احوال کہتا ہے، کا مقابلہ کیا۔اس نے عیسائیت اور کیتھولک کلیسا کو ترقی کا بنیادی دشمن سمجھ کر اپنے تمسخر کا اصل نشانہ بنایا[6]۔ 

 

 جین جیک روسو کو لیں ، جس کی کتاب " معاہدۂ عمرانی"(The Social Contract) فرانس کے بڑے انقلاب کا ستون سمجھی جاتی ہے بلکہ انقلاب کے بعد فرانسیسیوں کی نظر میں اس نے انجیل کی حیثیت اختیار کر لی ۔ روسو ریاست میں حکمرانی کیلئے اللہ پر ایمان کی مگر وحی کے انکار کی دعوت دیتا تھا[7]، نتیجتاً دین کی زندگی سے جدائی کی دعوت دیتا تھا۔ اس کے خیال میں قوانین بنانے والےاور ان کے بعد آنے والے بادشاہوں اور سلاطین نے خدا کی طرف ان قوانین کی نسبت صرف اس لیے کی تاکہ وہ ان قوانین کو لازمی قرار دے سکیں اور عوام کے دلوں میں ان کی مخالفت کا خوف ڈال سکیں۔ وہ کہتا ہے،"جب قانون ساز قوت اوراستدلال کو استعمال نہیں کرسکتا ،تو اسے مجبورا اتھارٹی کی دیگر شکلیں اپنانی پڑتی ہیں ،تاکہ وہ بنا کسی جبر کے لوگوں کو قوانین ماننے پر مجبور کرسکے اور کسی مباحثے کے بغیر قائل کرسکے۔یہی وہ چیز تھی جس کی وجہ سے ہر دور میں اقوام کے بڑوں نے الہامی اتھارٹی سے مدد حاصل کرنے کو ضروری سمجھا۔ اسی وجہ سے اپنی مخصوص پالیسیوں کی شرف و آبرو کو خداؤں کی طرف منسوب کرنا پڑا تاکہ وہ لوگ جو ریاست اور فطرت، دونوں کے قوانین کے تابع ہیں،وہ انسان کے خالق اور معاشرے کے خالق ،دونوں میں ایک ہی طاقت پہچان سکیں اور اپنی دلی خوشی اور رضامندی سے اس کی اتباع کریں"۔اس نے مزید کہا،" یہی وہ بلند عقلی تھی جو عام آدمی کی بصیرت سے بالاتر ہوتی ہے ،یہی وہ عقل ہے جس کی بدولت قانون ساز اپنے قوانین کو لافانی ذات کے ساتھ جوڑ لیتا ہے تاکہ جن لوگوں کی قیادت انسانی بصیرت سے نہیں ہو سکتی، ان کی قیادت الہامی اتھارٹی کے ذریعے کی جائے ۔ مگر ہر انسان اس قابل نہیں کہ وہ خدا سے ہمکلام ہو ، نہ ہی یہ ضروری ہے کہ لوگوں کو یہ بتاتے وقت کہ وہ خداؤں کا نمائندہ ہے ،سچ کہہ رہا ہو"[8]۔ 1789ء میں فرانس کے عظیم انقلاب نے بالآخر معاشرے ، ریاست اور سیاست سے کلیسا کی جڑوں کو مکمل طور پر اکھاڑ دیا۔ ول ڈیورانٹ کے مطابق پچھلے انقلابات اکثر یا تو ریاست کے خلاف ابھرے یا کلیسا کے خلاف ، شاذ و نادر ایساہوا کہ بیک وقت دونوں کے خلاف کوئی انقلاب برپا ہوا ہو۔ جہاں تک فرانسیسی انقلاب کی بات ہے تو اس نے شہنشاہیت اور پاپائیت دونوں پر دھاوا بولا، یہ انقلاب بیک وقت دوہری مہم تھی جس کا ہدف پہلے سے قائم معاشرتی نظام کے دونوں مذہبی اور دنیاوی ستونوں کو اکھاڑنا تھا"[9]۔

 

اس طرح عصرِ حاضر کے مغربی مفکرین اور تاریخ دان ان حالات کو اپنے نظریے کےلیے زندہ مثال سمجھتے ہیں؛ اس حیثیت سے کہ معاشرے سے کلیسا کے اثر و رسوخ میں جس تناسب سے کمی آتی گئی اسی تناسب سے یورپ کی ترقی میں اضافہ ہونے لگا تھا، یوں مذہب اور تدین عملی زندگی سے بے دخل ہوتا رہا۔ انہیں فرانسیسی انقلاب میں بھی ایک بڑی دلیل نظر ائی، جس سے ان کی موجودہ تاریخ کا آغاز ہوا، اس انقلاب کی بدولت کلیسا کو معاشرے سے الگ کردیا گیا ، اور خدائی نیابت کے تصور کا خاتمہ کیا گیا، معاشرے میں عام لوگوں کومطلق آزادیاں دے دی گئیں، یوں یورپی تحریکِ ترقی مکمل ہوئی اور اپنے ثمرات دینے لگ گئی،جن پر آج تک یورپی باشندے فخر کرتے نظر آتے ہیں۔ مغربی مفکرین کے ہاں تہذیب کا یہ تاریخی نظریہ ہی اس عقلی عقیدے کے پیچھے کار فرما تھا جس کو مغرب نے عصرِ حاضر کی تاریخ کے آغاز میں گلے لگایا،اس کو اپنے افکار کے لیے اساس اور اپنے معاشرے کے لیے اسی کو فکری قیادت قرار دیا، یہ عقیدہ "زندگی سے دین کی جدائی" کا عقیدہ ہے۔

 

چنانچہ انہوں نےکسی بھی نشاۃِثانیہ کی تحریک کی تشریح اسی نظریے کی عینک پہن کر کی، اس لیے جب وہ سوشلسٹ نظریہ ترقی اور اس کے بعد اس کے انحاطاط و زوال کی تشریح کرنا چاہتے ہیں تو وہ اس ترقی کی نسبت، سوشلسٹ معاشرے میں زندگی سے مذہبی و دینی اثرات کے اٹھ جانے کی طرف کرتے ہیں۔ بالخصوص جبکہ سوشل ازم کی بنیاد الحاد(خدا کے وجود کا انکار) ہے، اور سوشلسٹ عقیدہ کہتا ہے کہ دین اقوام کے لیے افیون ہے۔ یوں سوشلسٹ قومیں مادہ پرست اور مادیت سے مربوط ہوتی ہیں۔ جہاں تک اس تہذیب کے تیز رفتار انحطاط کی بات ہے، تو ان کی رائے میں اس کی وجہ الحاد(خداکے وجود کا انکار) یا دین کی عدم موجودگی نہیں، بلکہ اس کی وجہ آزادی کی عدم موجودگی ہے۔ یعنی مذہبی پیشواؤں کے آگے جھکنے سے چھٹکارا پاکر آزادی کی جن قدروں تک انسان پہنچنا چاہتا ہے ،سوشلسٹ نظام نے ان اقدار کو اس سے چھین لیا،کہ اس کو پیشوائیت اور غیبی حقائق کی غلامی سے نجات تو دی مگر اس نے لوگوں کو ریاست اور بر سر اقتدار کمیونسٹ پارٹی کی بندگی اور غلامی میں دے دیا۔ جو اقوام آج سوشل ازم سے باغی اور متنفر ہوئے ہیں ، سوشلسٹ لوگ ان کو اس زاویے سے دیکھتے ہیں کہ وہ در اصل ریاست کی بندگی اور غلامی سے آزادی کے خواہاں ہیں، تاکہ وہ اپنی آزادیوں کو استعمال کرسکیں اور مغرب کی لبرل تہذیب کے قافلے سے جاملیں۔ فرانسس فوکویاما نے "تاریخ کی انتہا اور آخری انسان" میں لکھا،"ماضی میں لوگ لبرل جمہوریت کو رد کرتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں یہ بادشاہت،اشرافیہ کی حکمرانی، پاپائیت، فاشزم، کمیونسٹ مطلق العنانی یا ایسی کسی آئیڈیالوجی سے کم تر تھی۔لیکن اب مسلم دنیا کے باہر، ایسا لگتا ہے کہ اس پر ایک عمومی اجماع موجود ہے کہ لبرل جمہوریت ہی حکومت کی دانا ترین شکل ہے،یعنی ایسی ریاست جوعقلی خواہش یا عقلی پہچان کو پوری طرح سے محسوس کرتی ہے"[10]۔

 

 

تاریخی ادوار میں وقوع پذیر ہونے والے انحطاط اور نشاۃِثانیہ کے حوالے سے عصرِ حاضر کے مغربی تصور کا یہی خلاصہ ہے ۔ جب ہم ان سے قرونِ وسطیٰ کے دور کی اسلامی تہذیب کی ترقی کا راز پوچھتے ہیں، تو وہ اپنے مذکورہ نظریۂ ترقی و انحطاط کے مطابق ترقی کے اس مظہر کی تشریح کرنے سے بے بس نظر آتے ہیں ،چنانچہ وہ اپنے نظریے کو ثابت کرنے کے لیے مختلف تشریحات کرتے ہیں۔ اسلامی تہذیب کے جن ادوار نے تاریخ کی سب سے بڑی کامیابی کے دن دیکھے ،وہ ادوار دین اور عبادت کے ادوار تھے، بلکہ اسلامی تہذیب ،بشمول اس کے معاشرے ، ریاست اور طرز زندگی کے ،ایک روحانی عقیدے پر قائم ہے جو انسان کو زندگی سے قبل اور بعد کے ساتھ جوڑتا ہے۔ یہ تہذیب ایک جیتی جاگتی مثال اوراس بات کی ایک قطعی دلیل ہے کہ ترقی اور زوال کی تشریح کے حوالے سے مغرب کا نظریہ فاسد ہے۔ کیونکہ حقیقت پر لاگو کرکے ہی ایک فکر کی صحت ثابت کی جاسکتی ہے، اگر وہ نظریہ حقیقت پر نہیں جچتا تو یہ اس کے غلط ہونے کی دلیل ہے ، جیساکہ اس مغربی نظریے کی حالت ہے۔ فلسفۂ ترقی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے ، جس کیلئے محض ایک ظنی نظریہ قابلِ قبول نہیں ، جیسے مغرب کا مذکورہ نظریہ ۔ بلکہ اس کا ایک یقینی اور حتمی فکر ہونا ضروری ہے ، جسے حقیقت پر منطبق کیا جاسکتا ہو، اور اس فکر میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ تمام تہذیبوں کی ہر ترقی اور زوال و انحطاط کی تشریح کرسکے۔

 

تہذیبی تجدید

 

کئی مسلمان ترقی یافتہ اقوام کے ساتھ اپنی حالت زار کا تقابلہ کرکے واویلا کرتے نظر آتے ہیں۔ کچھ تو وہ ہیں جو مسلمانوں کے حالات بیان کرنے میں مبالغہ آرائی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے اب کوئی راستہ نہیں بچا  اور یہ کہ مغرب تیز رفتاری سے ترقی کرر ہا ہےاور مسلمان کسی طرح بھی اس تک نہیں پہنچ سکتے وغیرہ۔حقیقت میں وہ ترقی جس کی لوگ بات کرتے ہیں، وہ زندگی کے بارے میں ایک ایسے نقطہ نظر کو اختیار کرنے کا عملی مظہر ہے، جو بذاتِ خود ایک آئیڈیالوجی پر مبنی ہے۔اس کی بنیاد پر قوانین کی شکل میں وہ حل طے کیے جاتے ہیں جن کو معاشرے اور ریاست کے درمیان متفقہ حیثیت حاصل ہو ۔ پس مسلمان ان مختلف حالات کی وجہ سے جو انہیں درپیش ہیں ، تقابلے پر تقابلہ کرتے کرتے بالآخر اندرونی شکست کی کیفیت سے دوچار ہوجاتے ہیں ، جس کا سبب اقوام  کی امنگوں اور سیاسی ارادوں کے اختلاف میں فرق نہ سمجھنا ہے، ان دونوں اصطلاحات کی کچھ وضاحت ضروری ہے۔

 

کبھی ایک قوم بحیثیت مجموعی مخصوص افکار پر اتفاق کرلیتی ہے جنہیں وہ درست سمجھتی ہے۔ ان افکار کو ایک ایسی حقیقت بنانے کے لیےجس کی سب کی طرف سے پابندی کی جائے، یہ ضروری ہے کہ ایک ریاست یا بالفاظ دیگر ایک سیاسی ارادہ انہی افکار کی تبنی کرے تاکہ ان افکار کوایک عملی ڈھانچے میں متحرک کیا جائے۔پھر اسی ڈھانچے کے ذریعے وہ تمام وسائل اکٹھے کیے جائیں جو مقررہ مفادات تک رسائی دیتے ہیں۔ یہ تعریف تمام ترقی یافتہ اور ترقی پذیر اقوام پر لاگو ہوتی ہے۔ لیکن اقوام کے درمیان ایک اہم فرق اس وقت آ جاتا ہے جب ایک قوم کے مفادات خالق کائنات کے اوامر ہوں، جن کا مقصد زندگی کے ہر پہلو میں ان عبادت کو اجاگر کرنا ہو جن عبادات کا تصور کامل اطاعت میں جھلکتا ہے، بنا کسی شک و شبہ کے ان اوامر کی تمام جزئیات کا نفاذ ہو، ان کی حفاظت کے لیے سعی و جد وجہد اور ان پر متواتر  عمل اور دنیا والوں کے پاس اس کو لے کر جانا ہو۔

 

غیر مسلم اقوام اسلام کی دی گئی رحمت ، عدل اور خوشحالی کی حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں،کیونکہ اُنہوں نے معرکہ حیات میں اسلام کو ایسی نافذ شدہ حالت میں نہیں دیکھا ہےجبکہ ایک ایسی اتھارٹی اس کو نافذکررہی ہو جو خالق کی اطاعت کیلئے اُمت کی اُمنگوں کی ترجمان ہو اور اسلام اور اس سے متعلقہ تمام تصورات کی حفاظت کے لیے سر گرم عمل ہو۔ نشاۃ ثانیہ کا حصول یا آج کل کی اصطلاح میں ترقی، حاکم اور محکوم کے درمیان اُن مقاصد اور حکمت عملیوں (Strategies) کے حوالے سے مکمل ہم آہنگی کا تقاضا کرتا ہے جو متفقہ فکری اُصول و ضوابط سے پھوٹتی ہیں اور معاشرہ جن کو ایک عام حقیقت کے طور پر پہنچانتا ہو۔ پس ریاست وسائل کی فراہمی کرتی ہے ، اور قوم وفاداری اور قربانیاں پیش کرتی ہے، قوم کو ریاست کے ساتھ تعلق کا احساس ہوتا ہے، چنانچہ وہ حکمرانوں کو نصیحت بھی کرتی ہے، اس طرح وہ ان رُخنوں کو بند کردیتی ہے جو ترقی کے حصول میں ناکامی کا باعث بنتے ہیں۔آجکل ہمیں جو کچھ دکھائی دیتا ہےوہ اسی ہم آہنگی کا فقدان اور طے شدہ مقاصد سے عوام کے ایک بہت بڑے گروہ کی بے اعتنائی ہے کیونکہ اس گروہ نے ایک اہم عنصر یعنی حکمران اور عوام کیلئے ایک ہی فکری بنیاد کے موجود ہونے کو نظر انداز کر دیا ہے۔لہٰذا مسلم دنیا میں ایک وحدت پر مبنی تبدیلی کی کمی ہے۔ نتیجتاً ریاست کے ساتھ تعلق کاشعور بھی ناپید ہے،رُخنوں میں اضافہ ہورہا ہے، ایسے میں فسادیوں کی مداخلت ناگزیر بن جاتی ہے۔

 

 بلا شبہ کسی بھی قوم کے لئے ترقی کا حصول تب تک ممکن نہیں جب تک وہ اپنے لیے نمائندہ قیادت نہ چُن لےاور ایک ایسا ڈھانچہ قائم نہ کرے جو ارادے اور تنفیذ کی ذمہ داری ادا کرتا ہو ۔ اسلام کی نظر میں ریاست مسلمانوں اور خود اسلام کی زندگی کے لیے ایک اہم عنصر ہےاور امت نے اس  ریاست کے سائے تلے کامیابیاں حاصل کیں کیونکہ ریاست فکر و عقیدے میں اُمت کی نمائندگی کرتی ہے۔کامیابیوں کا یہ سلسلہ عثمانی ریاست کے سقوط تک جاری و ساری رہا۔ پھر اُمت کو زوال نے آلیا ، ضعف و انحطاط کا دور شروع ہوا اوراُمت دیگر اقوام کی دست نگر بن گئی۔اسی وجہ سے امت  مجموعی طور پر نہ تو ٹیکنالوجی میں ترقی کر پائی اور نہ ہی تہذیبی لحاظ سے آگے بڑھ پائی۔یہ ترقی  صرف  اسی صورت میں ممکن ہے جب امت فکرکو  اپنائے اور  سیاسی ارادے کو قائم کرے، جو ان افکار کو حقیقت میں تبدیل کردے ۔ اسی وجہ سے نشاۃ ثانیہ کے خواہشمندوں پر لازم ہے کہ اپنے مطلوبہ منصوبے کے حوالے سے ان کا تصور بالکل صاف اور بے غبار ہو۔ ان کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اُن اصولوں اور اساسی افکار کی پابندی کریں جسکی امت حامل ہے، جن میں اسلام کی تاریخی اور قانونی وراثت شامل ہے۔ اِن افکار میں یہ صلاحیت ہےکہ وہ آج بھی امت کی عزت اور شان و شوکت لوٹا سکتے ہیں۔ اس کا م کے لیے معاشرےکےبیدار طبقے کی طرف سے مخلصانہ اور سنجیدہ کوشش کی ضرورت ہے جو نتیجہ خیز کاموں کی شکل میں افکار کی ترجمانی کی قابلیت سے لیس ہو۔

 

بلا شبہ تہذیبوں کا تصادم اور ٹکراؤ جاری رہتا ہے اوراس ٹکراؤ میں تہذیبی شکست اسی صورت میں ہوتی ہے جب کوئی اس ٹکراؤ سے دستبردار ہو جائے ۔ابن خُلدون کےبقول، كل مغلوب مفتون بتقليد الغالب " ہر مغلوب قوم غالب قوم کی تقلید کی دلدادہ ہوتی ہے"۔سرمایہ دارانہ تہذیب جسے مشرق و مغرب نے اختیار کیا ہے ، زندگی کے لیے ایک مخصوص تصور رکھتی ہے جس میں وہ پوری دنیا کو رنگنا چاہتی ہے۔ہنٹنگٹن کے مطابق ،"اس کے برخلاف، وہ اقدار جو ایک معاشرے کو مغربی بناتی ہیں ،مخصوص ہیں:رسمی وراثت، عیسائیت، کلیسا اور ریاست کی علیحدگی ،قانون کی بالادستی،مہذب معاشرہ"۔پس سرمایہ داریت کا خیال ہے کہ خالق کائنات کا لوگوں کے امور کی دیکھ بھال میں کوئی عمل دخل نہیں۔ سیکولرازم سےقانون سازی کے ایسے تصورات نے جنم لیا جن کی بنیاد پرایسے ادارے قائم کیے گئےجو غلط رخ پہ گامزن ہوئے ۔ ان اداروں نے انسان کے مسائل سے غفلت برتی اور اس کو محض ایک صارف سمجھا۔ سرمایہ داریت کو اگر کوئی فکر تھی تو مال بڑھانے اور اس میں تنوع لانے کی تھی ۔ یوں امیروں اور غریبوں کے درمیان خلیج وسیع ہو گئی اور مختلف ناموں سے لوٹ مار کے قوانین گھڑ لیے  گئے۔اس دنیا پر مسلط جنگل کا قانون اسی سرمایہ دارانہ نظام، اس کے افکار اور اداروں کا نتیجہ ہے۔

 

 

 پے درپے بحرانوں کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ عمارت کی جڑیں اور بنیادیں اکھڑنا اور ہلنا جُلنا شروع ہوئیں ۔  یوں یہ عمارت ڈانواں ڈول ہونے لگی ، یہاں تک کہ کئی اقتصادی تجزیہ کاروں کا اس تہذیب کی کئی بنیادوں سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ سرگردانی اور پریشانی کی یہ کیفیت جس میں دنیا جی رہی ہے سرمایہ داریت، بشمول اس کے تمام افکار اور اداروں کا طبعی نتیجہ ہے۔ لہٰذا، اب نظریں اسلام پر لگی ہوئی ہیں اور صرف اسی کو اس قابل سمجھا جارہا ہے، کہ وہ انسانیت کا ہاتھ پکڑ کر اس کو صحیح رُخ پر ڈال دے ۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ اس کے پاس عظیم فقہی اور تاریخی ورثہ موجود ہے جس کی بنیاد پر وہ فطری طور پراہلِ عالم کی قیادت سنبھال لینے کی پوزیشن پر کھڑا ہے۔ بلا شبہ اسلام اور اس کے منفرد قوانین نے تاریخی طور پر انسان اور معاشرے کی ترقی میں اپنا لوہا منوایا اور اپنی قابلیت ثابت کرکے دکھائی ہے۔ کیونکہ ان قوانین کی بنیاد ایک درست کلی فکر ہے جس سےیہ استنباط کیے گئے ہیں، جس کی بدولت انسان اس کائنات ،انسان اور حیات کو اللہ کے نور سے دیکھتا ہے، (یعنی ان کو ایک خالق کی مخلوق کی نظر سے دیکھتا ہے)،یوں دنیا کے حالات ٹھیک ہوجاتے ہیں ، اور حقیقی بندگی کا تصور اُجاگر ہوجاتا ہے۔

 

 

چنانچہ تبدیلی کی کوئی بھی کوشش ناکام ہوگی ،اگر اس میں معاشرے کو واحد اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے اہداف کی پابندی نہ کی جائے۔ لہذا اس وقت جس کام کی ضرورت ہے وہ فکری کام ہوگا جو واقعی انسانی اور عملی اعتبارات کے ضمن میں ایک منصوبہ سامنے لائے، جو حقیت سے خالی فلسفے سے کوسوں دور ہو۔ اس کام میں اس امر کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اسلام میں ایسے  افکار بھی ہیں جو ناقابل تغیر ہیں اور مسلمانوں کے لئے "قضیۂ مصیر "یعنی زندگی اور موت کے مسئلے کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ چنانچہ اُمتِ مسلمہ باقی اقوام کی طرح محض ایک عام قوم نہیں ، بلکہ اس کے کندھوں پر اپنی اور پوری دنیا کی اقوام کی ذمہ داری ڈال دی گئی ہے۔ یہ امت رسالت کے پیغام کی حامل امت ہے اور اس پیغام کے خطاب کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے، بشمول خلفا راشدین کے سمجھا  ۔روایت ہے کہ عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا،

من سره أن يكون من هذه الأمة؛ فليؤدِّ شرط الله فيها

" جسے یہ پسند ہو کہ وہ اس امت میں سے ہو تو وہ اس کے لیے اللہ کی شرط پوری کردے"۔پھر انھوں نے اللہ تعالیٰ کا قول تلاوت فرمایا،

 

 

﴿كُنتُمۡ خَيۡرَ أُمَّةٍ أُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَأۡمُرُونَ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَتَنۡهَوۡنَ عَنِ ٱلۡمُنكَرِ وَتُؤۡمِنُونَ بِٱللَّهِۗ﴾

 

 " تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے نکالی گئی ہو، تم اچھائی کا حکم دیتی ہو اور برائی سے منع کرتی ہو اور اللہ پر ایمان رکھتی ہو"(آلِ عمران:110)۔

 

 

حوالہ جات:

 

[1] - Will Durant - The Story of Civilization - Part 11 - pg 282.

[2] -Ibid - part 24 - pp. 55-56.

[3] - Ibid - part 14 - pg. 429.

[4] - Ibid - part 24 - pg. 117.

[5] - Ernesto Landy - Article in the book ‘The Flags of Political Thought’ - compiled by Morris Cranston pg 42.

[6] - Ibid - the article «Voltaire».

[7] - Ibid. - the article "Rosso".

[8] - Jean-Jacques Rousseau - ‘The Social Contract’ - p. 85.

[9] - Will Durant - ‘The Story of Civilization’ - Part 42 - p. 397.

[10] - Francis Fukuyama - ‘The End of History and the Last Man’ - pg. 68.

ترقی اور ثقافتی تجدید (حصہ دوئم)

 لطفی ابو محمد۔ الجزائر

نشاۃ ثانیہ کے تناظر میں سر بستہ راز کی تلاش میں یورپی مکتبۂ فکر کے فلسفیوں اور مفکرین نے ترقی یافتہ ریاستوں کی خوشحالی کا سبب آزادی کو قرار دیا ہے جس سے انسان اس کے جامع مفہوم کے ساتھ مستفید ہو رہا ہے۔ان کے خیال میں یہی وہ مرہم ہے جو فرد کی پوشیدہ تخلیقی صلاحیتیں اُجاگر کرتاہےاور اس کو ترقی و خوشحالی سے ہمکنار کردیتا ہے۔ وہ غلامی ،استبداد اور مختلف قسم کی بندشوں کو تخلیق و ایجاد کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں جو انسانوں کو حتمی طور پر زوال، پسماندگی اور تنزلی کی طرف لے جاتی ہیں۔ اسی بنیاد پر انہیں یہ یقین ہوگیا کہ رہبانیت اور پاپائیت اور روحانی دنیا کہلائے جانے والے غیرمحسوس اُمور کے ساتھ تعلق کی وجہ سے قوموں کی تنزلی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ ان کی رائے میں روحانی خیالات و رُجحانات حرکت سے بھر پور زندگی، ترقی اور حقیقت سے دوری کا باعث بنتے ہیں ۔اپنی اس فکر کے ثبوت کے طور پر انھوں نے وہی کچھ پیش کیا جو قرونِ وسطیٰ کے دوران یورپ میں رونما ہوا ، جب یورپ مسیحیت کو اپنائے ہوئے تھا،جہاں یورپی مذہبی لوگ یہ سوچتے تھے کہ مذہب اور ترقی میں ٹکراؤ ہے ۔بالفاظ دیگر روح اور مادہ کے درمیان مکمل تضاد ہے۔

یورپی مفکر وِل ڈیورانٹ یورپ کے مذہب پسند لوگوں کے اسی رجحان پر بحث کرتے ہوئے "تہذیب کا قصہ" کی جلد 3 میں "قیصر اور مسیح" کے حوالے سے کہتا ہے: "یہ سوچ کہ تمام انسانیت آدم کے (دنیا میں) گر جانے سے داغ دار ہو گئی اور جلد ہی اس دنیا کا اختتام دائمی سزا و جزا کے فیصلے پر ہو گا۔ اس سوچ نے گناہوں کے احساس کو ایک نئے درجے پر پہنچا دیا۔بہت سے مسیحیوں نے اپنی پوری توجہ اس پر لگا رکھی ہے کہ وہ حساب وکتاب کے بھیانک دن کا استقبال گناہوں کے میل کچیل سے پاک صاف ہوکر کریں۔ چنانچہ انہیں اپنے حواس کی ہر لذت میں شیطانی بہکاوا نظر آتا ہے اور اسی لیے وہ جسمانی دنیا سے نفرت کرنے لگے اور روزہ اور جسمانی ایذا ئیں جھیل کر شہوتوں کو توڑنے کی کوشش کرنے لگے، موسیقی ، میدے کی روٹی ، اجنبی شراب، گرم حمام اور داڑھی منڈوانے کو شک کی نظر سے دیکھتے تھے، ان تمام اعمال میں اللہ تعالیٰ کے واضح اور کھلے ارادے کی اہانت سمجھتے تھے"[1]۔

مذہبی اصلاح پسند لیڈر" مارٹن لوتھر"جسے پروٹسٹنٹ فرقے کا روحانی باپ سمجھا جاتا ہے،اس نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ سیکولرازم عمل کے معیار کیلئے وحی پر انسانی عقل کوترجیح دیتا ہے۔ چنانچہ وہ اس بنیاد پر عقل پر شدید تنقید کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ اس محدود حقیقت میں عقل محض حقیقت پسند ہے اور روحانی معاملات میں عقل "اندھی اور تاریک" ہے۔ وہ کہتا ہے،"عقل شیطان کی سب سے بڑی بازاری عورت ہے؛ اپنی فطرت اور طریقے کے اعتبار سے وہ ایک بازاری عورت ہے، وہ ایک طوائف ہے، شیطان کی تعینات کی گئی طوائف، جسے خارش اور جزام کھا چکے ہیں اور جسے پیروں تلے روند کر تباہ کر دینا چاہیے، اسے اور اس کی دانائی کو۔۔۔اس کے چہرے پر گوبر پھینک کر اسے بدنما کر دو۔ اسے روحانی غسل (baptism) میں ڈوبا دینا چاہیے۔۔۔اس کے ساتھ برا سے برا ہونا چاہیے، گھر کی گندی ترین جگہ پر بند کر دینا چاہیے"[2]۔اس نے خبردار کیا کہ کیسے عقل خدا کے احکامات کو پسِ پشت ڈال دیتی ہے، اس نے کہا،"سود، شراب خوری، زنا ۔۔۔یہ جرائم واضح ہیں اور دنیا جانتی ہے کہ یہ گناہ کے کام ہیں، لیکن شیطان کی یہ دلہن،'عقل'،ایک تابعدار باندی کی طرح اس سے انکار کرتی ہے اور اپنے آپ کو عقلمند سمجھتی ہے اور سمجھتی ہے کہ وہ جو بھی کہتی ہے وہ روح القدس سے آ رہا ہے"۔

یورپی تاریخ کے فلسفیوں نے نتیجہ نکالاکہ قرونِ وسطیٰ کے زوال کا سبب مذہب کا دنیاوی معاملات پر حاوی ہو جانا تھا۔ اس کے علاوہ یورپ کی پسماندگی پر ان کے پاس نمایاں شواہد میں سے جاگیردارانہ نظام بھی تھا ، جس نے ظلم وجبر کی انتہاء کردی تھی،جس کے آگے یورپی لوگ سر خم کیے ہوئے تھے اور اس سوچ پر قانع ہوکر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تھے کہ بادشاہ کو اللہ کی طرف سے سب کچھ سپرد کیا جاتا ہے ۔ مثلاً ڈیورانٹ نے اشارہ دیا کہ اُس زمانے کے لوگوں کی نظر میں بادشاہ اللہ کا نائب ہوا کرتا تھا، اور اپنے اسی خدائی حق کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں پر حکومت کرتا تھا، بایں معنی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے حکومت کرنے کا حق دیا ہے، اس کام کے لیے اسے چن لیا ہے،اور اسی وجہ سے اسے حکومت سپرد کی ہے، اس نے کہا،"سخت ظلم کے باوجود عیسائیوں نے شاید ہی کبھی ریاست کے خلاف بغاوت کی ہو، ان کے اساتذہ عوامی طاقتوں کے آگے جھکنے کی ترغیب دیتے اور بادشاہ کے الہامی حقوق سکھایا کرتے تھے"[3]۔ اسی طرح یہ فلسفی یورپی تاریخ کو دلیل بناتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور اپنی دانست میں اسی کو پوری دنیا کی تاریخ سمجھتے ہیں،لہٰذا وہ نشاۃ ثانیہ کے تجزیے کا آغاز انہی واقعات سے کرتے ہیں جو کیتھولک کلیسا اور اصلاح پسند انقلابیوں کے درمیان بر پا ہونے والی کشمکش کا سبب بنے تھے، کیتھولک کلیسا نےمعاشرے پر تسلط حاصل کیا تھا اور اپنے رنگ میں اس کو رنگنے کی کوشش میں جتا ہواتھا ، جبکہ اصلاح پسند انقلابی اس تسلط کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔ ان کا بنیادی مقصد کلیسائی آسیب سے چھٹکارا حاصل کرنا تھا۔ اس فکر کے نمایا ں ترین داعی ہلڈرچ زونگلی تھا جو پروٹسٹنٹ اصلاح پسندوں کا ایک لیڈر تھا، جس نے اعلان کیا تھا کہ مذہبی اتھارٹی کی، جس کو کلیسا کہا جاتا ہے ،مقدس کتابوں اور مسیحی تعلیمات میں کوئی اساس ہی نہیں۔اس نے کہا،"پادریوں کی پشت پناہی پر موجود حکومتی اقتدار عوامی حکومت کا ہے جس کی اطاعت تمام عیسائیوں پر لازم ہے،اگر وہ خدا کے خلاف کوئی عمل نہیں کرتے"[4]۔

معاملے میں شدت لانے کا بڑا سبب وہ مطالبات تھے جو پیشوائی سوچ کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنے والے فلسفیوں نے اُٹھائے ، انہوں نے اس فکر کو یورپ کے لیے وبا قرار دیا ۔ ان کی دعوت کا محور دین کی زندگی ، معاشرے اور ریاست سے جدائی قرار پایا ۔ پس مشہور اطالوی دانشور میکاولی (وفات 1527 ء) کے خیال میں مسیحیت نے اپنے بہترین حالات میں غلط اخلاق سکھائے۔ اس کی رائے کے مطابق مسیحیت نے جھکاؤ ، ذلت ، جسم کے حقوق کا انکاراورایک کے بعد دوسرے تھپڑ کے لیے اپنا دوسرا گال آگے کرنے کی تعلیم دی،اس طرح انسان کی خوشیوں اور کامیابیوں کی اُمنگوں کو موت کے بعد والی زندگی میں قید کردیا۔ میکاولی کے اخلاق سے متعلق خیالات کلی طور پر عیسائیت کے ذاتی کردارسے ٹکراتے ہیں۔ وہ انسانوں کی بلند نظری اور زمین میں با عزت زندگی گزارنے سے متاثر تھا۔ اس کے خیال میں انسان کی بلند نظری انسانی جان کی اہانت سے نہیں بلکہ اس کی عزت و فخر میں ہے"[5]۔

اسی طرح والٹایئر (متوفی1778ء) ، جس نے اپنی تاریخی کتابوں میں معاشرے کی ترقی سے متعلق انجیل اور مسیح کے نظریات کو آڑے ہاتھوں لیا ، اور انسانی تاریخ کے لیے رہنما اصول دیے۔ اس کی نظر میں فلسفۂ تاریخ ایک بنیادی فکر پر قائم ہے۔ وہ بنیادی فکر معاشرے کی ترقی کی فکر ہے جو خدا کی مرضی سے آزادی کے حصول میں مضمر ہے۔ اس نے پاپائیت یا جس کو وہ خیالی دینی احوال کہتا ہے، کا مقابلہ کیا۔اس نے عیسائیت اور کیتھولک کلیسا کو ترقی کا بنیادی دشمن سمجھ کر اپنے تمسخر کا اصل نشانہ بنایا[6]۔

 جین جیک روسو کو لیں ، جس کی کتاب " معاہدۂ عمرانی"(The Social Contract) فرانس کے بڑے انقلاب کا ستون سمجھی جاتی ہے بلکہ انقلاب کے بعد فرانسیسیوں کی نظر میں اس نے انجیل کی حیثیت اختیار کر لی ۔ روسو ریاست میں حکمرانی کیلئے اللہ پر ایمان کی مگر وحی کے انکار کی دعوت دیتا تھا[7]، نتیجتاً دین کی زندگی سے جدائی کی دعوت دیتا تھا۔ اس کے خیال میں قوانین بنانے والےاور ان کے بعد آنے والے بادشاہوں اور سلاطین نے خدا کی طرف ان قوانین کی نسبت صرف اس لیے کی تاکہ وہ ان قوانین کو لازمی قرار دے سکیں اور عوام کے دلوں میں ان کی مخالفت کا خوف ڈال سکیں۔ وہ کہتا ہے،"جب قانون ساز قوت اوراستدلال کو استعمال نہیں کرسکتا ،تو اسے مجبورا اتھارٹی کی دیگر شکلیں اپنانی پڑتی ہیں ،تاکہ وہ بنا کسی جبر کے لوگوں کو قوانین ماننے پر مجبور کرسکے اور کسی مباحثے کے بغیر قائل کرسکے۔یہی وہ چیز تھی جس کی وجہ سے ہر دور میں اقوام کے بڑوں نے الہامی اتھارٹی سے مدد حاصل کرنے کو ضروری سمجھا۔ اسی وجہ سے اپنی مخصوص پالیسیوں کی شرف و آبرو کو خداؤں کی طرف منسوب کرنا پڑا تاکہ وہ لوگ جو ریاست اور فطرت، دونوں کے قوانین کے تابع ہیں،وہ انسان کے خالق اور معاشرے کے خالق ،دونوں میں ایک ہی طاقت پہچان سکیں اور اپنی دلی خوشی اور رضامندی سے اس کی اتباع کریں"۔اس نے مزید کہا،" یہی وہ بلند عقلی تھی جو عام آدمی کی بصیرت سے بالاتر ہوتی ہے ،یہی وہ عقل ہے جس کی بدولت قانون ساز اپنے قوانین کو لافانی ذات کے ساتھ جوڑ لیتا ہے تاکہ جن لوگوں کی قیادت انسانی بصیرت سے نہیں ہو سکتی، ان کی قیادت الہامی اتھارٹی کے ذریعے کی جائے ۔ مگر ہر انسان اس قابل نہیں کہ وہ خدا سے ہمکلام ہو ، نہ ہی یہ ضروری ہے کہ لوگوں کو یہ بتاتے وقت کہ وہ خداؤں کا نمائندہ ہے ،سچ کہہ رہا ہو"[8]۔ 1789ء میں فرانس کے عظیم انقلاب نے بالآخر معاشرے ، ریاست اور سیاست سے کلیسا کی جڑوں کو مکمل طور پر اکھاڑ دیا۔ ول ڈیورانٹ کے مطابق پچھلے انقلابات اکثر یا تو ریاست کے خلاف ابھرے یا کلیسا کے خلاف ، شاذ و نادر ایساہوا کہ بیک وقت دونوں کے خلاف کوئی انقلاب برپا ہوا ہو۔ جہاں تک فرانسیسی انقلاب کی بات ہے تو اس نے شہنشاہیت اور پاپائیت دونوں پر دھاوا بولا، یہ انقلاب بیک وقت دوہری مہم تھی جس کا ہدف پہلے سے قائم معاشرتی نظام کے دونوں مذہبی اور دنیاوی ستونوں کو اکھاڑنا تھا"[9]۔

اس طرح عصرِ حاضر کے مغربی مفکرین اور تاریخ دان ان حالات کو اپنے نظریے کےلیے زندہ مثال سمجھتے ہیں؛ اس حیثیت سے کہ معاشرے سے کلیسا کے اثر و رسوخ میں جس تناسب سے کمی آتی گئی اسی تناسب سے یورپ کی ترقی میں اضافہ ہونے لگا تھا، یوں مذہب اور تدین عملی زندگی سے بے دخل ہوتا رہا۔ انہیں فرانسیسی انقلاب میں بھی ایک بڑی دلیل نظر ائی، جس سے ان کی موجودہ تاریخ کا آغاز ہوا، اس انقلاب کی بدولت کلیسا کو معاشرے سے الگ کردیا گیا ، اور خدائی نیابت کے تصور کا خاتمہ کیا گیا، معاشرے میں عام لوگوں کومطلق آزادیاں دے دی گئیں، یوں یورپی تحریکِ ترقی مکمل ہوئی اور اپنے ثمرات دینے لگ گئی،جن پر آج تک یورپی باشندے فخر کرتے نظر آتے ہیں۔ مغربی مفکرین کے ہاں تہذیب کا یہ تاریخی نظریہ ہی اس عقلی عقیدے کے پیچھے کار فرما تھا جس کو مغرب نے عصرِ حاضر کی تاریخ کے آغاز میں گلے لگایا،اس کو اپنے افکار کے لیے اساس اور اپنے معاشرے کے لیے اسی کو فکری قیادت قرار دیا، یہ عقیدہ "زندگی سے دین کی جدائی" کا عقیدہ ہے۔

چنانچہ انہوں نےکسی بھی نشاۃِثانیہ کی تحریک کی تشریح اسی نظریے کی عینک پہن کر کی، اس لیے جب وہ سوشلسٹ نظریہ ترقی اور اس کے بعد اس کے انحاطاط و زوال کی تشریح کرنا چاہتے ہیں تو وہ اس ترقی کی نسبت، سوشلسٹ معاشرے میں زندگی سے مذہبی و دینی اثرات کے اٹھ جانے کی طرف کرتے ہیں۔ بالخصوص جبکہ سوشل ازم کی بنیاد الحاد(خدا کے وجود کا انکار) ہے، اور سوشلسٹ عقیدہ کہتا ہے کہ دین اقوام کے لیے افیون ہے۔ یوں سوشلسٹ قومیں مادہ پرست اور مادیت سے مربوط ہوتی ہیں۔ جہاں تک اس تہذیب کے تیز رفتار انحطاط کی بات ہے، تو ان کی رائے میں اس کی وجہ الحاد(خداکے وجود کا انکار) یا دین کی عدم موجودگی نہیں، بلکہ اس کی وجہ آزادی کی عدم موجودگی ہے۔ یعنی مذہبی پیشواؤں کے آگے جھکنے سے چھٹکارا پاکر آزادی کی جن قدروں تک انسان پہنچنا چاہتا ہے ،سوشلسٹ نظام نے ان اقدار کو اس سے چھین لیا،کہ اس کو پیشوائیت اور غیبی حقائق کی غلامی سے نجات تو دی مگر اس نے لوگوں کو ریاست اور بر سر اقتدار کمیونسٹ پارٹی کی بندگی اور غلامی میں دے دیا۔ جو اقوام آج سوشل ازم سے باغی اور متنفر ہوئے ہیں ، سوشلسٹ لوگ ان کو اس زاویے سے دیکھتے ہیں کہ وہ در اصل ریاست کی بندگی اور غلامی سے آزادی کے خواہاں ہیں، تاکہ وہ اپنی آزادیوں کو استعمال کرسکیں اور مغرب کی لبرل تہذیب کے قافلے سے جاملیں۔ فرانسس فوکویاما نے "تاریخ کی انتہا اور آخری انسان" میں لکھا،"ماضی میں لوگ لبرل جمہوریت کو رد کرتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں یہ بادشاہت،اشرافیہ کی حکمرانی، پاپائیت، فاشزم، کمیونسٹ مطلق العنانی یا ایسی کسی آئیڈیالوجی سے کم تر تھی۔لیکن اب مسلم دنیا کے باہر، ایسا لگتا ہے کہ اس پر ایک عمومی اجماع موجود ہے کہ لبرل جمہوریت ہی حکومت کی دانا ترین شکل ہے،یعنی ایسی ریاست جوعقلی خواہش یا عقلی پہچان کو پوری طرح سے محسوس کرتی ہے"[10]۔

تاریخی ادوار میں وقوع پذیر ہونے والے انحطاط اور نشاۃِثانیہ کے حوالے سے عصرِ حاضر کے مغربی تصور کا یہی خلاصہ ہے ۔ جب ہم ان سے قرونِ وسطیٰ کے دور کی اسلامی تہذیب کی ترقی کا راز پوچھتے ہیں، تو وہ اپنے مذکورہ نظریۂ ترقی و انحطاط کے مطابق ترقی کے اس مظہر کی تشریح کرنے سے بے بس نظر آتے ہیں ،چنانچہ وہ اپنے نظریے کو ثابت کرنے کے لیے مختلف تشریحات کرتے ہیں۔ اسلامی تہذیب کے جن ادوار نے تاریخ کی سب سے بڑی کامیابی کے دن دیکھے ،وہ ادوار دین اور عبادت کے ادوار تھے، بلکہ اسلامی تہذیب ،بشمول اس کے معاشرے ، ریاست اور طرز زندگی کے ،ایک روحانی عقیدے پر قائم ہے جو انسان کو زندگی سے قبل اور بعد کے ساتھ جوڑتا ہے۔ یہ تہذیب ایک جیتی جاگتی مثال اوراس بات کی ایک قطعی دلیل ہے کہ ترقی اور زوال کی تشریح کے حوالے سے مغرب کا نظریہ فاسد ہے۔ کیونکہ حقیقت پر لاگو کرکے ہی ایک فکر کی صحت ثابت کی جاسکتی ہے، اگر وہ نظریہ حقیقت پر نہیں جچتا تو یہ اس کے غلط ہونے کی دلیل ہے ، جیساکہ اس مغربی نظریے کی حالت ہے۔ فلسفۂ ترقی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے ، جس کیلئے محض ایک ظنی نظریہ قابلِ قبول نہیں ، جیسے مغرب کا مذکورہ نظریہ ۔ بلکہ اس کا ایک یقینی اور حتمی فکر ہونا ضروری ہے ، جسے حقیقت پر منطبق کیا جاسکتا ہو، اور اس فکر میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ تمام تہذیبوں کی ہر ترقی اور زوال و انحطاط کی تشریح کرسکے۔

تہذیبی تجدید

کئی مسلمان ترقی یافتہ اقوام کے ساتھ اپنی حالت زار کا تقابلہ کرکے واویلا کرتے نظر آتے ہیں۔ کچھ تو وہ ہیں جو مسلمانوں کے حالات بیان کرنے میں مبالغہ آرائی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے اب کوئی راستہ نہیں بچا  اور یہ کہ مغرب تیز رفتاری سے ترقی کرر ہا ہےاور مسلمان کسی طرح بھی اس تک نہیں پہنچ سکتے وغیرہ۔حقیقت میں وہ ترقی جس کی لوگ بات کرتے ہیں، وہ زندگی کے بارے میں ایک ایسے نقطہ نظر کو اختیار کرنے کا عملی مظہر ہے، جو بذاتِ خود ایک آئیڈیالوجی پر مبنی ہے۔اس کی بنیاد پر قوانین کی شکل میں وہ حل طے کیے جاتے ہیں جن کو معاشرے اور ریاست کے درمیان متفقہ حیثیت حاصل ہو ۔ پس مسلمان ان مختلف حالات کی وجہ سے جو انہیں درپیش ہیں ، تقابلے پر تقابلہ کرتے کرتے بالآخر اندرونی شکست کی کیفیت سے دوچار ہوجاتے ہیں ، جس کا سبب اقوام  کی امنگوں اور سیاسی ارادوں کے اختلاف میں فرق نہ سمجھنا ہے، ان دونوں اصطلاحات کی کچھ وضاحت ضروری ہے۔

کبھی ایک قوم بحیثیت مجموعی مخصوص افکار پر اتفاق کرلیتی ہے جنہیں وہ درست سمجھتی ہے۔ ان افکار کو ایک ایسی حقیقت بنانے کے لیےجس کی سب کی طرف سے پابندی کی جائے، یہ ضروری ہے کہ ایک ریاست یا بالفاظ دیگر ایک سیاسی ارادہ انہی افکار کی تبنی کرے تاکہ ان افکار کوایک عملی ڈھانچے میں متحرک کیا جائے۔پھر اسی ڈھانچے کے ذریعے وہ تمام وسائل اکٹھے کیے جائیں جو مقررہ مفادات تک رسائی دیتے ہیں۔ یہ تعریف تمام ترقی یافتہ اور ترقی پذیر اقوام پر لاگو ہوتی ہے۔ لیکن اقوام کے درمیان ایک اہم فرق اس وقت آ جاتا ہے جب ایک قوم کے مفادات خالق کائنات کے اوامر ہوں، جن کا مقصد زندگی کے ہر پہلو میں ان عبادت کو اجاگر کرنا ہو جن عبادات کا تصور کامل اطاعت میں جھلکتا ہے، بنا کسی شک و شبہ کے ان اوامر کی تمام جزئیات کا نفاذ ہو، ان کی حفاظت کے لیے سعی و جد وجہد اور ان پر متواتر  عمل اور دنیا والوں کے پاس اس کو لے کر جانا ہو۔

غیر مسلم اقوام اسلام کی دی گئی رحمت ، عدل اور خوشحالی کی حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں،کیونکہ اُنہوں نے معرکہ حیات میں اسلام کو ایسی نافذ شدہ حالت میں نہیں دیکھا ہےجبکہ ایک ایسی اتھارٹی اس کو نافذکررہی ہو جو خالق کی اطاعت کیلئے اُمت کی اُمنگوں کی ترجمان ہو اور اسلام اور اس سے متعلقہ تمام تصورات کی حفاظت کے لیے سر گرم عمل ہو۔ نشاۃ ثانیہ کا حصول یا آج کل کی اصطلاح میں ترقی، حاکم اور محکوم کے درمیان اُن مقاصد اور حکمت عملیوں (Strategies) کے حوالے سے مکمل ہم آہنگی کا تقاضا کرتا ہے جو متفقہ فکری اُصول و ضوابط سے پھوٹتی ہیں اور معاشرہ جن کو ایک عام حقیقت کے طور پر پہنچانتا ہو۔ پس ریاست وسائل کی فراہمی کرتی ہے ، اور قوم وفاداری اور قربانیاں پیش کرتی ہے، قوم کو ریاست کے ساتھ تعلق کا احساس ہوتا ہے، چنانچہ وہ حکمرانوں کو نصیحت بھی کرتی ہے، اس طرح وہ ان رُخنوں کو بند کردیتی ہے جو ترقی کے حصول میں ناکامی کا باعث بنتے ہیں۔آجکل ہمیں جو کچھ دکھائی دیتا ہےوہ اسی ہم آہنگی کا فقدان اور طے شدہ مقاصد سے عوام کے ایک بہت بڑے گروہ کی بے اعتنائی ہے کیونکہ اس گروہ نے ایک اہم عنصر یعنی حکمران اور عوام کیلئے ایک ہی فکری بنیاد کے موجود ہونے کو نظر انداز کر دیا ہے۔لہٰذا مسلم دنیا میں ایک وحدت پر مبنی تبدیلی کی کمی ہے۔ نتیجتاً ریاست کے ساتھ تعلق کاشعور بھی ناپید ہے،رُخنوں میں اضافہ ہورہا ہے، ایسے میں فسادیوں کی مداخلت ناگزیر بن جاتی ہے۔

 بلا شبہ کسی بھی قوم کے لئے ترقی کا حصول تب تک ممکن نہیں جب تک وہ اپنے لیے نمائندہ قیادت نہ چُن لےاور ایک ایسا ڈھانچہ قائم نہ کرے جو ارادے اور تنفیذ کی ذمہ داری ادا کرتا ہو ۔ اسلام کی نظر میں ریاست مسلمانوں اور خود اسلام کی زندگی کے لیے ایک اہم عنصر ہےاور امت نے اس  ریاست کے سائے تلے کامیابیاں حاصل کیں کیونکہ ریاست فکر و عقیدے میں اُمت کی نمائندگی کرتی ہے۔کامیابیوں کا یہ سلسلہ عثمانی ریاست کے سقوط تک جاری و ساری رہا۔ پھر اُمت کو زوال نے آلیا ، ضعف و انحطاط کا دور شروع ہوا اوراُمت دیگر اقوام کی دست نگر بن گئی۔اسی وجہ سے امت  مجموعی طور پر نہ تو ٹیکنالوجی میں ترقی کر پائی اور نہ ہی تہذیبی لحاظ سے آگے بڑھ پائی۔یہ ترقی  صرف  اسی صورت میں ممکن ہے جب امت فکرکو  اپنائے اور  سیاسی ارادے کو قائم کرے، جو ان افکار کو حقیقت میں تبدیل کردے ۔ اسی وجہ سے نشاۃ ثانیہ کے خواہشمندوں پر لازم ہے کہ اپنے مطلوبہ منصوبے کے حوالے سے ان کا تصور بالکل صاف اور بے غبار ہو۔ ان کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اُن اصولوں اور اساسی افکار کی پابندی کریں جسکی امت حامل ہے، جن میں اسلام کی تاریخی اور قانونی وراثت شامل ہے۔ اِن افکار میں یہ صلاحیت ہےکہ وہ آج بھی امت کی عزت اور شان و شوکت لوٹا سکتے ہیں۔ اس کا م کے لیے معاشرےکےبیدار طبقے کی طرف سے مخلصانہ اور سنجیدہ کوشش کی ضرورت ہے جو نتیجہ خیز کاموں کی شکل میں افکار کی ترجمانی کی قابلیت سے لیس ہو۔

بلا شبہ تہذیبوں کا تصادم اور ٹکراؤ جاری رہتا ہے اوراس ٹکراؤ میں تہذیبی شکست اسی صورت میں ہوتی ہے جب کوئی اس ٹکراؤ سے دستبردار ہو جائے ۔ابن خُلدون کےبقول، كل مغلوب مفتون بتقليد الغالب " ہر مغلوب قوم غالب قوم کی تقلید کی دلدادہ ہوتی ہے"۔سرمایہ دارانہ تہذیب جسے مشرق و مغرب نے اختیار کیا ہے ، زندگی کے لیے ایک مخصوص تصور رکھتی ہے جس میں وہ پوری دنیا کو رنگنا چاہتی ہے۔ہنٹنگٹن کے مطابق ،"اس کے برخلاف، وہ اقدار جو ایک معاشرے کو مغربی بناتی ہیں ،مخصوص ہیں:رسمی وراثت، عیسائیت، کلیسا اور ریاست کی علیحدگی ،قانون کی بالادستی،مہذب معاشرہ"۔پس سرمایہ داریت کا خیال ہے کہ خالق کائنات کا لوگوں کے امور کی دیکھ بھال میں کوئی عمل دخل نہیں۔ سیکولرازم سےقانون سازی کے ایسے تصورات نے جنم لیا جن کی بنیاد پرایسے ادارے قائم کیے گئےجو غلط رخ پہ گامزن ہوئے ۔ ان اداروں نے انسان کے مسائل سے غفلت برتی اور اس کو محض ایک صارف سمجھا۔ سرمایہ داریت کو اگر کوئی فکر تھی تو مال بڑھانے اور اس میں تنوع لانے کی تھی ۔ یوں امیروں اور غریبوں کے درمیان خلیج وسیع ہو گئی اور مختلف ناموں سے لوٹ مار کے قوانین گھڑ لیے  گئے۔اس دنیا پر مسلط جنگل کا قانون اسی سرمایہ دارانہ نظام، اس کے افکار اور اداروں کا نتیجہ ہے۔

 پے درپے بحرانوں کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ عمارت کی جڑیں اور بنیادیں اکھڑنا اور ہلنا جُلنا شروع ہوئیں ۔  یوں یہ عمارت ڈانواں ڈول ہونے لگی ، یہاں تک کہ کئی اقتصادی تجزیہ کاروں کا اس تہذیب کی کئی بنیادوں سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ سرگردانی اور پریشانی کی یہ کیفیت جس میں دنیا جی رہی ہے سرمایہ داریت، بشمول اس کے تمام افکار اور اداروں کا طبعی نتیجہ ہے۔ لہٰذا، اب نظریں اسلام پر لگی ہوئی ہیں اور صرف اسی کو اس قابل سمجھا جارہا ہے، کہ وہ انسانیت کا ہاتھ پکڑ کر اس کو صحیح رُخ پر ڈال دے ۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ اس کے پاس عظیم فقہی اور تاریخی ورثہ موجود ہے جس کی بنیاد پر وہ فطری طور پراہلِ عالم کی قیادت سنبھال لینے کی پوزیشن پر کھڑا ہے۔ بلا شبہ اسلام اور اس کے منفرد قوانین نے تاریخی طور پر انسان اور معاشرے کی ترقی میں اپنا لوہا منوایا اور اپنی قابلیت ثابت کرکے دکھائی ہے۔ کیونکہ ان قوانین کی بنیاد ایک درست کلی فکر ہے جس سےیہ استنباط کیے گئے ہیں، جس کی بدولت انسان اس کائنات ،انسان اور حیات کو اللہ کے نور سے دیکھتا ہے، (یعنی ان کو ایک خالق کی مخلوق کی نظر سے دیکھتا ہے)،یوں دنیا کے حالات ٹھیک ہوجاتے ہیں ، اور حقیقی بندگی کا تصور اُجاگر ہوجاتا ہے۔

چنانچہ تبدیلی کی کوئی بھی کوشش ناکام ہوگی ،اگر اس میں معاشرے کو واحد اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے اہداف کی پابندی نہ کی جائے۔ لہذا اس وقت جس کام کی ضرورت ہے وہ فکری کام ہوگا جو واقعی انسانی اور عملی اعتبارات کے ضمن میں ایک منصوبہ سامنے لائے، جو حقیت سے خالی فلسفے سے کوسوں دور ہو۔ اس کام میں اس امر کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اسلام میں ایسے  افکار بھی ہیں جو ناقابل تغیر ہیں اور مسلمانوں کے لئے "قضیۂ مصیر "یعنی زندگی اور موت کے مسئلے کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ چنانچہ اُمتِ مسلمہ باقی اقوام کی طرح محض ایک عام قوم نہیں ، بلکہ اس کے کندھوں پر اپنی اور پوری دنیا کی اقوام کی ذمہ داری ڈال دی گئی ہے۔ یہ امت رسالت کے پیغام کی حامل امت ہے اور اس پیغام کے خطاب کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے، بشمول خلفا راشدین کے سمجھا  ۔روایت ہے کہ عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا، من سره أن يكون من هذه الأمة؛ فليؤدِّ شرط الله فيها " جسے یہ پسند ہو کہ وہ اس امت میں سے ہو تو وہ اس کے لیے اللہ کی شرط پوری کردے"۔پھر انھوں نے اللہ تعالیٰ کا قول تلاوت فرمایا،

﴿كُنتُمۡ خَيۡرَ أُمَّةٍ أُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَأۡمُرُونَ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَتَنۡهَوۡنَ عَنِ ٱلۡمُنكَرِ وَتُؤۡمِنُونَ بِٱللَّهِۗ﴾

 " تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے نکالی گئی ہو، تم اچھائی کا حکم دیتی ہو اور برائی سے منع کرتی ہو اور اللہ پر ایمان رکھتی ہو"(آلِ عمران:110)۔

حوالہ جات:

[1] - Will Durant - The Story of Civilization - Part 11 - pg 282.

[2] -Ibid - part 24 - pp. 55-56.

[3] - Ibid - part 14 - pg. 429.

[4] - Ibid - part 24 - pg. 117.

[5] - Ernesto Landy - Article in the book ‘The Flags of Political Thought’ - compiled by Morris Cranston pg 42.

[6] - Ibid - the article «Voltaire».

[7] - Ibid. - the article "Rosso".

[8] - Jean-Jacques Rousseau - ‘The Social Contract’ - p. 85.

[9] - Will Durant - ‘The Story of Civilization’ - Part 42 - p. 397.

[10] - Francis Fukuyama - ‘The End of History and the Last Man’ - pg. 68.

Last modified onجمعرات, 06 جنوری 2022 19:49

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک