الإثنين، 23 جمادى الأولى 1446| 2024/11/25
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

اے مسلمانو! ہماری ڈھال یعنی خلافت کا انہدام، ہمیں یہ یاد دہانی کراتا ہے کہ

خلافت کو دوبارہ قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے!

مصعب عمیر، پاكستان

 

رسول اللہ ﷺ نے روح الامین، جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ  یہ وحی اپنی امت تک پہنچائی:

 

«إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ»

بے شک امام (خلیفہ) ایک ڈھال ہے جس کے پیچھے سے لڑا جاتا ہے اور اس کے ذریعے تحفظ حاصل ہوتا ہے۔(مسلم)

 

اے مسلمانو! 28 رجب 1342 ہجری (بمطابق 3 مارچ 1924) وہ دن تھا جب ہم اپنی ڈھال، یعنی خلافت سے محروم ہو گئے۔

 

امت کی وحدت کو یقینی بنانے والی خلافت کی عدم موجودگی میں، مغربی استعمار نے اپنی صلیبی کاروائیوں میں مزید اضافہ کر دیا، اور امت کے حصے بخیے کر کے اتنی نئی نئی ریاستیں بنا ڈالیں کہ'تقسیم کرو اور حکمرانی کرو' کی پالیسی کا بھیانک چہرہ کھل کر ہمارے سامنے عیاں ہو گیا۔

 

مسلم امت کی خلافت تباہ ہونے کے بعد سے کمزوریاں ، حملے اور استحصال بارش کی طرح ہم پر برسنے لگے۔عرب اور ترک، قومیت کی بنیاد پر بغاوتیں کھڑی کر کےریاست کو اندر سے اتنا کمزور کردیا گیا یہاں تک کہ وہ ریاست گر گئی، اس کے بعد برطانیہ نے خلافت کی لاش سے حاصل ہونے والے مسلمانوں کے علاقوں کو جنگ کا لُوٹا ہوا مال سمجھ کر چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں کاٹ دیا۔مسلمانوں کو وحدت بخشنے والی خلافت کی عدم مومودگی میں کفار ذرہ بھی نہیں جھجکے اور ریاستوں کو کاٹ کر مزید ریاستیں بنائیں،یہاں تک مسلمان مغرب کی "تقسیم کرو اور حکمرانی کرو" (Divide and Conquer)کی پالیسی کی تکلیف کو شدت سے محسوس کرنے لگے۔مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہونے کے باوجود،اسلامی وحدت کے ذریعے ہمیں مضبوط کرنےوالی اسلامی طرزِ زندگی کی عدم موجودگی میں تمام اقوام ہم پراس طرح پَل پڑیں،جیسا کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے خبردار کیا تھا:

 

«يُوشِكُ الأُمَمُ أنْ تَدَاعَى عَليْكُم كَمَا تَدَاعَى الأكَلَةُ إلَى قَصْعَتِهَا »

اقوام تم پر ایسے ٹوٹ پڑیں گی جیسے لوگ کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ پوچھا گیا،"کیا ہم تعداد میں کم ہوں گے"؟ آپ ﷺ نے جواب دیا:

« بَلْ أنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ، وَلَكِنّكُمْ غُثَاءُ كَغُثَاءِ السّيْلِ، وَلَيَنْزِعَنّ اللّهُ مِنْ صُدُورِ عَدُوكُمْ المَهَابَةَ مِنْكُمْ، وَلَيَقْذِفَنّ اللّهُ في قُلُوبِكُم الَوَهْنَ»

نہیں، تم تعداد میں زیادہ ہو گے لیکن تمہاری وقعت سمندر میں موجود جھاگ کی طرح ہو گی۔ اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں میں سے تمہارا ڈر نکال دیں گے اور تمہارے دلوں میں وہن داخل کر دیں گے۔ پوچھا گیا،" یا رسول اللہ ﷺ! یہ وہن کیا ہے"؟ آپ ﷺ نے جواب دیا:حُبّ الدّنْيَا وَكَرَاهِيَةُ المَوْتِ،دنیا کی محبت اور موت کا خوف۔ (ابو داؤد)

 

ہماری ڈھال کی غیر موجودگی میں، امت کے پاس تیس لاکھ فوجی جوان ہونے کے باوجود، امت کی سرزمینوں پر کفار قابض ہیں اور امت کے افراد کو شہید کیا جا رہا ہے۔ ہماری ڈھال کی غیر موجودگی میں، دنیا کے بہترین وسائل ہمارے پیروں تلے موجود ہیں مگر امت فاقوں کا شکار ہے۔ ہماری ڈھال کی غیر موجودگی میں، ہم دینِ حق کو اپنے سینوں میں زندہ رکھے ہوئے ہیں مگر گمراہی ہماری اولادوں اور خاندانوں پر منڈلا رہی ہے۔

 

اے مسلمانو! اس میں کوئی شک نہیں کہ خلافت کا انہدام ہونے پر ہمارے آباؤ اجداد کا سخت رد عمل سامنے آیا تھا!

 

جب بلقان ریاستوں نے خلافت پر حملہ کیا تو اکتوبر 1912 میں متعدد مظاہرے ہوئے۔ خلافت کے لیے فنڈ (مالی مدد) جمع کرنے کی خاطر نومبر 1912 میں لاہور کی بادشاہی مسجد میں مخلص شاعر،علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی نظم جوابِ شکوۃ پڑھی۔تحریکِ خلافت میں اترپردیش کے شوکت علی اور محمد علی جوہر  نے خلافت کی مدد و حمایت کے لیے مسلمانوں کو متحرک کرنے کی کوششیں شروع کیں۔

 

جب مغربی استعمار نےخلافت پر اندر سے وار کرنے کیلئے عرب قومیت کے حربے کو استعمال کیا تو باشعورمسلمان حرکت میں آ گئے۔جون 1916 میں عربوں کے قومی غدار، شریف حسین کی عثمانی خلافت سے جنگ کے بعد پورے برِصغیر پاک و ہند میں اس کی غداری کے خلاف مظاہرے ہوئے۔26 جون 1916 میں لکھنؤ میں شریف حسین کے اس شرمناک طرزِ عمل سے متعلق مذمتی قراردار منظور کی گئی۔

 

فروری 1919 میں ایک فتویٰ جاری ہوا جس میں امام یا خلیفہ کے تقررکو ایک فرض قرار دیاگیا۔21 ستمبر 1919 کو لکھنؤ میں  منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں مسلمانوں نے یہ اعلان کیا کہترکی کی ممکنہ تحلیل اور ترک سلطنت کے حصوں سے چھوٹی چھوٹی متعدد ریاستوں کا قیام جو  غیر مسلم طاقتوں کے زیرِ اثر  ہوں، خلافت میں ناقابلِ قبول دخل اندازی ہے جو مسلم دنیا میں مستقل عدم اطمینان کا باعث بنے گا۔

 

جب برطانوی ایجنٹ اور ترک قوم پرست،مصطفیٰ کمال نے ایک مہلک ضرب لگائی اور3 مارچ 1924 کو خلافت کا خاتمہ کردیا تو برِصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔9 مارچ 1924 کو مسلمانوں نے خلافت کے بچاؤ کے لیے  تقریبات کا انعقاد کیا اور ایک تار (ٹیلیگرام)جاری کیا جس میں خبردار کیا گیا کہ خلافت کا خاتمہ شیطانی عزائم کا دروازہ کھول دے گا۔ایک اعلامیہ (سرکلر) جاری کیا گیا جس میں ہر نمازِ جمعہ میں لازمی طور پر معزول خلیفہ،عبدالمجید کا نام لینے کو کہا گیا۔

 

یہ تھا ہمارے آباؤ اجداد کا رد عمل جب خلافت کا انہدام ہوا۔ پس اب جبکہ اس درد ناک انہدام کو ایک صدی ہجری گزر چکی ہے، ہمارا رویہ کیسا ہونا چاہیے؟

 

اے مسلمانو! بے شک ہم تب تک گناہگار ہوں گے جب تک کہ ہم خلافت کے دوبارہ قیام کے لئے سرگرم عمل نہ ہوں۔

 

مسلمانوں کے لئے یہ ہرگز جائز نہیں کہ وہ ایک خلیفہ کے بغیر رہیں جو ان پر الله کے نازل کردہ کے مطابق حکمرانی کرتاہو۔الله سبحانہ وتعالیٰ ارشادفرماتے ہیں:

 

﴿وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّه

جو (حکم) اللہ نے نازل فرمایا ہے اسی کے مطابق آپ ﷺ ان میں فیصلہ کریں( المائدہ؛ 5:49)۔

 

ہمیں خلافت سے محروم ہوئے ایک صدی ہجری گزر چکی ہے، جبکہ ایک خلیفہ کا تقرر اسی  لمحے فرض ہو جاتا ہےکہ جب  پچھلا  خلیفہ وفات پا جائے یا اسے ہٹا دیا جائے۔  ابو ہریرہ ؓسے روایت ہےکہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:

 

«كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الأَنْبِيَاءُ، كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، وَإِنَّهُ لا نَبِيَّ بَعْدِي، وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ، قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: فُوا بِبَيْعَةِ الأَوَّلِ فَالأَوَّلِ، أَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ »

بنی اسرائیل کی سیاست (امور کی دیکھ بھال )انبیاء کیا کرتےتھے ، جب کوئی نبی وفات پاتاتو دوسرا نبی اس کی جگہ لے لیتا۔ لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ کثرت سے خلفاء ہوں گے۔ صحابہؓ نے عرض کی ،آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا، تم اس کی اطاعت کرو جسے سب سے پہلےبیعت دی جائےاور انہیں ان کا حق ادا کرو(یعنی ان کی اطاعت کرو) ۔ اورالله ان سےان کی رعیّت کے متعلق سوال کرےگاجو اس نے اُنہیں دی(بخاری،مسلم) ۔ 

 

ہم اس تمام عرصے خلافت کے بغیر زندگی گزار رہےہیں ، جبکہ ہم پر فرض کیا گیا  ہے کہ خلیفہ کی عدم موجودگی میں  جلد سے جلد خلیفہ کی بیعت کے عمل  کوشروع کیا جائے۔ یہی وجہ تھی کہ  صحابہ کرامؓ رسول اللہ ﷺ کی تدفین سے پہلےہی سقیفہ بنی ساعدہ میں خلیفہ کے انتخاب کے لئے اکٹھے ہو گئے تھے۔

 

رسول الله ﷺ کی تعلیمات جو ہمیں اجماع صحابہکے ذریعے معلوم ہوئیں، اے مسلمانو، ہمارے لئے یہ جائز نہیں کہ تین دن اور تین راتوں سے زیادہ خلیفہ کو بیعت دئیے بغیر ہم زندگی گزاریں۔ ہمیں خلافت سے محروم ہوئے ایک صدی ہجری گزر چکی ہے،جبکہ صحابہ کرامؓ نے اپنے دن اور رات ایک کر دیے تاکہ خلافت کے تقرر کے لیے تین دن  اور تین راتوں کی حد کو پامال ہونے سے بچایا جائے۔ بخاری نے مسور بن مخرمہؓ سے روایت کیا، انہوں نے فرمایا:

 

« طَرَقَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بَعْدَ هَجْعٍ مِنْ اللَّيْلِ، فَضَرَبَ الْبَابَ حَتَّى اسْـتَـيْقَظْتُ، فَقَالَ أَرَاكَ نَائِمًا، فَوَاللَّهِ مَا اكْتَحَلْتُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ بِكَبِيرِ نَوْمٍ»

عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے رات کا کچھ حصّہ گزرنے کے  بعدمیرے دروازے پر تب تک دستک  دی جب تک  کہ میں بیدار نہ  ہو گیا، انہوں نے مجھ سے کہا، میں کیا دیکھتا ہوں اے مِسور،  تم سو رہے ہو! واللہ میں پچھلی تین راتوں سے  مقدور بھر سو یا بھی نہیں۔

 

ایک صدی ہجری سے زائد عرصہ گزر چکا اور خلافت کے قیام کا فرض پورا نہیں ہوا، کیا ہم خلافت کے دوبارہ قیام کے لئے پیچھے نہیں رہ گئے؟

 

اے مسلمانو! ہم پر لازم ہے کہ ہم نبوت کے نقش قدم پر خلافت دوبارہ قائم کریں تاکہ ہم پر حکمرانی صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے نازل کردہ کے ذریعے ہو۔

 

لہٰذا خلیفہ نہ تو  آمر ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی جمہوری حکمران،وہ نہ تو اپنی ذاتی رائے کی بنیاد پر حکومت کرتا ہے اور نہ ہی کسی اسمبلی کے اتفاقِ رائے کی بنیاد پر،بلکہ وہ قرآن و سنت ہی کی بنیاد پر حکومت کرتا ہے اور اپنی حکومت میں کسی بھی تنازعے کی صورت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے قانون کا ہی پابند ہوتا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:

 

﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ﴾

اور اگر تم کسی معاملے میں تنازعہ کرو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو،اگر تم اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو(النساء؛ 4:59)۔

 

رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے پہلے حکومت کرنے والے آپ ﷺ کے خلیفہ، ابو بکر صدیق ؓ نے اعلان کیا:

 

وَالضّعِيفُ فِيكُمْ قَوِيّ عِنْدِي حَتّى أُرِيحَ عَلَيْهِ حَقّهُ إنْ شَاءَ اللهُ, وَالقَوِيّ فِيكُمْ ضَعِيفٌ عِنْدِي حَتّى آخُذَ الحَقّ مِنْهُ إنْ شَاءَ اللهُ،

تم میں سے کمزور میرے نزدیک طاقتور ہےحتی کہ میں اسے اس کا حق دلا دوں ،ان شاء اللہ، اورتم میں سے طاقتور میرے نزدیک کمزور ہے حتی کہ میں اس سے حق لے لوں، ان شاء اللہ۔

 

اسلام کی بنیاد پرتنازعات کو حل کرنے والے خلیفہ کی حیثیت سے عمرؓ نے فوراً اپنی بات سے رجوع کیا اور اپنا فیصلہ واپس لے لیا ، اورکہا:

 

إِنَّ امْرَأَةً خَاصَمَتْ عُمَرَ فَخَصَمَتْهُ،

بے شک ایک عورت نے عمر سے اعتراض کیا اور اس میں وہ حق پر ہے۔

 

ایک صدی ہجری سے زائد عرصہ گزر چکا اور امت پر حکمرانی الله کے نازل کردہ کے علاوہ جاری ہے۔ ہم کیسے اپنے دین پرہونے والی اس غفلت پر خاموش بیٹھ سکتے ہیں؟

 

اے مسلمانو! خلافت تو غیر مسلموں کے لئے بھی ڈھال تھی!

 

اللہ کی تلوار (سیف اللہ)،خالد بن ولیدؓ نے جنوبی عراق میں الحرہ کو فتح کرنے کے فوراً بعد خلیفہ ابو بکرؓ کو ایک خط میں یہ بتایا کہ انھوں نے کیسے جزیہ نافذ کیا اورغیر مسلم جو غریب، بوڑھے اور اپاہج تھے، انھیں مستثنیٰ کر دیا۔خط میں کہا،

 

طُرِحَتْ جزيتُه وعيلَ من بيت مال المسلمين وعياله

جزیہ سے معافی اور مسلمانوں کے بیت المال سے اس کیلئے اور اس کے گھر والوں کیلئے(خرچہ دیا جائے گا)۔

 

جب خلافت غیر مسلموں کو رومی حملے سے تحفظ فراہم کرنے سے قاصر تھی، مسلمانوں کے خلیفہ حضرت عمر الفاروق ؓنے یہ اعلان کیا جزیہ ذمّی شہریوں کو واپس کر دیا جائے۔ رومی عیسائیوں کی طرفداری کرنے کی بجائے الشام کے عیسائیوں نے یہ کہا:رَدَّكُمُ اللهُ إلينا، ولَعَنَ اللهُ الذين كانوا يملكوننا من الروم، ولكن والله لو كانوا هم علينا ما ردُّوا علينا، ولكن غصبونا، وأخذوا ما قدَرُوا عليه من أموالنا، لَوِلايتُكُم وعدلُكم أحبُّ إلينا مما كنا فيه من الظلم والغُشْم،اللہ تمہیں بحفاظت ہماری طرف واپس لوٹائے اور روم سے ہم پر قبضہ کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہو،اللہ کی قسم اگر وہ ہم پر آ جاتے تو واپس نہ آتے بلکہ غصب کرتے اور ہمارے مال میں سے جو پاتے، لے لیتے۔یقیناً،آپ کی سربراہی اور عدل ہمیں اس ظلم اور بدبختی سے زیادہ محبوب ہے جس میں ہم پہلے تھے۔ پھر خلافت فتحیاب ہو کر لوٹی اور صدیوں تک الشام کے غیر مسلم اس کے سائے تلے محفوظ رہے۔

 

اسپین سے یہودیوں کی ظالمانہ ملک بدری کا سن کر سلطان بایزید ثانیؒ نے خلافت کی بحری فوج (Navy) بھیجی تاکہ یہودیوں کو بحفاظت ریاستِ خلافت کی سرزمین پر،تھیسالونیکی اور ازمیر کے شہروں میں لایا جا سکے۔اس نے کہا: تم فرڈینینڈ (Ferdinand )کو عقلمند کہتے ہو جبکہ اس نے اپنے ہی ملک کو غریب کر کے میرے ملک کو تقویت بخشی ہے!۔

 

پس، خلافت کی تیرہ صدیوں پر مبنی طویل تاریخ میں، خلافت کی سنہری ڈھال سے نہ صرف مسلمان مستفید ہوئے بلکہ اس ڈھال تلے غیر مسلم بھی محفوظ رہے۔ آج جب اس ڈھال کو ٹُوٹے ایک صدی ہجری سے زائد عرصہ گزر چکا ہے، امت بے یار و مددگار ہے۔ اے مسلمانو، کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم اپنی ڈھال یعنی خلافت کو دوبارہ قائم کریں؟

 

اے مسلمانو، خلافت کے دوبارہ قیام کے لئے جستجو کرنا ہم پر فرض ہے جبکہ نصر صرف الله سبحانہ و تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے

!

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نےارشادفرمایا:

 

﴿وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾

تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ یقیناً انہیں زمین میں اپنا جانشین بنائے گا ، جیسا اس نے ان سے پہلے والوں کو بنایا۔ اور یقیناً ان  کے دین کو جسے اُس نے اِن کے لیے پسند کیا ہے مستحکم وپائیدار کرے گا اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا ۔وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں گے۔ اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے لوگ فاسق ہیں(النور 24:55)۔

 

اس آیت کے ضمن میں ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے، (هذا وعد من الله لرسوله صلى الله عليه وسلم۔ بأنه سيجعل أمته خلفاء الأرض، أي : أئمة الناس والولاة عليهم، وبهم تصلح البلاد ، وتخضع لهم العباد ، وليبدلن بعد خوفهم من الناس أمنا وحكما فيهم)،یہ اللہ  کا اپنے رسولﷺسے وعدہ ہے کہ وہ ان کی امت کو زمین پر جانشین بنائے گا، یعنی وہ انسانیت کے رہنما اورحکمران بنیں گے ، جس کے ذریعہ وہ دنیا میں اصلاح کرے گا اور جن کی لوگ پیروی کریں گے ، تاکہ وہ اپنے خوف کے بعد محفوظ سلامتی حاصل کرسکیں۔ تو آئیے اے مسلمانو!ہم نیک اعمال کے لیے جدوجہد کریں ، تاکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ امتِ محمدیہ کو انسانیت کے حکمران کے طور پر، اس کے صحیح مقام پر بحال کر دیں۔

 

الله سبحانہ و تعالیٰ نے ہم سے اپنی نصر کا وعدہ فرمایا کہ وہ ہمیں بھی حکمرانی عطا کریں گے، اگر ہم اس کے دین کو مضبوطی سے تھامے رہیں، اور اللہ کے رسول ﷺ نے بھی ہمیں کاٹ کھانے والے ظلم کے دور کے بعد خلافت کے دوبارہ قیام کی خوشخبری سنائی۔امام احمدبن حنبلؒ نے رسول اللہﷺکے یہ الفاظِ مبارک روایت کیے:

 

«ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّة»

اس کے بعد جابرانہ حکمرانی ہوگی ، اور یہ باقی رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر جب اللہ چاہے اسے ختم کردے گا۔ پھرنبوت کے نقشِ قدم پر  دوبارہ خلافت قائم ہوگی۔ یہ بیان فرماکر آپ خاموش ہو گئے۔

 

جب ہمیں الله سبحانہ و تعالیٰ کے وعدے اور رسول اللہ ﷺکی خوشخبری کی نوید مل گئی، کیا ان سے مایوسی کے بدل چھٹ نہیں جاتے تاکہ ہم جوش اور ولولے کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں؟

 

اے مسلمانو! آئیں مل کر خلافت کے دوبارہ قیام کے لئے کام کریں، جب تک کہ الله سبحانہ و تعالیٰ اپنے نازل کردہ کے ذریعے حکمرانی کو بحال نہ کر دیں۔

 

جو کوئی رسول الله ﷺ کو اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب رکھتاہواسے چاہئے کہ وہ اس پختہ عزم کو یاد کرے جو رسول اللهﷺ کے اعمال میں جھلکتا تھا جو آپ ﷺ نے  الله کے احکامات کو  نافذ کرنے کے لیے سرانجام دیے۔  جب آپ ﷺ کے چچا نے آپ ﷺکو باز رہنے کاکہا تو آپؐ  نے جواب دیا ،

 

«يَا عَمّ ، وَاَللّهِ لَوْ وَضَعُوا الشّمْسَ فِي يَمِينِي، وَالْقَمَرَ فِي يَسَارِي عَلَى أَنْ أَتْرُكَ هَذَا الْأَمْرَ حَتّى يُظْهِرَهُ اللّهُ أَوْ أَهْلِكَ فِيهِ مَا تَرَكْتُهُ» ،

اے چچا! الله کی قسم اگر یہ میرےدائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں پر چاند رکھ دیں، تب بھی میں اس کام کو ترک نہیں کروں گا، یہاں تک کہ الله اس دین کو غالب کر دے یا  مجھے اس راہ میں فنا کر دے۔  

پس، صحابہ کرام نے رسول الله ﷺپر ایمان رکھا، ان کے ساتھ محنت کی اور قربانیاں دیں، حتیٰ کہ الله سبحانہ و تعالیٰ کی عطا کردہ نصرۃ سے اسلام مدینہ المنورہ میں قائم ہو گیا۔

 

پچھلے سو سالوں میں ہم خلافت کے دوبارہ قیام کے  معاملے میں بے عملی کے بہت سے نتائج بھگت چکے ہیں۔ دنیاوی تکالیف اور ذلت ورسوائی اپنے عروج کو پہنچ چکی  ہے۔ ایک تکلیف ختم  نہیں ہوتی اور  دوسری شروع ہوجاتی ہے، ایک رسوائی اپنے سے بڑی رسوائی کی جانب لے جاتی ہے۔ ہماری بے عملی کا نتیجہ یہ نکلا ہےکہ اگر ہم اپنے  دنیاوی معاملات میں مصروف رہے اور اسلام کی حکمرانی کو نظر انداز کرتے رہے تو نہ ہم دنیا میں فلاح اورکامرانی حاصل کر پائیں گے اور نہ ہی آخرت کی کامیابی اور نجات ہمارے حصے میں آئے گی۔ اے مسلمانو! جو بھی الله اور اس کے رسول اللهﷺسے محبّت کرتا ہے تو ایسے شخص کے لئے بے عملی کوئی راہِ انتخاب نہیں ہے۔ ہمیں رب کی  عطا کردہ صحت اور وقت کی نعمت کو ضائع نہیں کرنا چاہیے اور الله کی رضا کے حصول کے لیے انہیں استعمال کرنا چاہئے، تاکہ الله سبحانہ  تعالیٰ اس کے بدلے  ہمیں کبھی نہ ختم ہونے والی جنّت سے نوازیں،رسول اللهﷺنے فرمایا،

 

«نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ» ،

دو نعمتیں جو بہت سے لوگ ضائع کردیتے ہیں، اچھی صحت اور فارغ وقت(بخاری)۔

 

بے شک بہت عرصے سے امت کی سرزمین کفر، الله کی نافرمانی اور ظلم کی چکی میں دهنستی چلی گئی ہے۔  ہم سب پر لازم ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے پوری کریں حتیٰ کہ ہم اسلام کی روشنی سے ایک بار پھر منور ہو جائیں۔

Last modified onمنگل, 24 جنوری 2023 19:10

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک