الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

مشرق ہو یا مغرب، آج کا معاشرہ خواتین کو تحفظ دینے سے قاصر ہے

 

فاطمہ اقبال

 

ایپسٹین(Epstein) کیس خواتین کے تحفظ میں خامیوں کو نمایاں کرتا ہے !

 

کچھ عرصہ قبل Netflix  پرجیفری ایپسٹین Jeffery Epstein کے بارے میں ایک دستاویزی فلم نشر کی گئی ، جس میں دکھایا گیا ہے کہ وہ کس طرح لڑکیوں کو اپنی غیر قانونی سرگرمیوں کے جال میں پھنساتا تھا۔ یہ کیس عالمی سطح پر نشر کیا گیا ، اوراس کیس میں ہائی پروفائل اور اہم مرتبہ اور اثرورسوخ رکھنے والے افراد کے ملوث ہونے کی وجہ سے یہ کیس اب بھی توجہ کا    حامل ہے۔ دستاویزی فلم "Filthy Rich" ان لوگوں کے انٹرویوز پر مشتمل ہے جو یا توان سرگرمیوں میں بذاتِ خود ملوث تھے، یا پھرشکار ہوئے تھے، اسی طرح پولیس اور کچھ وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ایپسٹین Epstein کو ذاتی طور پر جانتے تھے۔

 

ایپسٹین پر دستاویزی فلم کی پہلی قسط کو " Hunting Grounds" کا نام دیا گیا ہے۔  قسط کے آغاز سے ان تفصیلات کو بیان کیا گیا ہے کہ ایپسٹین نوجوان لڑکیوں کو کیسے بھرتی کرتا تھا۔ قسط میں زیادہ توجہ فلوریڈا پر رکھی گئی ہے اگرچہ بعد کی اقساط میں امریکہ کے دیگر علاقوں میں بھی ایپسٹین کی سرگرمیاں دکھائی گئیں ہیں۔ اس نے ایک ایسا پروگرام ترتیب دیا جسے Pyramid Scheme کے نام سے جانا جاتا ہے۔ نوجوان لڑکیاں ، اس کے لئے دوسری نوجوان لڑکیوں کو بھرتی کرتی تھیں  جس سے اسے لڑکیوں کے اسکول تک رسائی حاصل ہوئی۔ اس اسکیم کا کلیدی پہلو مخصوص قسم کی لڑکیوں کو نشانہ بنانا تھا،  اور وہ  علاقہ  جہاں سے انہیں نشانہ بنایا جاتا تھا۔ ایپسٹین انتہائی امیر علاقے پام بیچ Palm Beach میں رہتا تھا اور اس کے شکار ملحقہ غریب علاقے ویسٹ پام West Palm سے تعلق رکھتے تھے۔

 

زیادہ تر لڑکیاں جو اس کی سکیم کا شکار ہوئیں ، ان کی عمریں 14 سے 17 سال کے درمیان تھی۔ ان میں سے بہت سی لڑکیاں اس سے پہلے بھی زیادتی کا نشانہ بن چکی تھیں اور/یا ان خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں جنہیں معاشی طور پر مستحکم نہیں گردانا جا سکتا۔ بہت سی لڑکیوں کے والدین نشے کے عادی تھے۔ کئی لڑکیاں ایسی تھیں جنہوں نے کچھ عرصہ بے گھر کی حیثیت سے زندگی گزاری تھی۔  ایپسٹین ان لڑکیوں کو نظر میں رکھتا تھا جو بے سہارا ہوتی تھیں۔ ان لڑکیوں کو  رقم دلانے کے وعدہ پر پھانسا جاتا تھا۔ جب وہ اس کے اڈے پر آ جاتیں اور کام شروع کردیتیں تو وہ ان کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتا تھا۔ بہت سی لڑکیاں اس صورتحال سے دوچار ہونے سے صدمے، گھبراہٹ اور پریشانی  میں مبتلا رہیں، مگر صرف پیسوں کی خاطر اس کام سے جڑی رہیں۔  ان  میں سے کچھ لڑکیاں اس کام کے لئے مزید لڑکیاں بھرتی کرنے والی بن گئیں اور دوسری لڑکیوں کو ایپسٹین کے پاس لانے لگیں۔

 

تیسری قسط "The Island" مین ایپسٹین کے نجی جزیرے پر اس کے قائم کردہ بدکاری کے اڈے کے بارے میں ہے۔ بہت سی معروف شخصیات جیسا کہ بل کلنٹن اور پرنس اینڈریو جیسے لوگوں نے  بھی اس جزیرے کا دورہ کیا۔اس حوالے سے اب کافی بحث ومباحثہ ہورہا ہے کہ آخر کس طرح طاقتور ، اثرورسوخ رکھنے والے اور دولت مند افراد کم سن بچیوں کے ساتھ زیادتی میں ملوث  رہے تھے۔

 

چوتھی قسط “Finding their voice”میں یہ بتایا گیا کہ متاثرہ لڑکیوں نے آخر کس طرح آواز بلند کی۔  اس قسط میں کچھ متاثرہ خواتین کے مزید انٹرویوز بھی دکھائے گئے جنہوں نے عوامی سطح پر اپنی شناخت ظاہر کرنا بھی قبول کیا تھا۔ ان خواتین کو تعلیم اور نوکری کا جھانسہ دے کر ایپسٹین کے جال میں پھنسایا گیا تھا۔

 

2005 میں پام بیچ کی پولیس نے ان کی تحقیقات کا آغاز کیا، بعد ازاں یہ تفتیش ایف بی آئی کے سپرد کردی گئی، اور 2019 میں ایپسٹین کی موت تک اس سے تفتیش جاری رہی، اسے گرفتار کیا گیا اور سزا بھی سنائی گئی لیکن یہ سزا کسی طور بھی اس کے مبینہ جرائم کی نوعیت کے مطابق نہ تھی۔ عدلیہ متاثرہ خواتین کو انصاف دینے میں ناکام رہی، پام بیچ کاؤنٹی کے سابق ریاستی سٹیٹ اٹارنی ، بیری کرشرBarry Krischer نے جو  فیصلے سنائے ان کی وجہ سے ایپسٹین کے جرائم کی نوعیت کم تر ہوگئی اور اسے بچیوں سے  کم عمری میں جسم فروشی کے جرم میں کم ترین سزا دی گئی۔ یہی وجہ تھی کہ پام بیچ پولیس نے تحقیقات کو سنجیدگی سے لینے کے لئے ایف بی آئی سے رابطہ کیا۔ اب یہ کیس جنوبی فلوریڈا کے سابق یوایس اٹارنی، ایلکس اکوسٹا  Alex Acosta کو سونپ دیا گیا۔ اس نظام نے ہی ایپسٹین کے لئے ایسی  راہ ہموار کی جسے 'سوئیٹ ہارٹ' ڈیل کے نام سے جانا جاتا ہے اور یوایس اٹارنی ، اکوسٹا،  نے  ایپسٹین کے ساتھ ڈیل کرلی جس کے نتیجے میں فلوریڈا کی ریاستی عدالت میں ایپسٹین نے جسم فروشی کے دو سنگین الزامات میں جرم قبول کرنے پر اٹھارہ ماہ قید کی سزا، عصمت دری کے مجرم کے طور پر اندراج کرنے، اور تین درجن کے قریب متاثرہ خواتین ، جن کی شناخت ایف بی آئی نے خود کی تھی، کو ہرجانہ ادا کرنے پر  رضامندی ظاہر کی۔

 

اس درخواست کی التجا  (Plea deal )پر ایپسٹین کے وکیل، ایلن ڈرشووٹز Alan Dershowitz نے مذاکرات میں سہولت کاری کی، اس نے ایپسٹین کو تمام وفاقی مجرمانہ الزامات سے بھی استثنیٰ دلوایا، نہ صرف یہ بلکہ چار مزید نامزد شریکِ سازش افراد اور اس کے علاوہ کسی اور نامعلوم "ممکنہ شریکِ سازش" کو بھی استثنیٰ دیے دیا گیا۔ اس کے بعد انہوں نے مزید تحقیقات کو روک دیا اور فردِجرم پر مہر ثبت کردی اور یہ ڈیل متاثرہ افراد کو ظاہر نہ کی گئی۔ اس طرح یہ طریقہ کار اپنایا گیا جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ایپسٹین کو کسی طرح اس کے جرائم کے لئے مکمل طور پر قصوروار نہ ٹھہرایا جائے، اور اسی وجہ سے اس کیس کے لئے 'سوئیٹ ہارٹ ڈیل ' کی اصطلاح استعمال کی گئی جس پر بعد ازاں شدید تنقید بھی ہوتی رہی۔

 

ایپسٹین کیس آخر ہمارے سے کیوں  مطابقت رکھتاہے ؟

میں نے ایپسٹین کیس کا ذکر کرنے کا انتخاب اس لئے کیا کیونکہ یہ کیس مغربی معاشرے میں موجود نقائص  کی عکاسی کرتا ہے۔ہمیں ان نقائص سے آگاہ ہونے کی ضرورت ہے، کیونکہ ہمیں  ترغیب دی جاتی ہے کہ ہم مغرب کو ، ان کے نظریات کو، ان کے قوانین اور ان اندازواطوار کی پیروی کریں جن سے وہ اپنے معاشرے کو منظم کرتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں بھی اپنے ان سیکولر معاشروں میں ایسے واقعات میں خاصا اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے جن کی اس کیس سے کافی حد تک مماثلت ہے اور جہاں موجودہ معاشرے کی خامیاں ہماری بچیوں کو غیر محفوظ بنا رہی ہیں۔

 

آئیں ذرا مشرق کی اس ایک مثال پر نظر ڈالتے ہیں جس نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ۔

اس سال جولائی 2023 میں بہاولپور کی اسلامیہ یونیورسٹی میں ایک واقعہ رونما ہوا جس کی میڈیا تفصیلات میں بیان کیا گیا ہے کہ پولیس نے یونیورسٹی کی سینکڑوں طالبات کی تقریباً 5500 فحش ویڈیوز برآمد کی ہیں۔پولیس نے یونیورسٹی کے چیف سیکورٹی آفیسر، یونیورسٹی کے ٹریژر (خزانچی) اور ایک ٹرانسپورٹ آفیسر سے منشیات اور فحش مواد برآمد کرنے کی بھی تصدیق کی۔پولیس کی رپورٹ میں یہ دعوٰی کیا گیا کہ "اساتذہ کا ایک گروہ" منشیات کی فروخت اور خواتین اساتذہ اور طالبات کے جنسی استحصال اور بلیک میلنگ میں ملوث ہے۔ پولیس نے بیان کیا کہ طالبات کو نمبر حاصل کرنے کا لالچ دے کر ان سے عریاں ویڈیوز بنانے اور انہیں سکیورٹی آفیسر کو بھیجنے کا کہا جاتا تھا۔ اور اسی طرح یونیورسٹی میں کسی پوسٹ پر خواتین کی تعیناتی کے لئے بھی یہ عمل یقیناً کیا جاتا تھا۔ رپورٹ میں مزید الزام یہ بھی ہے کہ  طالبات اور خواتین ملازمین کو فحش رقص اور سیکس پارٹیوں میں شرکت کے لئے بھی مجبور کیا جاتا تھا۔ اگرچہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ حرکت یونیورسٹی کو بدنام کرنے کی کوشش کا حصہ ہے۔

 

مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد  کیس ہے ؟ تحقیق اور اعدادوشمار کے مطابق یقیناً ایسا نہیں ہے۔ اس واقعے کی اصل حقیقت جو بھی ہو ،یہ بات ثابت شدہ ہے کہ پاکستان میں لڑکیوں اور خواتین کے استحصال کے جرائم میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ میڈیا ایسے کیسز سے بھرا پڑا ہے جہاں خواتین مسلسل ظلم اور زیادتی سے دوچار ہوتی رہی ہیں۔

 

مذکورہ بالا دو کیسز  میں کئی مماثلتیں پائی جاتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ میں نے اس موضوع کے لئے ان کا انتخاب کیا۔

            - ملوث مرد حضرات طاقتور اور مقتدر حلقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

            - بااثر افراد  کمزور کو نشانہ بناتے ہیں۔

            - لڑکیوں کو ان کے مستقبل کے حوالے سے دھمکا کر مجبور کیا جاتا ہے۔

            - جس معاشرے میں وہ رہتے ہیں، وہ مرد اور عورت کے آزادانہ اختلاط (Free-Mixing) کی اجازت دیتا ہے اسی لئے نامناسب تعلقات باآسانی نوٹس میں نہیں آتے۔

 

کیا اسلامی ریاست تلے خواتین کا استحصال ہوسکتا تھا ؟

یہ امر ناقابلِ فہم ہے کہ اس نوعیت کے واقعات  خلافت میں پیش آئے ہوں، کیونکہ اسلامی معاشرے میں موجود تصورات اور قوانین، خواتین کے تحفظ کے ضامن ہوتے ہیں۔

 

آئیے دیکھتے ہیں کہ ریاستِ خلافت میں ایپسٹین جیسی نوعیت کا کیس کیونکر ممکن نہ تھا۔

 

اسلام میں بچیوں کے لئے ایک ولی ، ایک سرپرست ہوتا ہے جو ان کا محافظ ہوتا ہے اور یہ محافظ ان کا والد ہوتا ہے۔ ایسے معاملے میں جہاں والد موجود نہ ہو یا اہلیت سے عاری ہو تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے قانون کے مطابق دوسرا ولی مقرر کیا جاتا ہے۔ شرعی احکام والد کو اپنی بیٹیوں کی حفاظت کا پابند بناتے ہیں۔ شرعی قوانین والد کو ہر وقت یہ جاننے کا حق دیتے ہیں کہ ان کی بیٹی کہاں ہے اور وہ اس کی نقل وحرکت پر پابندی بھی لگا سکتے ہیں۔ والد اس بات کو یقینی بنانے کا پابند ہے کہ بیٹی ایک محفوظ ماحول میں ہو چاہے وہ گھر پر ہو یا جب وہ گھر سے باہر ہو۔  ولی اس بات کا بھی پابند ہے کہ اپنی بیٹیوں کوان کی ذمہ داریوں سے متعلق  شرعی احکام سکھائے اور ان احکام میں سماجی نظام سے متعلق احکام بھی شامل ہیں۔ سماجی نظام کے کچھ قوانین مندرجہ ذیل ہیں :

 

- مسلمان لڑکی کسی غیر محرم مرد کے ساتھ خلوت میں نہیں رہ سکتی۔

- وہ کسی دوسری عورت کے سامنے بے لباس نہیں ہوسکتی اور دوسری عورت پر اپنا ستر (سینہ اور پیٹ) ظاہر نہیں کرسکتی۔

- اسی طرح وہ کسی غیر محرم مرد کے سامنے اپنا ستر ہرگز ظاہر نہیں کر سکتی۔

- گھر سے باہر نکلتے ہوئے  خواتین کے لئے ایک متعین لباس ہے جو خمار اور جلباب پر مشتمل ہوتا ہے۔ گھر کے اندر کے لئے ایک سترمقرر ہے جسے ڈھانپنا ضروری ہےاوراس کی حد اس پر منحصر ہے کہ عورت کس کے ساتھ اور کس نسبت کے تحت موجود ہے۔

 

حقوقِ نسواں کے وہ تمام علمبردار جو ظلم وزیادتی کا رونا روتے ہیں ، یہ جان لیں کہ یہ قوانین ہمارے تحفظ کے لئے ہیں۔ اگر اسلام کے قوانین نافذالعمل ہوتے تو کبھی یہ ممکن نہ ہوتا کہ ایپسٹین اپنی "پیرامڈ سکیم" بنا سکتا۔ وہ کبھی لڑکیوں کو اپنے گھر میں،  اپنے ساتھ کمرے میں تنہا لے کرآنے یا اپنے بقیہ مذموم ومکروہ مطالبات پر راضی نہ کر سکتا تھا۔

 

ایک مسلمان لڑکی جو حکمِ شرعی کو سمجھتی ہو  اور ایک ایسے معاشرے میں رہتی ہو جہاں ان احکامات کا نفاذ کیا گیا ہو، تو وہ اس صورتحال سے دوچار نہیں ہوگی جس سے یہ متاثرہ لڑکیاں شکارہوئیں۔ اسے یہ معلوم ہو گا کہ کسی حرام کا ارتکاب کرنے پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہونا ہے۔ وہ کسی لالچ کے فریب میں نہ آئے گی کہ کسی غیرمحرم مرد کے گھر تک سفر کرے تا کہ رقم کی خاطر اس کا مساج کرے۔  وہ رزق کے تصور کو اپنا کر حرام ذرائع سے رقم کمانے کا لالچ نہیں رکھتی ہوگی۔ اس کے ایمان نے اسے وہ فہم اور قوت بخشی ہو گی کہ جس کے تحت وہ کسی بھی ہوس پرست کے ناجائز مطالبات تسلیم کرنے، بے لباس ہونے یا اس کے قرب کی کوشش کو سختی سے رَد کر دے گی۔

 

جب ہم ان نوجوان لڑکیوں کی صورتحال پر غور کرتے ہیں جو ایپسٹین کے ساتھ اکیلے سفر کرنے پر راضی ہوئیں کیونکہ اس نے ان لڑکیوں کو نوکری یا تعلیمی مواقع کا جھانسا دے رکھا تھا تو اسلامی احکام فوری دماغ میں آتے ہیں کہ اگر ان احکام کی پابندی کی گئی ہوتی تو  یہ خواتین کبھی اس صورتحال کا شکار نہ ہوتیں۔

 

-       مسلمان عورت اپنے محرم کے بغیر 24 گھنٹے سے زیادہ اکیلے سفر نہیں کر سکتی۔

-       مسلمان عورت کو اجنبی جگہ اور ناقابلِ اعتبار افراد کے ساتھ خلوت کی اجازت نہیں ہے، یعنی وہ افراد جو خوفِ خدا اور تقوٰی سے عاری ہوں۔

 

یہاں میں نے مسلمان عورت کا لفظ بیان کیا ہے لیکن بہرحال کسی بھی مذہب کی خاتون، جو اسلامی ریاست میں رہتی ہو اور اسلامی تصورات سے روشناس ہو اور ریاست کے قوانین کے مطابق زندگی گزارتی ہو تو وہ ایسی کسی بھی صورتحال سے محفوظ رہے گی۔

 

یہ امر بھی ناقابلِ فہم ہے کہ بہاولپور کی اسلامیہ یونیورسٹی کا واقعہ ریاست خلافت میں پیش آسکتا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ ایپسٹین کیس پر غور کریں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ صرف اسلامی قوانین ہی خواتین کے تحفظ کو یقینی بناتے ہیں اور یہی اصول اس بہاولپور کیس پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ خاص طور پر اس نوعیت کے واقعات سے متعلق شرعی قوانین موجود ہیں جو ایسے حادثات کا سدباب کریں گے۔

 

اسلامی قوانین مردوعورت کے اختلاط کی اجازت نہیں دیتے اور اس قاعدے میں استثنیٰ صرف مخصوص حالات کے ساتھ ہے جن کی اسلام نے اجازت دی ہے جیسا کہ کام کاج یا بازار میں خریدوفروخت۔

 

ایسی جگہیں جہاں مردوعورت کا آنا جانا ہو وہاں آپس میں اختلاط کی کوئی اجازت نہیں ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ غیرمحرم کے ساتھ سوشلائزیشن یا دوستی رکھنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

 

تعلیمی نظام اس بات کو یقینی بنائے گا کہ تعلیمی اداروں میں لڑکوں اور لڑکیوں میں علیحٰدگی رہے اور لڑکیوں کے تعلیمی اداروں میں خواتین اساتذہ اور انتظامیہ کےمقرر ہونے پرتوجہ مرکوز کرے گا۔

 

آزادانہ اختلاط سے  تقاریب منعقد کرنا قطعی حرام ہے چاہے ان کی نوعیت کیسی ہی کیوں نہ ہو۔

 

جہاں تک ان ویڈیوز کا تعلق ہے جو بنائی گئی ہیں، تو بلاشبہ اسلام میں ان کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔ اسلام حیا اور عفت کی ترغیب دیتا ہے۔ رزق اور قضا کے وہ تصورات جو معاشرے میں تشکیل دئیے جائیں  گے ،  تو یہ تصورات مال و دولت یا موقع کے فائدہ کی خاطر حرام کی طرف مائل ہونے میں ایک رکاوٹ اور حفاظت کا کام کریں گے۔

 

میں یہاں متاثرہ لڑکیوں کو موردِ الزام نہیں ٹھہرا رہی بلکہ میں اس نظام کی طرف نشاندہی کررہی ہوں کہ آج دنیا میں جو نظام رائج ہے اس نے کیسی کشیدہ صورتحال پیدا کردی ہے کہ جہاں خواتین کا استحصال بھی کیا جاسکتا ہے اور انہیں بےیارومددگار بھی چھوڑ دیا جاتا ہے۔ چنانچہ خواتین ایسے خطرناک حالات  میں بھی گھِر سکتی ہیں کہ جہاں وہ خود اپنی حفاظت کرنے کے قابل نہ ہوں یا اتنی کم سن یا اس حد تک معصوم اور کمزور ہوں کہ سمجھ ہی نہ پائیں کہ اس قبیح صورتحال سے کیسے نمٹا جائے۔ ایسی  خود اعتمادی کا ہونا جو آج خواتین کو بتلایا  جا رہا ہے کہ وہ مردوں کے ساتھ گھل مل کر ہی اعتماد حاصل کرسکتی ہیں، یہ سراسر باطل تصور ہے۔ آج تعلیمی اداروں، کافی شاپس، حتیٰ کہ ہمارے خاندانوں اور دوستوں کی محفلوں میں، غیرمحرم عورتوں اور مردوں کے مابین اختلاط اور سماجی میل جول کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اسی اختلاط کے تحت بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کلچر کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جبکہ فون اور سوشل میڈیا نے اس کو مزید سہل کردیا ہے۔ لڑکیوں کی اس طرح سے تربیت کی جارہی ہے کہ وہ مردانہ پسندیدگی کا جواب دیں اور اپنے لباس اور اندازواطوار میں بھرپور توجہ دیں۔

 

یہ موذی ثقافت اس حد تک مسائل پیدا کررہی ہے کہ اب تو مغربی خواتین ومرد بھی اس کے خلاف بولنا شروع ہوگئے ہیں اور تنقید کرنے لگے ہیں کہ معاشرے کس سمت میں جارہے ہیں؛  جیسا کہ خاندانی ڈھانچے کو کمزور کرنا اور مردوزن کے مابین پاکیزہ قانونی رشتہ کو مسخ کرنا۔ خواتین، بدمعاش مردوں کے لئے گویا تفریح کا سامان بن چکی ہیں۔

 

جو اہم بات ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ خوداعتمادی اور مضبوطی ہمارے تصورات کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ یہ مخالف جنس کے ساتھ وقت گزارنے سے نہیں حاصل ہوتی، بلکہ ایسا میل جول ایسی صورتحال کی جانب لے جاتا ہے جو عمومی طور پر  غلط اعمال اور استحصال کے لئے ترتیب دیا گیا ہوتاہے۔

 

  جب آپ کا بولنا ضروری ہو تو خاموش رہنا مناسب نہیں !

دونوں ہی کیسز میں، چاہے وہ ایپسٹین کیس ہو یا بہاولپور کا واقعہ ہو، کیا ہم یقین کرسکتے ہیں کہ جولوگ ان معاملات میں خودتو براہِ راست ملوث نہ تھے لیکن کیا انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ کیا کچھ ہورہا ہے؟

 

ایپسٹین کے سابق ہاؤس منیجر، الفریڈو روڈریگز Alfredo Rodriguez کی مثال ہمارے سامنے ہے، جسے 2010 میں اٹھارہ ماہ کی قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ یہ سزا اسے پولیس کیس میں روڑے اٹکانے کے الزام میں دی گئی جب وہ پولیس کو ایک جریدہ ( جسے وہ بیچنے کی کوشش کررہاتھا) فراہم کرنے میں ناکام رہا تھا، اس جریدے میں وہ ایپسٹین کی سرگرمیوں کا ریکارڈ رکھتا تھا۔

 

اسی طرح بہاولپور، پاکستان کے کیس میں، یونیورسٹی کے  ان لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے جنہوں نے یقیناً پارٹیوں کے انعقاد میں مدد فراہم کی ہوگی ؟

 

اسلامی معاشرے میں اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ بہت سے لوگ اپنے سامنے منکر کو ہوتے ہوئے دیکھیں اور اسے نظرانداز کرتے رہیں۔ یہ امر مسلمانوں کے ان بنیادی تصورات کے خلاف ہے جس میں امربالمعروف و نہی عن المنکر کا التزام کرنا لازم ہے، اور متعدد اسلامی شواہد اس حکم پر دلالت کرتے ہیں۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے؛ 

 

﴿وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَٰئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

اورمؤمن مرد اور مؤمن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ وہ نیکی کی تلقین کرتے  ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ ہیں جب پر اللہ عنقریب رحم کرے گا، بے شک اللہ غالب حکمت والاہے۔ (التوبہ؛9:71)

 

اسلام مسلم خواتین کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیتا ہے۔اور یہ صورتحال اگرچہ حیران کن نہیں لیکن تشویشناک ضرور ہے کہ آج کے سیکولر معاشروں میں خواتین کے تحفظ کا یہ تصور زوال پذیر ہے۔

 

اسلامی تاریخ سے ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں خواتین کی حفاظت کیسے کی جاتی تھی۔ جب مدینہ میں ایک یہودی کی دانستہ حرکت سے ایک مسلمان خاتون کا حجاب چاک ہوگیا اور وہ بے پردہ ہوگئی تو اس واقعہ کو دیکھ کر ایک بہادر مسلمان نے اس یہودی کو قتل کردیا۔ اور پھر خود اسے بھی شہید کردیا گیا۔ منکر کو اس لئے کبھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ اس کا ارتکاب کرنے والے بااثر ، دولت مند یا صاحب اثرورسوخ ہیں۔

 

ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛

 

«مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ وَذَلِكَ أَضْعَفُ الإِيمَانِ»

" تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے تو اسے چاہئے کہ اسے اپنے ہاتھ سے روکے۔ اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو زبان سے روکے، اور اگر وہ ایسا بھی نہ کرسکے تو اپنے دل میں اسے بُرا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے"۔ (مسلم)

 

آزادی اور انفرادیت کے تصورات کے برعکس، معاشرے میں عورت کے تحفظ کے اسلامی تصور کے ساتھ کیا اس طرح کے جرائم ہونا ممکن ہوتا؟ کیا معاشرہ مجرموں کو پنپنے دیتا ؟ ہرگز نہیں !

 

وہ مسلم قومی ریاستیں جہاں اسلام کا جامع نفاذ نہیں ہے، وہ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔

اگرچہ ہم فی الحال ایک اسلامی معاشرے میں  نہیں رہ رہے لیکن اسلام کے قوانین ابھی بھی ہم پر واجب ہیں۔ اپنے بچوں کو ان کا دین سکھائیں اور انہیں اس معاشرے کے خطرات سے بھی آگاہ کریں جس میں آج ہم رہ رہے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو لاعلم رکھ کر ان کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتے۔ جرائم کا ارتکاب کرنے والے ہماری انہی کمیونیٹیز اور آن لائن موجود ہیں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کے بچے ہرصورتحال کے مطابق اسلامی احکام اور ان کااہتمام کرنےکو سمجھتے ہوں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ جانتے ہوں کہ ایسے حالات سے بچنا کس طرح ممکن ہے جو انہیں کسی ناخوشگوار صورتحال سے دوچار کرسکتے ہوں  اور وہ کسی کا نشانہ بن سکتے ہوں۔

 

اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مخلصانہ طور پر اطاعت کرتے ہوئے پوری انسانیت کی سرپرستی وتحفظ کے لئے ، نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے لئے جدوجہد کریں جو ہماری تمام بیٹیوں کی ڈھال ہے۔

Last modified onجمعرات, 28 ستمبر 2023 19:43

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک