بسم الله الرحمن الرحيم
امریکہ نے پاکستان کے انتہائی جدید بیلسٹک میزائل پروگرام کو نقصان پہنچانے کی کوششیں تیز کر دیں
خبر:
27 دسمبر 2023 کو، پاکستان کی مسلح افواج کے میڈیا ونگ،آئی ایس پی آر( ISPR)نے اعلان کیا، "پاکستان نے آج فتح-II کا کامیاب فلائٹ ٹیسٹ کیا، جو جدید ترین ایویونکس، جدید ترین نیوی گیشن سسٹم اور منفرد پرواز کی رفتار سے لیس ہے.... ہتھیاروں کا نظام 400 کلومیٹر کی حد تک انتہائی درستگی کے ساتھ اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے"۔
تبصرہ:
اس تجرباتی لانچ سے قبل، 20 اکتوبر 2023 کو امریکی دفتر خارجہ کا پریس بیان بعنوان "ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ان اداروں پر پابندیاں جو بیلسٹک میزائل کے پھیلاؤ میں تعاون کرتے ہیں "(United States Sanctions Entities Contributing to Balistic Missile Proliferation)میں کہا گیا، "آج ہم ایگزیکٹو آرڈر (E.O.) 13382 کے مطابق تین اداروں کو نامزدکر رہے ہیں، جو(یہ آرڈر) بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور ان کی ترسیل کے ذرائع کو نشانہ بناتا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کے ان تینوں اداروں نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے میزائل میں استعمال ہونے والی اشیاء فراہم کی تھیں"۔ اس طرح، امریکہ نے چین کے ان تین اداروں پر پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے لیے میزائل میں استعمال ہونے والی اشیاء کی فراہمی کی وجہ سے پابندی لگا دی ہے۔ یہ پابندیاں پاکستان کے انتہائی جدید بیلسٹک میزائل پروگرام کو روکنے کی پہلی امریکی کوشش نہیں ہیں۔
جوہری دور کے آغاز سے، دوسری جنگ عظیم کے بعد، ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے اپنی عالمی برتری کو برقرار رکھنے کے لیے، جوہری اور بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی کو کنٹرول کرنے کو اپنا ہدف بنایا ۔ تاہم، امریکہ بڑی طاقتوں کے درمیان جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے میں ناکام رہا۔ اس کے بعد واشنگٹن نے بڑی جوہری طاقتوں کی شراکت سے متعدد ٹیکنالوجی کنٹرول معاہدے بنائے۔ اس کی مثالوں میں عدم پھیلاؤ کا معاہدہ (NPT)، انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسیIAEA))، اورعلاقائی سطح پر نیوکلیئر ویپنز فری زونزNWFZ) ) اور دوہری استعمال کی ٹیکنالوجی کارٹلیس جیسا کہ ایم ٹی سی آر(MTCR)، این ایس جی(NSG)، آسٹریلیا گروپ (Australia Group)اور وسینار ارینجمنٹ(Wassenaar Arrangment) کی حمائت کی ۔ یہ اقدامات امریکہ کی جانب سے اپنے برآمدی کنٹرول کے اقدامات، اور پابندیوں کے نظام کے علاوہ ہیں، جن کا مقصد فوجی مقاصد کے لیے جوہری ٹیکنالوجی کی فراہمی کو روکنا ہے۔
پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کو مؤثر طریقے سے نشانہ بناتے ہوئے امریکہ کی طرف سے حال ہی میں اعلان کردہ یکطرفہ پابندیاں آخری حملہ نہیں ہوں گی۔ پاکستان جدید ایٹمی ٹیکنالوجی کے دائرے میں داخل ہو چکا ہے، اور اپنے جوہری ہتھیاروں اور بیلسٹک میزائل پروگرام کو مزید ترقی دے رہا ہے۔ اس نے جوہری عدم پھیلاؤ کے نظام اور دوہری استعمال کی ٹیکنالوجیز کی سپلائی چین میں موجودخامیوں کا فائدہ اٹھایا ہے۔ جب امریکہ قابل اعتماد ڈیٹرنٹ صلاحیت کے حصول کی طرف پاکستانی پیش قدمی کو روکنے میں ناکام رہا تو اس نے دھمکیوں اور پابندیوں کا سہارا لیا۔
1990 کی دہائی میں امریکہ نے پاکستان کے خلاف پریسلر پابندیاں عائد کیں۔ امریکہ نے پاکستان کے ایٹمی اور بیلسٹک میزائل پروگرام کے خلاف جاسوسی اور تخریب کاری کا بھی سہارا لیا۔ سابق امریکی کنٹریکٹر اور وِسل بلوئر ایڈورڈ سنوڈن کے مطابق، بجٹ کی ٹاپ سیکرٹ دستاویزات، جنہیں "بلیک بجٹ" کہا جاتا ہے، میں پاکستان کے جوہری پروگرام پر گہری توجہ کا انکشاف کیا گیا۔ 2 ستمبر 2013 کو، واشنگٹن پوسٹ نے ایک مضمون بعنوان "اہم خفیہ امریکی انٹیلی جنس فائلیں: پاکستان پر عدم اعتماد کی نئی سطحوں کو ظاہر کرتی ہیں،" شائع کیا، جس میں کہا گیا، "امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کے 'بلیک بجٹ' کا 178 صفحات پر مشتمل رپورٹ کاخلاصہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی نگرانی میں تیزی لایا ہے، حیاتیاتی اور کیمیائی مقامات کے بارے میں پہلےظاہر نہ کیے گئے خدشات کا حوالہ دیا ہے، اور سی آئی اے کے ذریعے بھرتی کیے گئے انسداد دہشت گردی کے ذرائع کی وفاداری کا اندازہ لگانے کی کوششوں کی تفصیلات بتائی ہیں"۔
اس کے علاوہ، 30 مئی 2019 کو، پاکستان کی فوج نے جاسوسی، اور غیر ملکی جاسوس ایجنسیوں کو حساس معلومات لیک کرنے کے جرم میں ایک فوجی افسر کو موت، اور دوسرے کو 14 سال کی "سخت قید" کی سزا ئیں سنائیں۔ ایک سویلین ڈاکٹر کو بھی سزائے موت دی گئی۔
دو طرفہ تزویراتی (سٹریٹیجک) استحکام کے مذاکرات امریکہ کے لیے جوہری معاملات پر پاکستان کی سوچ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے اور اس پر دباؤ ڈالنے کا ایک اور اہم طریقہ کار ہے۔ یہ باتیں اکثر چھپ کر ہوتی ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 2016 کے بعد کوئی سرکاری ریڈ آؤٹ دستیاب نہیں ہے۔ 17 مئی 2016 کی امریکی محکمہ خارجہ کی پریس ریلیز، جس کا عنوان تھا "پاکستان -امریکہ مذاکرات کا آٹھواں دور سلامتی، سٹریٹجک استحکام، اور عدم پھیلاؤ کے مسائل" نے پاکستان کی جوہری پیش رفت کے حوالے سے امریکی خدشات کا اظہار کیا۔ پریس ریلیز میں مزید بتایا گیا کہ "باہمی اہمیت کے امور پر خیالات کا نتیجہ خیز تبادلہ، بشمول سٹریٹجک ایکسپورٹ کنٹرول رجیم، عدم پھیلاؤ، اور علاقائی استحکام اور سلامتی"پر بات چیت ہوئی۔
نام نہاد امریکی خدشات کا تعلق مندرجہ ذیل امور سے ہے اور جو 2016 سے اب تک باقی ہیں:
1۔ طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل شاہین III کی تعیناتی۔
2۔ ایک سے زیادہاہداف کو آزادانہ طور پر نشانہ بنانے والی ری اینٹری وہیکلMIRV) )میزائل سسٹم، ابابیل، کی ٹیسٹنگ
3۔ ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کو فائر کرنے کے لیے مختصر فاصلے تک مار کرنے والے نصر میزائل سسٹم کی تعیناتی۔
4۔ ایٹمی وار ہیڈز کی ایک بڑی تعداد بنانے کے لیے ایٹمی مواد کی پیداوار۔
یہ صلاحیتیں پاکستان کو نہ صرف بھارت کو شکست دینے کے قابل بناتی ہیں، جو جنوبی ایشیا میں امریکہ کا نیا ساتھی ہے،بلکہ پاکستان کو یہودیوں کے وجود کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا میں امریکی اڈوں کو نشانہ بنانے کی منفرد قابلیت بھی دیتی ہیں۔ شاہین III اور MIRV میزائل ابابیل امریکہ کی طرف سے تعینات کسی بھی بیلسٹک میزائل ڈیفنسBMD) )کو شکست دے سکتے ہیں۔ پاکستان کے میزائل پروگرام کو کمزور کرنا امریکہ کے سٹریٹجک مفاد میں ہے، اگر وہ چاہتا ہے کہ ہندوستان ہند بحرالکاہل کے خطے میں حقیقی معنوں میں 'واحد سیکورٹی فراہم کنندہ' بن جائے۔
پاکستان کے فوجی فیصلہ سازی میں موجودمخلص عناصر کو سٹریٹجک استحکام کے مذاکرات سمیت امریکہ کے ساتھ تمام روابط منقطع کرنے چاہئیں۔ امریکہ صرف پاکستان کی ڈیٹرنس صلاحیتوں کو نقصان پہنچانے میں دلچسپی رکھتا ہے اور اس طرح سٹریٹجک عدم استحکام پیدا کرتا ہے۔ امریکہ یہ سب کچھ اُس وقت کررہا ہے جب وہ ہائی ٹیک ٹیکنالوجی شیئرنگ کے ذریعے ہندوستان کی فوجی صلاحیتوں کو بڑھا رہا ہے۔ پاکستان کے فیصلہ سازوں کو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ انہیں اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں اپنی مضبوط ڈیٹرنس فورس کو تعینات کرنا چاہیے۔ انہیں اپنی بڑی فوج کو، جسے ایٹمی ڈھال بھی میسر ہے، متحرک کرنا چاہیے تاکہ وہ القدس، غزہ اور کشمیر میں فتح کے لیےمسلم افواج کی قیادت کریں، اور اس سے بڑھ کر وہ انسانیت کو جابرانہ سرمایہ داری نظام کے چنگل سے نجات دلائے اور اسلام کی روشنی کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلائے۔
پس اے افواج پاکستان کے افسران !
نبوت کے نقش قدم پر خلافت کے دوبارہ قیام کے لیے حزب التحریر کو اپنی نصرت فراہم کریں، تاکہ اسلام کے عالمی غلبہ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جا سکیں، جیسا کہ صدیوں پہلے ایسا ہوا تھا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
﴿الَّذِيۡنَ يَتَّخِذُوۡنَ الۡـكٰفِرِيۡنَ اَوۡلِيَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَؕ اَيَبۡتَغُوۡنَ عِنۡدَهُمُ الۡعِزَّةَ فَاِنَّ الۡعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِيۡعًاؕ﴾
’’وہ جو مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں ، کیا ان کے پاس عزت ڈھونڈتے ہیں تو عزت تو ساری اللہ کے لیے ہے‘‘۔
(النساء 4:139)
محمد سلجوق، ولایہ پاکستان
Latest from
- امریکی منصوبے کے جال میں پھنسنے سے خبردار رہو
- مسلم دنیا میں انقلابات حقیقی تبدیلی پر تب منتج ہونگے جب اہل قوت اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے جابروں کو ہٹا کر امت کا ساتھ دینگے
- حقیقی تبدیلی صرف اُس منصوبے سے آ سکتی ہے جو امت کے عقیدہ سے جڑا ہو۔ ...
- حزب التحریر کا مسلمانوں کی سرزمینوں کو استعمار سے آزاد کرانے کا مطالبہ
- مسلمانوں کے حکمران امریکی ڈکٹیشن پر شام کے انقلاب کو اپنے مہروں کے ذریعے ہائی جیک کر کے...