بسم الله الرحمن الرحيم
* ہوشیار بنیں*
میں کون ہوں؟ یا تو ہم مسلسل خود سے یہ سوال پوچھ رہے ہوتے ہیں یا ہم اپنے ارد گرد دوسروں کو اپنے آپ سے یہ سوال کرتے سنتے ہیں۔ مسلسل اس تلاش میں ۔۔۔کہ میں کون ہوں؟ ۔۔ میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ یقیناً اس سب کے علاوہ بھی کچھ ہے۔ روز مرہ زندگی کے وہی گھسے پٹے معمولات ۔ مسلسل احساس کی کیفیت کہ،
"زندگی میں کچھ کمی سی ہے"
" مجھے معلوم ہے کہ میں اپنی پوری صلاحیتوں کی چوٹی تک نہیں پہنچ پایا ہوں"
" مجھے معلوم ہے کہ میں اور بھی بہت کچھ کر سکتا ہوں"
پھر ہوتا یہی ہے کہ ہم اپنے بستر سے اٹھتے ہیں، ان جذبات کو نظر انداز کر دیتے ہیں کیونکہ یہ جذبات تو حقیقی نہیں، جنہیں چھوا تک بھی نہیں جاسکتا۔ پھر ہم سکون حاصل کرنے کے لئے اپنی روزمرہ زندگیوں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ نہا کر، چائے پیتے ہوئے موبائل استعمال کرتے ،دن گزار دیتے ہیں۔اور پھر ایک نیا دن۔ وہی کارگزاری۔ یوں دن پر دن گزرتے چلے جاتے ہیں۔
یہ خیالات ہمارے اندر احساسات اور چیلنجز پیدا کرتے ہیں۔ ایسے چیلنجز جن کے جوابات ہمیں نہیں مل پاتے۔ دن گزرنے کے ساتھ ہم ایسے سوالات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور جیسے گزر رہی ہے، گزارتے رہتے ہیں۔ ہم اسکول، کالج یا کام پہ جاتے ہیں یا اپنے دن کی شروعات گھر پہ کرتے ہیں ۔ ہم اس کھوج لگانے کےاحساس کو نظر انداز کرتے چلے جاتے ہیں، خلاء باقی رہتا ہے، ہم زیادہ سے زیادہ محنت کرتے جاتے ہیں لیکن منزل پہ پہنچنے کے باوجود اطمینان کی عدم موجودگی پہ مایوسی ہمیں حیران رکھتی ہے۔
پھر ہماری توجہ فضولیات سے بھرپور دنیا کی طرف بھٹک جاتی ہے اور ہم تفریحات کے ذریعے اس خلاء کو پُر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم ٹی وی، یوٹیوب پہ اپنے پسندیدہ چینلز دیکھتے، سوشل میڈیا پہ دیوانہ وار وقت لگاتے، جِم یا باہر جاتے، دوستوں کے ساتھ وقت بتاتے یا باہر چہل قدمی کرتے ہیں۔ پھر سونے کے لئے بستر پہ لیٹ جاتے ہیں اور یوں اگلے دن یہی سب دوبارہ دہراتے ہیں۔ جبکہ اس دوران ہم اس احساس کو مزید سے مزید دباتے چلے جاتے ہیں۔
دیکھئے، کس طرح ہماری سوچ اور احساس ہمارے وجود پر اثر انداز ہوتا ہے۔ غافل کردینے والی فضولیات سے بھری اس دنیا میں ہم معمول کی عادات اور روزانہ کی مصروفیات میں سکون تلاش کر تے ہیں جو پھر یہی ہمارا لائحہ عمل بن جاتا ہے۔ یہ ہمارا عقیدہ، احساس اور روزمرہ زندگی اور دنیا کو پرکھنے کا زاویہ بن جاتا ہے۔ یوں ہم اپنا لائحہ عمل طے کرنے کے اختیار کو کھو بیٹھتے ہیں۔ مگر آپ پوچھ سکتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے؟
دراصل ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہ ہمیں اپنے سانچے میں ڈھال رہا ہے۔ ہمارے ذہنوں کو مربوط کرنے اور عقیدوں کو تشکیل دینے سے لے کر ہمارے دنیا کو محسوس کرنے کے زاویے کو بدلنے تک اور یوں ہمارا دنیاوی معاملات پہ ہونے والا ردعمل بھی۔ہمارا ردِ عمل یا تو عمل سے ہوتا ہے یا بے عملی سے۔ نتیجتاً یہ ہماری زندگیوں کی سمت اور مقاصد تبدیل کر دیتا ہے۔ اگرہم اپنے لیے اپنا لائحہ عمل طے نہیں کریں گے تو کوئی اور اسے طے کردے گا۔
ہم جن نظاموں تلے زندگی گزار رہے ہیں یہ ہمیں حقیقی بلندی حاصل کرنے نہیں دینا چاہتے۔ یہ ہمیں قابو اور استعمال کرنے کے لئے ہیں۔ ہمیں ناچ گانے، reality shows اور فلموں کی دنیا میں الجھا کر، اور جیسے ہم نے پہلے کہا کہ یوں یہ ہمارا دنیا کو دیکھنے کا زاویہ بدلنا چاہتے ہیں۔ یا پھر ہمارے تعلیمی نظام کو تبدیل، تاریخ کو پوشیدہ اور اس بات کو کہ ہم امت ہونے کے ناطے کون ہیں، چھپانا چاہتے ہیں تاکہ نسلیں غفلت میں پرورش پائیں۔ اور ایسا وہ کیوں نہیں کریں گے جب کہ ہم ابھی بھی بہترین امت ہیں۔اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا،
﴿كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ﴾
"تم سب امتوں میں سے بہتر ین ہو جو لوگوں کے لیے بھیجی گئی ہیں،تم اچھے کاموں کا حکم کرتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو"( آل عمران:110)۔
ہم انسانیت کے لئے مثال ہیں ۔ سورۃ الضحیٰ کی آیت7 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىٰ﴾
" اور اس نے تمہیں بھٹکا ہوا پایا تو رہنمائی کی"۔
دنیا خود کو دریافت کرنے میں کھو چکی ہے۔ جب تک موت واقع نہیں ہوجاتی ،وہ مسلسل جوابات تلاش کرتے رہیں گے۔ اور وہ ہمارے لئے بھی یہی چاہتے ہیں کہ ہم انہی راہوں میں کھو جائیں، اپنی رسومات اور روزمرہ زندگی میں اور خود کو محض زندگی گزارنے میں مصروف کر لیں اور بس کام چلائیں۔ اس طرح ہمیں پیسہ کمانے کے پیچھے مصروف رکھا جائے ، زندگی یا تو مشکل سے مشکل ہو یا آسان سے آسان لیکن ہم غفلت میں پڑے رہیں اور کبھی بیدار نہ ہوں۔ یا خود کو دنیاوی زندگی کے مشاہدات میں کھو دیں۔لاحاصل میں خود کو کھو کر مسلسل کچھ مل جانے کی کھوٹی آرزو۔ اسے بھول جائیں کہ ہم کون ہیں اور دائروں میں گھومتے رہیں، گمراہی کے اندھیروں کو اسلام سے منور نہ کریں اور دوبارہ کھڑے ہونے کی جستجو کھو دیں۔
اللہ تعالیٰ سورہ الاعراف کی آیت179 میں فرماتے ہیں:
﴿وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ﴾
" اور ہم نے دوزخ کے لیے بہت سے جن اور آدمی پیدا کیے ہیں، ان کے دل ہیں کہ ان سے سمجھتے نہیں، اور آنکھیں ہیں کہ ان سے دیکھتے نہیں، اور کان ہیں کہ ان سے سنتے نہیں، وہ ایسے ہیں جیسے چوپائے بلکہ ان سے بھی گمراہی میں زیادہ ہیں، یہی لوگ غافل ہیں"۔
نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں
:
(إِنَّكُمْ تُتِمُّونَ سَبْعِينَ أُمَّةً أَنْتُمْ خَيْرُهَا وَأَكْرَمُهَا عَلَى اللَّهِ)
" تم ستر قوموں کی تکمیل ہو، ان میں سب سے بہتر اور اللہ کے نزدیک ان میں سب سے مکرم"۔
ہمارا مقام یہ ہے، اور ہمیں پتہ ہے کہ ہمارا مقام کیا ہے۔ ہم کرہ ارض پہ کبھی چلنے والے بہترین انسانوں کے پیروکار ہیں۔ ہم اللہ پہ ایمان رکھنے والے ہیں۔ ہم اپنا مقصد جانتے ہیں۔ اور ہمیں قطعاً ان سیکولر، جمہوری، سرمایہ دارانہ نظاموں کے درس کی ضرورت نہیں یا کہ وہ ہمیں اپنے وجود کے ادراک کے بارے میں مخمصوں میں الجھا دیں۔ہم امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ہم اللہ کے سپاہی ہیں۔ ہمیں اللہ کی عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے جس سے ہم اپنی قوت اور اپنا اعتماد حاصل کرتے ہیں اور اپنی زندگیوں کے مقاصد، جس کو یہ ہم سے کبھی نہیں چھین سکتے۔
لہٰذا ۔۔۔ہوشیار بنیں!
Latest from
- امریکی منصوبے کے جال میں پھنسنے سے خبردار رہو
- مسلم دنیا میں انقلابات حقیقی تبدیلی پر تب منتج ہونگے جب اہل قوت اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے جابروں کو ہٹا کر امت کا ساتھ دینگے
- حقیقی تبدیلی صرف اُس منصوبے سے آ سکتی ہے جو امت کے عقیدہ سے جڑا ہو۔ ...
- حزب التحریر کا مسلمانوں کی سرزمینوں کو استعمار سے آزاد کرانے کا مطالبہ
- مسلمانوں کے حکمران امریکی ڈکٹیشن پر شام کے انقلاب کو اپنے مہروں کے ذریعے ہائی جیک کر کے...