بسم الله الرحمن الرحيم
کیا عمران خان نےواقعی ایک جائز تحریک کوجنم دیا ہے جس میں دی جانے والی قربانیاں بار آور ثابت ہوں گی ؟!
خبر:
پاکستان کی حکومت نے معزول وزیراعظم عمران خان پر اسلام آباد میں ایک بڑے، منصوبہ بند ریلی کے انعقاد پر پابندی عائد کر دی ہے اور ملک بھر میں ان کے حامیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کر کے سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ 24 مئی 2022 کو لاہور میں ایک چھاپے کے دوران ایک پولیس اہلکار کے مارے جانے کے چند گھنٹے بعد یہ پابندی لگائی گئی، جب سابق وزیر اعظم کے ایک حامی نے لاہور میں اپنے گھر میں پولیس افسران کے گھسنے کے بعد فائرنگ کر دی تھی۔
وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے خان صاحب کو متنبہ کیا تھا کہ انہیں "اسلام آباد کا امن خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی" اور اگر ریلی آگے بڑھی تو ضرورت پڑنے پر انہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔ جناب ثناء اللہ نے 24 مئی کی صبح میں جناب خان پر خانہ جنگی جیسی صورتحال پیدا کرنے کا الزام لگایا تھا۔ اس ہفتے کے شروع میں، خان صاحب نے اپنےحامیوں پر زور دیا تھاکہ وہ 25 مئی 2022 کو ایک بڑی ریلی کے لیے اسلام آباد میں جمع ہو کر شریف حکومت پر دباؤ ڈالیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ مظاہرہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ قبل از وقت انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا جاتا۔ (ماخذ: اے بی سی)
تبصرہ:
جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ عمران ، وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد ،ایک جائز قربانی کی تحریک کو کھڑا کر رہا ہے، اور اس کی جگہ حکومت کے لیے ایک نیا چہرہ، شہباز شریف، منتخب کیا گیا ہے، وہ افسوسناک طور پر غلطی پر ہے۔ عمران خان اچھی طرح جانتے ہیں کہ کس طرح حکمرانوں کا انتخاب اور انہیں کنٹرول ملک میں حقیقی پالیسی سازوں کے ذریعے کیا جاتا ہے، جو فوجی قیادت کے اندر ایک دھڑا ہے۔ تب ہی وائٹ ہاوس میں بیٹھے حکومت کے اصل مالک نے چہرے کی تبدیلی کی توثیق کی۔ عمران جانتے ہیں کہ ملک میں جمہوری نظام باقی دنیا کی جمہوریتوں کی طرح ایک دھوکہ ہے کہ عوام کو حکمران اور آئین کے انتخاب کا حق اور آزادی کا حاصل ہے۔
تاہم، حقیقت میں، جمہوریت بذات خود ریاست میں ریاست (ڈیپ سٹیٹ) کا ایک چہرہ ہے جو سیاست دانوں کو ہدایت دیتی ہے، ان کو پالیسیاں بنانے کا حکم دیتی ہے کہ جن پر انہیں عمل درآمد کرنا ہے۔ سیاست دانوں کو ان ہدایات اور پالیسیوں کو لازمی نافذ کرنا ہوتا ہےورنہ انہیں مقدمات، قید و بندیا قتل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ صرف پاکستان میں ہی جمہوریت کی اس تاریخ کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کا قتل اس بات کی تصدیق کرنے والی مثالیں ہیں۔ اس طرح چند منتخب نمائندوں، وزراء اور وزرائے اعظم کی گرفتاری یا جلاوطنی ہی واحد آپشن نہیں ہے۔ یہ کوئی آخری حربہ نہیں ہوتا بلکہ سب سے آسان حربوں میں سے ایک حربہ ہے، کیونکہ یہ پست سیاسی قیادتیں ریاست میں موجود ریاست (ڈیپ سٹیٹ)اور اس کے حقیقی آقا، واشنگٹن کے سامنے عاجز اور غلام ہیں۔
یہ وہی چیز ہے جس کے متعلق بہت سے لوگ قیاس کرتے ہیں یا شک کرتے ہیں، لیکن انہیں یقین نہیں ہے۔ اگر انہیں اس بات کا یقین ہو جائے یا یقین دلادیا جائے تو وہ ایک ناجائز ، اوراستعماری کفار کی وفادار حکومت کے تابع رہنا قبول نہیں کریں گے ۔ لہٰذاحکومت اس وقت تک ہی برقرار رہتی ہے جب تک کہ وہ امریکی مفادات کی خدمت کر سکتی ہے، اور اس سے پہلے کہ وہ اس مقام تک پہنچے کہ لوگ اس کی حقیقت سے آگا ہ ہوجائیں ،اسے ختم کردیا جاتا ہے۔
ملک میں عمران خان کی تحریک پاکستان کے عوام کے لیے برائی ہی لائے گی۔ درحقیقت ریاست میں موجود ریاست (ڈیپ سٹیٹ)نے اپنے مفاد کے لیے عمران کو آزاد اور زندہ چھوڑ دیا۔ عمران کی تحریک حکومت کو اپنے حقیقی مخالفین کو دبانے کا موقع اور بہانہ فراہم کرتی ہے۔ ان میں سے 400 سے زائد افرادکی گرفتاری اس کی ایک مثال ہے، لہٰذا عمران کو ڈھیل دینا حقیقی مخالفین کو ختم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اقتدار کے حصول کی گھٹیا جدوجہد کی عوام کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ جہاں تک قبل از وقت انتخابات کا تعلق ہے، یہ محض اقتدار حاصل کرنےکے لیے ایک اور حربہ ہے، جس میں عوام کا کوئی فائدہ یا حصہ نہیں ہے۔ عوام کے مصائب کی بنیاد، حکومت اور آئین، انتخابات سے نہیں بدلیں گے۔ انتخابات محض حکومت کا چہرہ اور ریاست میں موجود ریاست (ڈیپ سٹیٹ) کی ظاہری شکل کو بدل دیں گے۔
اگر ہم مان بھی لیں کہ انتخابات میں عمران خان جیت جائیں گے، جس کا امکان کم ہے، تب بھی کیا عمران کے پاس کوئی نظریاتی، سیاسی اور معاشی وژن ہے جو ملک کو بحران سے نکال سکے؟! اس کا جواب نہیں ہے۔ اگر عمران کے پاس انقلابی ویژن ہوتا تو وہ اقتدار میں آتے ہی اس پر عمل درآمد کر چکے ہوتے۔ تاہم، عمران اپنے سے پہلے کے باقی ' رُوَيْبِضة' ، یعنی ادنیٰ اور گھٹیا حکمرانوں کی طرح فکری طور پردیوالیہ ہے، بلکہ ان تمام ادنیٰ اور گھٹیا حکمرانوں کی طرح ہے جو مستقبل میں جمہوریت کی ریاست میں موجود ریاست (ڈیپ سٹیٹ)کے بطن سے جنم لیں گے۔
عمران کی تحریک حکومت کے فائدے میں جاتی ہے اور اسے یا اس کے آقا کے مفادات کو کسی بھی طرح نقصان نہیں پہنچاتی۔ مزید برآں، جمہوریت کے ذریعے تبدیلی کے دھوکے کا تعاقب کرنے کے لیے پاکستان کے گلی کوچوں میں مجمعے لگا کر، عمران اس ناکام حکومت کے کھنڈرات پر نبوت کے نقش قدم پر خلافت کے قیام کے ذریعے امت کو حقیقی تبدیلی کی تحریک سے ہٹانے کا مقصد پورا کرتا ہے۔ اس طرح، عمران کی تحریک عوام کی توجہ کو ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی اور سیاسی صورتحال سے ہٹانے کا باعظ بنتی ہے ، جہاں مہنگائی اور بے روزگاری آسمان کو چھو چکی ہے، اور جس سے نجات کا واحد طریقہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ تمام احکامات کے مطابق حکمرانی میں ہے۔
لہٰذا احتجاج میں حصہ لینے والے مخلص افراد کے ساتھ ساتھ ملک کی خاموش اکثریت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ملک میں حقیقی تبدیلی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ انہیں چاہیے کہ وہ کسی بھی سیاسی قیادت کو، چاہے اس کا تعلق حکومت سے ہویا اپوزیشن سے ہو ، اس بات کی اجازت نہ دیں کہ وہ موجودہ نظام کے تسلسل کو یقینی بناتے ہوئے انہیں دھوکہ دیں جس سے فائدہ نہیں، بلکہ بہت نقصان ہوتا ہے۔ انہیں اقتدار کے لیے وژن سے عاری سیاست دانوں کے ذاتی عزائم کے تکمیل کے لیے خود کو ایندھن بنانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے ۔ جہاں تک اہل طاقت میں موجود مخلص لوگوں کا تعلق ہے، تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنے درمیان موجود غداروں کی صفوں کو صاف کرتے ہوئے سیاسی اور عسکری قیادت کا تختہ الٹ دیں، اور ہمارے ملک سے ڈیپ سٹیٹ اور مغربی اثر و رسوخ کو ختم کریں۔ یہ سب کچھ صرف اس سیاسی قیادت، حزب التحریر، کوان کی نصرت کی فراہمی سے ہوسکتا ہے جو حقیقی تبدیلی اور اور استعمار سے نجات کی علم بردار ہے ، تاکہ شان و شوکت اور فتح کی ریاست، نبوت کے نقش قدم پر خلافت کو قائم کیا جا سکے۔
بلال المہاجر، پاکستان