بسم الله الرحمن الرحيم
امت کو تمام فلسطین کی آزادی کے لیے اپنی مسلح افواج کو مستقل پکارنا ہے
خبر:
پاکستان اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ کے درمیان ہونے والی ملاقات کے حوالے سے، پاکستان کی وزارت خارجہ نے 16 اپریل 2024 کو ایک پریس ریلیز جاری کی، جس میں کہا گیا تھا کہ، "دونوں وزرائے خارجہ نے مشرق وسطیٰ کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور غزہ میں فوری جنگ بندی اور وہاں اسرائیلی مظالم کے خاتمے کی فوری ضرورت پر زور دیا ۔" [1]
تبصرہ:
جنگ بندی فلسطین کی آزادی کا باعث نہیں بنے گی، بلکہ اس سے فلسطین کا بیشتر حصہ یہودی قابضین کے حوالے کر دیا جائے گا، جو اللہ، اس کے رسول ﷺ اور مومنین کے خلاف اپنی دشمنی جاری رکھیں گے۔ امت اس حقیقت کو سمجھتی ہے اور قبضے کو کمزور کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔ امت کا فوری ردعمل یہودی وجود کی حمایت کرنے والی کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا تھا۔ اب جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، مسلمان تیزی سے اپنی مسلح افواج کو غزہ کی حمایت میں متحرک ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں، حالانکہ مسلمانوں کے موجودہ حکمران استعماری مغربی ریاستوں کی منظوری کے بغیر کسی صورت مسلم مسلح افواج کو قومی ریاست کی سرحدوں سے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دیتے۔
جہاں تک بائیکاٹ مہم کا تعلق ہے تو یہ اپنے آغازسے ہی کامیاب رہی ہے۔ پاکستان کے سب سے مشہور انگریزی اخبار، ڈان نے 3 دسمبر 2023 کو ایک رپورٹ شائع کی، جس کا عنوان تھا "مغربی مصنوعات کے بائیکاٹ نے مقامی متبادل مصنوعات میں اضافے کو جنم دیا ہے۔" [2] اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 12 بڑے شہروں میں کی گئی ایک تحقیق میں دس میں سے آٹھ جواب دہندگان ملٹی نیشنل اور مغربی برانڈز کے بائیکاٹ کے حق میں تھے، جبکہ دس میں سے سات نے دعویٰ کیا کہ وہ پہلے ہی یہ بائیکاٹ شروع کر چکے ہیں۔ چھ مہینے ہو چکے ہیں لیکن بائیکاٹ کی مہم ختم نہیں ہوئی بلکہ کامیابی سے جاری ہے۔ آخر یہ کیسے ہوا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ گھریلو خواتین اور طلبہ اس مہم کی مسلسل حمایت کر رہے ہیں۔ مسلمان بائیکاٹ کی اہمیت کے بارے میں سوشل میڈیا پر بیداری پیدا کررہے ہیں۔ یہاں تک کہ مسلمان غیر ملکی برانڈز کے آؤٹ لیٹس کا دورہ کرتے ہیں اور مسلمانوں کو بائیکاٹ میں شامل ہونے کی ترغیب دیتے ہیں۔ بائیکاٹ کی یہ مہم اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ استقامت ،اللہ کے حکم سے، کامیابی کی کنجی ہے۔
جہاں تک مسلح افواج کو متحرک کرنے کے مطالبے کا تعلق ہے، یہ اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک وہ متحرک نہ ہو جائیں۔ لہٰذا پاکستان، مصر، اردن، ترکی، ایران اور انڈونیشیا کے مسلمانوں کو اپنی مسلح افواج کو متحرک کرنے کے اپنے مطالبے پر قائم رہنا چاہیے۔ ہمیں مسلم افواج کےمتحرک ہونے کی اہمیت کے بارے میں شعور بیدار کرنا چاہیے۔ ہم سب کو مسلح افواج میں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے بار بار ملنا چاہیے۔ ہمیں انہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے ان کا فرض یاد دلانا چاہیے۔ ہمیں انہیں مظلوموں کی حمایت کا اسلامی فریضہ یاد دلانا چاہیے۔ ہمیں انہیں مسجد اقصیٰ کو آزاد کرانے کا ان کا شرعی فرض یاد دلانا چاہیے۔ ہمیں ان کو اس عظیم اجر کی یاد دہانی کرانی چاہیے جسے وہ انبیاء علیہم السلام کی سرزمین میں، اسے آزاد کرانے والی فوج کی صورت میں داخل ہو کرحاصل کریں گے۔ ہمیں ان کو یاد دلانا چاہیے کہ جب وہ اپنا یہ فرض پورا کریں گے تو وہ اس دنیا میں امت کی دعائیں ، محبت اور عزت حاصل کریں گے جیسے امت آج کے دن تک صلاح الدین ایوبیؒ کو محبت اور عزت سے یاد کرتی ہے اور اپنی دعاوں میں یاد رکھتی ہے۔ ہمیں انہیں آخرت کے عظیم انعامات کی یاد دہانی کرانی چاہیے۔ ہمیں انہیں یہ بھی یاد دلانا چاہیے کہ اگر وہ غزہ کے مظلوم مسلمانوں ، فلسطین اور مسجد الاقصیٰ کے لیےحرکت میں نہیں آتے تو وہ اللہ کے غیض و غضب ، اورعذاب کو دعوت دیں گے۔ ہمیں مسلح افواج میں موجود اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے حرکت میں آنے کا مطالبہ اور انہیں یاد دہانی اس وقت تک کراتے رہنا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے فرض کو ادا کرنے کے لیے تیار ہوجائیں، چاہے شروع میں وہ منفی ردعمل ہی کیوں نہ دیں۔
درحقیقت رسول اللہﷺ نے اپنے عہد میں جنگجوؤں سے مسلسل مطالبہ کیا کہ وہ اپنا فرض ادا کریں۔ کئی بار آپ ﷺ نے عرب کے طاقتور قبائل سےاسلام کے لیے نصرۃ (مادی کی حمایت) کا مطالبہ کیا، لیکن وہ رد کر دیا گیا۔ تاہم آپ ﷺ نے بار بار کی ناکامیوں کے باوجود پوری استقامت کے ساتھ یہ کام کئی سال تک جاری رکھا یہاں تک کہ مدینے کےاوس اور خزرج نے جواب دیا۔ استقامت، صبر اور اللہ پر توکل مسلم افواج کو متحرک کرنے کی ہماری کوشش کی بنیاد ہے۔ ہمیں کسی مایوسی کا احساس کیے بغیر مسلم مسلح افواج سے مطالبہ کرتے رہنا چاہیے۔ ہمیں اس وقت تک یہ مطالبہ کرتے رہنا ہے جب تک وہ ان حکمرانوں کو اکھاڑ کر پھینک نہیں دیتے جو انہیں متحرک ہونے سے روکتے ہیں۔ ہمیں اس وقت تک یہ مطالبہ کرتے رہنا ہے جب تک وہ مغرب کے ایجنٹ حکمرانوں کی جگہ خلافت راشدہ قائم نہ کر لیں۔ ہمیں اس وقت تک یہ مطالبہ کرتے رہنا ہے جب تک کہ وہ غزہ کی حمایت میں خلیفہ راشد کی قیادت میں متحرک نہ ہوجائیں۔ بے شک اللہ تعالی ہماری کوششوں کو ضائع نہیں کرے گا، نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
وَاصۡبِرۡ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيۡعُ اَجۡرَ الۡمُحۡسِنِيۡنَ
"اور صبر کیے رہو کہ اللہ نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا ۔"(ہود، 11:115)
ولایہ پاکستان سے شہزاد شیخ نے،
حزب التحریر کےمرکزی میڈیا آفس کے لیے یہ مضمون لکھا۔
[1]https://www.voanews.com/a/saudi-arabia-pakistan-call-for-cease-fire-in-gaza/7572513.html
[2]https://www.dawn.com/news/1794648
Latest from
- امریکی منصوبے کے جال میں پھنسنے سے خبردار رہو
- مسلم دنیا میں انقلابات حقیقی تبدیلی پر تب منتج ہونگے جب اہل قوت اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے جابروں کو ہٹا کر امت کا ساتھ دینگے
- حقیقی تبدیلی صرف اُس منصوبے سے آ سکتی ہے جو امت کے عقیدہ سے جڑا ہو۔ ...
- حزب التحریر کا مسلمانوں کی سرزمینوں کو استعمار سے آزاد کرانے کا مطالبہ
- مسلمانوں کے حکمران امریکی ڈکٹیشن پر شام کے انقلاب کو اپنے مہروں کے ذریعے ہائی جیک کر کے...