بسم الله الرحمن الرحيم
*حق پر ثابت قدم لوگوں کی سانسیں بھی مغرب کو دہشت زدہ کر رہی ہیں *’‘
(ترجمہ)
خبر :
امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا کہ شام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ شامی صدر بشار الاسد کے اقدامات کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ امریکہ اس معاملے میں فریق نہیں ہے اور یہ کہ امریکہ ملک شام میں ہونے والے واقعات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ (الجزیرہ ڈاٹ نیٹ، 01 دسمبر 2024ء)
تبصرہ :
یہ بیان ’’ردع العدوان (Deterrence of Aggression) ‘‘ آپریشن کے دائرہ کار میں آتا ہے، جو کہ شامی اپوزیشن نے گزشتہ بدھ کو شروع کیا تھا، جس میں تیزی سے پیش رفت ہوئی اور اس سے حلب شہر کے زیادہ تر حصے اور پورے ادلب شہر پر کنٹرول حاصل ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ ’’فجر الحرية (آزادی کی صبح ) ‘‘ آپریشن بھی شمال اور مشرقی حلب میں شروع کیا گیا، جس کا آغاز کُرد عوامی تحفظ یونٹس کے زیر کنٹرول علاقوں سے ہوا۔ اس بات سے قطع نظر کہ حالات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں، بہرحال یہ واقعات موجودہ تنازعہ کے محرکات کو بدلتے جا رہے ہیں۔ ان سے ایک نئی صورتحال جنم لے رہی ہے، جو ممکنہ طور پر اس امت کے لیے خیر کا سبب بن سکتی ہے، چاہے وہ مرحلہ وار ہی کیوں نہ ہو…
یہاں، میں ان واقعات کو سیاسی تجزیے کے پہلو سے یا سیاسی مؤقف کے تناظر میں بیان نہیں کروں گا، کیونکہ پہلے ہی بہت سے لوگ ان پہلوؤں پر بات بھی کر چکے ہیں اوریہ وضاحت بھی کر چکے ہیں کہ ان حالات میں کیا کرنا لازم ہے۔ اس کے برعکس، میں ایک عام مسلمان کے نکتہ نظر سے ان حالات کو دیکھوں گا، جو اس وقت ٹی وی اسکرینوں اور سوشل میڈیا کی سائٹس پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں، اور ان سب کا جواب دوں گا جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ امت غفلت کی نیند سو رہی ہے۔
اس تحریک کے ابتدائی گھنٹوں میں ہی دنیا بھرمیں مسلمانوں کے احساسات و جذبات پُرجوش ہو گئے تھے۔ لوگوں نے اس امید کے ساتھ ان رُونما ہونے والے واقعات پر گہری نظر رکھنا شروع کر دی، کہ انقلابی دمشق کی جانب اپنی پیش قدمی کو جاری رکھیں گے۔ ایسے بھی لوگ ہیں کہ جنہوں نے اس موقع پر نیند کرنے کی بجائے دعائیں کرنے اور گھنٹوں تک ان واقعات پر نظر رکھنے کو ترجیح دی۔
اس لحاظ سے اگر ہم ہر نکتہ کو بیان کرنے لگیں تو اس کی تفصیلات کو ایک مضمون میں سمیٹنا ممکن نہ ہوگا۔ لہٰذا میں یہاں چند اہم نکات پر بات کروں گا:
وہ افراد جو اس انقلاب کا حصہ نہیں بھی تھے انہوں نے بھی اس انقلاب میں شامل ہونا شروع کر دیا۔ ان میں سے اکثر افراد کے پاس ہتھیار نہیں تھے، اور وہ اپنے پاس ہر ممکن شے کے بدلے ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ یوں لوگ جوق در جوق شریک ہونے لگے، اور تعداد ہر قدم کے ساتھ بڑھتی گئی۔ ان کی نظریں اللہ اکبر کے نعروں کی گونج میں آگے بڑھتے ہوئے، آزادی کا پرچم تھامنے اور حق کی جنگ لڑنے کے لیے بے قرار ہیں۔ یہ لمحات اس قدر اخلاص سے بھرپور ہیں کہ امت کی تیز ہوتی دھڑکنوں کے ساتھ یہ لوگوں کے دلوں کو امید سے بھر دیتے ہیں۔
کافر مغرب ڈر اور دہشت کی حالت میں ہے، حالانکہ اسے معلوم ہے کہ اہم عناصر اور طاقت کے ذرائع اس کے ہاتھ میں ہیں۔ تاہم، لوگوں کی تحریک مغرب کو خوفزدہ کئے ڈالتی ہے، لہٰذا تمام ممالک کے مانیٹرنگ رومز باریک بینی سے ان معاملات کا جائزہ لینے کے لئے چوبیس گھنٹے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ حقیقت ہے، کہ جب بھی ہم مسلمان خلوص کے ساتھ حرکت میں آئیں تو مغرب کو بری طرح دہشت زدہ کر دیتے ہیں۔
یہ تحریک عوامی امنگوں کی عکاسی کرتی ہے جس نے لوگوں کے دلوں کو امیدوں سے بھر دیا ہے۔ یہ تحریک جبر کی اس کیفیت کی نشاندہی کرتی ہےکہ جس سے ان کے دل شدید غم وغصہ سے بھرے ہوئے تھے، جو ان کے حکمرانوں کی غداری کے باعث پیدا ہوا، جو دراصل امت سے ہر لحاظ میں لا تعلق ہیں۔ یہ حکمران اس خوف سے اپنے آقاؤں کی طرف رجوع کرنا شروع ہو گئے ہیں کہ کہیں ان میں سے کسی ایک کی بھی حکومت کا خاتمہ نہ ہو جائے، کیونکہ ان حکمرانوں کے زوال کا تعلق امت کی بیداری سے جڑا ہوا ہے۔
آج امت کا شعور اس شعور سے کہیں درجےمختلف ہے جو عرب بہار کے آغاز میں تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ تمام ممالک کے لوگ پکار رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں، ’’ہماری نظریں القدس میں آپ کی آمد کی منتظر ہیں‘‘۔ اس سے امتِ مسلمہ میں باہمی وابستگی کا احساس مضبوط ہوتا ہے اور ظاہر بھی ہوتا ہے، کیونکہ ہر کوئی اس جماعت کی فتح کو امید کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔
پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ آج امت کی خوشی میں خوف کا ایک ملاجلا رجحان شامل ہے۔ ایک طرف تو مسلمان ان زمینی کاروائیوں پر خوش ہیں، تو دوسری طرف انہیں یہ خوف بھی لاحق ہے کہ کہیں یہ پیش قدمی کسی غیر ملکی ایجنڈے کی نظر نہ ہو جائے، اور ہم وہیں واپس نہ پہنچ جائیں جہاں سے ہم نے آغاز کیا تھا۔
لہٰذا، ہم ہر صاحبِ شعور اور صاحبِ قوت کو پکارتے ہیں۔ ہم افواج کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کراتے ہیں کہ آج کا حرکت میں آنا کل کے نکلنے سے افضل ہے۔ جب ہم اپنے تمام اعمال میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم پر پابند رہتے ہیں تو مواقع ایک کے بعد ایک کر کے آتے رہتے ہیں۔ ہمیں لازمی ہر اس شخص کی حمایت اور مدد کرنی چاہیے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حاکمیت کو بحال کرنے اور اسلامی طرزِ زندگی کے احیاء کے لیے کام کر رہا ہو۔ اسی طرح سے ہی ہم اسلام کے تمام دشمنوں کے ساتھ ساتھ ہر اس ظالم کو گھٹنوں کے بل جھکنے پر مجبور کر سکیں گے، جو انسانیت کو ذلت میں مبتلا کرنے کے لئے کام کرتا رہا ہے یا کر رہا ہے۔ اور ایسا ہم اس لئے کریں تاکہ ہم اس کرۂ ارض پر خیر کو بحال کریں، اور ایسے بن جائیں جیسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«سَيَصِيرُ الْأَمْرُ إِلَى أَنْ تَكُونُوا جُنُوداً مُجَنَّدَةً؛ جُنْدٌ بِالشَّامِ وَجُنْدٌ بِالْيَمَنِ وَجُنْدٌ بِالْعِرَاقِ» قَالَ ابْنُ حَوَالَةَ: خِرْ لِي يَا رَسُولَ اللهِ إِنْ أَدْرَكْتُ ذَلِكَ، فَقَالَ: «عَلَيْكَ بِالشَّامِ فَإِنَّهَا خِيرَةُ اللهِ مِنْ أَرْضِهِ يَجْتَبِي إِلَيْهَا خِيرَتَهُ مِنْ عِبَادِهِ، فَأَمَّا إِنْ أَبَيْتُمْ فَعَلَيْكُمْ بِيَمَنِكُمْ وَاسْقُوا مِنْ غُدُرِكُمْ فَإِنَّ اللهَ تَوَكَّلَ لِي بِالشَّامِ وَأَهْلِهِ»
ابنِ حولہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،’’وہ زمانہ قریب ہے جب دین اور امت کا یہ نظام ہوگا کہ تم مسلمانوں کے جدا جدا کئی لشکر ہو جائیں گے؛ ایک لشکر شام میں ہوگا، ایک لشکریمن میں اور ایک لشکر عراق میں‘‘۔ (یہ سن کر) ابن حوالہ نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! (اگر اس زمانہ میں میں ہوا تو میرے لیے کیا بہتر ہوگا؟‘‘، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم شام کو اختیار کرنا ، کیونکہ شام کی سرزمین اللہ کی زمینوں میں سے برگزیدہ زمین ہے (یعنی اللہ نے آخر زمانہ میں دینداروں کے رہنے کے لئےشام کی سرزمین ہی کو پسند فرمایاہے)، پھر اگر تم شام کو اختیار کرنا قبول نہ کرو تو یمن کو اختیار کرنا اور وہاں کے حوضوں سے پانی پلانا، حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے میری امت کے حق میں یہ ذمہ لیا ہے کہ وہ (کفار کے فتنہ وفساد اور ان کے غلبہ سے ) شام اور اہلِ شام کو مامون ومحفوظ رکھے گا‘‘ (ابو داؤد، احمد، اور ترمذی نے یہ حدیث روایت کی ہے)۔
دارين الشنطي کی طرف سے حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا۔
Latest from
- سوال و جواب : شام میں رونما ہونے والے واقعات اور الاسد حکومت کا خاتمہ
- شام کا انقلاب بے نقاب کرنے اور واضح کرنے والی چیز ہے؛...
- بڑھے چلو دمشق کی جانب، یہاں تک کہ اس مجرمانہ حکومت کا خاتمہ ہو جائے!
- اگرچہ مسلم دنیا میں استعماری ڈھانچوں کے ذریعے حکومت کی جاتی ہے!
- موجودہ سیاسی انتشار غداری اور ذلت کے تخت اور اپنے آپ کو...