بسم الله الرحمن الرحيم
عمران خان کی برطرفی
پاکستانی پارلیمنٹ نے اتوارکے دن 10 اپریل 2022 کو وزیراعظم عمران خان کو ان کے منصب سے برطرف کرنے کی حمایت میں ووٹ دیا جو کہ پاکستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ قومی اسمبلی کے اسپیکرنے کہا کہ حزب اختلاف کی جماعتوں نے عدم اعتماد کی قرار داد کی حمایت میں پارلیمنٹ کے 342 میں سے 174 نمائندوں کی حمایت حاصل کی، اور اس طرح ان کو اکثریت حاصل ہوگئی ہے۔ حزب اختلاف نے عمران خان پرملک کا انتظام چلانے کے اہل نہ ہونے کا الزام لگایا، جس کی وجہ سے بے روزگاری کی شرح اور افراط زر میں اضافہ ہوا۔
حزب اختلاف کی جانب سے ذکر کیے گئے اسباب سے قطع نظر بہت سارے دیگر اسباب ہیں جن کی وجہ سے کسی بھی اپوزیشن کےلیے عمران کی برطرفی کا مطالبہ کرنا ممکن ہوا۔ حکومت کی ناکامی کی وجہ عمران خان کی شخصیت یا ان کی نئی تشکیل دی گئی جماعت نہیں ہے جسے مضبوط کر نے کے لیے جلدی میں اس میں پرانےالیکٹیبلز کو شامل کیا گیا، بلکہ اس کی وجہ کرپٹ سیکولر ازم پر قائم نظام ہے۔ سیکولرازم اسلام کو لوگوں کی اجتماعی زندگی سے نکال کر اسے ان کی ذاتی زندگی تک محدود کرتا ہے۔ اس کے علاوہ حکمرانی کا یہ نظام کرپٹ سرمایہ دارنہ نظام کو نافذ کرتا ہے، جس میں سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام بھی شامل ہے جس کی بنیاد سود پر ہے جو معیشت کو کھوکھلا کردیتا ہے۔ جمہوری نظام حکومت کو مغرب کے ایجنٹ اور کرپٹ سیاست دانوں کا ایک ٹولہ چلاتاہے۔ یہ سیاست دان ملکی وسائل کی لوٹ مار اور چوری کے بدلے ملک میں مغرب کے مفادات کو پورا کرنے اور اسلام کو اقتدار تک پہنچنے سے روکنے کی یقین دہانی کے بدلے میں حکومت میں آتے ہیں۔
عمران خان کو برطرف کرنے کے سبب کا تعلق پاکستان کے اصل حکمرانوں یعنی فوج سےہے۔ فوج نے ہی 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کرکے عمران خان کو جتوایا تھا۔ فوج نے ہی پس پردہ رہ کر اس کےلیے جماعت(تحریک انصاف) بنائی۔ فوج کی جانب سےتحریک انصاف کی حمایت کا مقصد پاکستان کی سیاسی جماعتوں خاص کر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو فوج کا مکمل طابعدار بنانا تھا۔ جب انہوں نے طابعداری اختیار کرلی اور فوج کے سامنے مکمل طور پر سرجھکا دیا جیسا کہ مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف کے چھوٹے بھائی، شہباز شریف نے کیا جس نے کہا کہ وہ فوج سے مکمل تعاون کےلیے تیار ہے تب فوج نے عمران خان کو بیچ چوراہے پر چھوڑ دیا، اور اُن پرانے سیاست دانوں کو ملک کا انتظام چلانے کے لیے دوبارہ لے آئی جو کہ فوج اور امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے تیار ہیں۔
عمران خان کا سیاسی میڈیم کو کنٹرول کرنے اور اس کی قیادت میں ناکامی فطری بات تھی کیونکہ وہ اصلاً اس میڈیم کا حصہ ہی نہیں۔ اسی طرح ملک کی معیشت کو چلانے میں ناکامی خاص طور پر کرونا وبا کے دوران اور عمران خان کی جانب سے فوج کے سربراہ کی ملازمت میں توسیع کی مخالفت ، پاکستانی انٹلیجنس ادارے کے سربراہ کی تعیناتی کے مسئلے میں آرمی چیف سے اختلاف، ان سب کی وجہ سے فوج نے نظام کو بچانے کےلیے عمران خان کو قربانی کا بکرا بنا دیا، اس پر ناکامی کا الزام لگایا اور سارا ملبہ اس پر ڈال دیا۔ عمران خان کو برطرف کرکے فوج نے پاکستان کےمسلمانوں کو ایک نئے مسئلے میں مصروف کردیا ہے جبکہ اُن کی صورتحال میں کوئی فرق نہیں آئے گا اور موجودہ نظام کی عمر میں اضافہ ہوگا۔
عمران خان کے دعوی کے برعکس ان کو ہٹانے میں امریکہ کا کوئی اہم کردار نہیں تھا۔ عمران خان کی جانب سے یہ کہنا کہ انہیں ایک امریکی سازش کے نتیجے میں نکالا گیا ہے درحقیقت عوام کی نظروں میں اپنے مقام کو برقرار رکھنے اور خود کو نااہلی اور ناکامی کے الزام سے بچانے کی کوشش ہے ۔ انہوں نے یہ دعوی اس لیے بھی کیا کہ وہ فوج کے خلاف براہ راست یہ بات کر نے کی طاقت نہیں رکھتے کہ حقیقت میں فوج نے عمران خان کو نکالا ہے، اگرچہ وہ عوامی تقریروں میں بلا واسطہ اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار فوج کو قرار دیتے ہیں۔ بلاشبہ عمران کی جانب سے روس کا دورہ ،یوکرین جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی طے شدہ تھا، روس کی جانب سے یوکرین پر قبضہ کرنے کا عمل عمران کے دورے کی وجہ سے جلدی نہیں ہوا اور نہ ہی تاخیر کا شکار ہوا۔اس کے علاوہ عمران خان نے روس کی جانب سے یوکرین پر قبضے کے خلاف بین الاقوامی اتفاق رائے سے اختلاف نہیں کیا خاص کر جب اس نے غیرجانبدرانہ موقف اختیار کیا، اور اس طرح اُس نےامریکہ کی اطاعت سے کوئی انکار نہیں کیا تھا۔ ہاں اس بات میں شک نہیں کہ اس کی برطرفی سے امریکہ نے اپنے ایجنٹوں کو یہ پیغام دے کر فائدہ اٹھایا کہ جو اس کی مرضی کے خلاف جانے کی کوشش کرے گا ، چاہے صرف دیکھاوے کے لیےبھی ہو، تو اس کا انجام یہ ہوگا۔ مگر یہ عمران خان کو حکمرانی سے برطرف کرنے کا حقیقی سبب نہیں ہے۔ امریکہ کی اس معاملے میں مداخلت بھرپور نہیں تھی، بلکہ یہ امریکی آقا کی جانب سے طے شدہ حدود کے اندر اس کے ایجنٹوں کے درمیان داخلی رسہ کشی تھی۔
امریکہ نے اقتدار سے عمران خان کی بے دخلی کو قبول کیا اگر چہ عمران امریکہ کا فرمانبردار اور خطے میں اس کےمفادات کا محافظ تھا۔ امریکہ نے اقتدار سے عمران خان کی بے دخلی کو قبول کیا اگر چہ اس نےطالبان قیادت کو امریکہ کی اطاعت قبول کرنے پر مجبور کیا اور اس کا ثبوت امریکہ اور طالبان قیادت کے درمیان ہونے والے مذاکرات تھے۔ ان مذاکرات نے اس بات کو یقینی بنایا کہ افغانستان میں اقتدار طالبان کے حوالے کردیا جائے گا جبکہ عمران خان نے امریکی افواج کی بحفاظت واپسی کے عمل کو یقینی بنایا، اور پاکستان میں فضائی راستے فراہم کرکے امریکی سینٹکام کی خلیج میں موجود اڈوں سے افغانستان میں کارروائی کرنے کی صلاحیت کو برقرار رکھا۔ امریکہ نے اقتدار سے عمران خان کی بے دخلی کو قبول کیا اگر چہ عمران خان نے اسلام کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان کے کردار کو آگے بڑھایا۔ اس نے غیر اسلامی حکمرانی کے تسلسل کو آگے بڑھایا اوراسلام کی حکمرانی کا مطالبہ کرنے والوں کے خلاف جنگ کو جاری رکھا، اور"مدینہ کی ریاست" قائم کرنے کا جھوٹا نعرہ لگایا۔ اس کے باوجود کہ عمران خان نے ان عالمی اداروں کی طرف مکمل جھکاؤ کی پالیسی کو جاری رکھا جن کو امریکہ کنٹرول کرتا ہے جیسا کہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف وغیرہ مگر یہ سب کچھ بھی اس کو بچا نہیں سکا حالانکہ اس نے پورے خلوص سے امریکہ کےلیے کام کیا۔ یہ امریکہ اور استعماری ممالک کی جانب سے اپنے ایجنٹوں کےلیے اصول ہے، کہ ایجنٹ اپنے آقا کی جتنی بھی خدمت کرے آقا پہلی فرصت میں ہی اس سے دستبردار ہو جائےگا۔ یہی اصول بے نظیر بھٹو، صدام حسین، حسنی مبارک، علی عبد اللہ صالح وغیرہ پرلاگو ہوا اور عمران خان بھی قربانی کا آخری بکرا نہیں ہے۔ یہ حقیقت ان لوگوں کے لیےسبق ہے جو عقل رکھتے ہیں۔
ریاست پاکستان میں، جو امریکہ کی تابع ہے، ہر آنے اور جانے والی حکومت کا کردار صرف ایک ملازم کا ہے۔ اس لیے نظام کی تبدیلی کے بغیرصرف حکمرانوں کے چہروں کی تبدیلی سے پاکستان میں کوئی نظریاتی سیاسی یا اقتصادی تبدیلی نہیں آئے گی۔ امریکہ پر انحصار اور بدعنوانی برقرار رہے گی کیونکہ یہ موجودہ نظام حکومت کا براہ راست نتیجہ ہے۔ ملک میں حکمرانی کا نظام سیکولر آئین، موجودہ کفریہ قوانین اور موجودہ سیاسی میڈیم پر مشتمل ہے جو کہ مکمل طور پر امریکہ کےوفادار ہیں۔ عمران خان کو برطرف کرنے کے بعد ملک میں جو مظاہرے ہوئے وہ حقیقت میں معاشی حالات اور ملک میں مغربی مداخلت کے خلاف ہیں۔ اسلام کی بنیاد اور اس کی محبت پر قائم ہونے والے مسلم ملک پاکستان کے لیے نجات کا واحد راستہ یہ ہے کہ نبوت کے نقش قدم پر خلافت کے دوبارہ قیام کے ذریعے اس کے اندر اسلام کو عملی طور پر نافذ کیا جائے۔
اس مضمون کو الرایہ میگزین کےشمارہ 387 کےلیے پاکستان سے بلال مہاجر نے لکھا