بسم الله الرحمن الرحيم
خلافت راشدہ کا قیام اور ہمارا کردار
آج کل مسلم دنیا اور مغرب میں خلافت کے بارے میں بہت زیادہ بات کی جا رہی ہے۔ خلافت سب سے پہلے کہاں قائم ہو گی، یہ صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے علم اور ہاتھ میں ہے، کیونکہ وہی وہ واحد ذات ہے جو نُصرۃ عطا فرماتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ کی بشارتیں اس معاملے میں امکانات کی خبر دیتی ہیں۔ اور اس معاملے میں جہاں تک ہمارے کردار کا تعلق ہے، تو ہمیں نبوت کے طریقہ کار کی پیروی کرنی چاہیے تاکہ ہمارے امور کو منظم کرنے کے لیے اسلام کی حکمرانی کو قائم کیا جا سکے۔
غزہ کی صورتحال کے بعد، یہ واضح ہو گیا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ دنیا کو دینِ حق کے بارے میں تیار کر رہا ہے۔ آج پوری مسلم دنیا اسلام کی طرف لوٹنے، شریعت کے نفاذ اور ایک امت کے طور پر اتحاد کی ضرورت پر بات کر رہی ہے۔ اس میں سے کچھ آخری زمانے اور خلافت کی واپسی کے بارے میں بھی بحث کر رہے ہیں۔ پوری دنیا بھی اس سے متاثر ہو رہی ہے۔ ہم مغرب میں منصف مزاج لوگوں کے درمیان مسلمانوں کی حمایت میں آوازیں بھی سن رہے ہیں۔
رسول اکرم ﷺ کی بشارتوں کا صدیوں سے بے شمار عظیم علمائے کرام نے مطالعہ کیا ہے۔ بحیثیت طالب علم، ہم دیکھتے ہیں کہ یہ خبریہ احادیث مسلمانوں کو نیک اعمال کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ ان میں سے کچھ خبریہ احادیث طلب کے قرینہ کے ساتھ ہیں، جن میں مخصوص اعمال کی انجام دہی کا مطالبہ موجود ہے، جیسے روم کو اسلام کے لیے کھولنا۔ یہ درست ہے کہ ہم ان خبریہ احادیث کی تشریحات پر تو اختلاف کر سکتے ہیں، لیکن ہماری تشریحات سے قطع نظر، ہم پر اپنی ہر صورتحال کے حوالے سے اسلامی احکام کی پابندی کرنا لازم ہے۔
جہاں تک ہمارے کام کرنے کا تعلق ہے، تو اس کی رہنمائی ہمیں نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ مبارکہ سے لینی چاہیے۔
الف: نبی اکرم ﷺ نے دار الارقم میں اپنے رشتہ داروں اور احباب کی تربیت کی۔ ہمارے گھر، خاندان، احباب اور کمیونٹی کو بھی دار الارقم کی مثال بننا چاہیے۔ انہیں دین اور اس کی روشن ہدایت کے مینار، اور ہمارے گھروں کو اسلام سیکھنے اور عمل کرنے کے مقامات ہونا چاہیے۔
ب: نبی اکرم ﷺ نے معاشرے کو اسلامی حکمرانی کے لیے تیار کیا۔ آپ ﷺ نے ان قوانین پر گفتگو کی جو لوگوں کے باہمی تعلقات کو منظم کرتے تھے، جیسے معصوم بچیوں کو زندہ درگور کرنے کا غلط ہونا، غریبوں اور یتیموں کی دیکھ بھال، اور تجارت میں دھوکہ دہی سے بچنا وغیرہ۔ آج کے دور میں، ہمیں بھی معاشرے کے مسائل پر کھل کر بات کرنی چاہیے اور اسلام کو متبادل کے طور پر پیش کرنا چاہیے۔ قرآن مجید اور سنت نبوی ﷺ یقیناً معیشت، خارجہ پالیسی، تعلیمی پالیسی اور حکمرانی کا مکمل نقشہ فراہم کرتے ہیں۔
ج: نبی اکرم ﷺ نے اہل قوت و طاقت کو بھی تیار کیا کہ وہ اسلام کی حکمرانی کے لئے مدد کریں۔ آپ ﷺ نے قبائل کے جنگجوؤں سے رجوع کیا اور اسلام کے قیام کے لیے ان سے نصرۃ (مادی مدد) کا مطالبہ کیا۔ یثرب کے قبائل نے مثبت جواب دیا، جب کہ کئی قبائل نے انکار کیا۔ بیعت عقبہ ثانیہ کے ذریعے اسلام کے قیام کے لیے نصرۃ فراہم کی گئی۔ یثرب اسلام کی اتھارٹی بن کر مدینہ منورہ کے نام سے جانا جانے لگا، جس نے جزیرہ ہائے عرب کو اسلام کے نور سے روشن کر دیا۔ آج ہمیں بھی مسلح افواج میں موجود اپنے بیٹوں، بھائیوں اور والد، چچاؤں کو تیار کرنا چاہیے تاکہ وہ بھی اپنی نصرۃ فراہم کریں۔
جہاں تک دعوت کے کام کو کرنے کی جگہ کا تعلق ہے:
الف: ہمیں یہ معلوم ہے کہ کچھ جگہیں زیادہ قبولیت رکھتی ہیں اور کچھ کم۔ مکہ وہ جگہ تھی جہاں نبی اکرم ﷺ کے پیغام کی دعوت سب سے پہلے ابھری۔ تاہم، مکہ نے اس پیغام کی مزاحمت کی کیونکہ اسے اس وقت کے موجودہ نظام سے مراعات اور فوائد حاصل تھے۔ اس کے برعکس، یثرب نے اس پیغام کو قبول کر لیا کیونکہ وہ پہلے ہی بہت سی آزمائشوں اور مشکلات سے گزر رہا تھا۔ مسلم دنیا ہمارے کام کرنے کے لیے ایک نہایت موزوں اور بہترین جگہ ہے۔ یہ اسلام سے محبت کرنے والے مسلمانوں سے بھری ہوئی ہے جو اسلام کے بارے میں جاننا بھی چاہتے ہیں۔ مسلم دنیا مصائب میں بھی ڈوبی ہوئی ہے اور نجات کی تلاش میں ہے۔
ب: ہم لوگ جو مسلم دنیا میں رہتے ہیں، یہاں ہم سب کے بہت سے رشتہ دار اور دوست موجود ہیں۔ اور یہ ہمارے کام شروع کرنے کے لیے ایک فطری جگہ ہے۔ ہم سب کو خود سیکھنا اور ہم سب کو سکھانا بھی چاہیے۔ ہمیں معاشرے کے مسائل پر بات کرنی چاہیے اور شریعت کے احکام کو پیش کرنا چاہیے تاکہ ہمارے معاشرتی مسائل کا علاج ہو سکے۔ ہمیں اپنی افواج میں موجود اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے بھی رابطہ کرنا چاہیے۔
ج: یہ بات بھی درست ہے کہ ہم میں سے بعض لوگ حالات کی مشکلات کے باعث اسلامی دنیا سے باہر ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ تاہم، حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی طرح، ہمارے دل اور امیدیں مسلم دنیا کے ساتھ ہی پیوستہ ہیں۔ ہم سب کے مسلم دنیا میں رشتہ دار اور دوست موجود ہیں۔ ہم دار الارقم کے ڈیجیٹل ماڈل قائم کر سکتے ہیں، اسلام سیکھ سکتے ہیں اور اسلام پہنچا سکتے ہیں۔ اور ہم ان ممالک میں آ بھی سکتے ہیں۔ اور شاید، دعاؤں اور تیاری کے بعد، ہم واپسی کا راستہ بھی تلاش کر سکتے ہیں۔
اے مسلمانو!
امام احمد بن حنبل نے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ
"پھر ظلم وجبر کی حکمرانی ہوگی، اور اُس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر جب اللہ چاہے گا اسے اٹھا لے گا۔ اور پھر نبوت کے نقش قدم پر خلافت ہوگی۔"،
اور اس کے بعد آپ ﷺ خاموش ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ کے یہ مبارک الفاظ، جو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی ہیں، ہمارے لیے نہ صرف ایک خوشخبری ہے کہ نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت نے دوبارہ قائم ہونا ہے بلکہ یہ حدیث ہم سے اس کے قیام کی جدوجہد کا تقاضا بھی کرتی ہے کیونکہ ہم پر یہ فرض ہے کہ ہماری حکمرانی صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نازل کردہ وحی کی بنیاد پر ہو۔ اے مسلمانو! خلافت کو تباہ ہوئے سوہجری سال گزر گئے ہیں، تو اٹھو اور اس کے قیام کے لیے جدوجہد کا حصہ بن جاؤ.
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو کے لیے مصعب عمير کی تحریر