الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

پاکستانی ریاست اور افغان حکومت، اور پاکستانی ریاست اور ٹی ٹی پی کے درمیان جھڑپیں،

 

تجزیہ:انجینئر معیز، پاکستان

 

1-پاکستان کے حکمران سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندی کے خطرے پر بین الاقوامی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ مغرب، جس کی قیادت امریکہ کررہا ہے، اس معاملے کو ایک جیو پولیٹکل خطرے کے طور پر دیکھے اور ایک بار پھر اس خطرے کا سامنا اور خاتمہ کرنے کے نام پر پاکستان کے حکمرانوں کو مالی امداد فراہم کرے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے حکمران  سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندی کے خطرے کو اجاگر کر رہے ہیں۔

 

2-پاکستانی حکام کی طرف سے سخت سرحدی قوانین کا نفاذ، پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان کشیدگی کا باعث ہے۔ پاکستان کے حکام افغانستان کے ساتھ سرحدیں نرم کرنے سے خوفزدہ ہیں کیونکہ یہ دونوں معیشتوں کے فطری انضمام کا باعث بنے گا اور پاکستان کی پیداواری صلاحیت کو پاکستانی اور افغان دونوں منڈیوں کی ضرورت  کو پورا کرنا پڑے گا (جو حقیقت میں مقامی صنعت کے لیے فائدہ مند ہے)۔ ڈالر، کھاد، گندم وغیرہ کی افغانستان سمگلنگ پاکستان کے نااہل حکمرانوں کے لیے باعث تشویش ہے۔ پاکستانی حکام کو افغانستان سے پاکستان میں عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت اور پاکستانی علماء اور مدارس کے طلباء اور افغان طالبان کے میل جول کے نتیجے میں پاکستانی مدارس میں جہاد کی سوچ کے پروان چڑھنے کا بھی خدشہ ہے۔افغان طالبان کی نظر میں پاکستان سے تعلق اور پاکستان کی معیشت سے تعلق افغانستان کی معیشت کے لیے شہہ رگ (لائف لائن) ہے اور اسی لیے وہ سرحد کھولنے یا اسے نرم  سرحد میں بدلنے کے حامی ہیں۔ یہ سرحد پشتون قبائل کے لیے ایک انتہائی حساس مسئلہ ہے ، جسے انہوں نے کبھی قبول نہیں کیا۔ سرحد پر رہائش پذیر قبائل پاک-افغان سرحد کو ایک ہی قبیلے اور لوگوں کو دو مختلف ممالک میں تقسیم کرنے والی سرحد  کے طور پر دیکھتے ہیں۔

 

3-پاکستان کے سرحدی علاقوں میں پاکستانی ریاست اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں جن میں عسکریت پسندوں کو  افغان طالبان کی خاموش  مگر  غیر فعال حمایت حاصل ہے۔ سرحدی قبائل نے کبھی بھی اپنے علاقوں میں ریاستی ڈھانچے کے زیادہ وسیع رسائی اور موجودگی کو قبول نہیں کیا اور وہ ایسے ڈھانچے کو اپنی خودمختاری اور آزادی کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اسی لیے وہ فاٹا کے علاقے کی، کے پی کے میں انضمام کو پاکستانی ریاست کی طرف سے اپنی خود مختاری پر حملہ سمجھتے ہیں اور اس انضمام کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سرحدی علاقے کے جنگجو جو اپنے آپ کو تحریک طالبان پاکستان کہلواتے ہیں، پاکستانی ریاست کو ایک ناجائز ریاست کے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ وہ ایک سیکولر امریکی ایجنٹ ریاست کے طور پر کام کرتی ہے۔ ان کے اس نظریاتی یقین کے نتیجے میں انہوں نے پاکستانی ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں۔

 

4-افغان طالبان فعال طور پر ٹی ٹی پی کی حمایت نہیں کر رہے  لیکن افغانستان میں ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے سے انکاری ہیں۔ افغان طالبان اپنی جانب  سےٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر کریک ڈاؤن کرنے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ،

 

ا۔ ان کے خیال میں اگر پاکستان اور امریکہ سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندی کو کچلنے میں کامیاب نہیں ہوئے تو افغان طالبان بھی ایسی کسی  کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔

 

ب۔ افغان طالبان سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندی کے خلاف اتنے بڑے پیمانے پر کارروائیاں کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

 

ت۔ افغان طالبان اگر ساتھی جہادیوں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو اُن کے خود کے جہادی ہونے  پر سوال کھڑا ہوجائے گا۔ اگر وہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہیں تو انہیں اپنے پیروکاروں میں اپنی سپورٹ ختم ہونے کا خدشہ ہے۔

 

ٹ۔ طالبان کی زیر قیادت افغان حکومت خود ہی " اسلامک اسٹیٹ آف خراسان " (داعش) کی جانب سے مسلسل بمباری کی ایک لہر کی زد میں ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی بھی کارروائی دراصل ٹی ٹی پی کے عناصر کو داعش کی صفوں میں شامل ہونے کی جانب راغب کر سکتی ہے یا خود ٹی ٹی پی کابل کی حکومت کے خلاف کھڑی ہو سکتی ہے ۔ افغان طالبان کو خدشہ ہے کہ اگر ٹی ٹی پی کے مسئلہ کو سمجھداری سے نہیں نمٹا گیا تو، مشرقی افغانستان میں عسکریت پسندی کا خطرہ، افغان طالبان مخالف محاذ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔

 

ث۔ افغان طالبان، پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد کو نرم کرنا چاہتے ہیں۔ سرحدی علاقوں میں ٹی ٹی پی کا خطرہ اور ٹی ٹی پی کے خلاف پاکستانی فوج کی کارروائیاں ڈیورنڈ لائن کو نرم سرحد بنانے کے ان کے ہدف کو مزید مشکل بنا دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی مشکل میں پڑے بغیر  ٹی ٹی پی کے خطرے کو حل کرنے میں پاکستان کی مدد کرنا چاہتے ہیں ۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ  سمجھتے ہیں کہ پاکستانی حکام اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات میں سہولت کاری کا کردار ادا کیا جائے۔ انہوں نے اس حوالے سے کوشش کی لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔

 

5-افغان طالبان پاکستان کے سرحدی علاقے میں ٹی ٹی پی کے خطرے کی موجودگی کو افغانستان میں پاکستان کے اثرورسوخ کو کم کرنے کے ایک موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔ لہٰذا افغان طالبان ، ٹی ٹی پی کے مسئلے کو پاکستانی ریاست کے خلاف فائدہ اٹھانے کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ تاہم اس طرح کی پالیسی کا مقصد ٹی ٹی پی کی فعال حمایت نہیں ہے، جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے، بلکہ یہ ٹی ٹی پی اور پاکستانی ریاست کے درمیان مذاکرات کی سہولت فراہم کرنے کی کوشش کے ذریعے  ٹی ٹی پی کی غیر فعال حمایت ہے۔

 

6-پاکستانی ریاست پر ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کے حملے سرحدی قبائل کی اپنی خودمختاری کو برقرار رکھنے اور پاکستانی حکام کے ساتھ کسی قسم کے تصفیے تک پہنچنے کے لیے ان کی طرف سے ایک کم سطح کی جدوجہد کی عکاسی ہیں جہاں وہ فاٹا کے علاقے کے لیے کچھ آزادی اور خودمختاری حاصل کر سکنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ تاہم پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ وانا سے کابل تک پھیلے ہوئے جہادی گٹھ جوڑ کے خوف سے سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندوں کو ایسی جگہ دینے کو تیار نہیں ہے۔ پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی پر دباؤ ڈالیں۔ پاکستانی فوج خود سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیاں نہیں کرنا چاہتی کیونکہ اس طرح کی کارروائیوں پر بھاری اقتصادی اور فوجی لاگت آئے گی۔ وہ اس طرح کی فوجی کارروائیوں کے معاشی نتائج سے بھی خوفزدہ ہیں کہ  پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری وغیرہ آنا کم نہ ہوجائے ۔ پاکستانی حکومت سیاسی دباؤ کے ذریعے افغان طالبان پر دباؤ ڈالنا چاہتی ہے اور ٹی ٹی پی سے نمٹنے میں ان کی مدد لینا چاہتی ہے۔

 

7- امریکہ، پاک افغان سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندی کے معاملے کو خطے کی سلامتی کے معاملات میں اپنی مداخلت اور خطے میں انسداد دہشت گردی کے اپنے بنیادی ڈھانچے کو برقرار رکھنے کے لیے ایک بہانے کے طور پر دیکھتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ امریکہ افغان طالبان پر پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کو ایک چھڑی کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ  افغان طالبان کو امریکی مطالبے کو تسلیم کرنے پر مجبور کرے کہ وہ بین الاقوامی لبرل آرڈر کے سامنے پوری طرح سرتسلیم خم کردیں اور افغانستان کے سیاسی نظام کو پرانی حکومت کے امریکی ایجنٹوں کے لیے کھولنے کے امریکی مطالبات کو تسلیم کرلیں، اور افغان ریاست میں اصلاحات متعارف کرائیں۔ امریکہ کی نظر میں افغان طالبان-پاکستان تصادم پاکستان کو اپنی مغربی سرحد پر مصروف رکھے گا اور پاک فوج کی توجہ اس کی مشرقی سرحد سے ہٹی رہے گی، اور اس طرح ہندوستان کو اپنی فوجی تیاریوں کو پاکستان کے بجائے چین پر مرکوز کرنے کا موقع ملے گا۔

 

8-پاکستانی حکام اور افغان طالبان کے درمیان تصادم مسلمانوں کے درمیان تصادم ہے جو کہ برطانوی استعمار کی طرف سے دو مسلمان لوگوں کے درمیان کھینچی گئی مصنوعی سرحد کا براہ راست نتیجہ ہے۔ یہ صرف خلافت ہی ہو گی جو پاکستان، افغانستان اور وسطی ایشیا کے مسلمانوں کو اسلام کی حاکمیت تلے ایک ریاست میں یکجا کرے گی، بھائیوں کے درمیان دشمنی کو ختم کرے گی اور مسلم علاقوں، ان کی طاقت اور وسائل کو یکجا کر کے مسلم معاشرے میں سلامتی اور خوشحالی لائے گی۔

 

Last modified onمنگل, 24 جنوری 2023 17:40

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک