بسم الله الرحمن الرحيم
ازدواجی زندگی میں سکون اللہ سبحانہ و تعالی کی اطاعت کے ذریعےپیدا ہوتا ہے
تحریر: مصعب عمیر ، پاکستان
تعارف: ازدواجی خوشی کی حفاظت اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت سے ہے
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: وَمِنۡ اٰيٰتِهٖۤ اَنۡ خَلَقَ لَكُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِكُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡكُنُوۡۤا اِلَيۡهَا وَجَعَلَ بَيۡنَكُمۡ مَّوَدَّةً وَّرَحۡمَةً ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوۡمٍ يَّتَفَكَّرُوۡنَ" اور اسی کے نشانات (اور تصرفات) میں سے ہے کہ اُس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس کی عورتیں پیدا کیں تاکہ تم اُن کی طرف (مائل ہوکر) سکون حاصل کرو اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کر دی ،جو لوگ غور کرتے ہیں اُن کے لئے ان باتوں میں (بہت سی) نشانیاں ہیں"(سُورَةُ الرُّوم: 21 )۔ یہ آیت کریمہ شادی کے مقصد اور حقیقت کی وضاحت کرتی ہے۔سکون سے مراد وہ نعمت ہے جس میں خوشی ہے،راحت ہے، مسرت ہےاوراللہ سبحان تعالی کے فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کر دیناہے۔
عام طور پر خاندان کو منظم کرنے کیلئے، اور اس میں خصوصی طور پر میاں بیوی کے رشتے میں سکون کو یقینی بنانے کے لیے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے احکامات اور پابندیوں کو واضح کیا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے شوہر اور بیوی دونوں کو فرائض کی پابندی کا حکم دیا، جیسے اچھائی کے ساتھ گھریلو زندگی گزارنا۔ اسی طرح کچھ فرائض شوہرکے لیے خاص کیے ہیں جیسے کہ اچھے طریقے سے مالی کفالت کرنا۔ اسی طرح کچھ فرائض بیوی کے لیے خاص ہیں جیسے کہ شوہر کی اطاعت کرنا۔ ازدواجی سکون تب ہی میسر ہو سکتا ہے جب میاں بیوی دونوں اللہ سبحانہ وتعالی اور اس کے رسول ﷺ کے فرمانبردار ہوں۔ دکھ ،کینہ یا جھگڑے تب ہی ہوتے ہیں جب ان میں سے ایک اپنے فرائض کی پابندی نہ کرے یا دونوں ہی نہ کریں۔
مسلم دنیا میں اسلامی نظام خلافت کی تعلیمی پالیسی کی عدم موجودگی کی وجہ سے ازدواجی زندگی بعض اوقات تکلیف اور بے سکونی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ بجائے یہ کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ، جوہر چیز کا جاننے والا ہے، اس کی بھیجی ہوئی وحی سے فائدہ اٹھایا جائے ، میاں بیوی اپنے معاملات محدود عقل، خواہشات اور چاہت کی بنیاد پر چلا رہے ہوتے ہیں۔ شادی شدہ جوڑوں کے لیے آسانی سے دستیاب آپشنز یہ رہ جاتے ہیں کہ یا تو وہ ان ظالمانہ روایات کی پیروی کریں، جو اسلام سے بہت دور ہیں، یا پھر مغربی آزادیوں کی پیروی کریں، جس نے مغربی ممالک میں شادی کو تباہ کر دیا ہے، یہاں تک کہ بہت سے لوگ شادی سے گریز کرنے لگتے ہیں۔ہر فریق ،پھراللہ سبحانہ و تعالی کی طرف سے اپنے فرائض کی ادائیگی کیے بغیر، اپنے حقوق مانگتا ہے۔لہذا، سکون سے دوراس ازدواجی زندگی کی خاصیت لڑائی اور دشمنی بن جاتی ہے گویا یہ تکلیف اور درد سے بھرا میدان جنگ ہو۔یہ مسلمان مردوں اور عورتوں پرلازم ہے کہ ازدواجی زندگی کے بارے میں اسلامی شرعی احکامات کا مطالعہ کریں، ان پر غور و فکر کریں اور ان پر عمل کریں، تاکہ ان کی زندگی سکون سے بھرپور ہو۔
اچھائی کے ساتھ گھر بسانا شوہر پر فرض ہے
- اللہ تعالیٰ نے شوہر کو خاص طور پر یہ حکم دیا ہے ،وَعَاشِرُوۡهُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِۚ "اور انھیں اچھائی کے ساتھ بسا ؤ"(سورة النساء:19)۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لأَهْلِي" تم میں سب سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لیے بہترین ہو ، اور میں اپنے اہل و عیال کے لیے تم میں سب سے بہترین ہوں"(ترمذی )۔ ایک اور حدیث میں فرمایا ، خيرُكم خيرُكم لِلنساءِ "تم میں سے بہتر وہ ہے جو عورتوں کے لیے بہترین ہو"(المستدرک)۔
- اچھائی کے ساتھ بسانا شوہر پر فرض ہے، خواہ شوہر کو بیوی کے بڑھاپے، بیماری، یا ناگوار عادات سے نفرت ہو، سوائے بدکاری یا بے حیائی کے۔ اچھائی اور نیکی کے ساتھ مل کر رہنا فرض ہے، جبکہ نفرت بری گھریلو زندگی کا سبب نہیں ہے۔ مزید یہ کہ شوہر کو پہل کرنی چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ اچھے برتاؤ میں حد درجے بہتری لائے ،یہ سوچے بغیر کے اس کی بیوی کا برتاؤ اس کے ساتھ کیسا ہے۔ اگرچہ حسن سلوک بیوی پر بھی فرض ہےلیکن بنیادی طور پریہ شوہر پر پہلے فرض ہے۔ یہ فرض اس سے ساقط نہیں ہوجاتا کہ اس کی بیوی جواب میں اس کے ساتھ حسن سلوک نہ کرے۔ بیوی کے ساتھ شوہر کا حسن سلوک کرنا واجب ہے، خواہ اس کی بیوی نیکی کے ساتھ حسن سلوک نہ بھی کرے اور اللہ سبحانہ تعالیٰ کے اجر سے اپنے آپ کو محروم بھی رکھے۔ نیک شوہر سب سے پہلے اپنا فرض پورا کرتا ہے اوراپنی نیک بیوی کو اچھائی میں آگے بڑھنےکی ترغیب دیتا ہے اور ساتھ ساتھ اپنی ازدواجی زندگی میں بہتری لانے کی کوشش بھی کرتا ہے۔
- بعض اوقات، شوہر کو اپنی بیوی کی جس چیز سے نفرت ہوتی ہے اس میں بھلائی بھی ہو سکتی ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی جانتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے قرآن میں شوہروں کو خاص طور پر مخاطب کر کے فرمایا، فَاِنۡ كَرِهۡتُمُوۡهُنَّ فَعَسٰۤى اَنۡ تَكۡرَهُوۡا شَيۡــًٔـا وَّيَجۡعَلَ اللّٰهُ فِيۡهِ خَيۡرًا كَثِيۡرًا" اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور خدا اس میں بہت سی بھلائی پیدا کردے"(النساء:19)۔ مزید برآں شوہر کو چاہئے کہ وہ اپنی بیوی کی ناپسندیدہ چیزوں میں خیر کو تلاش کرے۔ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک صحیح حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، لا يفرَك مؤمنٌ مؤمنةً إن سخِطَ منْها خُلقًا رضِيَ منْها آخرَ "ایک مومن مرد کو کسی مومن عورت سے نفرت نہیں کرنی چاہیے، اگر وہ اس کی ایک صفت کو ناپسند کرتا ہے تو دوسری (خصوصیت) سے راضی ہو جاتا ہے" (تفسیر ابن کثیر)۔ مطلب یہ ہے کہ شوہر کو اس سے اتنی نفرت نہیں کرنی چاہئے کہ وہ اس سے دور رہنے، الگ رہنے یا اسے طلاق دینے پر مجبور ہو، جو اللہ سبحانہ وتعالی کو تمام ناپسندیدہ اعمال میں سے سب سے ناپسند ہے۔ اس کے بجائے، اسے چاہیے کہ وہ اس کے اچھے کردار کی وجہ سے اس کی ناپسندیدہ عادتوں کو نظر انداز کردے۔ اسے اچھی خصوصیات کے بدلے بری عادتوں سے درگزر کرنا چاہیے جو اس کو ناپسند ہیں۔ ایک پرہیزگار شوہرکو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کی جس چیز سے نفرت کرتا ہے اسے چھوڑ کر اس چیز سے محبت کرے جسے وہ پسند کرتا ہے۔ سب سے بڑھ کر، قطع نظر اس کے کہ شوہر کس چیز سے نفرت کرتا ہے یا پسند کرتا ہے, وہ اللہ سبحانہ و تعالی کےایک فرض شناس اور پرہیزگار بندے کے طور پر، ہر وقت نیکی کے ساتھ گھریلو زندگی برقرار رکھتا ہے۔
شوہر کی اطاعت بیوی پر فرض ہے
جس طرح مرد پر ترجیح کے ساتھ اپنی بیوی کے لئے حسن سلوک فرض ہے اسی طرح شوہر کی اطاعت بیوی پر واجب ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول ﷺ سے پوچھا ، أَيّ النَّاس أَعْظَم حَقًّا عَلَى الْمَرْأَة "عورت پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟" رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا: زَوْجهَا " اس کے شوہر کا"۔ پھر پوچھا فَأَيّ النَّاس أَعْظَم حَقًّا عَلَى الرَّجُل "مرد پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟" ، رسول اللہﷺ نے جواب دیا: أُمّه "اس کی ماں کا") المستدرک (۔
- بیوی کی طرف سے شوہر کی فرمانبرداری مشکل ہے جو کہ جدوجہد اور قربانی کا تقاضا کرتی ہے خاص طور پر جب شوہر اپنے فرائض سے غافل ہو۔ درحقیقت اسلام نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی راہ میں مرد کے جہاد کو، اس کی فتح یا جنگ میں شہادت کو، بیوی کی اپنے شوہر کی اطاعت کے مترادف قرار دیا ہے۔ ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں تشریف لائیں اور پوچھنے لگیں : یا رسول اللہﷺ! میں عورتوں کی طرف سے آپ کے پاس قاصدہ بن کر آئی ہوں، ان میں سے ہر ایک چاہتی تھی کہ میں آپ کے پاس آؤں۔ اللہ سبحانہ وتعالی دونوں یعنی مردوں اور عورتوں کے رب ہیں اور آپﷺ دونوں یعنی مردوں اور عورتوں کے لیے نبی ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے صرف مردوں پر ہی جہاد کو فرض کیا، پس اگر وہ غازی بن کر لوٹیں تو ان کے لیے بے مثال اجر ہے اور اگر قتل کئے جائیں تو وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہوں گے اور اپنے رب سے رزق پاتے رہیں گے۔ہم عورتوں کیلئے اطاعت کا کون سا عمل اجر میں اس کے برابر ہے؟ تو نبی ﷺ نے فرمایا :أَبْلِغِي مَنْ لَقِيتِ مِنَ النِّسَاءِ أَنَّ طَاعَةَ الزَّوْجِ وَاعْتِرَافًا بِحَقِّهِ يَعْدِلُ ذَلِكَ وَقَلِيلٌ مِنْكُنَّ مَنْ يَفْعَلُهُ "اپنے پیچھے والی عورتوں کو یہ بتا دو کہ: شوہر کی اطاعت کرنا اور اس کے حقوق کا تہہ دل سےاعتراف کرنا ان کے(اللہ کی راہ میں جہاد کے) اجر کے برابر ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ تم میں سے اکثر عورتیں ایسا نہیں کرتیں"۔ پس نیک بیوی شوہر کی فرمانبردار ہوتی ہے چاہے اس کا شوہر اس کی ذمہ داریوں سے غافل ہی کیوں نہ ہو۔ وہ گناہگار شوہر کے ساتھ گناہ میں شامل ہونے سے انکار کرتی ہے، اسے تقویٰ اور اللہ کی اطاعت کی طرف لوٹنے کی ترغیب دیتی ہے۔
- حصین بن محصن بیان کرتے ہیں کہ ان کی پھوپھی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں، آپ ﷺ نے ان سے پوچھا: أَذَاتُ زَوْجٍ "کیا تم شادی شدہ ہو؟"، انہوں نے جواب دیا، "ہاں"۔ آپ ﷺ نے فرمایا، فَأَيْنَ أَنْتِ مِنْهُ "تم اس سے کس طرح کا برتاؤ کرتی ہو؟"، انہوں نے جواب دیا مَا آلُوهُ إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ "میں اس کے حق میں کوئی کوتاہی نہیں کرتی، سوائے جب میں عاجز آجاؤں"۔ آپﷺ نے فرمایا انْظُرِي أَيْنَ أَنْتِ مِنْهُ فَإِنَّهُ جَنَّتُكِ وَنَارُكِ "دیکھو، خیال رکھنا کہ تم اس سے (اپنے شوہرسے)کس طرح کا سلوک کرتی ہو کیوں کہ وہی تمہاری جنت اور جہنم ہے"(احمد)۔
اسلام نے بیوی کو اس کے شوہر کی اطاعت کی بہت ترغیب دی ہے۔ اسلام میں جنت میں جانے کی شرائط میں سے ایک شرط اطاعت ہے۔حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا: أَىُّ النِّسَاءِ خَيْر "کون سی عورت بہتر ہے؟"، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ،الَّتِي تَسُرُّهُ إِذَا نَظَرَ وَتُطِيعُهُ إِذَا أَمَرَ وَلَا تُخَالِفُهُ فِي نَفْسِهَا وَلَا مَالِهَا بِمَا يَكْرَهُ "جسے دیکھ کر اس کا شوہر خوش ہو جائے اور جو وہ حکم دے اسے پورا کرے اور اپنی جان ومال کے معاملے میں شوہر کی طبیعت کے خلاف ناپسندیدہ کام نہ کرے"(نسائی، ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ)۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،أَيُّمَا امْرَأَةٍ مَاتَتْ وَزَوْجُهَا عَنْهَا رَاضٍ دَخَلَتِ الْجَنَّةَ" جو عورت اس حال میں مر جائے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو تو وہ جنت میں جائے گی"(مشکاۃ المصابیح)۔ ابو نعیم نے حلیة الأولياء میں بیان کیا کہ قَالَتِ امْرَأَةُ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ: مَا كُنَّا نُكَلِّمُ أَزْوَاجَنَا إِلَّا كَمَا تُكَلِّمُوا أُمَرَاءَكُمْ "سعید بن المسیب کی بیوی نے کہا: ہم اپنے شوہروں سے ویسے ہی بات کرتے تھے جیسے تم اپنے حکمرانوں سے بات کرتے ہو"۔
نیک شوہر مالی کفالت کے لیے کوشاں رہتا ہے
اسلامی ازدواجی زندگی میں مالی کفالت صرف مرد پر ہی فرض ہے جو قرآن کی اس آیت الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ "مرد عورتوں کے ذمہ دار ہیں" (سورة النساء:34) سے اخذ کردہ ہے جس میں سرپرستی، دیکھ بھال اور تحفظ شامل ہے۔رسول اللہ ﷺ نے اپنے خطبہ میں نان نفقہ کی ذمہ داری کی وضاحت فرمائی ہےجسے عمرو بن الاخواص الجسمی نے روایت کیا ہے، أَلَا إِنَّ لَكُمْ عَلَى نِسَائِكُمْ حَقًّا وَلِنِسَائِكُمْ عَلَيْكُمْ حَقًّا فَأَمَّا حَقُّكُمْ عَلَى نِسَائِكُمْ فَلَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ مَنْ تَكْرَهُونَ وَلَا يَأْذَنَّ فِي بُيُوتِكُمْ لِمَنْ تَكْرَهُونَ أَلَا وَحَقُّهُنَّ عَلَيْكُمْ أَنْ تُحْسِنُوا إِلَيْهِنَّ فِي كِسْوَتِهِنَّ وَطَعَامِهِنَّ "تمہاری بیویوں پر تمہارے حقوق ہیں اور ان کا تم پر حق ہے۔ ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی ایسے شخص کو نہ بیٹھنے دیں جسے تم پسند نہیں کرتے اور ان کا حق یہ ہے کہ تم کھانے پینے اور لباس کے معاملے میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو"(ابن ماجہ اور ترمذی )۔ اللہ سبحانہ و تعالی برکت عطا فرمائے ان لوگوں پر جو رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان پر عمل کرتے ہیں أن تحسنوا إليهنَّ في كسوتهنَّ وطعامهنَّ "تم کو ان کے ساتھ خوراک اور لباس کے معاملہ میں اچھا سلوک کرنا چاہئے" ۔ نیک شوہر کنجوس نہیں ہوتا۔بلکہ شوہر اچھائی کے ساتھ اور بالمعروف ضروریات کو پورا کرتا ہے۔
ایک مخلص شوہر خاندان کی کفالت کے لیے کوشش کو اللہ کی عبادت کے طور پر کرتا ہے۔ بیوی بچوں کی ضرورتوں کا خیال رکھنا کوئی ذاتی احسان نہیں۔ جابرؓ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہے کہ أوَّلُ ما يُوضَعُ في ميزانِ العبدِ نفَقتُه على أهلِه" سب سے پہلی چیز جو بندے کے لیے میزان میں رکھی جائے گی وہ وہ خرچ ہوگا جو اس نے اپنے گھر والوں پر کیا"(طبرانی)۔ شوہر اللہ کی رضا کے لیے کمانے میں محنت کرتا ہے اور اللہ کی رضا کے لیے اپنے گھر والوں پر دل کھول کر خرچ کرتا ہے۔ ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،دِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَدِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ فِي رَقَبَةٍ وَدِينَارٌ تَصَدَّقْتَ بِهِ عَلَى مِسْكِينٍ وَدِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ عَلَى أَهْلِكَ أَعْظَمُهَا أَجْرًا الَّذِي أَنْفَقْتَهُ عَلَى أَهْلِكَ" ایک دینار جو اللہ کی راہ میں خرچ کیا گیا ہو یا پھرایک غلام کو آزاد کرانے کے لیے یا پھرکسی غریب کو صدقہ دینے کے لیے یا پھر اہل و عیال کی کفالت کے لیے ،ان میں سب سے بڑا اجر اپنے اہل و عیال کی کفالت کے لیے کیے جانے والا خرچ ہے"(مسلم)۔
شوہر کوشش کرتے نہیں تھکتا کیونکہ وہ اس ثواب کی خواہش رکھتا ہے جو اس کو اپنی شریک حیات کے کھانے پینے کی فراہمی کے سبب ملے گا۔ مقدام بن معد یکرب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ،مَا أَطْعَمْتَ نَفْسَكَ فَهُوَ لَكَ صَدَقَةٌ وَمَا أَطْعَمْتَ وَلَدَكَ فَهُوَ لَكَ صَدَقَةٌ وَمَا أَطْعَمْتَ زَوْجَكَ فَهُوَ لَكَ صَدَقَةٌ وَمَا أَطْعَمْتَ خَادِمَكَ فَهُوَ لَكَ صَدَقَةٌ " جو تم خود کھاتے ہو وہ صدقہ ہے۔ جو کچھ تم اپنے بچے کو کھلاتے ہو وہ صدقہ ہے۔ جو کچھ تم اپنی بیوی کو کھلاتے ہو وہ صدقہ ہے۔ جو کچھ اپنے خادم کو کھلاتے ہو وہ صدقہ ہے"(اس کو احمد نے روایت کیا اور اس کی سند حسن ہے)۔ اربل بن ساریہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا سَقَى امْرَأَتَهُ مِنْ الْمَاءِ أُجِرَ " جب مرد اپنی بیوی کے لیے مشروب مہیا کرتا ہے تو یہ ایک اجر ہے"(اسے احمد اور طبرانی نے الکبیر اور الاوسط میں روایت کیا ہے)۔ سعد بن ابی وقاصؓ نے بیان کیا: اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا،إِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا أُجِرْتَ عَلَيْهَا حَتَّى مَا تَجْعَلُ فِي فَمِ امْرَأَتِكَ " تم جو کچھ بھی اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرو گے اس کا اجر تم کو ملے گا چاہے وہ ایک لقمہ ہی کیوں نہ ہو جسے تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو"(بخاری اور مسلم)۔
شوہر کو کنجوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ بیوی کا حق ہے کہ اس کی مالی کفالت کی جائے جس کو مسلمانوں کا خلیفہ براہِ راست یا عدلیہ کے ذریعے یقینی بنائے گا۔عائشہؓ نے فرمایا: ابو سفیان کی بیوی ہند نے رسول اللہ ﷺ کو بتایا: ابو سفیان ایک کنجوس آدمی ہے اور مجھے اور میرے بچوں کو ضروریات کے مطابق فراہم نہیں کرتا جب تک کہ میں اس کے علم کے بغیر کچھ نہ لے لوں۔ آپ ﷺ نے اس سے فرمایا،خُذِي مَا يَكْفِيكِ وَوَلَدَكِ بِالْمَعْرُوفِ" اتنا لے لو جو تمھارے لیے اور تمہارے بچوں کے لیے کافی ہو جائے"(بخاری، مسلم، نسائی اور ابوداؤد)۔
نیک بیوی کسی بھی غربت کو صبر کے ساتھ برداشت کرتی ہے اور اپنا مال اجر کی خاطر خرچ کرتی ہے
اگر شوہر کو کوشش کرنے کے بعد بھی اللہ عزوجل، الرزاق، الوہاب، الغنی تھوڑا رزق عطا کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ تنگی اور غربت کا شکار ہو جاتا ہے، پھر یہ صالح بیوی پر ہے کہ وہ ان اختیارات پر غور کرے جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کیے ہیں۔ اگر شوہر زیادہ مہیا نہ کر سکے، جبکہ اس کی بیوی صبر نہیں کر سکتی ہو تو وہ خلع (فسخ نکاح) حاصل کر سکتی ہے۔ بے شک، ناکافی نفقہ بیوی پر شوہر کی سرپرستی اور فرائض کی شرائط میں سے ایک کو خراب کر دیتی ہے۔ یہ عورت کا اختیار ہے اور اس بنیاد پر وہ خلافت کی عدالتوں میں پیش ہو سکتی ہے۔
تاہم شادی شدہ زندگی کے دوران غربت کے ادوار میں بیوی کو چاہیے کہ وہ اس دوسرے راستے کو اختیار کرے جس میں اس کی آخرت کے لیے ایک عظیم اجر ہے۔ نیک بیوی کو مسلم امت کی ان بہترین خواتین ، امہات المومنین،کے غربت میں صبر پر غور کرنا چاہیے ۔ عائشہؓ نے فرمایا: كَانَ يَأْتِي عَلَيْنَا الشَّهْرُ مَا نُوقِدُ فِيهِ نَارًا إِنَّمَا هُوَ التَّمْرُ وَالْمَاءُ إِلَّا أَنْ نُؤْتَى بِاللُّحَيْمِ" کبھی ایسے مہینے بھی آتے جس میں ہم چولہا نہیں جلا پاتے تھے صرف پانی اور کھجور پر گزارا کرتے سوائے اس کے کہ کہیں سے تھوڑا سا گوشت آ جایا کرتا تھا"(بخاری، مسلم اور ترمذی)۔ ایک اور روایت میں ہے، ما أَكلَ آلُ محمَّدٍ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ أَكلتينِ في يومٍ واحدٍ إلَّا وإِحداهُما تمرٌ" محمد ﷺ کے گھر والوں نے کبھی بھی ایک دن میں دو کھانے نہیں کھائے، اگر کسی کھانے کے علاوہ کچھ ہوتا تو کھجور ہی ہوتی تھی، اس کے علاوہ کچھ اور نہیں"۔ اور حضرت انسؓ نے فرمایا کہ میں ایک بار رسول اللہ ﷺ کے پاس روٹی، جَو اور کھانا بنانے کے لیے استعمال ہونے والا باسی گھی لے کر حاضر ہوا، تو میں نے آپ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا، مَا أَمْسَى فِي آلِ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم صَاعُ تَمْرٍ وَلاَ صَاعُ حَبٍّ" آل محمد ﷺ نے کبھی کوئی ایسی شام نہیں گزاری جس میں ان کے پاس ایک صاع کھجور اور جَو، دونوں چیزیں موجود ہوں"، حالانکہ اس وقت رسول اللہ ﷺ کی نوبیویاں تھیں (بخاری، ترمذی، نسائی)۔ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، يَا عَائِشَةُ إِذَا أَرَدْتِ اللُّحُوقَ بِي فَلْيَكْفِكِ مِنَ الدُّنْيَا كَزَادِ الرَّاكِبِ وَإِيَّاكِ وَمُجَالَسَةَ الْأَغْنِيَاءِ وَلَا تَسْتَخْلِقِي ثَوْبًا حَتَّى تُرَقِّعِيهِ" اے عائشہ! اگر آخرت میں مجھ سے ملنا چاہتی ہو تو دنیا سے اتنا ہی حاصل کرو جتنا کسی سوار کو اپنی حاجات پوری کرنے کے لیے چاہیے ہوتا ہے، اور خود کو مال داروں کی ہم نشینی سے بچائے رکھو اور اپنا لباس پرانا نہ سمجھو یہاں تک کہ اس میں پیوندنہ لگا لو"(ترمذی) ۔ زرین (ایک راوی) نے مزید کہا کہ عروہ نے کہا، عائشہؓ اس وقت تک اپنا لباس تبدیل نہیں کرتی تھیں جب تک کہ ان کے لباس میں پیوند نہ لگ جاتے۔
غربت میں صبر کا صلہ لینے کے ساتھ ساتھ نیک بیوی کو ایک اور معاملے پر بھی غور کرنا چاہیے جو کہ فرض نہ ہونے کے باوجود اپنا مال خرچ کرنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی ترغیب دی ہے اور ایسی بیوی کے لئے ایک کی بجائے دہرا اجر ہے۔ عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی زینب ثقفیہ ؓ بیان کرتی ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تَصَدَّقْنَ يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ وَلَوْ مِنْ حُلِيِّكُنَّ "تم عورتوں کو صدقہ دینا چاہیے، خواہ وہ تمہارے زیورات ہی کیوں نہ ہو"۔ وہ کہتی ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس واپس آئی اور کہا کہ تم تنگ دست ہو اور رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم صدقہ کریں تو رسول اللہ ﷺ کے پاس جاؤ اور پوچھو کہ تم پر اپنا مال خرچ کرنا کیا میرے لئے کافی ہو جائے گا یا میں کسی اور کی مدد کر دوں۔ عبداللہ ؓنے مجھ (اپنی بیوی) سے کہا، بہتر ہے کہ تم خود جا کر پتہ کرو۔ چنانچہ جب میں پہنچی تورسول اللہ ﷺ کے دروازے پر انصار کی ایک عورت تھی جس کا آنے کا مقصد وہی تھا جو میرا تھا تو ہم نے یہ گوارا نہیں کیا کہ رسول اللہ ﷺ کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے۔ پھر بلالؓ باہر آئے اور ہم نے ان سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ م کے پاس جائیں اور بتائیں کہ وہاں دو عورتیں ہیں اور پوچھ رہی ہیں کہ کیا ان کے لیے بہتر رہے گا کہ وہ اپنے خاوندوں اوران یتیموں جو ان کی ذمہ داری میں ہیں، ان کو صدقہ دیں، لیکن رسول اللہﷺ کو یہ نہ بتائیں کہ ہم کون ہیں۔بلال ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے اور آپ ﷺسے پوچھا (وہ جوان عورتوں نے آپ کو پوچھنے کا کہا تھا)۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ یہ عورتیں کون ہیں؟ بلال ؓنے فرمایا کہ ایک عورت انصار سے ہے اور زینب ہے۔ اس پررسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کون سی زینب؟ تو انہوں نے جواب دیا عبداللہؓ کی بیوی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لَهُمَا أَجْرَانِ أَجْرُ الْقَرَابَةِ وَأَجْرُ الصَّدَقَةِ "دونوں میں قرابت کا ثواب اور صدقہ کا ثواب ہے"(بخاری اور مسلم)۔ لہٰذا، شوہر کا اپنی بیوی پر خرچ کرنا صرف ایک صدقہ کا ثواب ہے۔ جبکہ بیوی کا شوہر پرخرچ کرنا اس کی تنگدستی میں، اس کا دہرا ثواب ہے، ایک قرابت داری کا ثواب اور دوسراصدقے کا ثواب۔ ایک نیک بیوی کے لئے یہ حوصلہ افزائی کی بات ہے کہ وہ اپنا مال اپنے خاندان پر خرچ کرے بجائے یہ کہ وہ خلع کی تلاش میں رہے جو کہ بہر حال اس کا حق ہے۔
شوہر کو اپنی بیوی کی کجی کے باوجود اس کا ساتھ نبھانا چاہیے
رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کی فطرت واضح فرمائی تاکہ مرد عورت کی حقیقت کو سمجھے، اس سے سیکھے، تاکہ یہ جان سکے کہ اس کے لیے کیا موزوں ہے اور اسے کس چیز سے ٹکرانے سے گریز کرنا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "فَإِنَّ الْمَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ، وَإِنَّ أَعْوَجَ شَىْءٍ فِي الضِّلَعِ أَعْلاَهُ، فَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهُ كَسَرْتَهُ، وَإِنْ تَرَكْتَهُ لَمْ يَزَلْ أَعْوَجَ، فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ" : عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور اوپر کی پسلی سب سے ٹیڑھی ہے، پس اگر تو اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرے گا تو تو اسے توڑ ڈالے گا، اور اگر اسے اس کی حالت پر چھوڑ دے گا تو وہ ہمیشہ کی طرح ٹیڑھی ہی رہے گی، لہذا عورتوں سے خیر کا معاملہ رکھو"(متفق علیہ)۔اللہ تعالیٰ نے عورت کو مرد کی سب سے ٹیڑھی پسلی سے پیدا کیا اور سب سے زیادہ ٹیڑھ پن اس کا اوپری حصہ ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورت کی جسمانی صفات میں ٹیڑھ پن ہے جس سے وہ اپنے شوہر کو اپنی طرف مائل کر لیتی ہے۔ یہ وہ ٹیڑھ پن ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے خود اس کی فطرت میں، اس کے کردار میں اور پریشانیوں اور ضروریات کو پرکھنے میں اور معاملات کو سمجھنے کے انداز میں پیدا کیا ہے۔
لہذا بے مروت شوہر کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ عورت کی تخلیق میں کمال کی علامت ہے، جس کی تخلیق خوبصورتی کا مجسمہ ہے اورزندگی کی چوٹی میں تعظیم اور وافر خوشی اور راحت کی بہار ہے۔ وہ ایک ماں ہے جو احترام کی حقدار ہے جس کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بے پناہ صبر سے نوازا ہے،جس میں احسان اور رحم ہے تاکہ وہ حمل برداشت کر سکے اور پھر جنم دے سکے اور پھر پرورش کی آزمائشوں کو برداشت کر سکے۔ وہ اکتاہٹ،تھکاوٹ، اور انتہائی سختی کے باوجود بچوں کی پرورش کرتی ہے۔ لہٰذا، سخت مزاج شوہر کو یاد رکھنا چاہیے کہ بیوی کس طرح آسانی سے اپنے حق پر سمجھوتہ کرلیتی ہے اور خاندانی زندگی میں پیدا ہونے والے تنازعات کو مہارت سے حل کرتی ہے۔ لہذا ناقابل برداشت شوہر کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ کس طرح بچوں کی دیکھ بھال کی خاطر، راتوں کو جاگ جاگ کراس کی بیوی کے بال سفید ہوگئے ۔لہذا لڑنے بھڑنے والے شوہر کو اس بات کو یاد کرنا چاہیے کہ اس کی بیوی نے ماں کی صورت میں لاتعداد قربانیاں دے کر اس کے بچوں کو کھلایا پلایا،ان کی صحت اور خوشی کا خیال رکھا۔ عائشہؓ نے فرمایا "ایک غریب عورت اپنی دو بیٹیوں کو لے کر میرے پاس آئی۔ میں نے اسے تین کھجوریں دیں۔ اس نے ان میں سے ہر ایک کو ایک ایک کھجور دی اور پھر اس نے ایک کھجور کھانے کی نیت سے اٹھائی اور منہ تک لائی لیکن پھر اس کی بیٹی نے اس سے وہ کھجور مانگ لی تو اس نے اس کھجور کے دو ٹکڑے کرکے اپنی بیٹیوں میں بانٹ دیئے جو اس نے اپنے لئے رکھے تھے۔ اس کے اس حسن سلوک نے مجھے متاثر کیا اور میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَوْجَبَ لَهَا بِهَا الْجَنَّةَ "بے شک اللہ نے اس کے (اس عمل) کی وجہ سے اس کے لیے جنت کی ضمانت دی ہے"،یا فرمایا،أَعْتَقَهَا بِهَا مِنْ النَّارِ" اسے اس فعل کے بدلے جہنم کی آگ سے نجات مل گئی گی"(اس کو مسلم نے روایت کیا ہے)۔
تو کیونکرایک نیک شوہر اس ٹیڑھ پن پر صبر نہ کرے جس کو خود اللہ سبحانہ و تعالی نے بنایا ہے؟ تو شوہر کیوں نہ اس کو سمجھے،قبول کرے اوراس کے لیے گنجائش پیدا کرے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، فَإِنِ اسْتَمْتَعْتَ بِهَا اسْتَمْتَعْتَ بِهَا وَبِهَا عِوَجٌ" تو اگر تم اس سے لطف اندوز ہوگے ، تو تم ایسا اسی حال میں کرو گے جب کہ اس میں ٹیڑھ پن باقی رہے گا"۔ اس طرح، شوہر اپنی بیوی کے ٹیڑھ پن سے لطف اندوز ہوتا ہے۔لیکن یہ سکون ازدواجی زندگی کو یقینی بناتا ہے جس میں مکمل بھلائی، صحبت اور قربت میں اچھائی ہے۔ یہ صحت اور بیماری دونوں میں ازدواجی خوشی کو یقینی بناتا ہے، پھر چاہے دولت ہو یا غربت، استحکام ہو یا بے گھری، کامیابی ہو یا ناکامی۔ اس طرح کا عمل شیطان ملعون کے وسوسوں سے اچھی ازدواجی زندگی کو بگاڑنے سے روکتا ہے۔
نیک بیوی اللہ عزوجل کی نعمتوں کی شکر گزار، اپنے شوہر کی کوتاہیوں کو درگزر کرنے والی اور صبر کرنے والی ہوتی ہے
- جس طرح شوہر کو اپنی بیوی کی کجی کے باوجود اس کا ساتھ نبھانا چاہیے اسی طرح بیوی کو شوہر کی کوتاہیوں کے باوجود شکر گزار رہنا چاہیے۔یقینا پھر یہ غفلت اللہ سبحانہ و تعالی کی نافرمانی کی وجہ سے ہو چاہے یہ خراب مالی کفالت ہو یا بد اخلاقی ،یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے جس پر خلیفہ یا قاضی اس کا احتساب کریں گے۔ نیک بیوی اپنے شوہر کے عیبوں کو نظر انداز کرتی ہے اور غربت اور آزمائش پر صبر کرتی ہے تاکہ اس کا خاندان برداشت کے ساتھ قائم رہ سکے۔ وہ ایک مضبوط بنیاد ہے جس پر اچھی خاندانی زندگی قائم ہوتی ہے۔ وہ مستحکم ستون ہے جس کے گرد خاندان اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کے لیے بلند اور کھڑا ہوتا ہے۔
- نیک شکر گزار بیوی وہ ہے جو اپنے شوہر کو توانائی بخشے اور اس کا بوجھ ہلکا کرے۔یہ وہ بیوی ہے جس کا شوہر اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے بعد گھر کی طرف بھاگے جہاں پر اس کو آرام اور سکون ملے۔ یہ وہ بیوی ہے جو اپنے شوہر کی طرف سے ملنے والے چھوٹے یا عاجزانہ تحائف کا خیر مقدم کرے گویا اسے دنیا کی دولت ملی ہے۔ یہ وہی ہے جو اس اتارچڑھاؤ کے ساتھ تمام تر ذمہ داری کو قبول کرتی ہے ۔ وہ قناعت اور اطمینان کے ساتھ کسی بے چینی یا بے صبری کے بغیر اللہ سبحانہ وتعالی کے حکم کو قبول کرتی ہے۔ انس بن مالک ؓ نے بیان کیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ألَا أخبرُكم بنسائِكُم في الجنَّةِ" کیا میں تمہیں جنت میں تمہاری عورتوں کے بارے میں بتاؤں؟ "،ہم نے کہا ہاں یا رسول اللہ! آپ ﷺ نے فرمایا،كُلُّ وَدُودٍ وَلُودٍ ، إِذَا غَضِبَت أَو أُسِيءَ إِلَيهَا أَو غَضِبَ زَوجُهَا ،« قَالَت: هَذِه يَدِي فِي يَدِكَ ، لَاْ أَكْتَحِلُ بِغُمضٍ حتَّى تَرضَى "ہر وہ بیوی جو دنیا میں اپنے شوہر سے بہت زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی ہو۔اور جب اس کا شوہر اس سے ناراض ہو جائے یا اس سے برا سلوک کرے یا اس پر غصہ ہو جائے تو وہ اسے منانے کے لیے کہے کہ میرا یہ ہاتھ اب تمہارے ہاتھوں میں ہے، جب تک آپ راضی نہ ہوں گے، میں نیند کا مزہ نہیں چکھوں گی"(طبرانی)۔
- یہ وہ پرہیزگار عورت ہے جو ناشکری کے خلاف ہے، کیونکہ ناشکری وہ چیز ہے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک قابل مذمت ہے۔ أبو راشد الحبراني عبد الرحمن بن شبل کا قول نقل فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا،إِنَّ الْفُسَّاقَ هُمْ أَهْلُ النَّارِ" فاسقوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے"۔ پوچھا گیا: یا رسول اللہ! فاسق کون ہیں ؟ تو نبی ﷺ نے فرمایا: النِّسَاءُ،" عورتیں"۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! کیا وہ ہماری مائیں، بہنیں اور بیویاں نہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: بَلَى وَلَكِنَّهُنَّ إِذَا أُعْطِينَ لَمْ يَشْكُرْنَ وَإِذَا ابْتُلِينَ لَمْ يَصْبِرْنَ ،"بے شک ہیں، لیکن جب اللہ تعالی انہیں کچھ عطا کرتے ہیں تو وہ شکر نہیں کرتیں اور جب اللہ عز وجل کی طرف سے ان پر کوئی آزمائش آتی ہے تو صبر نہیں کرتیں"( احمد)۔ عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،لَا يَنْظُر اللَّه إِلَى اِمْرَأَة لَا تَشْكُر لِزَوْجِهَا وَهِيَ لَا تَسْتَغْنِي عَنْهُ ،"اللہ تعالیٰ اس عورت کی طرف نہیں دیکھے گا جو اپنے شوہر کی ناشکری کرے جبکہ اسے اپنے شوہر کی ضرورت نہ ہو"(المستدرک)۔ درحقیقت نیک بیوی ہر وقت فرمانبرداررہتی ہے خواہ اس کا جذبہ عمر کے ساتھ ٹھنڈا ہو جائے یا اس کے پاس اپنے بیٹوں کے ذریعہ متبادل مالی کفالت کے ذرائع موجود ہوجائیں۔ درحقیقت، صبر کرنے والی بیوی اس وقت بھی فرمانبرداررہتی ہے جب اس کا شوہر بیماری، معذوری یا عمررسیدہ ہونے کے باعث اس کی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
نتیجہ: اسلام میں شادی انسانیت کے لیے ایک نمونہ ہے
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انفرادی طور پر شوہر اور بیوی دونوں پر فرائض کا حکم دیا ہے، جو ان دونوں کے لیے مشترک ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے احکامات دیے جو شوہر کے لئے تو فرض کے درجے میں ہیں لیکن بیوی کے لئے فرض نہیں جیسے مالی کفالت کرنا۔ اسی طرح جو بیوی کے فرائض ہیں وہ شوہر کے لئے فرض نہیں جیسے اطاعت کرنا۔ اس طرح شادی شدہ جوڑے کچھ فرائض میں شریک ہوتے ہوئے ایک دوسرے کے فرائض کی تکمیل کو یقینی بناتے ہیں اور یہی ازدواجی زندگی میں سکون کی علامت بنتا ہے۔
اسلام نہ صرف غیر اسلامی روایات پر مبنی شادیوں کے مصائب کا متبادل فراہم کرتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مغرب میں دکھ سے بھرپور شادی شدہ زندگیوں، جو مساوات کے ناقص نظریہ پر استوار ہیں,ان کو ایک خاص نقطہ نظر دیتا ہے۔ برابری کا پیمانہ ایک ایسے ڈھانچے پر مبنی ہے جس میں بیوی کو مرد کے ہم پلہ کر دیا گیاہے۔ عورتوں کو مردوں کے برابر کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مردوں کو ایک پیمانے کے طور پرلے لیا جاتا ہے۔ بڑے مؤثر طریقے سے عورتوں کو مرد کے برابر کرنے کے لیے مغربی قانون نے مردوں کو ایک معیار بنادیا جس کی وجہ سے ایسا بحران پیدا ہوگیا جس میں اب ایک عورت کو نہ صرف حمل کو مدت تک لے جانے کا بوجھ، پیدائش کے درد کو برداشت کرنا اوربچوں کی پرورش کے لیے انتھک کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ اب مالی کفالت کا بوجھ بھی خود اٹھانا ہے۔ اس کے علاوہ بعض صورتوں میں شوہر اپنے فرائض سے غفلت برتتا ہے جبکہ بیوی دیگر معاملات میں اپنے فرائض سے غفلت برتتی ہے اور ایسی صورتوں میں دونوں گناہ میں پڑ جاتے ہیں۔ یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ شادی کو عدم اطمینان، ناراضگی اور دشمنی کے ساتھ ایک بوجھ اور تناؤ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا: وَ لَيۡسَ الذَّكَرُ كَالۡاُنۡثٰى، " اور لڑکا لڑکی کی طرح نہیں ہوتا"(سُورَةُ آل عِمرَان: 36)۔ اور اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمایا: وَاَنَّهٗ خَلَقَ الزَّوۡجَيۡنِ الذَّكَرَ وَالۡاُنۡثٰىۙ" اور یہ کہ وہی نر اور مادہ ،دو قسم (کے حیوان) پیدا کرتا ہے"(سُورَةُ النّجْم: 45)۔ اللہ تعالی نے عورت اور مرد کودو مختلف جنس میں پیدا کیا ہے۔ دونوں کے درمیان حیاتیاتی فرق میں کسی کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں ہے۔یہ اللہ سبحانہ و تعالی کی حکمت ہے کہ کچھ فرائض بحیثیت انسان دونوں کے لیے عام ہیں اور کچھ فرائض ان کی جنس اور حیاتیاتی نوعیت کے اعتبار سے خاص ہیں۔ اس طرح مومن مرد اور عورتیں دونوں ازدواجی زندگی میں تعاون کرتے ہیں, جس کی وجہ سے عمومی طور پر معاشرے میں سکون اور اطمینان ہوتا ہے اور اس طرح وہ آخرت میں اپنے اچھے مقام کو یقینی بناتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے قرآن میں فرمایا:رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدۡتَّنَا عَلٰى رُسُلِكَ وَلَا تُخۡزِنَا يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ ؕ اِنَّكَ لَا تُخۡلِفُ الۡمِيۡعَادَ ۔ فَاسۡتَجَابَ لَهُمۡ رَبُّهُمۡ اَنِّىۡ لَاۤ اُضِيۡعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنۡكُمۡ مِّنۡ ذَكَرٍ اَوۡ اُنۡثٰىۚ بَعۡضُكُمۡ مِّنۡۢ بَعۡضٍۚ، "اے پروردگار! تو نے جن جن چیزوں کے ہم سے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے وعدے کیے ہیں وہ ہمیں عطا فرما اور قیامت کے دن ہمیں رسوا نہ کرنا کچھ شک نہیں کہ تو خلاف وعدہ نہیں کرتا ۔ تو ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول کر لی (اور فرمایا) کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ، چاہے وہ مرد ہو یا عورت ،ضائع نہیں کرتا"( سُورَةُ آل عِمرَان: 194-195(