بسم الله الرحمن الرحيم
عالمی قانون کا انہدام ... اور ان دنیا والوں کی ناامیدی جو اس قانون پر تکیہ کئے ہوئے تھے۔
”قواعد کی بنیاد پر مبنی عالمی آرڈر“، ایک شاطرانہ امریکی تصور
(عربی سے ترجمہ)
الواعی میگزین، شمارہ نمبر 458-459
39 واں سال،
ربیع الاول – ربیع الآخر 1446 ھ
بمطابق اکتوبر – نومبر 2024 ء
از قلم : ڈاکٹر أحمد حسونة
جنوری 2021ء میں جب سے صدر جو بائیڈن نے صدرِ اقتدار سنبھالا ہے، اور جب بھی وہ ان ممالک سے خطاب کرتے ہیں جیسا کہ چین، روس اور دیگر وہ ممالک جنہیں امریکہ نے ”دہشت گردی کی معاونت کرنے والی ریاستیں“ قرار دے رکھا ہے، تب سے ہی بائیڈن بارہا اس اصطلاح، ”قواعد پر مبنی عالمی آرڈر“ کے اطلاق کی بات کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ ان ریاستوں پر اس عالمی آرڈر کو نقصان پہنچانے کا الزام عائد کرتے ہیں اور اس عالمی آرڈر کے تحفظ کی خاطر، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے ایک متحد اقدام کی بات کرتے ہیں۔ امریکہ کے وزارتِ خارجہ کے سیکرٹری، انتونی بلنکن، بھی اسی مؤقف کا راگ الاپتے نظر آتے ہیں، اور زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ آمرانہ حکومتیں اس قواعد پر مبنی ورلڈ آرڈر کی خصوصاً ان فورمز میں بیخ کنی کرتی ہیں جہاں عالمی چیلنجوں پر مباحثہ جات ہو رہے ہوں۔
تاہم، یہ ”قواعد پر مبنی عالمی آرڈر“آخر ہے کیا؟ یہ اصطلاح عالمی اداروں کے بنیادی منشوروں یا ان معاہدوں میں کہیں نہیں ملتی، جو دوسری جنگ عظیم کے بعد وجود میں آئے تھے۔ بلنکن کا یہ دعویٰ کہ اس نظام نے گزشتہ 75 سالوں میں استحکام اور عالمی ترقی فراہم کی، تو اس دعوٰی کا تعلق اس عالمی آرڈر کو اس عالمی لبرل نظام (LIO) سے منسلک کرنے کی کوشش ہے جو دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی قیادت میں قائم ہوا تھا۔ یہ عالمی لبرل نظام(LIO)سیاسی اور اقتصادی آزادیت، کثیر الجہتی تعلقات، اور دیگر اداروں جیسے اقوام متحدہ، عالمی بینک، آئی ایم ایف، اورورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) کی اساس پر مبنی ہے۔ یہ نظام ان اصولوں کی بنیاد پر چلتا ہے جیسے جمہوریت، مساوات، آزادی، قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق، اور عالمی تعاون وغیرہ۔
تاہم، قانونی ماہرین جیسے جان ڈوگارڈ (John Dugard)، جو 2006 سے یونیورسٹی آف پریٹوریا کے مرکز برائے انسانی حقوق میں قانون کے پروفیسر ہیں، کا کہنا ہے کہ ”قواعد پر مبنی نظام“عالمی قانون سے مختلف ہے۔ ڈوگارڈ کا کہنا ہے کہ ”قواعد پر مبنی نظام“ایک متبادل نظام ہے جو عالمی قانون کو کمزور کرتا ہے۔ اسی طرح، ہارورڈ یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر، اسٹیفن ایم والٹ (Stephen M. Walt) کے الفاظ میں، امریکہ ہمیشہ تیار رہتا ہے، یعنی ”یہ امریکہ کی اپنی خواہش سے چشم پوشی کر دیتا ہے کہ جب بھی یہ قواعد غیر مناسب لگیں تو وہ ان قواعد کو نظرانداز کر دے، ان سے بچ کر نکل جائے، یا ان قواعد کو دوبارہ لکھ لے“۔ الیگزینڈر گوسیف (Alexander Gusev) کا کہنا ہے کہ امریکہ دانستہ طور پر ”قواعد پر مبنی عالمی نظام“ کی تعریف کو مبہم رکھتا ہے تاکہ جب ضرورت ہو تو اسے اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکے۔ جان ڈوگارڈ مزید یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے تشہیر کردہ اس مبہم اور امتیازی قواعد پر مبنی نظام کی بجائے اقوام متحدہ کے منشور اور عالمی قانون کے ذریعے قائم کردہ نظام، امن کی جانب ایک بہتر راستہ ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے عالمی طور پر یہ تسلیم کیا گیا تھا کہ واحد جائز عالمی نظام وہ ہے جس کی بنیاد عالمی قانون پر قائم ہو، جیسا کہ اقوام متحدہ کے منشور کے ضوابط اور مقاصد میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔
”قواعد پر مبنی نظام“کی اصطلاح صرف 1980ء کی دہائی کے آخر میں عبارات میں نظر آنے لگی، اور 2000ء کی دہائی کے اوائل میں، خاص طور پر 2003ء میں عراق پر امریکی حملے کے رد عمل میں یہ اصطلاح مزید نمایاں ہونے لگی، جو کہ اقوام متحدہ کی اجازت کے بغیر کیا گیا تھا۔ عراق پر حملہ کو ایک کلاسک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ آخر امریکہ نے ایسی اصطلاح کیونکر وضع کی، جس کا مقصد عالمی برادری کو الجھن میں ڈالنا اور عالمی قانون کی پابندیوں سے بچنا ہے۔ امریکہ کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ وہ اپنے داخلی قوانین کو عالمی قانون پر فوقیت دیتا ہے اور عالمی قواعد کو اپنے مفادات کے مطابق منتخب طور پر لاگو کرتا رہتا ہے۔
اخبارات نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ اس جنگ نے جو امریکی حمایت کے ساتھ، اسرائیل غزہ پر برپا کئے ہوئے ہے، عالمی قانون اور ”قواعد پر مبنی نظام“ کے درمیان فرق کو واضح کر دیا ہے۔ صدر بائیڈن کی جانب سے اسرائیل کو دی جانے والی رضامندی اس نظام کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھاتی ہے، جو کہ امریکی اجارہ داری کے ساتھ عالمی قانون کے متبادل کے طور پر لاگو ہوتا نظر آتا ہے۔ اگرچہ قواعد پر مبنی یہ نظام عالمی قانون کی طرح معلوم ہوتا ہے، لیکن یہ امریکی بالادستی کا ایک آلہ ہے، خاص طور پر جب یہ روس کو ان کارروائیوں کی سزا دیتا ہے جن کا ارتکاب اسرائیل کی طرف سے کیا گیا تھا اور جنہیں امریکہ کی جانب سے مادی مدد حاصل تھی۔
امریکہ اور اس کے اتحادی ”قواعد پر مبنی نظام“ کو جہاں ضروری سمجھتے ہیں، عالمی قانون کے مترادف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ عالمی قانون کی حمایت اس وقت کرتے ہیں جب یہ ان کے مفادات کو پورا کرتا ہو، جیسا کہ عالمی فوجداری عدالت (انٹرنیشنل کریمنل کورٹ) کا ولادیمیر پوٹن کے خلاف یوکرین میں جنگی جرائم کے الزام میں کارروائی کرنا۔ تاہم، امریکہ کبھی بھی اپنے آپ کو اس آئی سی سی (انٹرنیشنل کریمنل کورٹ) کے کٹہرے میں کھڑا نہیں ہونے دیتا۔ جارج ڈبلیو بش کے دور میں، امریکہ نے آئی سی سی کے قیام کے معاہدے پر اپنے دستخط واپس لے لئے تھے، اور ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں، امریکہ نے افغانستان میں امریکی جنگی جرائم کی تحقیقات کرنے والے آئی سی سی (انٹرنیشنل کریمنل کورٹ) کے پراسیکیوٹروں پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ لہٰذا، ”قواعد پر مبنی نظام“عالمی قانون کی جگہ تو نہیں لیتا لیکن اس کے ساتھ وضاحتی نکات فراہم کرتا ہے، ایسے قواعد جو امریکی مخالفین پر تو لاگو ہوتے ہوں لیکن امریکہ اور اس کے ایجنٹ باآسانی انہیں پس پشت ڈال سکتے ہیں۔
حال ہی میں، آئی سی سی کے پراسیکیوٹر نے جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات میں بینجمن نیتن یاہو اور یوو گیلنٹYoav Gallant کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنا چاہے۔ لندن کی SOAS یونیورسٹی میں عالمی انسانی حقوق کے قانون کے ماہر پروفیسر لوٹز اویٹے Professor Lutz Oette نے 23 مئی 2024 کو گارڈین اخبار کو بتایا، ”یہ وقت ہے کہ ان استعماری اور سامراجی ذہنیتوں کو دفن کر دیا جائے۔ آئی سی سی کے پری ٹرائل چیمبر کی جانب سے گرفتاری کے وارنٹ کا اجراء اس سمت میں ایک اہم قدم ہو گا“۔ تاہم، امریکہ کا ردعمل اپنی سامراجی عادت کی طرف لوٹ کر آ گیا: جب اگرچہ اس نے مارچ 2023 میں پیوٹن کے خلاف آئی سی سی کے وارنٹ کا خیرمقدم کیا تھا، لیکن امریکہ نے آئی سی سی کے اس اقدام کو ”اشتعال انگیز“ قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی۔ اویٹے Oette نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ امریکہ کا ردعمل اس کے تسلط کو قائم رکھنے کے لیے تشدد کے استعمال کی ایک طویل تاریخ کی عکاسی کرتا ہے، اور اس نے استعماری اور سامراجی ذہنیتوں کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیا۔
اب جبکہ دنیا ”اسرائیل“ کو امریکی اسلحہ اور سفارتی حمایت کے ساتھ غزہ کو تباہ و برباد کرتے ہوئے دیکھ رہی ہے، تو بائیڈن اورنیتن یاہو ”قواعد پر مبنی عالمی نظام“ کی حقیقی اصلیت کو ظاہر کر رہے ہیں۔ یہ اس قانون کے تحت آزادیوں کی دنیا نہیں بلکہ ایک اجتماعی قبرستان ہے۔
آخر ”قواعد پر مبنی عالمی نظام“ کا تصور کیسے ابھرا؟
”قواعد پر مبنی عالمی نظام“ کا تصور سوویت یونین کے سقوط کے بعد پیدا ہوا تھا، جب امریکہ کو یقین تھا کہ ایک یک قطبی دنیا لامتناہی مدت تک برقرار رہ پائے گی، جس کی وجہ سے وہ دوسرے ممالک کے مفادات اور رائے کو نظرانداز کر سکتا تھا۔ 2006 میں، پرنسٹن پروجیکٹ آن نیشنل سکیورٹی نے اپنی رپورٹ ”قانون کے تحت آزادی کی دنیا کی تشکیل: 21 ویں صدی میں امریکی قومی سلامتی“ جاری کی، جو عالمی قانون کی متوقع کمزوریوں کے جواب میں تیار کی گئی تھی۔
یہ تصور عملی طور پر عالمی قانون کو نظرانداز کرنے کے ایک طریقے کے طور پر استعمال کیا گیا تھا، جیسا کہ 2011 کے لیبیا کے بحران کے دوران دیکھا گیا، جہاں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے امریکی سلامتی کونسل کے ایک مینڈیٹ کا استعمال کرتے ہوئے ایک فضائی حدود کی پابندی عائد کی، جو معمر قذافی کی حکومت کا تختہ الٹنے کا باعث بنی۔ ایک اور مثال کسی بھی عالمی قانون کے جواز کے بغیر مشرقی شام میں آٹھ سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہنے والی امریکی فوجی موجودگی ہے۔
”قواعد پر مبنی عالمی نظام“ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے ایک ایسا آلہ بن گیا ہے جس کے ذریعے وہ بنیادی طور پر عالمی قانون کی بیخ کنی کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں سے دامن چھڑا لیتے ہیں۔ امریکی پالیسی ساز اس نظریے کا استعمال کرتے ہیں تاکہ امریکی عالمی بالادستی کے فوائد کو برقرار رکھا جا سکے۔ جب عالمی قانون کی طاقتیں اور قواعد امریکی مفادات کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں تو واشنگٹن انہیں ٹھیک سمجھتا ہے۔ جب روس نے فروری 2022ء میں یوکرین پر حملہ کیا تو سیکرٹری بلنکن نے خبردار کیا کہ ”ہمیں قاعدے پر مبنی عالمی نظام کا دفاع اور اصلاح کرنا چاہیے... تاکہ تنازعہ سے بچا جا سکے، اور تمام لوگوں کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے“۔ البتہ، جہاں پر امریکی اقدامات کا عالمی قانون سے انحراف کرنا ہو تو ”قواعد پر مبنی نظام“ کام میں آتا ہے۔
غزہ پر ہونے والی جنگ سے ہی اس ”قواعد پر مبنی نظام“ کی صحیح معنی میں وضاحت ہو جاتی ہے۔ 25 مارچ 2024ء کو اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے 14 اراکین نے ایک قرارداد پر رضامندی ظاہر کی جس میں غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا، لیکن امریکہ نے اس قرار داد میں شرکت سے گریز کیا۔ یہ قرارداد ایک قانونی قابلِ اطلاق دستاویز کی شکل اختیار کر گئی۔ پھر اس قرارداد پر ووٹ ہونے کے کچھ ہی دیر بعد بائیڈن انتظامیہ کے ترجمان نے عالمی قانون کے تحت اس کی حیثیت کا انکار کرنے کی کوشش کرتے ہوئے قرارداد 2728 کو ”ناقابلِ پابند“ قرار دے دیا۔
نیویارک ٹائمز نے 10 اپریل 2024 کو ذکر کیا کہ قرارداد 2728، جو بغیر کسی نتیجے کے منظور کی گئی، تو ”قواعد پر مبنی عالمی نظام“ کے زوال میں ایک اہم لمحہ کے طور پر یاد کی جا سکتی ہے۔ غزہ میں جاری تنازعہ اس بات کی واضح یاد دہانی ہے کہ ایک ایسی دنیا میں جہاں عالمی قانون پسند کی بنیاد پر لاگو ہوتا ہو تو وہاں پر یہ کمزور فریقین ہی ہوتے ہیں جو سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
امریکی ”قواعد پر مبنی نظام“ : عالمی تسلط کا ایک آلہ
شاید جنوبی افریقہ کے عالمی قانون اور انسانی حقوق کے ماہر جان ڈوگارڈ کی طرف سے پیش کردہ تحقیقی مقالہ، جو کیمبرج یونیورسٹی کے ذریعہ شائع کیا گیا، انہی تفصیلات پر روشنی ڈالتا ہے جنہیں عالمی قانون اور ”قواعد پر مبنی عالمی نظام“ کہا جاتا ہے :
”2 جون 2022ء کو صدر بائیڈن نے نیویارک ٹائمز میں ایک مقالہ شائع کیا جس کا عنوان تھا 'امریکہ یوکرین کی کس طرح مدد کرنے کے لیے تیار ہے'، اس مقالہ میں انہوں نے اعلان کیا کہ روس کا یوکرین میں اقدام 'قواعد پر مبنی عالمی نظام کے خاتمے کی علامت بن سکتا ہے اور کہیں بھی جارحیت کا دروازہ کھول سکتا ہے، جس کے مہلک نتائج دنیا بھر میں ہوں گے'۔ اس مقالہ میں عالمی قانون کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا تھا“۔
”بعد ازاں، جون 2022ء میں میڈرڈ میں نیٹو سربراہی اجلاس کے اختتام پر ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں، انہوں نے روس اور چین دونوں کو خبردار کیا کہ دنیا کی جمہوریتیں 'قاعدے پر مبنی نظام' (RBO) کا دفاع کریں گی۔ اور دوبارہ، عالمی قانون کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا“۔
”12 اکتوبر 2022ء کو امریکی صدر نے ایک قومی سلامتی کی حکمت عملی شائع کی جس میں ”قواعد پر مبنی نظام RBO“کا بار بار ذکر کیا گیا ہے کہ یہ 'عالمی امن اور خوشحالی کی بنیاد' ہے، جبکہ عالمی قانون کا صرف سا مختصر ذکر کیا گیا ہے“۔
جان ڈوگارڈ نے سوال اٹھایا: ”آخر یہ 'قواعد پر مبنی عالمی نظام' کیا ہے، جس کا ذکر عالمی قانون کی بجائے امریکی سیاسی رہنماؤں کی جانب سے سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے بڑھتا چلا جا رہا ہے ؟ کیا یہ عالمی قانون کا ایک بے معصوم سا مترادف ہے، جیسا کہ یورپی رہنما تجویز کرتے ہیں ؟ یا یہ کچھ اور ہے، یعنی ایک ایسا نظام جو عالمی قانون کی جگہ لینے کے لیے بنایا گیا ہے، وہ قانون جو 500 سال سے زیادہ عرصے سے ریاستوں کے طرز عمل کو منظم کر رہا ہے؟“۔
کیمبرج یونیورسٹی کے ذریعہ شائع کردہ اپنے مضمون میں، ڈوگارڈ نے امریکہ کی جانب سے ”قواعد پر مبنی عالمی نظام“ کو ”عالمی قانون“ پر ترجیح دینے کی کئی وجوہات بیان کیں:
”اول : امریکہ متعدد اہم کثیر الجہتی معاہدوں کا فریق نہیں ہے جو کہ عالمی قانون کی ایک لازمی خصوصیت کو تشکیل دیتے ہیں۔ امریکہ بحری قانون کے کنونشن کا فریق نہیں ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اسے جنوبی چینی سمندر میں عالمی قانون کی بجائے 'قواعد پر مبنی عالمی نظام' کے لئے خطرہ بننے پر چین کی سرزنش کرنا ضروری ہوتی ہے۔ امریکہ عالمی انسانی حقوق کے قانون کو منظم کرنے والے کئی بنیادی معاہدوں کا فریق بھی نہیں ہے، جن میں 1977 کے جنیوا کنونشنز پر جنگ کے قوانین کے پروٹوکول، بین الاقوامی فوجداری عدالت کا روم کا معاہدہ، کلسٹر میونیشن Cluster Munitions کنونشن، اور ذاتی دھماکہ خیز مواد پر پابندی کا کنونشن Anti-Personnel Mine Ban Convention شامل ہیں۔ نہ ہی امریکہ بچوں کے حقوق کے کنونشن یا معذوری کے شکار افراد کے حقوق کے کنونشن کا فریق ہے۔ چنانچہ بلاشبہ طور پر، اس سے امریکہ کے لیے عالمی انسانی حقوق اور انسانی حقوق کے قانون کی خلاف ورزیوں کے لیے ریاستوں کو جوابدہ ٹھہرانا اس حد تک مشکل ہو جاتا ہے، کیونکہ امریکہ خود ان قواعد کو عمومی عالمی قانون کا حصہ نہیں سمجھتا“۔
”دوم : امریکہ نے عالمی قانون پر ایسی تشریحات عائد کی ہیں جو طاقت کے استعمال اور عالمی انسانی قانون کی خلاف ورزی کی توجیہ کرتی ہیں، جو کہ متنازعہ اور قابلِ چیلنج ہیں۔ امریکہ کی طرف سے ذاتی دفاع کے حق کی تشریح، جس کے تحت پیشگی حملوں اور دہشت گرد قرار دئیے جانے والے باغیوں/عسکریت پسندوں کے خلاف طاقت کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے، وسیع پیمانے پر متنازعہ ہے۔ اسی طرح 1999ء میں بلغراد شہر پر نیٹو کی سرپرستی میں ہونے والی بمباری کو انسانی مداخلت کی ایک قسم کے طور پر طاقت کے استعمال کی توجیہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے، یہ معاملہ بھی متنازعہ ہے۔ 2003ء میں عراق اور 2011ء میں لیبیا میں طاقت کے استعمال کی اجازت دینے کے لیے امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی تشریحات کو حکومت تبدیل کرنے کے غیر قانونی جواز کے طور پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ 2002 میں افغانستان میں امریکی حملے کے بعد گوانتانامو بے میں قید طالبان فوجیوں کو جنگی قیدی کی حیثیت دینے سے انکار پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں، کیونکہ یہ جنگی قیدیوں کے سلوک کے بارے میں کنونشن کے آرٹیکل 4 کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اسی طرح افغانستان، عراق، اور یمن میں ڈرونز کا استعمال کرنے کو بھی، جسے امریکہ نے قابل اجازت ذاتی دفاع کے طور پر جائز قرار دے دیا ہے، عالمی انسانی قانون اور انسانی حقوق کے قانون کی خلاف ورزی کے طور پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے“۔
”سوم : امریکہ چند ریاستوں، جیسا کہ 'اسرائیل'، کو عالمی قانون کی خلاف ورزیوں پر جوابدہ ٹھہرائے جانے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہے۔ انہیں اپنی نوعیت کے ایسے بے مثل معاملات کے طور پر دیکھا جاتا ہے کہ جہاں قومی مفاد جوابدہ ہونے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔'اسرائیل' کے حوالے سے یہ استثنائی حیثیتامریکہ کی طرف سے جولائی 2022 میں صدر بائیڈن کے اسرائیل کے دورے کے موقع پر'اسرائیل' کے ساتھ مشترکہ اعلامیے میں واضح کی گئی، جس میں ان تمام معاملات کی توثیق کی گئی کہ 'ہمارے دونوں ممالک کے درمیان اٹوٹ تعلق اور امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی سکیورٹی کے لیے مستقل عزم' کی تصدیق کی گئی، اور دونوں ریاستوں کی طرف سے یہ عزم کہ 'اسرائیلکا بائیکاٹ کرنے یا اس کی حیثیت کو غیر قانونی قرار دینے یا اسرائیل کے ذاتی دفاع کے حق کا انکار کرنے یا اسرائیل کو کسی بھی فورم، بشمول اقوام متحدہ یا عالمی فوجداری عدالت میں تنہا کر دینے کی تمام کوششوں کا مقابلہ کرنا'، کا ذکر شامل ہے۔ یہی عزمامریکہ کی طرف سے اس مسلسل انکار کی صاف طور پر وضاحت کرتا ہے کہ وہ اسرائیلکو انسانی قانون کی بار بار خلاف ورزیوں پر جوابدہ ٹھہرائے، عالمی فوجداری عدالت کے سامنے عالمی جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف مقدمے کی حمایت کرے، اور اسرائیل کی جانب سےغزہ پر حملوں کی مذمت کرے“۔
”چہارم :”قواعد پر مبنی نظام- RBO“ کو مغرب نے روس اور حال ہی میں چین پر فیصلہ کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس امر نے روس اور مغرب کے مابین ایک ایسی قانونی بحث کی صورت اختیار کر لی ہے جس میں روس مغرب کی مذمت کرتا ہے کہ مغرب اپنے 'قواعد پر مبنی نظام' پر زور دینے کی وجہ سے عالمی قانون کا احترام نہیں کر رہا، جبکہ امریکہ قواعد پر مبنی نظام RBO'کے تناظر میں اپنے جائزے میں روس کے ناروا رویے پر مُصر ہے... چین نے بھی قواعد پر مبنی نظام کے خلاف اپنی مخالفت کا اظہار کیا ہے۔ مئی 2021ء میں ملٹی لیٹرلزم پر سکیورٹی کونسل کے ورچوئل مباحثے کے دوران، وزیر خارجہ وانگ یی نے اعلان کیا کہ: عالمی قواعد کو عالمی قانون پر مبنی ہونا چاہئے اور یہ قواعد سب کی طرف سے تحریر کئے جانے چاہئیں۔ یہ قوانین فقط چند لوگوں کی ملکیت یا حق نہیں ہیں۔ ان قوانین کو تمام ممالک پر لاگو ہونا چاہیے اور استثنائی حیثیت یا دوہرے معیار کے لیے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے“۔
”پنجم :”قواعد پر مبنی نظام-RBO“ عالمی قانون سے مختلف کوئی اور شے ہے۔ یہ عالمی قانون کے قواعد و ضوابط سے باہر ایک متبادل نظام ہے جو بلاشبہ طور پر عالمی قانون کو چیلنج اور خطرے میں ڈال دیتا ہے... عالمی قانون کے برعکس، قواعد پر مبنی نظام ایک عالمگیر نظام نہیں لگتا۔ اس کے بجائے، یہ ایک ایسا نظام لگتا ہے جسے مغرب، خاص طور پر امریکہ، اپنی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے“۔
ان بنیادوں اور سیاست دانوں اور قانونی ماہرین کے درمیان عالمی قانون کے حوالے سے ہونے والے مباحثوں اور 'قواعد پر مبنی عالمی نظام' کی آڑ میں ہونے والی خلاف ورزیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ واضح ہو جاتا ہے:
دونوں ہی قانون، خواہ وہ جنہیں عالمی قانون کہا جاتا ہے یا قواعد پر مبنی عالمی نظام کہا جاتا ہے، اور ان کی عالمی شاخیں، محض باطل تصورات، پُر فریب اظہار، اور حریف ممالک کو تسلط میں رکھنے، ترقی پذیر اور کمزور ریاستوں کو کنٹرول کرنے اور لوٹنے کے لیے استعماری آلہ جات ہیں جو مغربی استعماری ممالک یعنی کافر اقوام کے تابع ہیں، خصوصاً مسلمان علاقوں میں۔
یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ 1945ء میں جرمنی کی شکست ہونے سے عالمی نظام پیدا ہوا، لیکن یہ ایک ناکام منصوبہ تھا۔ اتحادیوں نے اپنے جنگی مجرموں کو بچایا، جن میں وہ بھی شامل تھے جنہوں نے بڑے پیمانے پر قتلِ عام کا ارتکاب کرتے ہوئے یورپ اور جاپان کے شہروں پر بمباری کی تھی۔ جنگ کے بعد، اتحادیوں نے بارہ ملین سے زیادہ جرمن شہریوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا تھا، اور ان میں سے نصف ملین مر گئے تھے جبکہ ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں میں سے کسی کو بھی جوابدہ نہ ٹھہرایا گیا۔
اقوام متحدہ، جو کہ لیگ آف نیشنز سے پیدا ہوئی تھی، جس نے مشرق وسطیٰ میں برطانوی اور فرانسیسی نوآبادیات کی اجازت دی، حالانکہ لیگ کا رہنما اصول قوموں کی خود مختاری ہونا چاہیے تھا، یہی اقوامِ متحدہ آج بھی مسلم ممالک میں تقسیم اور انتشار کا باعث بنی ہوئی ہے۔
آج بھی، یہ نام نہاد قواعد اسی مقصد کی خدمت کرتے رہتے ہیں جس کے لیے وہ ہمیشہ سے موجود ہیں، یعنی : طاقتور ممالک کی استعماری بالادستی کو جواز فراہم کرنا۔ 'قواعد پر مبنی عالمی نظام' محض امریکی طاقت کی سیاست اور بالادستی کا اظہار ہے۔ حالانکہ امریکہ خود بھی ہمیشہ ان قواعد کا پابند نہیں رہتا۔ طاقتوروں کی خواہشات، جو قواعد کو نظرانداز کر سکتے ہوں، خود ایک قسم کا قاعدہ بن گئی ہیں، اگر ان خواہشات کو انسانیت کے لحاظ سے بیان کیا جائے۔
دنیا بھر کے لوگ ان لیڈران کی طرف سے تضحیک اور فریب کا شکار ہیں جو عالمی قوانین اور ضوابط کی خلاف ورزی کرنے میں ایک دوسرے سے مقابلہ آراء ہیں، بجائے اس کے کہ وہ یہ جان لیں کہ یہ قوانین ہمیشہ سے ان لوگوں کے لیے ایک آپشن ہی رہے ہیں جن کے پاس کافی غالب طاقت اور مہلک ترین اسلحہ موجود ہے۔ ان موجودہ عالمی قوانین میں، چاہے ان کی بنیادیں کچھ بھی ہوں، عالمی منظر نامے پر لیڈر ریاست کی بالادستی اور کنٹرول کے ساتھ، اور مدمقابل میں کثیر قطبی طاقتوں کے ابھرنے، اور مفاد پرست سرمایہ دارانہ نظام کے پھیلاؤ کے ساتھ ان موجودہ عالمی قوانین کے تحت آنے والا مستقبل صرف مزید ناانصافی، حریف اقوام کے مابین جنگیں، اور کمزور ریاستوں پر ان قوانین کی خلاف ورزیوں کو ہی دیکھے گا۔
یہ بات تو بہرحال واضح ہے کہ امریکی انتظامیہ ”قواعد پر مبنی عالمی نظام“ کے بارے میں مسلسل بات کرکے کئی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جن میں سب سے اہم یہ ہیں: ایک بڑا عالمی جواز پیدا کرنا تاکہ روس اور چین کے خلاف تنازعہ میں اتحادیوں اور پارٹنرز کو اپنی پیش بندی کے طور پر یکجا کیا جائے، اور یہ اس بنیاد پر کہ روس اور چین بنیادی طور پر اس بے اثر عالمی نظام کو کمزور کرنے اور عالمی سکیورٹی کو عدم استحکام میں مبتلا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور اس کے علاوہ مستقبل کے تمام تنازعات کے دوران عالمی اتحاد میں شامل ہونے والے تمام ممالک کی طرف سے تسلیم کر لینے کو یقینی بنانا، اور اس کے ساتھ ساتھ موجودہ یک قطبی عالمی نظام کی تجدید کرنا جو امریکی بالادستی کی ضمانت دیتا ہے اور اس کے علاوہ موجودہ مغربی اصولوں اور اقدار کی مکمل بالادستی کی یقین دہانی کرنا شامل ہیں۔
”عالمی قانون دنیا پر اقوامِ متحدہ اور اس کی ذیلی شاخوں کے ذریعے نافذ کیا گیا تھا، اس عالمی قانون کے تصور اور قواعد اور ان سے نکلنے والے نتائج کا قریب سے جائزہ لینے سے یہ صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہ قانون بنیادی طور پر ناقص، کرپٹ، اور ناانصافی پر مبنی ہے۔ قانون، اصولی قواعد کا ایک مجموعہ ہوتا ہے جسے ایک حکومتی اتھارٹی نافذ کرتی ہے۔ تو آخر یہ خیالی عالمی اتھارٹی کہاں ہے، کہ جسے ہم عالمی امور پر ایک سب سے زیادہ طاقتور اور بااثر ادارہ نہ سمجھ لیں؟ جبکہ یہ ادارہ بلاشبہ طور پر اپنے مفادات کے مطابق قانون نافذ کرتا ہے، قانون کی حقیقی نوعیت اور کسی بھی طریقے سے نفاذ کے حقیقی میکانزم سے اسے محروم کر دیتا ہے۔ عالمی سطح پر، یہ ناممکن ہے کیونکہ اگر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں موجود بڑی طاقتیں اپنے یا اپنے اتحادیوں کے مفادات کے لئے متصادم ہوں تو وہ حق کا اور قانون کی شقوں کا ہرگز کوئی دفاع نہیں کریں گی۔ یہ ان وجوہات میں سے ایک وجہ ہے کہ امریکہ کو جب ضرورت ہو تو وہ عالمی قانون کے علاوہ کچھ اور چاہتا ہے، جسے وہ 'قواعد پر مبنی عالمی نظام' کہتا ہے“۔
باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب سے دنیا پر عالمی برادری اور عالمی قانون کا فریب غالب آیا ہے، دنیا مسلسل مصیبت میں گھِری ہوئی ہے۔ کیونکہ ممالک کے درمیان تعلقات باہمی معاہدوں کے ذریعے منظم ہوتے ہیں، نہ کہ ایسے قانون کے ذریعے جو ان پر نافذ کیا گیا ہو، ان تعلقات کو مغربی استعماری ممالک اپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ آج دنیا بھر کے لوگ ایک ایسے نئے عالمی نظام کی سخت ضرورت محسوس کر رہے ہیں جو انہیں عدل و انصاف فراہم کرے، اور انسان کی فطرت کے مطابق ہو، اور نوعِ انسان کا اپنے خالق کے ساتھ روحانی تعلق بحال کرے، اور یہ صرف شریعہ ہی ہے جو لوگوں کو استعماریت کی تاریکیوں اور ان طاغوتی قوانین کے جبر سے باہر نکال کر انہیں اسلام کے نور اور انصاف کی طرف لے کر جائے گی ۔
اسلام میں، عالمی قانون جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی، اور خلافت ان نام نہاد عالمی قواعد کی بنیاد پر مبنی ان تنظیموں میں سے کسی کی رکن یا ان میں شریک نہیں ہو گی۔ آخر کوئی قانون ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ جس کے پاس کسی قسم کی کوئی اتھارٹی ہی نہ ہو، اور نہ ہی اپنے فیصلوں کو نافذ کرنے کی کوئی طاقت ہو؟ آخر کیسے کوئی ایسا قانون، عالمی قانون ہو سکتا ہے جو اسلامی احکام کے خلاف ہو؟ لہٰذا، اسلام میں ان مغربی فریم ورک کے تحت متعارف کرائے گئے کسی عالمی قانون کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ خلافت ان عالمی تنظیموں کے ساتھ کوئی تعلق نہ رکھے گی، جو کہ انسان کے بنائے ہوئے شریعت کے خلاف قوانین پر انحصار کرتی ہیں۔ بلکہ، خلافت الہامی انصاف کی پاسداری کرتے ہوئے، ان سرمایہ دارانہ اور سامراجی طاقتوں کے اثر سے آزاد ہو کر اسلام کے قوانین کو ہی نافذ کرے گی۔ ”خلافت، عدل و انصاف کو پھیلاتے ہوئے اسلامی طرزِ حکمرانی کو دوبارہ قائم کرنا چاہتی ہے، اور ان مغربی نظاموں میں شرکت سے انکار کر دے گی جو اسلام اور اس کی اقدار کے پھیلاؤ کے خلاف کام کرتے ہیں“۔
آخر میں نتیجہ یہ کہ، ان تنظیموں جیسا کہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے پیش کردہ عالمی قانونی نظام، مغربی استعماریت کے لیے ایک آلہ کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس نظام کی موجودگی کا بنیادی کام خلافتِ اسلامیہ کے قیام کو روکنا اور دنیا کو اس امن اور انصاف سے محروم کرنا ہے جو اسلام پیش کر سکتا ہے۔ مسلمان قومی ریاستوں یا ان کے لیڈران کی جانب سے ان قوانین سے اپیلیں کرنا اسلامی مقصد کے ساتھ غداری کرنا ہے، کیونکہ یہ حکومتیں کبھی بھی مسلم علاقوں کی حقیقی آزادی کی اجازت نہیں دیں گی۔ حقیقی حل اس بات میں ہے کہ اسلامی حکمرانی کو دعوت و جہاد کے ذریعے بحال کیا جائے، نہ کہ ان باطل اور ناانصاف عالمی میکانزم پر انحصار کیا جائے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے،
﴿أَلَمۡ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ يَزۡعُمُونَ أَنَّهُمۡ ءَامَنُواْ بِمَآ أُنزِلَ إِلَيۡكَ وَمَآ أُنزِلَ مِن قَبۡلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوٓاْ إِلَى ٱلطَّٰغُوتِ وَقَدۡ أُمِرُوٓاْ أَن يَكۡفُرُواْ بِهِۦۖ وَيُرِيدُ ٱلشَّيۡطَٰنُ أَن يُضِلَّهُمۡ ضَلَٰلَۢا بَعِيدٗا﴾
”کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعوٰی کرتے ہیں کہ وہ اس پر ایمان لائے جو تمہاری طرف نازل کیا گیا اور جو تم سے پہلے نازل کیا گیا ، وہ چاہتے ہیں کہ فیصلے طاغوت کے پاس لے کر جائیں حالانکہ انہیں تو یہ حکم دیا گیا تھا کہ طاغوت کا انکار کر دیں ، اور شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ انہیں دور کہیں گمراہی میں بھٹکا دے“۔ (النساء؛ 4:60)